الفقہ: تقسیمِ وراثت اور اسلام کا وضع کردہ نظام

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: تقسیم وراثت کے ضمن میں اسلام کا وضع کردہ نظام کیا ہے؟

جواب: ہمارے معاشرے میں جس طرح دیگر قوانین پر عملدر آمد نہیں ہو رہا، اسی طرح وراثت کے متعلق قوانین بھی عملاً غیر مؤثر ہیں۔ اسلام نے تقسیمِ وراثت کا مکمل نظام وضع کیا ہے اور قرآن و حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ ورثاء کے حصے بیان کیے گئے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ کَثُرَ نَصِیبًا مَفْرُوضًاo

’’مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے‘‘۔

(النساء، 4: 7)

اسی طرح تقسیم وراثت کے موقع پر غیر وارث رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُولُو الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًاo

’’اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو‘‘۔

 (النساء، 4: 8)

بیٹے، بیٹیوں، والدین، شوہر، بیویوں، بھائیوں اور بہنوں کو وراثت سے حصے دینے کے احکامات بالخصوص سورۃ النسآء (آیت: 11،12، 176) میں تفصیلاً بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن وحدیث میں بیان کردہ قانون وراثت کا نچوڑ اور تقسیمِ ترکہ کی ترتیب مختصر انداز میں ذیل میں درج کی جارہی ہے:

  1. سب سے پہلے میت کے قابلِ تقسیم ترکہ سے ’’ذوی الفروض‘‘ (اصحابِ فرائض) کو حصہ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ ورثاء ہیں جن کے حصے قرآنِ مجید میں مقرر ہیں۔ان ورثاء میں باپ، دادا اوپر تک، اخیافی (ماں شریک) بھائی، شوہر، بیوی، بیٹی، پوتی نیچے تک، حقیقی بہن، علاتی (باپ شریک) بہن، اخیافی بہن، ماں اور جدہ (دادی اور نانی) اوپر تک شامل ہیں۔
  2. ’’اصحابِ فرائض‘‘ کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد باقی مال ’’عصبہ‘‘ کو ملتا ہے۔ یہ میت کے وہ ورثاء ہیں جن کو اصحابِ فرائض سے بچا ہوا تمام مال مل جاتا ہے اور اصحابِ فرائض نہ ہونے کی صورت میں تمام ترکہ ہی ان کو ملتا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِیَ فَلِأَوْلَی رَجُلٍ ذَکَرٍ.

’’میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے‘‘۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الفرائض، باب میراث الولد من أبیه وأمه، 6: 2476، رقم: 5163، دار ابن کثیر الیمامة)> عصبہ کی دوقسمیں ہیں:

  1. عصبہ نسبی
  2. عصبہ سببی

عصبہ نسبی وہ ہیں جن کا میت سے ولادت کا تعلق ہو اور عصبہ سببی وہ ہیں جن کا میت سے عتاق (غلامی)کا تعلق ہو۔ لیکن آج کل عصبہ کی یہ دوسری قسم ختم ہو چکی ہے۔

عصبہ نسبی کی مزید تین اقسام ہیں:

  1. عصبہ بنفسہ
  2. عصبہ بغیرہ
  3. عصبہ مع غیرہ
  • اگر کسی بھی قسم کے عصبہ نہ ہوں تو باقی مال دوبارہ نسبی اصحابِ فرائض میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’’رد‘‘ کہتے ہیں لیکن اس میں زوجین کو شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ سببی یعنی رشتہ زوجیت کے سبب وارث ہوتے ہیں۔
  • اگر اصحابِ فرائض اور عصبات میں سے کوئی وارث زندہ نہ ہو تو ’’ذوی الارحام‘‘ کو ترکہ ملتا ہے۔ یہ میت کے وہ رشتہ دار ہیں جن کا حصہ قرآن وحدیث میں مقرر نہیں ہے، نہ اجماع سے طے پایا ہے اور نہ وہ عصبات ہیں، جیسے پھوپھی، خالہ، ماموں، بھانجا اور نواسہ وغیرہ۔
  • اگر ذوی الارحام بھی نہ ہوں تو ’’مولی الموالات‘‘ کو ترکہ ملتا ہے۔ فقہ کی اصطلاح ایک خاص قسم کے معاہدہ کو ’’موالات‘‘ کہتے ہیں۔ میراث میں یہ عقد احناف کے ہاں معتبر ہے جبکہ شوافع کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔ اس کے مولی بننے کی بھی کچھ شرائط ہوتی ہیں۔
  • مذکورہ بالا ورثاء میں سے کوئی نہ ہو تو وہ شخص وارث ہو گا جس کے لیے میت نے اپنے غیر سے نسب کا اقرار کیا ہو یعنی کسی مجہول النسب کے بارے میں یہ کہا ہو کہ یہ میرا بھائی یا چچا ہے، اور اس کے اس اقرار سے اس کا نسب اس غیر سے ثابت ہوا ہو، اور اقرار کرنے والے نے اپنے اقرار سے موت تک رجوع بھی نہ کیا ہو تو وہ مقرلہ بھائی یا چچا ہونے کی حیثیت سے وارث ہو گا۔ اس کی بھی کچھ شرائط ہیں۔
  • اگر مذکورہ بالا ورثاء میں سے کوئی نہ ہو اور میت نے کسی کے لیے ایک تہائی سے زائد یا سارے ترکہ کی وصیت کی ہو تو تہائی سے زائد یا سارا ترکہ اسی کو دے دیا جائے گا۔
  • اگر مذکورہ بالا تمام لوگوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو میت کا ترکہ بیت المال میں جمع کروا دیا جائے گا۔

آخر میں ایک قابلِ توجہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ وراثت سے حصہ پانے کے لیے وارث اور مورث کا دین ایک ہونا ضروری ہے کیونکہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

لاَ یَرِثُ المُسْلِمُ الکَافِرَ وَلاَ الکَافِرُ المُسْلِمَ.

’’مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا اور نہ ہی کافر کسی مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے‘‘۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الفرائض، باب لا یرث المسلم الکافر۔۔۔، 6: 8424، رقم: 8363)

مذکورہ بیان کردہ ترتیب سے ہی ورثاء میں حصے تقسیم کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ بعض اوقات کچھ ورثاء کی موجودگی میں کچھ دوسرے ورثاء محروم ہوجاتے ہیں، جیسے قریبی وارث کی موجودگی میں دور والا وارث محروم ہو جاتا ہے۔

سوال: اصلاح کی غرض سے بچوں کی تادیب کا کیا حکم ہے؟

جواب: مارپیٹ اور سزا سے بچوں کو تکلیف اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات والدین اور اساتذہ بچوں کو ان کے ناقابلِ قبول رویوں پر سزا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں تاکہ وہ انہیں فوری نظم و ضبط کا پابند بنا سکیں۔ جبکہ ان کے اس رویے سے اصلاح کی نسبت بگاڑ کا احتمال زیادہ ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ بچوں کی اصلاح کے لیے ترغیب و ترہیب دونوں ضروری ہیں، کیونکہ بعض اوقات صرف ترغیب کارگر نہیں ہوتی اور فقط تربیت پر اکتفاء کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے والدین اور اساتذہ کو موقع و محل کی مناسبت سے وقتاً فوقتاً دونوں پر عمل کرنا چاہیے۔

اسلام دینِ فطرت ہے اور ہر معاملہ میں اعتدال کا سبق دیتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذاتِ گرامی مشعلِ راہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملہ میں ڈانٹ ڈپٹ اور برا بھلا کہنے کی بجائے انہیں پیار، محبت اور حکمت سے سمجھاتے۔ حضرت معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:

بَیْنَا أَنَا أُصَلِّی مَعَ رَسُولِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْت: یَرْحَمُکَ هُ فَرَمَانِی الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُکْلَ أُمِّیَاه! مَا شَأْنُکُمْ تَنْظُرُونَ إِلَیَّ؟ فَجَعَلُوا یَضْرِبُونَ بِأَیْدِیهِمْ عَلَی أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَیْتُهُمْ یُصَمِّتُونَنِی لَکِنِّی سَکَتُّ، فَلَمَّا صَلَّی رَسُولُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم ، فَبِأَبِی هُوَ وَأُمِّی، مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِیمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا کَهَرَنِی وَلَا ضَرَبَنِی وَلَا شَتَمَنِی، قَال: إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا یَصْلُحُ فِیهَا شَیْءٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِیحُ وَالتَّکْبِیرُ وَقِرَاءَۃُ الْقُرْآنِ.

’’میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ نماز میں شریک تھا کہ جماعت میں کسی شخص کو چھینک آئی، میں نے کہا: یرحمک اللہ۔ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: کاش یہ مر چکا ہوتا، تم مجھے کیوں گھور رہے ہو؟ یہ سن کر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا۔ جب میں نے سمجھا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر میرے ماں باپ فدا ہوں! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی سمجھانے والا نہیں دیکھا۔ خدا کی قسم! (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مجھے جھڑکا نہ برا بھلا کہا، نہ مارا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: نماز میں باتیں نہیں کرنی چاہئیں؛ نماز میں صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت کرنی چاہیے‘‘۔

(مسلم، الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحریم الکلام فی الصلاة ونسخ ما کان من إباحة، 1: 381، رقم: 537)

معلم میں حلم الطبع اور عفو و درگزر جیسی صفات کا ہونا اَز حد ضروری ہے۔ اگر بچوں کی کسی غلطی پر معلم کو غصہ آ جائے تو وہ درگزر کرنے کی بجائے مار پیٹ اور غصے سے طلبہ کو اور بھی متنفر کر دیتا ہے۔ حالانکہ اس مسئلہ کا صحیح حل ایسی تادیبی کارروائی کرنا ہے، جو تعمیری ہو۔ مثلاً اگر معلم نے بچے کو ہوم ورک دیا اور اگلے دن کلاس میں بچے نے کہا کہ میں نے واقعی کام کر لیا ہے مگر ہوم ورک کی کاپی گھر بھول آیا ہوں، بعد ازاں استاد کو تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو تعمیری سزا کے طور پر استاد اس بچے کی تفریح کے وقت اسے وہی کام دو یا تین مرتبہ لکھنے کو دے۔ اس سے بچے کو پریشانی لاحق ہوگی کیونکہ تفریح کے وقت کوئی بچہ بھی مقید ہونا پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا معلم بچوں کی غلطیوں پر درگزر کرتے ہوئے سزا کی بجائے بقدرِ ضرورت تعمیری و تادیبی کارروائی عمل میں لائے۔

بچوں کے ساتھ والدین کا رویہ بھی یہی ہونا چاہیے کیونکہ بیجا ڈانٹ ڈپٹ اور ہر وقت کی مار پیٹ بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ مار پیٹ سے بچوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات میں سے چند درج ذیل ہیں:

  1. ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ، مارپیٹ اور غصہ نہ صرف بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ والدین و اساتذہ اور بچوں میں دوری کا بھی سبب بنتا ہے۔ وہ کسی کو بھی اپنی بات سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
  2. بچے اپنے والدین اور اساتذہ کا عکس ہوتے ہیں۔ اگر والدین بیجا غصہ اور رعب جماتے رہیں گے تو بچوں کی عادت میں بھی یہی رنگ نظر آئے گا۔
  3. بچے انتہائی خاموش اور سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔ بچپن کا وہ چلبلا پن جو بچوں کی فطرت ہے، وہ ان میں مفقود ہو جاتا ہے۔
  4. بچے جب اپنے جذبات مجروح ہوتے دیکھیں گے تو ان کے اندر منفی احساسات پیدا ہو جائیں گے۔ خود اعتمادی کے فقدان کے باعث وہ کسی بھی تعمیری کام میں حصہ لینے سے گھبراتے رہیں گے۔
  5. بچوں کی مثبت صلاحتیں منفی رخ اختیار کر لیتی ہیں جس کے نتائج نہ صرف گھر کے اندر خرابی کا باعث بنتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی وبال بن جاتے ہیں۔