کورونا وائرس: احتیاطی تدابیر ہر صورت اختیار کریں

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

رپورٹ: نوراللہ صدیقی

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے، اسے ایک عالمگیر وبا قرار دیا گیا ہے، اس سے بچاؤ کے لیے ملکی و بین الاقوامی ہیلتھ آرگنائزیشن جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کر رہی ہیں ان پر من و عن عمل درآمد کیا جائے۔ ایسی آفات پر قرآن و سنت اور نبوی تعلیمات سے جو ہدایات اور راہنمائی ملتی ہے، میں وہ آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں۔انسانی تاریخ میں کورونا وائرس سے قبل دس تباہ کن وبائیں پھوٹ چکی ہیں، جن میں ایک وبا طاعون کی بھی تھی جسے پلیگ کہتے ہیں۔ ایسی عالمگیر وباؤں کے موقع پر کچھ کام اور اقدامات حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں اور کچھ کام Social Responsibilite (معاشرتی ذمہ داری) کے تحت عامۃ الناس کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ سوسائٹی کے ہر فرد اورخاندان پر لازم ہے کہ ایسی آفات کے آنے پر وہ اپنا ذمہ دارانہ سماجی کردار ادا کریں۔ کورونا وائرس ایک خطرناک وبا ہے یہ کوئی روایتی وبا نہیں ہے کہ اس سے روایتی طور طریقے اختیار کر کے نمٹا جا سکے۔

حفاظتی اقدامات

کچھ حفاظتی اقدامات کا ذکر اگرچہ تکرار کے زمرے میں آتا ہے اور آپ متعدد بار یہ ہدایات سن بھی چکے ہوں گے تاہم معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر بار بار بیان کرنے کا مقصد ذہن نشین کرانا ہے:

  1. کرونا وائرس سے بچنے کیلئے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ صابن سے ہاتھوں کو اچھی طرح دھوتا رہے۔ یہ پہلا حفاظتی قدم ہے۔ ایک وقت میں کم از کم 20 سیکنڈ تک ہاتھوں کو دھوئیں۔ اس آفت سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ بنانے کی یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
  2. کھانسی اور چھینک کی صورت میں ٹشو پیپر، رومال یا کوئی کپڑا منہ پر رکھیں تاکہ جراثیم ہوا میں نہ جائیں۔
  3. اگر ہاتھ دھلے ہوئے نہیں ہیں تو اپنے ہاتھوں کو منہ، ناک، آنکھ اور چہرے کو نہ لگائیں۔ کرونا وائرس منہ، ناک اور آنکھ کے راستے سے جسم میں داخل ہوتا ہے۔
  4. اگر نزلہ فلو، بخار ہے تو کسی دوسرے کو ٹچ نہ کریں، گھر میں رہیں، اس دوران مصافحہ بھی نہ کریں، کسی کو گلے بھی نہ ملیں۔
  5. اجتماعات میں جانے سے پرہیز کریں۔ اس کا اطلاق نماز جمعہ کے اجتماعات، سیاسی، سماجی، سوشل میٹنگز پر بھی کریں یہاں تک کہ خاندان اور گھر کے اندر بھی اس پر عمل پیرا رہیں۔
  6. موجودہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر بڑے یا محدود پیمانے پر باڈی کا انٹرایکشن ختم کر دیں۔
  7. غیر ضروری سفر ختم کر دیں اور گھروں میں رہیں۔ اگر ناگزیر نہ ہو تو سفر اختیار نہ کریں۔ اگر آپ سفر کریں گے تو لامحالہ جس ٹرین، بس، رکشے، ٹیکسی میں آپ سفر کریں گے اس میں آپ کے بیٹھنے سے قبل کوئی اور بھی بیٹھا ہو گا، آپ کو نہیں معلوم کہ کس انسانی جسم کی علامات کیا تھیں؟ کس باڈی میں وائرس تھا یا نہیں تھا؟
  8. کرونا وائرس کی یہ خاصیت ہے کہ وہ لکڑی پر بھی منتقل ہو جائے تو ایک مخصوص مدت تک کسی دوسرے نفس میں منتقل ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔ کرونا وائرس لکڑی، کرسی، ٹیبل اور زیر استعمال رہنے والی اشیاء کے ذریعے دوسروں تک منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ وائرس نہ صرف بلاواسطہ منتقل ہونے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ بلواسطہ بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ جس جگہ بھی آپ بیٹھیں، اسے اچھی طرح صاف کریں اور اپنے زیر استعمال اشیاء کی صفائی کا بھی پوری طرح خیال رکھیں۔ سب سے اہم چیز ہاتھوں کی صفائی ہے۔
  • ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ ان تدابیر کو اختیار کرے۔ میں تمام تنظیمی، تحریکی ذمہ داران، کارکنان کو سختی سے یہ ہدایت کررہا ہوں کہ وہ اپنی سماجی، قومی، ملی، جماعتی، تحریکی، معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے مذکورہ بالا حفاظتی تدابیر اختیار کرے اور اس ضمن میں کسی قسم کی غفلت کا مرتکب نہ ہو۔ نہ صرف خود ان ہدایات پر عمل کرے بلکہ اپنے اہلخانہ، عزیز و اقارب اور دوست احباب تک بھی یہ پیغام قومی، ملی، دینی فریضہ سمجھ کر پہنچائے۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسـٹیز، نجی محفلوں میں ہر جگہ ان ہدایات پر عمل ہونا چاہیے۔
  • میری دنیا بھر کے کارکنان، تنظیمات اور ذمہ داران کو یہ ہدایت ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے ضمن میں حکومتوں اور ان کے متعلقہ اداروں کی طرف سے جو ہدایات ملیں، ملک، معاشرے اور انسانیت کی حفاظت اور بقاء کے جذبہ کے ساتھ ان پر عمل کریں اور حکومتی مہمات کے ساتھ تعاون کریں، اس سے وباء کو روکنے میں مدد ملے گی۔اس حوالے سے ماڈرن سائنس سے آگاہی مل رہی ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشنز کی طرف سے بھی تلقین کی جارہی ہے اورڈاکٹرز بھی اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
  • ان ہدایات کو نظر انداز ہر گز نہ کریں اور خوفزدہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ احتیاط اور تدبیر کو نظر انداز کرنے والا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں ہے۔ تدبیر اور احتیاط کو نظر انداز کرنے کا نام توکل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا تعلق تقدیر سے ہے۔ تقدیر اور تدبیر الگ الگ موضوعات ہیں۔ پیشگی حفاظتی اقدامات بروئے کار لانا الگ چیز ہے اور اللہ اور اس کی مشیت پر بھروسہ کرنا الگ باب اور موضوعِ بحث ہے۔ بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے ان دونوں امور کو آپس میں خلط ملط کرتے ہیں۔ بیماریوں سے بچنے کیلئے تدابیراختیار کرنے کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے دیا ہے۔

وبائی علاقوں میں جانے اور وہاں موجود لوگوں کا وہاں سے نکلنے پر پابندی

بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ سب سے بڑی آگاہی، رہنمائی اور ہدایت کا سرچشمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ پہلے وقتوں میں طاعون کی وباء آتی تھی، یہ بھی ایک طرح کا وائرس تھا، اس سے ہزار ہا اموات ہوتی تھیں۔ تاریخ میں مختلف معاشروں اور سوسائٹیز میں یہ وباء آتی رہی ہے۔ اس وقت میڈیکل سائنس، شعور اور آگاہی نہیں ہوتی تھی اور احتیاط بھی نہیں برتی جاتی تھی جس کی وجہ سے ہزاروں اموات ہوتی تھیں۔

  • صحیح بخاری ’’باب الطب‘‘ میں ایک مضمون طاعون کا ہے، اس میں موجود حدیث نمبر5728 کا مفہوم یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اگر تم سنو کہ کسی ملک، کسی شہر، کسی سرزمین کے بارے میں کہ وہاں طاعون کی وباء پھیل گئی ہے تو اس ملک میں، اس خطے میں، اس علاقے میں ہر گز داخل نہ ہو اور اگر کسی علاقے، شہر، ملک میں یہ وباء پھیل جائے جہاں آپ پہلے سے موجود ہوں تو پھر وہاں سے باہر نہ جاؤ۔

اس زمانے میں ٹیسٹ لیبارٹریز نہیں ہوتی تھیں کہ اس بات کا پتہ چلایا جا سکے کہ کس شخص میں وباء کے اثرات ہیں اور کس میں نہیں ہیں؟ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ایک ایسی احتیاطی تدبیر بتا دی جس کی آج کی ماڈرن سائنس توثیق کررہی ہے کہ متاثرہ علاقہ، ملک اور معاشرہ کا سفر اور آمدروفت کو روک دیا جائے تاکہ اس موذی وباء سے ان علاقوں، خطوں اور ملکوں کے عوام کو بچایا جا سکے۔ چونکہ طاعون ایک متعدی مرض ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے، اسی لیے دونوں صورتوں میں انٹرایکشن سے روک دیا گیا۔

  • صحیح مسلم (حدیث نمبر2218) میں حضرت خبیبؓ روایت کرتے ہیں کہ:

ہم مدینہ میں تھے، ہمیں خبر ملی کہ کوفہ میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے۔ مجھے حضرت عطاء بن یسار، صحابہ اور تابعین نے بتایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اگر تم کسی علاقے، خطے یا ملک میں پہلے سے موجود ہو اور وہاں وباء آجائے تو پھر اس شہر سے نکل کر وہاں نہ جاؤ جہاں وباء نہیں ہے تاکہ اس کے جراثیم تم ساتھ لے کر نہ جاؤ۔

یعنی اگر آپ کو یہ خبر پہنچے کہ یہ وباء پہلے سے کسی علاقے، ملک یا شہر میں موجود ہے اور آپ باہر ہیں تو پھر اس ملک یا شہر میں داخل نہ ہوں۔

  • ایک دوسری روایت میں امام مسلم نے یہ الفاظ بھی لکھے ہیں کہ اگرکسی ایک علاقے میں یہ وباء آگئی ہے اور تم وہاں موجود ہو تو پھر اس علاقے کو چھوڑ کر نہ جاؤ، ورنہ تم ان علاقوں تک بھی یہ وباء اپنے ساتھ لے جاؤ گے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدی امراض کے پھیلاؤ کی روک تھام کیلئے جو ہدایات اور گائیڈ لائن دے دی ہے اس پر سختی سے عمل کرنا ہم سب پر فرض اور لازم ہے۔

وبائی مرض کے شکار افراد کو الگ رکھنے کا حکم

آج کل جس شخص میں کرونا وائرس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اسے آئسولیشن میں بھیج دیا جاتا ہے جسے Quarantine اور اردو میں قرنطینہ کہا جاتا ہے۔ ایسے متاثرہ مریض کو دوسروں سے الگ تھلگ کر کے اس کا علاج کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو جائے۔ مرض کی موجودگی تک دوسروں سے قطع تعلق (Cut off) ہو جانے اور میل میلاپ نہ رکھنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا آج کا یہ جدید طبی تصور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے 14سو سال قبل ارشاد فرما دیا تھا اور آج چین سمیت کورونا وائرس سے متاثرہ ترقی یافتہ ملک ان احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہیں۔

  • صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث مبارک میں آیا ہے کہ متاثرہ ملک میں داخل نہ ہوں اور اگر متاثرہ ملک میں آپ پہلے سے موجود ہیں تو وہاں سے نہ نکلو۔ اگر نکلو تو پھر آئسولیشن (تنہائی) میں جائیں اور جب تک وباء ٹل نہ جائے لوگوں سے میل میلاپ نہ رکھیں، یعنی صرف اس صورت میں متاثرہ علاقے سے نکلنے کی اجازت ہے کہ آپ مکمل تنہائی اختیار کریں جسے آج کی جدید طبی اصطلاح میں Quarantine کہا جاتا ہے۔
  •  صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5771 میں حضرت ابو سلمیٰ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہؓ سے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ایسے مرض یا وباء میں مبتلا ہے جس سے دوسرے کو منتقل ہونے کا اندیشہ ہے تو وہ صحت مند آدمی کے قریب نہ جائے یا صحت مند آدمی اس متاثرہ شخص کے قریب نہ جائے اور کسی قسم کا معانقہ یا باڈی کا انٹرایکشن نہیں ہونا چاہیے۔

اس کا مطلب ہے مصافحہ سے پرہیز کیا جائے، جسمانی (Physically) قربت اختیار کرنے سے احتراز برتا جائے، گلے نہ ملا جائے۔ اسی میں نماز جمعہ کے اجتماع سمیت تمام سیاسی، سماجی اجتماعات بھی شامل ہیں۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات گرامی ہیں، اس لیے اس حوالے سے اگر کوئی اور طرح کی بات کرتا ہے تووہ محض لاعلمی کی وجہ سے کرے گا۔ تدبیر اختیار کرنا نبوی تعلیمات ہیں۔

  • دوسرا معنی محدثین نے ممرد لکھا ہے۔ ممرد ایسے لوگوں کو کہا جاتا تھا جن کے پاس بیمار اونٹ، بکریاں، گائے، بھینسیں مویشی ہوتے تھے اور یہ مرض کسی دوسرے مویشی کو لگنے کا احتمال ہو تو بیمار مویشیوں کو صحت مند مویشیوں کے قریب جانے سے روکا گیا تاکہ صحت مند مویشی بھی مرض سے متاثر نہ ہو جائیں۔ اگر صحت مند مویشی بھی متاثر ہوں گے تو لامحالہ ان کا دودھ عام آدمی پیے گا اور اس کے اثرات اس تک بھی پہنچیں گے اور پھر بیماری پھیلے گی۔

ممرد ہر اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو متعدی مرض میں مبتلا ہے اور اس کی بیماری دوسروں میں منتقل ہو سکتی ہے۔ ایسے مریضوں کے لیے حکم ہے کہ وہ کسی سے فزیکل رابطہ یا کسی قسم کا معانقہ یا میل میلاپ نہ رکھیں۔

  • صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایک اور حدیث بھی روایت ہوئی ہے کہ جس کا مرض دوسرے کو ٹرانسفر ہو سکتا ہے (وہ انسان ہے یا جانور ہے) وہ صحت مند لوگوں کے ساتھ میل میلاپ نہ رکھے۔ اس سے مرض ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتا ہے۔
  • صحیح بخاری میں ایک اور حدیث مبارکہ روایت ہوئی ہے جو جزام سے متعلق ہے۔ جزام بھی ایک متعدی مرض ہے۔ یہ بیماری کثرت سے تعلق رکھنے سے منتقل ہوتی ہے۔ صحیح بخاری حدیث نمبر5707 میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو جزام ہو، اس سے اس طرح دور بھاگو جس طرح شیر سے آپ اپنے آپ کو بچانے کیلئے بھاگتے ہو۔

اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر آپ ایسے مجزوم شخص کی صحبت میں زیادہ وقت گزاریں گے تو یہ مرض آپ کو بھی لاحق ہوسکتا ہے، لہٰذا متاثرہ مریض سے دور رہیں۔

  • ایک حدیث مبارکہ صحیح مسلم میں روایت ہوئی ہے جس کا مفہوم ہے کہ مدینہ منورہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں طائف کے نواحی علاقے ثقیف سے ایک وفد آیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کرنا چاہتا تھا، اس وفد کو ایک جگہ پر ٹھہرایا گیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ ان میں سے ایک شخص جزام کے مرض کا شکار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وفد کی طرف ایک آدمی کو بھیجا اور کہا کہ انہیں بتائیں کہ ہم نے آپ کو بیعت کر لیا ہے، آپ کا حلقہ اسلام میں داخل ہونا قبول کر لیا، لہٰذاوہاں سے واپس چلے جائیں۔

چونکہ مسجد نبوی میں لوگوں کا کثرت سے آنا جانا تھا، یہ لوگ صحت مند تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے تو ان کی حفاظت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفد کو کہلوا بھیجا کہ وہیں سے واپس چلے جائیں۔ اس طرح متعدی امراض سے بچاؤ کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کے لیے ایک نسخہ کیمیاء اور تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت فرما دی (یہاں عام مرض اور متعدی مرض کے درمیان بطور خاص تفریق رکھنا ہوگی کیونکہ ہر مرض متعدی مرض نہیں ہوتا)۔

مسند امام احمد بن حنبل میں ایک حدیث میں یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں کہ ان کو خبر کر دو کہ ان کو میں نے بیعت کر لیا ہے اور چلے جائیں۔ یہی الفاظ سنن نسائی میں روایت ہوئے ہیں ۔بیعت کا مطلب ارادہ ہوتا ہے، جب ارادہ کر لیا تو حلقہ اسلام میں داخل ہو گئے، اس کے لیے مصافحہ کرنا یا معانقہ کرنا شرط نہیں ہے، یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدی مرض میں مبتلا شخص کو اپنی مجلس میں نہیں آنے دیا۔ یہ ہم سب کے لیے مرض سے بچنے کیلئے ایک واضح تدبیر ہے جس پر عمل کرنا گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنا ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ کا وبائی علاقہ میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں متفق علیہ طور پر ایک واقعہ مذکور ہے کہ سیدنا فاروق اعظمؓ لشکر لے کر شام گئے وہاں پہلے سے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اورمسلمانوں کا لشکر موجود تھا۔ اس لشکر کی مدد کیلئے سیدنا فاروق اعظمؓ شام گئے تھے۔ جب وہ شام کے باہر ایک جگہ سرغ پر پہنچے تو وہاں ابوعبیدہ بن الجراح اور اسلامی فوج کے دیگر کمانڈر آپ کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ انہوں نے سیدنا فاروق اعظم ؓ کو اطلاع دی کہ ملکِ شام میں طاعون کی وباء پھیل گئی ہے۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ وہیں رک گئے اور اپنا لشکر بھی وہیں روک لیا۔ شام میں داخل ہونے کے حوالے سے سینئر صحابہ کرام میں اختلاف رائے تھا۔ آپ نے مشاورت کیلئے سینئر صحابہ کرام کوباری باری بلایا جن میں انصار بھی شامل تھے اور مہاجرین بھی۔ کچھ صحابہ نے مشورہ دیا کہ ہم ایک عظیم مقصد کیلئے آئے ہیں لہٰذا یہ مقصد پورا کرنا چاہیے اور کچھ کا خیال تھا کہ واپس لوٹ جانا چاہیے۔

انسان کے مزاج جدا جدا ہوتے ہیں، کچھ پر جوش غالب آجاتا اور کچھ جوش میں بھی ہوش کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے۔ جن کی طبیعت میں جوش اور جذبہ زیادہ تھا، ان کا موقف تھا ہم ایک مقصد کیلئے نکلے ہیں اور ہمیں اس مقصد کو ہر حال میں پورا کرنا چاہیے، لہٰذا ہمیں ملک شام میں داخل ہونا چاہیے۔ بعض کا موقف تھا کہ اے امیر المومنین! آپ کے ہمراہ جید صحابہ ہیں، یہ سب صحت مند لوگ بھی ہیں، آپ ان سب کو اس وباء کی سرزمین میں لے کر داخل نہ ہوں، یہ ان کی صحت کیلئے مناسب نہیں ہے۔ یعنی مشاورت کے اس عمل میں دو آراء سامنے آئیں: ایک کا موقف تھا کہ صحت مند لوگوں کو بیمار لوگوں میں Mixup نہ کیا جائے اور ایک رائے تھی کہ جس عظیم مقصد کیلئے آئے ہیں، اسے ہر حال میں پورا کیا جائے۔

پھر آپ نے قریش کو مشاورت کے لیے بلایا جو فتح مکہ کے سال میں مہاجر ہوئے تھے۔ ان تمام نے کہا کہ ہماری متفقہ رائے ہے کہ آپ مرض سے متاثرہ علاقہ میں نہ جائیں اور سب کو لے کر واپس چلے جائیں۔ ان صحت مندلوگوں کو وباء زدہ علاقہ میں داخل کرنا مناسب نہیں ہے۔ پھر سیدنا عمر فاروق ؓ نے ان تینوں مشاورتی نشستوں کے بعد اپنا فیصلہ سنایا کہ میں صبح کے وقت واپس مدینہ کیلئے روانہ ہورہا ہوں، لہٰذا سب لوگ اپنی اپنی سواریاں تیار کر لیں۔

جب آپ نے اپنا فیصلہ سنایا اور روانگی کے وقت کا بھی اعلان کر دیا تو اس وقت شام کے لشکر کے کمانڈر انچیف حضرت ابوعبیدہ بن الجراح جوش میں آگئے اور انہوں نے امیر المومنین سے عرض کیا: کیاآپ اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کررہے ہیں؟ سیدنا فاروق اعظم ؓ نے جواباً کہا: ’’کاش ابوعبیدہ یہ بات کسی اور نے کی ہوتی‘‘ یعنی ابوعبیدہ تو اچھی طرح جانتے ہیں، انہیں یہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی۔ پھر آپ نے جواب دیا: ہاں ابو عبیدہ، ہم اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کی طرف جارہے ہیں۔

یعنی شام میں وباء کا آنا اور لوگوں کا بیمار ہونا بھی اللہ کی تقدیر ہے اور جو میرے ساتھ آئے ان کو بیماری سے بچا کر واپس لے جانا بھی اللہ کی تقدیر ہے۔ تقدیر کا مطلب ہے علمِ الٰہی میں ہونا یعنی کہ بیماری کا آنا بھی علمِ الٰہی میں ہے اور جو لوگ میرے ہمراہ آئے ان کو بیماری سے بچا کر لے جانا بھی علمِ الٰہی میں سے ہے۔ کبھی تدبیر کامیاب ہو جائے تو وہی تقدیر ہوجاتی ہے۔ عالم الغیب اللہ ہے اور اصل علم اللہ کو ہے۔

حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ کے اس جواب کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اس موقع پر تشریف لائے اور انہیں جب معاملے کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ امیر المومنین اس موضوع کی مناسبت سے میرے پاس کچھ معلومات ہیں۔ امیر المومنین نے فرمایا: بیان کرو۔ انہوں نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا ہے کہ جب سنو کہ کسی زمین پر وباء آچکی تو ا س میں داخل نہ ہو اور اگر کسی ایسے علاقے میں وباء پھوٹ پڑے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے باہر نہ نکلو۔

وبائی امراض سے حفاظت کا وظیفہ

اول آخر 11 مرتبہ درود شریف کے ورد کے ساتھ 100بار سورۃ فاتحہ کا یومیہ ورد کریں۔ جن کے پاس وقت کم ہو وہ اسے 40مرتبہ بھی پڑھ سکتا ہے۔ سورۃ فاتحہ کا ورد شفاء کا باعث ہے، موت کے سوا ہر عارضہ اس ورد سے رفع ہو جاتا ہے۔

میری دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں ہر آفت، وباء اور بلاء سے محفوظ و مامون رکھے۔