فضائلِ شبِ برأت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

حافظ ظہیر احمد الاسنادی

شبِ برأت یعنی شعبان کی 15 ویں رات کو قرآنِ حکیم میں ’ لیلۃ مبارکہ‘ اور احادیث مبارکہ میں’ لیلۃ النصف من شعبان‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس رات کو براۃ (نجات) سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت اور خاص فضل و کرم سے لا تعداد گناہ گاروں کو دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا اور نجات عطا فرماتا ہے۔

شبِ برأت کی فضیلت کے بیان کی حامل احادیث مبارکہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہیں۔ ان میں حضرات سیدنا ابو بکر صدیق، سیدنا مولیٰ علی المرتضیٰ، اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، ابو ثعلبہ الخشنی، عوف بن مالک، ابو موسیٰ اشعری، ابو امامہ الباہلی اور عثمان بن ابی العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہم کے نام شامل ہیں۔

سلف صالحین اور اکابر علماء کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات عبادت کرنا، ان کے معمولات میں شامل تھا۔اس رات عبادت، ذکر اور وعظ و نصیحت پر مشتمل محافل منعقد کرنے کو بدعت ضلالۃ کہنا سراسر اَحادیثِ نبوی کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جب کہ اس رات کی فضیلت پر اُمت تواتر سے عمل کرتی چلی آرہی ہے۔

علاوہ ازیں شب برأت کی حجیت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ شروع سے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین، اَتباع تابعین اور تمام اَئمہ حدیث، بشمول ائمہ صحاح ستہ اکثر نے شبِ برأت کا تذکرہ کیا ہے اور اپنی کتب حدیث میں ’بَابُ مَا جَائَ فِي لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ‘ یعنی شعبان کی پندرہویں رات کے عنوان سے مستقل ابواب بھی قائم کیے ہیں۔

اور یہ بات بھی واضح رہے کہ جب ائمہ حدیث اپنی کتاب میـں کسی عنوان سے کوئی مستقل باب قائم کرتے ہیں اور اس باب کے تحت کئی احادیث لاتے ہیں تو اس سے مراد محض اپنی کتابِ حدیث کا ایک باب قائم کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد ان کا ایمان اور عقیدہ ہوتا ہے۔ ان کی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، اَحمد بن حنبل، ابن خزیمہ، ابن حبان، ابن ابی شیبہ، بزار، طبرانی، بیہقی، ابن ابی عاصم، ہیثمی الغرض تمام اَئمہ حدیث کا یہی عقیدہ تھا اور اسی پر اُن کا عمل بھی تھا۔ اس رات وہ خود بھی اختصاص و اہتمام کے ساتھ جاگ کر عبادت کرتے، روزہ رکھتے، قبرستان جاتے اور جمیع اُمت مسلمہ کے لیے بخشش و مغفرت کی دعائیں کیا کرتے تھے۔

شبِ برأت کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

دس سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف سندوں کے ساتھ درجنوں کتب احادیث میں شب برأت اور اس کی اہمیت و فضیلت پر حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔ یہاں ہم اختصار سے شب برات کی شرعی حیثیت جاننے کے لیے بعض احادیث مبارکہ بیان کرتے ہیں:

1۔ امام بزار نے اپنی المسند میں حدیث کو نقل کرتے ہیں:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا کَانَ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ یَنْزِلُ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِلَی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلاَّ مَا کَانَ مِنْ مُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ لِأَخِیْهِ.

’جب ماهِ شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنے حسبِ حال) نزول فرماتا ہے، سو وہ مشرک اور اپنے بھائی سے عداوت رکھنے والے کے سوا اپنے سارے بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔‘

  • امام بزار ’المسند (1/206، رقم/80)‘ میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’ہم اس حدیث کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی صرف اسی طریق سے جانتے ہیں اور اس حدیث کو سب سے اَعلیٰ اسناد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں اگر اس کی اسناد میںکوئی شے ہو بھی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جلالت شان نے اسے مزید حسین بنا دیا ہے۔
  • اس قول سے معلوم ہوا کہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت و خصوصیت تسلیم کرنا اور اس کو بیان کرنا اہل علم کا شروع سے ہی طریقہ رہا ہے۔ اور اس رات کی غیر معمولی فضیلت کا انکار کرنا درحقیقت احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ناواقفیت کا اظہار ہے۔

2۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا کَانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُوْمُوْا لَیْلَهَا وَصُوْمُوْا نَهَارَهَا فَإِنَّ اللهَ یَنْزِلُ فِیْهَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ؟ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیَهُ؟ أَلَا کَذَا؟ أَلَا کَذَا؟ حَتَّی یَطْلُعَ الْفَجْرُ.

(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان، 1/ 444، رقم: 1388)

’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو تم اس کی رات کو قیام کیا کرو اور اس کے دن روزہ رکھا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ اس رات اپنے حسبِ حال غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے رزق دوں؟کیا کوئی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کیا کوئی ویسا نہیں؟ یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہو جاتی ہے۔‘

3۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ’ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (خواب گاہ میں) نہ پایا تو میں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں) نکلی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ نا انصافی کریں گے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ.

(أحمد بن حنبل، المسند، 6/238، رقم/26060)

’اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔‘

علامہ مبارک پوری (م 1353ھ) ’تحفۃ الأحوذی، 3/365367‘ میں لکھتے ہیں کہ جان لیں کہ شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ان (بہت سی احادیث) کا مجموعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔

  • اس حدیثِ مبارک کی روشنی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے شبِ برات میں عبادت کرنا اور قبرستان جانا ثابت ہوتا ہے۔

4۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

یَطَّلِعُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلٰی خَلْقِهٖ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِعِبَادِهٖ إِلَّا لِاثْنَیْنِ: مُشَاحِنٍ، وَقَاتِلِ نَفْسٍ.

’شبِ برأت کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس وہ دو اشخاص سخت کینہ رکھنے والے اور قاتل کے سوا اپنے بندوں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘

(اَحمد بن حنبل، ’المسند، 2/176، رقم/6642)

5۔ حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

یَطَّلِعُ اللهُ عَلٰی عِبَادِهٖ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِینَ وَیُمْهِلُ الْکَافِرِینَ، وَیَدَعُ أَهْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِهِمْ حَتّٰی یَدَعُوْهُ.

(طبرانی، المعجم الکبیر، 22/223-224، رقم/590، 593)

’اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب کو اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتا ہے، چنانچہ وہ مؤمنین کی بخشش فرماتا ہے اور کفار کو مہلت عطا فرماتا ہے اور بغض و کینہ رکھنے والوں کو اپنی حالت پر چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دیں۔‘

6۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا کَانَ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَإِذَا مُنَادٍ: هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأغْفِرَ لَهُ؟ هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأعْطِیَهُ؟ فَـلَا یَسْألُ أحَدٌ إَلَّا أعْطِیَ إِلَّا زَانِیَۃٌ بِفَرْجِهَا أوْ مُشْرِکٌ.

(بیهقی، شعب الایمان، 3/383، رقم/3836)

’جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو منادی ندا دیتا ہے: کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ پس زانیہ اور مشرک کے سوا ہر سوال کرنے والے کو عطا کر دیا جاتا ہے۔‘

7۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

خَمْسُ لَیَالٍ لَا یُرَدُّ فِیهِنَّ الدُّعَائُ: لَیْلَةُ الْجُمُعَۃِ، وَأَوَّلُ لَیْلَۃٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَیْلَةُ الْعِیْدِ وَلَیْلَةُ النَّحْرِ.

(بیهقی، شعب الإیمان، 3/342، رقم/3713)

’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات۔‘

  • علامہ ابن تیمیہؒ (م 728ھ) نے ’مجموع فتاوی‘ اور ’اقتضاء الصراط المستقیم‘ میں اس رات کی فضیلت و اہمیت کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ

وَأَمَّا لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقَدْ رُوِيَ فِي فَضْلِهَا أَحَادِیْثُ وَآثَارٌ وَنُقِلَ عَنْ طَائِفَةٍ مِنَ السَّلَفِ أَنَّهُمْ کَانُوْا یُصَلُّوْنَ فِیْهَا.

(ابن تیمیة، مجموع فتاویٰ، 23/132)

’شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت میں بہت سی احادیث آئی ہیں اور بہت سے آثارِ صحابہ آئے ہیں اور اسلاف (تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین) سے ان کی بہت سی کثیر تعداد میں اقوال آئے ہیں اور یہ بات ثابت ہے کہ وہ اس رات میں خصوصی نمازیں پڑتے اور عبادت کرتے تھے۔‘

علامہ ابن تیمیہ سے اس رات میں عبادت کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے جواب دیا:

إِذَا صَلَّی الإِنْسَانُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ وَحْدَهٗ أَوْ فِي جَمَاعَةٍ خَاصَّةٍ کَمَا کَانَ یَفْعَلُ طَوَائِفُ مِنَ السَّلَفِ فَھُوَ أَحْسَنُ.

(ابن تیمیة، مجموع فتاوی، 23/131)

’جب کوئی انسان نصف شعبان کی رات کو اکیلا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ سلف میں سے بہت سارے گروہ اس کا اہتمام کرتے تھے تو یہ بہت خوب ہے۔‘

  • علامہ ابن رجب حنبلیؒ (م 795 ھ) تحریر فرماتے ہیں:

’اہل شام میں سے جلیل القدر تابعین مثلا خالد بن معدان، مکحول، لقمان بن عامر وغیرہ شعبان کی پندرہویں شب کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس شب میں بہت زیادہ عبادت کرتے تھے۔ انہی حضرات سے لوگوں نے شب برأت کی فضیلت (کو جانا ہے) اور اس رات کی تعظیم کرنا سیکھا ہے۔‘

(ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف/137)

خلاصۂ کلام

ان تمام احادیث سے شب برأت کی فضیلت اور خصوصیت اجاگر ہوتی ہے اور اس شک و شبہ کا قلع قمع ہوتا ہے کہ اس باب میں تمام ضعیف احادیث مروی ہیں۔

  • سب سے اہم بات یہ ہے کہ شبِ برات پر احادیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد حد تواتر تک پہنچتی ہے لہٰذا اتنے صحابہ کا کسی مسئلہ پر احادیث روایت کرنا ان کی حجیت اور قطعیت کو ثابت کرتا ہے۔
  • اگر بعض احادیث ضعیف بھی ہوں تو محدّثین کرام نے خود اس بات کی تصریح کی ہے کہ ضعیف حدیث متعدد طرق سے تقویت پا کر حسن کے درجے پر فائز ہوجاتی ہے۔
  • ایک اہم قاعدہ محدّثین نے اپنی کتابوں میں یہ درج کیا ہے کہ فضائل میں بالاتفاق ضعیف روایات بھی قابل قبول ہوتی ہیں، جبکہ شب برات پر احادیثِ حسنہ مروی ہیں۔
  • قارئینِ کرام! شبِ برأت پر اتنی کثیر تعداد میں مروی احادیث، تعاملِ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ سلف، فقہاء صرف اس لیے نہیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ فقط ان کا مطالعہ کر کے یا بنا مطالعہ کے ہی انہیں قصے، کہانیاں سمجھتے ہوئے صرفِ نظر کردے بلکہ ان کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے اُستوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے باسہولت میسر ہو سکتا ہے۔

اِن بابرکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے عروج پر ہوتی ہے اور اپنے گناہ گار بندوں کی بخشش و مغفرت کے لیے بے قرار ہوتی ہے، لہٰذا اس رات میں قیام کرنا، کثرت سے تلاوتِ قرآن، ذکر، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اَعمال احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہیں۔ اس لیے جو شخص بھی اس شب کو یا اس میں عبادت کو بدعتِ ضلالۃ کہتا ہے وہ درحقیقت احادیثِ صحیحہ اور اعمالِ سلف صالحین کا منکر ہے اور فقط ہوائے نفس کی اتباع اور اطاعت میں مشغول ہے۔

یہ اَمر بھی قابلِ غور ہے کہ جو عمل خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہو، تابعین، اتباع تابعین اور اسلاف امت اس پر شروع سے ہی عمل پیرا رہے ہوں۔ فقہائے کرام جسے مستحب قرار دیتے ہوں، کیا وہ عمل بدعت ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا عمل بھی بدعت ہے تو پھر بھلا سنت و مستحب عمل کون ساہوگا؟

شبِ برأت میں عبادت کیسے کی جائے؟

اس رات اکیلے عبادت کرنا اور اجتماعی طور پر عبادت کرنا دونوں ہی طریقے ائمہ سے ثابت ہیں۔ اس رات جاگنا، عبادت کرنا چونکہ مستحب عمل ہے، لہٰذا ہماری رائے کے مطابق اسے انسانی طبیعت اور مزاج پر چھوڑنا چاہیے، جس طریقہ میں کسی کی طبیعت اور مزاج کیف و سرور اور روحانی حلاوت محسوس کرے اسے چاہیے کہ وہ وہی طریقہ اختیار کرے۔ کیوں کہ اس رات کا اصل مقصود تزکیہ و تصفیہ قلب ہے۔ سو جسے جس طریقہ میں حلاوت ایمانی نصیب ہو اسے اسی پر عمل کر لینا چاہیے۔ بعض لوگوں کی طبیعت خلوت پسند ہوتی ہے اور انہیں تنہائی میں عبادت اور گریہ زاری کرنے سے حلاوت و سکون اور ذہنی یکسوئی ملتی ہے، سو وہ اس طریقہ کو اختیار کرلیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اس کے برعکس بعض لوگ اجتماعی طور پر عبادت کرنے میں زیادہ آسانی اور راحت محسوس کرتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے اس طریقے پر عمل کرنے میں رخصت ہونی چاہیے کیوں کہ یہ عمل بھی ائمہ سے ثابت ہے۔p> بلکہ آج کا دور چونکہ سہل پسندی اور دینی تعلیمات سے بے راہ روی کا دور ہے، اس دور میں وہ لوگ بھی کم ہیںکہ جن کے گھر اور راتیں قیام اللیل کے نور سے جگمگاتی ہیں۔ اور طبیعتوں میں اتنی مستقل مزاجی بھی نہیں رہی کہ لوگ گھروں میں رات بھر جاگ کر چستی و مستعدی سے عبادت و اذکار ادا کر سکیں۔ تنہائی میں کچھ دیر عبادت سے ہی سستی اور نیند کے ہتھیار کے ذریعے شیطان لعین ان پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ لہٰذا اگر اجتماعی عبادت سے لوگوں میں دین سے رغبت اور عبادت میں مستعدی پیدا ہوتی ہے تو ان کے لیے اجتماعی طور پر عبادت کرنا مستحسن عمل ہے۔

اجتماعی طور پر عبادت کرنے میں تعلیم و تربیت کا عمل بھی پایا جاتا ہے۔ دینی تعلیمات اور نوافل و اذکار کی ادائیگی سے بے بہرہ لوگ بھی آسانی سے اجتماعی عمل میں شریک ہوکر اپنی عبادات کی ادائیگی کرلیتے ہیں اور جو چیزیں معلوم نہیں ہوتیں وہ جان لیتے ہیں۔

ااس اَمر کا خیال رہے کہ اجتماعی عبادات کسی عالم باعمل کی زیر تربیت و نگرانی ہونی چاہیے،جو لوگوں کی فکری اور روحانی ہر دو حوالوں سے تربیت و اصلاح بھی کر سکے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔