اے انسان تو اب بھی اپنے رب کو کارساز مان لے

ڈاکٹر علی اکبر الازھری

ایک چھوٹا سا نظر نہ آنے والا وائرس۔۔۔ جس کو کرونا وائرس کہا جارہا ہے۔۔۔ اس نے دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کی نیندیں اڑادی ہیں۔۔۔ کیا ترقی یافتہ اور کیا پسماندہ۔۔۔۔۔سب کے سب بے بس لاچار اور عاجز دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ دنیا کا نظام جیسے دھڑام سے گر گیا ہے۔

ہاں یہ اس قادرِ مطلق کی طرف سے زمیں پر بسنے والوں کو ایک سرزنش ہے۔۔۔ ایک الارم اور تنبیہ ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ زمین والوں اور عرش والے کے درمیان دوری بڑھتی جارہی ہے۔۔۔ زمیں والوں کو اپنا خالق ومالک بھول گیا ہے۔۔۔ انسانوں پر انسانوں کے ظلم حد سے بڑھ رہے ہیں۔۔۔ خصوصا اللہ کو ماننے والوں پر زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔ ہر طاقتور کمزور پر حکومت کرنے کے لیے اس سے جینے کا حق چھین رہا ہے۔۔۔عقل کے بل بوتے پر اترانے والے انسان پر ’’کرونا فورس‘‘ بھرپور انداز میں حملہ آور ہے اور عقل و فہم رکھنے والے مطلق العنان ۔۔۔ تمام تر کمالات رکھنے کے باوجود مشکل صورتحال سے دو چار ہیں اورزندگی کے دفاع میں بری طرح ناکام جا رہے ہیں.۔۔۔

تمام سائنسی ترقی، تسخیرِ کائنات اور حاکمیت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔۔۔ میڈیکل ریسرچ کے عالمی چیمپیئن گویا اندھے بہرے اور گونگے ہوے پڑے ہیں کہ آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔۔۔؟ دنیا کو اپنی کالونی سمجھنے والے انگشت بدنداں ہیں کہ اب بنے گا کیا۔۔۔؟ دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والی سپر طاقتیں۔۔۔ اوندھے منہ گری پڑی ہیں۔۔کہ اب نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔۔۔ دنیا بھر کی سٹاک ایکسچینجز مندی کے بدترین بحران میں پھنس چکی ہیں۔۔۔

صرف یہی نہیں عرش والے نے ہر طرح کے مذاکرات کے لئے اپنے گھر کے دروازے بھی بند کر دیئے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور یہ بھی تاریخ میں کم کم ہی ہوا ہے۔۔۔

اب نہ عمرہ کے لئے جا سکتے ہو، نہ طواف کی اجازت، نہ مناجات کا موقع ۔۔۔کہ سعودی عرب نے غیر معینہ مدت کے لئے ویزا بند کر دیا ہے اور غیر ملکیوں کو سعودی عرب سے نکل جانے کے احکامات بھی جاری کیے جارہے ہیں۔۔۔

اے اہلِ زمین! سوچو جہاں ہر وقت انوار و تجلیات کی بارش ہوتی ہے۔۔۔ جہاں مادر زاد اندھوں کو بینائی مل جاتی ہے۔۔۔ بے اولاد جہاں سے اولاد کی بھیک مانگ کے لاتے ہیں۔۔۔ جہاں سے زندگیاں ملتی ہیں۔۔۔ جہاں سے کائناتِ ارضی کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔۔۔ آج وہاں پہ اس خوف سے کہ کہیں کورونا وبا نہ پھیل جائے۔۔۔۔ طواف تک رکوا دیا گیا۔۔۔ جب حجاز مقدس میں کوئی داخل ہی نہیں ہو سکتا تو باقی تو سب باتیں بعد کی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔اس بات کو لائیٹ نہ لو :۔۔۔۔۔۔۔

غور کرو! پیارو غور کرو! ۔۔۔مکہ و مدینہ میں اب باہر سے کوئی داخل نہیں ہو سکے گا۔۔۔ کب تک؟؟؟۔۔۔ یہ حالات پہ منحصر ہے۔۔۔ اگر ہم اب بھی نہیں سمجھے اور یونہی خود سر باغی اور نافرمان ہی بنے رہے۔۔۔ تائب نہ ہوئے ۔۔۔اللہ جل مجدہ کے حضور توبہ نہ کی تو یہ جو ابھی ہلکی سی سرزنش ہے یہ شدید انتقام کا روپ بھی دھار سکتی ہے۔۔۔

گویا اب عرش والے سے تعلقات بحال کرنے کے لئے صدق و اخلاص کے ساتھ سچائی پر مبنی دل کی گہرائیوں سے ندامت کے آنسوؤں میں لپیٹ کر معافی نامہ بھیجنا ہوگا۔۔۔ انسان کو اپنے مالک وخالق سے معافی مانگ کر اس کی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسانیت نواز باتیں ماننی ہوں گی۔۔۔اسکا نظام حلال وحرام اپنانا ہوگا۔۔۔اسکے قرآن کو سینوں سے لگانا ہوگا۔۔۔ ـــ

یاد رکھو۔۔اللہ پاک نے ہر وبا اور مصیبت کو انسان کے اعمال کا ردعمل قرار دیتے ہوئے قرآن میں فرمایا ہے:

وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ.

(الشوری، 42: 30)

’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالاں کہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے‘‘۔

ورنہ تمہارے اعمال تو ایسے ہیں کہ وہ تمہیں اس سے بھی زیادہ سزا دے۔ اس لئے ابھی بھی وقت ہے۔۔۔اے انسان اپنے خالق ومالک سے توبہ کر لے۔۔ اس کو پہچان لے۔۔۔ اس کے در پرعاجزی کے ساتھ جھک جا کہ اسے تمہارا جھکنا ہی پسند ہے۔۔اور یاد کر تو نے عالمِ ارواح میں اپنے خالق سے ’’بلٰی‘‘ کہہ کر اس کی ربوبیت کا اقرار بھی کر رکھا ہے۔۔۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک بے بس مخلوق ہے۔۔۔ اسے طاقت و قوت اوراختیار دینے والی ذات اللہ کی ہے۔۔۔ بس اس کا ادراک و احساس ہونا چاہیے۔

آخر پر کورونا کے حوالے سے میری ایک طویل نظم کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:

وہ ممالک جہاں زر کے انبار تھے
تھے وسائل سے پُر، فن سے سرشار تھے

موت ان کے حواسوں پہ چھانے لگی
ان کی فرعونیت مات کھانے لگی

تجارت معیشت سبھی رک گئی
آنِ واحد میں ان کی کمر جھک گئی

دوش پر جو ہوائوں کے اڑتے رہے
اب دبک کر گھروں میں ہیں بیٹھے ہوئے

دیکھ کر اڑتے انساں کی محتاجیاں
ہوگئی رب کی عظمت ہے سب پر عیاں

تھے جو عریاں جسم وہ بھی غائب ہوئے
دیں مخالف بھی کچھ ان میں تائب ہوئے

ان سے پوچھو کہاں کھو گئیں مستیاں؟
محفل رقص میں ان کی مے نوشیاں

ہوگئی ان کی شوکت بھی اب سرنگوں
کام ان کے ہی نہ آیا ان کا فسوں

ایٹمی طاقتوں کو بھی گھائل کیا
سب کو تسخیر قدرت کا قائل کیا

تھے جو کل تک خدائی کے مسند نشیں
بستر مرگ پر ہیں اب ان کے مکیں

سکھایا ہے قدرت نے ایسا سبق
تھا گماں میں کسی کے نہ ایسا سبق

یہ کرونا ہے کیا؟ حق کا کوڑا ہے یہ
ظالموں کے سروں پر ہتھوڑا ہے یہ

غیرتِ رب کی جلوہ نمائی ہے یہ
غافلوں کے لیے راہ نمائی ہے یہ

تیری قدرت کی یارب نشانی ہے یہ
عجزِ انساں کی زندہ کہانی ہے یہ

تیری قدرت کا خالق! یہ شاہکار ہے
جابروں کے لیے غیبی تلوار ہے

دور بینوں میں یہ نظر آتا نہیں
ان کے بموں سے بھی مار کھاتا نہیں

ان کی سائنس کرونا سے بے بس ہوئی
فوج ان کی دھری کی دھری رہ گئی

جیسے فرعونِ موسیٰ ہوا غرقِ آب
دکھایا ہے رب نے انہیں بھی عتاب

اپنی فطرت پہ تیرا یہ انعام ہے
منکروں کے لیے اس میں پیغام ہے