سانحہ ماڈل ٹاؤن: چھٹی برسی… ظلم اور صبر کی دو انتہائیں

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

17 جون 2014ء کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کی چھٹی برسی منائی جارہی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ 17 جون 2014ء کے دن پاکستان میں قانون اورانصاف کی لاشیں گری تھیں جو 6 سال کے بعد بھی بے گور و کفن پڑی ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی بے انصافی اجتماعی ضمیر پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، مظلوموں کو انصاف دینے کے حوالے سے ہر طرف ایک پراسرار سی خاموشی، بے بسی اور بے حسی ہے۔ ریاست کے سب سے بڑے منصف اور سب سے بڑے عہدیدار مظلوموں کو متعدد بار برق رفتار انصاف فراہم کرنے کے اعلانات کر چکے مگر انصاف کا پہیہ گھومنے کے بجائے مزید سست روی کا شکار ہوتارہا، ہر دو سال کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیسز میں ہونے والی پیشرفت کو ریورس گیئر لگ جاتا ہے یا لگا دیا جاتا ہے اور یوں 6سال کے بعد بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس وہیں کھڑا ہے جہاں سے چلا تھا۔

سانحہ بلدیہ ٹاؤن کراچی ہو، سانحہ ساہیوال یا سانحہ کارساز، کسی سانحہ کی سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس سے کوئی مماثلت نہیں ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے علاوہ جتنے بھی سانحات ہوئے ان کے پس پردہ بھتہ،انفرادی سطح پر اختیارات کا ناجائز استعمال، لالچ اور خوف کارفرما نظر آتا ہے مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن ملکی تاریخ کا ایک ایسا بھیانک سانحہ ہے جس کی پیشگی منصوبہ بندی کی گئی اور اس میں اس وقت کی اہم حکومتی شخصیات اور ادارے آن بورڈ تھے اور ایک احکامات کا تسلسل نظر آتا ہے، حکم دینے والے بھی نظر آتے ہیں اور ان احکامات پر عملدرآمد کرنے والے بھی موجود ہیں۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ بلکہ قاتل اعلیٰ پنجاب کی درخواست پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جو جسٹس باقر نجفی کمیشن کے نام سے مشہور ہوا، اس کمیشن نے اپنی فائنڈنگز میں لکھا کہ پولیس نے وہی کیا جس کا اسے مینڈیٹ دیا گیا تھا اور کوئی سچ بتانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ایک پراسرار سی خاموشی ہے، بدقسمتی سے یہ پراسرارسی خاموشی انصاف کے مراحل کے درمیان تاحال موجود ہے۔ مظلوموں اور ثبوتوں کے سوا باقی سب خاموش ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے غیور کارکنان اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے جرأت مند ورثاء نے جھکنے اور بکنے سے انکار کر کے اس کیس کو زندہ رکھا ہوا ہے اور یہ کیس نظامِ انصاف کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔

تحریک کے کارکنان اور اس کے قائدین انصاف کے لئے آج بھی پرعزم ہیں اور وہ انصاف محض بیانات کے ذریعے نہیں مانگ رہے بلکہ گزرے ہوئے چھ سالوں کا ہر دن انہوں نے مختلف عدالتوں میں گزارا اور گزار رہے ہیں۔ بہت تھوڑے لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری روزانہ کی بنیاد پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی مانیٹرنگ کررہے ہیں، صرف کیس کی ہی نہیں بلکہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی نگہداشت بھی کررہے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت، شادی، غمی، یہاں تک کہ ورثاء کی سفارش پر عزیز و اقارب کا بھی خیال رکھا جارہا ہے۔ اخراجات لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہیں، کفالت کے اخراجات بھی اور قانونی چارہ جوئی کے اخراجات بھی بذمہ تحریک ہیں اور جن کی براہ راست مانیٹرنگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کررہے ہیں۔

ان معلومات کا ذکر ہر گز ضروری نہیں تھا تاہم احوال سے ناواقف احباب کو یہ بتاناضروری ہے کہ کرۂ ارض پر منہاج القرآن اور قائد تحریک منہاج القرآن کی شکل میں ایک ایسی ہستی موجود ہے جو کارکنوں کو محض سیاست کا ایمونیشن نہیں سمجھتی بلکہ کارکنوں کو اولاد سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح اولاد کے مسائل و معاملات سے والدین قطع تعلق نہیں ہو سکتے، اسی طرح پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کے معاملات سے بھی قائد تحریک منہاج القرآن لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ الحمداللہ 6 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اسیران اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے لبوں پر کوئی حرفِ شکایت نہیں ہے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے عظیم کارکنان کی قربانیوں کا کوئی مول نہیں ہے، یہ قربانیاں رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی، تاہم قائد تحریک کی اپنے کارکنان سے اظہارِ محبت کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ کارکنوں نے جانثاری اور تابعداری کا حق ادا کیا تو قیادت نے بھی وفاء شعاری کا حق ادا کیا لیکن ریاست پاکستان نے 1973 ء کے آئین کے ذریعے اپنے شہری کو جان، مال کے تحفظ کی جو گارنٹی دی تھی اور اپنے شہری سے جو عہد کیا تھا وہ عہد پورا نہیں ہوا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں، منصوبہ سازوں، سہولت کاروں کو عبرتناک سزائیں ملنے سے ہی اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ پاکستان میں آئین و قانون بالادست ہیں یا اختیارات کے نشے میں بدمست دولت مند اشرافیہ؟ ۔

یہ امر دلخراش ہے کہ 17جون 2014ء کے سانحہ کے خلاف احتجاج کرنے والے 107کارکنان جن کا تعلق بھکر، سرگودھا، خوشاب، شیخوپورہ، لاہورسمیت مختلف شہروں سے تھا انہیں پرامن احتجاج پر گرفتار کر لیا گیا، ان کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور پھر اسی قاتل پولیس کی طرف سے پیش کردہ جھوٹے ثبوتوں پر ان 107 کارکنان کو بتدریج پانچ سال، سات سال کی سزائیں سنا دی گئیں اور انہیں صوبہ کی مختلف جیلوں میں بند کر دیا گیا جبکہ دوسری طرف 14شہریوں کو قتل کرنے والے پولیس افسران کے خلاف تمام تر ثبوت ہونے کے باوجود کسی ایک کو بھی آج کے دن تک سزا نہیں ملی، تمام کے تمام ترقیاں پا چکے ہیں اور ملزم ہونے کے باوجود پرکشش عہدوں پر موجود ہیں۔ جب تک قاتل ن لیگ برسراقتدار تھی تو ہم یہ سوچ کر صبر کر لیتے تھے کہ جب یہ قاتل کوچۂ اقتدار سے رخصت ہوں گے تو قاتل اپنے عبرتناک انجام سے دوچار ہوں گے مگر قاتل رخصت ہو چکے مگر مظلوموں کی آنکھوں میں آنسو اسی طرح موجود ہیں۔

وزیراعظم عمران خان بحیثیت اپوزیشن رہنماء متعدد بار منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں اپنے سینئر رہنماؤں کے ہمراہ تشریف لائے، انہوں نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء سے ملاقات بھی کی اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو بار بار دہرایا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس زیادہ دیر عدالتوں میں چلنے والا نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ایک مہینے کے اندر اس کا فیصلہ ہو جانا چاہیے کیونکہ گولیاں چلنے کے خونی منظر میڈیا کے ذریعے پوری قوم نے براہ راست دیکھے ہیں، اب ان کی حکومت کو بھی دو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر انصاف کے عمل کی وہی رفتار ہے جو رفتار قاتل ن لیگ کے دور حکومت میں تھی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عمر بھر قوم اور کارکنان کو قانون کے احترام کا سبق پڑھایا وہ خود بھی قانون کے استاد رہے ہیں، انہوں نے نازک سے نازک مرحلہ کے دوران بھی کارکنان کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی اور 6 سال کا ہر دن قانون کے احترام کے باعث صبر اور ضبط کے ساتھ انصاف مانگا اور مانگ رہے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہ موقف ہے کہ انصاف اس ملک کی عدلیہ نے دینا ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی مقام ہے تو وہ یومِ حشر ہے، وہاں نہ کسی کا حوالہ کام آئے گا اور نہ کسی کی دولت اور عہدہ۔

ہم شہداء ماڈل ٹاؤن کی چھٹی برسی کے موقع پر ان کے ورثاء کے صبر، ضبط اور جرأت کو سلام پیش کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی ظالم اشرافیہ کے خلاف حصولِ انصاف کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسیران کے صبر اور قوتِ برداشت کو بھی سلام پیش کرتے ہیں کہ وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں مگر ان کے لبوں پر کوئی حرفِ شکایت نہیں ہے۔ عیدالفطر سے قبل لاہور ہائیکورٹ نے 13اسیران کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہائی ملی، ان شاء اللہ تعالیٰ بقیہ اسیران کو بھی جلد رہائی ملے گی اور وہ سرخرو ہوں گے۔ 17جون 2020 ء کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کی چھٹی برسی منائی جارہی ہے، تمام تنظیمات اور کارکنان شہداء کے درجات کی بلندی کیلئے قرآن خوانی کریں اور حصولِ انصاف کے لئے سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر اپنی آواز بلند کریں، چھٹی برسی پر منہاج سائبر ایکٹیوسٹ کے اندرون اور بیرون ملک مقیم ممبران شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی بطور خاص آواز بنیں اور چھٹی برسی کے حوالے سے جو ہیش ٹیگ بھی دیئے جائیں ان پر بھرپور کام کریں اور پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سے درخواست کی جائے کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو آئین و قانون کے مطابق انصاف دیا جائے۔