حمد باری تعالیٰ و نعت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حمد باری تعالیٰ

دیارِ ہجر میں شمعیں جلا رہا ہے وہی
مجھے وصال کا مژدہ سنا رہا ہے وہی

وہ بے نشاں ہے مگر پھر بھی اپنی قدرت کے
نشاں ہزارہا ہر سُو دکھا رہا ہے وہی

اُسی کی ذات مِری دستگیر ہے ہمہ حال
ہر ابتلا میں مِرا آسرا رہا ہے وہی

ہزار مائوں کی ممتا سے بھی وہ بڑھ کر ہے
کہ دے کے تھپکیاں ہر شب سلا رہا ہے وہی

نویدِ وصل وہی دیتا ہے فراق کے بعد
بچھڑنے والوں کو پھر سے ملا رہا ہے وہی

سمایا ہے میری رگ رگ میں وہ لہو کی طرح
مِری تمنا مِرا مدعا رہا ہے وہی

قریب تر ہے رگِ جاں سے ذاتِ پاک اُس کی
حریمِ ذات سے مجھ کو بلا رہا ہے وہی

وہ اپنے ذکر سے مہکائے جان و دل میرے
مِرا خرابہ گلستاں بنا رہا ہے وہی

پکارتا ہے مجھے دھیان کے دریچوں سے
مِرے شعور کو نیّرؔ جگا رہا ہے وہی

(ضیا نیرّؔ)

نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سلام اس پر خدا کے بعد جس کی شان یکتا ہے
جو ممدوحِ خدائے پاک ہے جو سب کا آقاؐ ہے

سلام اس پر کہ جس نے درد کی دولت عطا کردی
سکھائے جس نے کمزوروں کو آئینِ جواں مردی

سلام اس پر کہ جو مقصودِ عالم جانِ عالم ہے
سلام اس ذاتِ اقدس پر کہ جو ایمانِ عالم ہے

سلام اس پر مٹائی جس نے جسم و جاں کی ناپاکی
منور ہوگیا جس سے ضمیرِ آدمِ خاکی

سلام اس پر کہ جس کا درد نگاہوں کا اُجالا ہے
سلام اس پر دلوں کو جو بصیرت دینے والا ہے

سلام اس پر دیا منشور جس نے امنِ عالم کا
دیا ہے سرکشوں کو درس جس نے لطفِ باہم کا

سلام اس پر کہ دی تعلیم جس نے علم و حکمت کی
سلام اس پر مٹائی جس نے تاریکی جہالت کی

سلام اس پر کہ جس کا نام ہے حصہ عبادت کا
وہ جس کی زندگی آئینہ ہے جُہد و ریاضت کا

سلام اس پر شفاعت جس کی، بخشش کا سبب ٹھہری
وہ جس کی زندگی آئینہ ہے روحِ ادب ٹھہری

سلام اس پر بہارِ زیست ہے جس سے تر و تازہ
لگا سکتا نہیں جس کے کرم کا کوئی اندازہ

(حافظ لدھیانویؔ)