القرآن: تقویٰ کے معانی و مفاہیم

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

امام غزالی ’’بدایۃ الہدایۃ‘‘ میں تقویٰ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

والتقوی، عبارۃ عن امتثال أوامر اللہ تعالی، واجتناب نواهیه.

(غزالی، بدایة الهدایة، 1/2)

تقویٰ اللہ تعالیٰ کے اوامر (جن کاموں کو سرانجام دینے کا اس نے حکم فرمایا ہے) کی انجام دہی اور اُس کی نواہی (جن امور سے اس نے منع فرمایا ہے) سے اجتناب کرنے سے عبارت ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اوامر کی وضاحت کرتے ہوئے امام غزالی فرماتے ہیں:

اعلم أن أوامر اللہ تعالی فرائض ونوافل.

(غزالی، بدایۃ الهدایة، 1/2)

اے سالک! اصلاحِ نفس، تربیت اور تصحیحِ احوال کی فکر کرنے والے! جان لے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام (اوامر) کی دو قسمیں ہیں:

  1. فرائض
  2. نوافل

فرائض کیا ہیں؟

فرائض سے مراد وہ امور ہیں جن کا ترک کرنا باعثِ عذاب ہوتا ہے۔ امام غزالی فرض کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فالفرض رأس المال، وهو أصل التجارة وبه تحصل النجاة.

فرض راس المال (اصل زر) ہے، یہی اصل تجارت ہے اور اسی کے ذریعے نجات حاصل ہوگی۔

امام غزالیؒ نے فرائض کو اصل زر سے تعبیر فرمایا یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں سے اللہ تعالیٰ نے جو جو حقوق فرض کے درجے میں رکھے، وہ اصل زر ہیں۔ مثلاً: پنجگانہ نمازیں ادا کرنا اصل زر ہے۔ اِن میں سے کوئی رہ گئی تو اصل میں خسارہ ہوگیا اور وہ خسارہ آخرت کے حساب و کتاب میں خسارے کا باعث بنے گا۔ اسی طرح ماہِ رمضان المبارک کے روزے، زکوٰۃ اور حج بھی اصل زر ہیں۔

اُخروی نجات اور فلاح کا دار و مدار فرائض کی ادائیگی پر ہے۔ فرائض ترک کر دینے سے نجات کی راہ بند ہو جاتی ہے۔ یعنی جو احکام اللہ رب العزت نے اوامر کے ذریعے مقرر فرما دیئے ہیں، اُن کو بجا لائے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

نوافل کیا ہیں؟

نفل وہ عبادت ہے جو اختیاری طور پر کی جاتی ہے۔ نوافل میں سنن (سنت مؤکدہ و غیر مؤکدہ)بھی شامل ہیں۔ بالفاظِ دیگر اللہ رب العزت نے جو فرائض اور واجبات اپنے امر کے ذریعے مقرر فرمائے، ان کی تعمیل کے بعد زائد اور اضافی طور پر جو کیا جائے، نوافل کہلاتے ہیں۔

امام غزالی نفل کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

والنفل هو الربح وبه الفوز بالدرجات.

نفل، نفع ہے اور اسی نفع سے درجات بلند ہوتے ہیں۔

نوافل، (جن میں سنن بھی شامل ہیں)کی حیثیت یہ ہے کہ یہ فرائض میں پائی جانے والی کمی و کوتاہی کا نہ صرف کفارہ بنتے ہیں بلکہ اُس کمی کو پورا بھی کرتے ہیں۔ نفل فرائض کے درجات بلند کرتے ہیں، ان کو زینت بخشتے ہیں اور فرض عبادت کو اللہ کی بار گاہ میں قبولیت کے لیے قوت و طاقت عطا کرتے ہیں۔

اصل زر اور نفع کا فلسفہ

اصل زر اور نفع کے فلسفے کو سمجھ لیں کہ تجارت میں اگر اصل زرہی جاتا رہا تو نفع کہاں سے ملے گا؟ تجارت میں جو سرمایہ (investment) لگایا تھا اگر وہ واپس مل جائے، Break even پر آجائیں تو اس کے بعد نفع کا مرحلہ آتا ہے حتی کہ اخراجات (expenses) بھی اُسی میں ڈالتے ہیں۔ اگر اخراجات وصول نہ ہوں تو اصل زر میں نقصان ہوتا چلا جائے گا۔

وہ شخص جس کی زندگی میں فرائض کی کوتاہی ہے، اس کے لیے نفلی عبادات کا کوئی اجر اور فائدہ نہیں ہے۔ ہم نفلی کاموں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ اصل فرائض (عبادات میں بھی اور معاملات میں بھی) کی ادائیگی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟

امام غزالی نے واضح کردیا کہ نجات کا مدار اوامر و نواہی کی پابندی کرنے پر ہے۔ فرائض کی بجا آوری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جب دوزخ سے نجات عطا کردے گا تو پھر نفل کا کردار شروع ہوگا اور ان نوافل کی وجہ سے جنت میں بندے کے درجات بلند سے بلند تر ہوتے جائیں گے۔ یعنی نوافل کی وجہ سے بندے کے ranks اور گریڈ میں اضافہ ہوتا ہے۔

نفل؛ فرض کا نعم البدل نہیں!

یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ نفل کبھی فرض کو Replace نہیں کر سکتے۔ اگر نماز فجر کی دو فرض رکعتیں چھوڑ دیں تو اُس کی جگہ دو ہزار نفل بھی پڑھ لیں تو یہ ان دو چھوڑے ہوئے فرض کا بدل نہیں بن سکتے۔ تمام فرائض اور اوامر کی یہی حیثیت ہے۔ عبادات میں فرائض کے علاوہ اللہ نے معاملات میں بھی فرائض رکھے ہیں جیسے والدین کے حقوق، بیوی بچوں کے حقوق، پڑوسیوں، مریضوں اور تعلق دار وں کے حقوق، حتی کہ علم حاصل کرنے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرائض رکھے ہیں جن کا ادا کرنا ہر صورت لازم ہے۔

اوامر میں بھی فرائض ہیں اور نواہی میں بھی فرائض ہیں یعنی وہ واجبات اور فرائض جنہیں ہر صورت ادا کرنے کا حکم ہے، وہ اوامر کے فرائض ہیں اور وہ چیزیں جن سے ہر صورت بچنے کا حکم ہے، وہ نواہی کے فرائض ہیں۔ اگر کوئی شخص نفلی عبادات میں کثرت کرے مگر وہ کام جو اوامر کے دائرے میں آتے ہیں اور جن کا کرنا فرض ہے، ان میں کوتاہی کرے تو اس کی نفلی عبادتیں قابلِ قبول نہیں۔

نواہی (وہ کام جن سے رکنے کا حکم ہے) میں بھی یہی اصول اور قاعدہ ہے۔ ایک شخص اگر لوگوں پر ظلم کرے، دوسرے کا حق کھائے،قتل، چوری، خیانت، رشوت، بددیانتی، نفاق، دوسرے سے دشمنی، دھوکہ، جھوٹ کا مرتکب ہو، یعنی وہ امور جن کا ترک کرنا اُس پر فرض تھا، اِن امور کا مرتکب ہوتا رہا، اب وہ چاہے لاکھ نفلی کام کرتا پھرے، کھانے کھلائے، عمرے کرے، میلاد شریف کا اہتمام کرے، گیارہویں شریف کرے، عرس کرے، تبلیغیں کرے، مسجد یں تعمیر کروائے، الغرض جو چاہے نیکی کے کام کرتا پھرے مگر اس شخص نے چونکہ فرض ترک کر دیا اور حرام کا ارتکاب کیا ہے، اس لیے ہزار ہا نفلی کام مل کر بھی اس کا بدل نہیں بن سکتے۔ اِسی لیے امام غزالی نے فرمایا: کہ فرض رأس المال ہے، یہی اصل تجارت اور اصلِ زر ہے، لہذا نجات اور فلاح کا مدار بھی اسی پر ہے۔

قربتِ الہٰیہ کا انحصار ادائیگی فرائض پر ہے

فرض اور نفل کی تعریف اور حیثیت کے تعین کے بعد امام غزالی ؒ نے درج ذیل حدیث قدسی کو بیان کیا ہے:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: یقول اللہ تبارک وتعالی: ما تقرب إلی عبدی بمثل أداء ما افترضت علیہ. (صحیح بخاری)

اِس حدیث کا غور طلب پہلو یہ ہے کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ جس نے میرا قرب چاہا اُس کو اِتنی قربت کبھی نہیں مل سکتی اور نہ کبھی ملے گی جتنی قربت میرے ان بندوں کو ملتی ہے جو میرے مقرر کردہ فرائض کو ادا کرتے ہیں۔

اوامر و نواہی کے مراتب و ترجیحات

دین اسلام میں اوامر و نواہی کی انجام دہی کے کچھ مراتب و ترجیحات مقرر ہیں۔ ان کو پیشِ نظر رکھنا از حد ضروری ہے۔ ذیل میں ان ترجیحات و مراتب کو ذکر کیا جارہا ہے:

اوامر نواہی
فرض حرام
واجب مکروہ تحریمی
سنتِ مؤکدہ اسأت
سنت غیر مؤکدہ مکروہ تنزیہی
مستحب خلافِ اولیٰ
مباح

مذکورہ ترجیحات و مراتب سے واضح ہورہا ہے کہ اگر ایک طرف فرض ہو اور دوسری طرف نفل ہو تو نفل کو چھوڑ دیں گے اور فرض کو ادا کریں گے۔ اسی طرح ایک طرف سنت ہو اور ایک طرف نفل تو نفل چھوڑ دیں گے اور سنت کو ادا کریں گے۔ اسی طرح ایک طرف سنت ہو اور ایک طرف فرض ہو تو سنت کو چھوڑ کر فرض کی طرف جانا ہو گا۔ یعنی عام معمولاتِ زندگی میں ایک عمل سنت اور دوسرا فرض ہے تو سنت کے ترک کرنے سے گناہ نہیں ہوگا، فرض کے ترک کرنے سے گناہ ہوگا۔ اسی طرح ایک طرف نفل ہو اور دوسری طرف فعلِ مباح ہو تو پھر مباح کو چھوڑ دیں گے اور نفل کی طرف جائیں گے۔ نفل کا درجہ مباح سے بلند ہے۔ ترجیحات کی فہرست میں مباح گراؤنڈ/زمین ہے، کرلیا تب بھی کوئی حرج نہیں اور نہ کریں تب بھی کوئی حرج نہیں۔ بہت سے ایسے کام ہیں جو ہم روزمرہ زندگی میں انجام دیتے ہیں جیسے پہننا، کھانا پینا، رہن سہن، لین دین کے معاملات اور اس طرح کے بہت سے افعال اور اعمال ہیں جو مباح کے درجے میں آتے ہیں۔ یعنی محض جائز ہیں، جن کے کرنے کی اجازت ہے۔ یعنی کریں تو ثواب کوئی نہیں اور نہ کریں تو گناہ کوئی نہیں۔ مثلاً: شلوار، قمیص پہن لیں یا پینٹ کوٹ، نہ اُس کے پہننے میں گناہ ہے اور نہ اِس کے پہننے میں ثواب ہے۔ یعنی اِن میں کوئی ایک لباس بھی سنت کے دائرے میں نہیں آتا۔ اسی طرح کھانے پینے میں سونا چاندی کے علاوہ جس طرح کے برتن چاہیں استعمال کرلیں، کوئی ثواب و گناہ نہیں۔ الغرض ضروریات زندگی کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو مباحات کے دائرے میں آتی ہیں۔

اِن مباحات میں کوئی ایسا پہلو نہیں کہ جس کا اجر و ثواب ملے گا کیونکہ ان کا تعلق ضرورتوں، حاجتوں، سہولتوں اور پسند سے ہے لیکن اگر اِن کے مقابلے میں کوئی ایسی چیز ہو جس کے اندر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کا کوئی اشارہ ملے کہ اِس کا کوئی اجر وثواب ہو گا تو وہ چیز یا عمل مباح سے ایک درجہ بلند ہوجائے گی اور نفل یا مستحب کے درجے میں چلی جائے گی۔ اس عمل کو کرلیں گے تو ثواب ہوگا، نہیں کریں گے تو گناہ نہیں ہو گا۔

اسی طرح مستحب سے اوپر کے درجات میں سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ ہے۔ احناف کے نزدیک سنتوں سے اوپر واجب کا درجہ ہے مگر شوافع کے نزدیک فرض اور واجب ایک ہے۔ پھر واجبات سے اوپر فرائض ہیں۔ لہذا مباح سے لے کر فرائض تک جتنے بھی درجات آتے ہیں، معاملات، اعمال، عبادات میں سے جب دو چیزیں آپس میں ٹکرائیں تو نچلے درجے کی چیز کو چھوڑ کر اُوپر والے درجے کی طرف جاتے ہیں۔

شریعتِ اسلامیہ میں عبادات، معاملات، اوامر و نواہی، فرائض اور نوافل کی بجا آوری میں کچھ آداب کار فرما ہیں، جن کو آدابِ شریعت کہتے ہیں۔ اِنہی آداب کو ملحوظ رکھنے سے تقویٰ وجود میں آتا ہے۔ مذکورہ مراتب اور ترجیحات کو ملحوظ رکھنا بھی آدابِ شریعت میں شامل ہے۔

حقیقتِ قرب اور اس کی اقسام

صوفیاء، اولیاء اور عرفاء نے قرب کی دو اقسام بیان کی ہیں:

  1. قربِ فرائض
  2. قربِ نوافل

وہ قرب جو فرائض کی بجا آوری کے نتیجے میں بندے کو حاصل ہوتا ہے، قربِ فرائض کہلاتا ہے۔ وہ قرب جو نوافل کی بجا آوری کے نتیجے میں بندے کو حاصل ہوتا ہے، قربِ نوافل کہلاتا ہے۔ گویا فرائض و نوافل دونوں کے نتیجے میں بندوں کو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے مگر قربِ فرائض کا درجہ قربِ نوافل سے اعلیٰ اور بلند ہے۔ مذکورہ حدیثِ قدسی کے پہلے جملے کا اصل معنیٰ یہی ہے۔

اللہ کی بارگاہ میں قربت کی راہ فرائض کی ادائیگی سے کھلتی ہے۔ اگر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی رہ جائے تو نوافل مل کر بھی اُس بارگاہ کی قربت کا دروازہ نہیں کھول سکتے۔ فرائض کا چونکہ درجہ بلند ہے اِس لیے اُن سے حاصل ہونے والے قرب کا مرتبہ بھی بلند ہے۔ جب فرائض و نوافل دونوں اکٹھے ہو رہے ہوں تو پھر کہا جاتا ہے کہ جمع بین القرب الفرائض والنوافل۔ پھر فرائض کے قرب اور نوافل کے قرب دونوں جمع ہو جاتے ہیں۔

مذکورہ حدیث قدسی کے دوسرے حصے میں فرمایا:

ولا یزال عبدی یتقرب إلی بالنوافل حتی أحبه، فإذا أحببته کنت سمعه الذی یسمع به وبصره الذی یبصر به ویده التی یبطش بها ورجله التی یمشی بها.

(صحیح بخاری)

’’جب کوئی بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب چاہتا ہے تو میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اسے اپنا حبیب بنا لیتا ہوں تو میں اس کی سماعت (شنوائی) بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بصارت (دید) بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام لیتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔‘‘

جب بندہ فرائض ادا کرے اور فرائض کی ادائیگی میں کسی سمت سے بھی کوتاہی، غفلت، کمزوری اور لاپرواہی نہ رہے اور فرائض جمیع احکام و آداب کے ساتھ کما حقہ ادا ہوجائیں تو اس کے بعد نفل شمار کیے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اس نے فرائض کے ذریعے اپنا اصل زر پورا کرلیا تھا اور بنیادی قرب کا دروازہ کھول لیا تھا لہذا اب جو نوافل وہ ادا کرے گا، اُس کے ساتھ اُس کے تقرب میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اُس کی یہ قربت اس قدر بڑھتی چلی جائے گی حتی کہ وہ مقام آجاتا ہے کہ جب اللہ فرماتا ہے کہ میں بندے کے ساتھ محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور پھر میں اُس کے کان، آنکھ، زبان، ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہوں۔ اُس شخص کے بولنے، چلنے، دیکھنے، سننے کی حفاظت کرتا ہوں۔ اللہ ر ب العزت کا نور اُس بندے کی سماعت، بصارت، گرفت، کلام، گفتگو، دل میں چمکنے لگ جاتا ہے۔ حتی کہ اُس کے ظاہر و باطن میں اللہ کا نور سما جاتا ہے۔

اِس حدیث مبارکہ کے ایک ایک لفظ پر مفصل کلام ہوسکتا ہے مگر اس موقع پر موضوع کی مناسبت سے خاص نکتہ یہ کہ مذکورہ بالا سب فیض اُسی کو ملتا ہے جو زندگی میں سب سے پہلے عبادات و معاملات کے تمام فرائض بجا لاتا ہے۔

مراقبہ و محاسبہ کی ضرورت

زندگی میں کچھ فرائض ایسے ہیں جو ہم نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً کسی کی دل آزاری نہ کرنا، دوسروں کی عزت و تکریم کرنا، دوسروں کے جذبات کا خیال کرنا، سچ بولنا، دھوکہ نہ دینا، امانت میں خیانت نہ کرنا، دیانت داری، وفاداری سے کام کرنا، یاد رکھیں کہ یہ امور نوافل نہیں بلکہ فرائض ہیں۔ ہم زندگی میں اس طرح کے بے شمار معاملات میں بہت سارے فرائض میں کوتاہی کرتے ہیں، ان امور سے لاپرواہی برتتے ہوئے انہیں نظر انداز کرتے ہیں اور اُنہیں اہمیت ہی نہیں دیتے۔ اس کے برعکس بہت سے نفلی کاموں میں بڑی دلچسپی کے ساتھ رات دن لگن کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اِس سے ہماری زندگی کے اندر نیکیوں کا بیلنس خراب ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک طرف ہم نفع کمانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر دوسری طرف اصل زر میں نقصان ہوتا چلا جا رہا ہے۔

اِس عمل سے متعلق امام غزالیؒ خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ولن تصل أیها الطالب إلی القیام بأوامر الله تعالی إلا بمراقبۃ قلبک وجوارحک فی لحظاتک وأنفاسک، حین تصبح إلی حین تمسی.

اے طالب! تو اللہ کے احکام کی بجا آوری کی منزل کو اس وقت تک نہیں پاسکتا جب تک اپنے دل اور ظاہر وباطن کا ہمہ وقت مراقبہ نہ کرلے۔صبح سے شام تک اپنے ہر ہر لمحے اور ہر ہر سانس کی نگرانی کر۔

جب تک بندہ ہمہ وقت اپنے دل اور اپنے ظاہر وباطن کی Monitoring اور محاسبہ نہ کرے، اس پر نگاہ نہ رکھے، اُس وقت تک اللہ کے اوامر کی کماحقہ بجا آوری ممکن نہیں۔

جب ہم اپنے حالات اور لمحات کی نگرانی میں کوتاہی کرتے ہیں تو وہیں سے نا فرمانی کے راستے کھلتے ہیں اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتی ہے۔ جب بندہ خود اپنا نگران بن جائے تو اس کے اعمال، احوال اور افعال درست سمت میں گامزن ہوجائیں گے۔

پھر فرماتے ہیں:

فاعلم أن اللہ تعالی مطلع علی ضمیرک، ومشرف علی ظاهرک وباطنک، ومحیط بجمیع لحظاتک، وخطراتک، وخطواتک، وسائر سکناتک وحرکاتک؛ وأنک فی مخالطتک وخلواتک متردد بین یدیه.

جان لے! تو اپنے ظاہر و باطن کی نگرانی کر یا نہ کر مگر تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اُس کی نگرانی فرما رہا ہے۔ یعنی اگر ہم اپنے ظاہر و باطن کے احوال کی نگرانی نہیں کر رہے تو ہماری نگرانی نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب کوئی اور نگاہ نہیں ڈال رہا اور ہم بچ گئے۔ نہیں، بلکہ ہمارا ہر لمحہ، ہر قدم، ہر حرکت، ہر سکون اور جو کچھ ہمارے دلوں اور ذہنوں میں آرہا ہے، ہماری جمیع حرکات و سکنات کی اللہ رب العزت خود نگرانی فرما رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ.

(المومن، 40: 19)

’’وہ خیانت کرنے والی نگاہوں کو جانتا ہے اور (ان باتوں کو بھی) جو سینے (اپنے اندر) چھپائے رکھتے ہیں‘‘۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:

فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی.

(طہ، 20: 7)

’’وہ تو سر (دلوں کے راز) اور اخفیٰ (سب سے زیادہ مخفی بھیدوں) کو بھی جانتا ہے‘‘۔

جب اللہ رب العزت سے کچھ مخفی نہیں تو ضروری ہے کہ جس پر اللہ کی نگاہ پڑ رہی ہے، بندہ اُس کو درست کرے۔

تقویٰ کا خوبصورت ترین معنی

امام غزالیؒ مزید فرماتے ہیں:

واجتهد ألا یراک مولاک حیث نهاک، ولا یفقدک حیث أمرک.

اس امر میں محنت کر کہ تیرا رب تجھے اُس جگہ نہ دیکھے، جس جگہ موجود ہونے سے اُس نے تجھے منع کیا تھا یعنی جہاں تیرا رب نہیں چاہتا کہ تو وہاں حاضر ہو، وہاں تو اُس کو نظر نہ آئے اور جہاں وہ چاہتا ہے کہ تو حاضر و موجود ہو، وہاں سے مفقود اور غیر حاضر نہ ہو۔

امت مسلمہ کا ہر فرد جو اپنی اصلاح کا فکر مند ہے، اُس کے لیے امام غزالی کا یہ جملہ رہنمائی کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ یہ جملہ تقوی ٰ کی روح اور مغز ہے۔ جس شخص نے اس فکر کو اپنے اندر بٹھا لیا اور اپنی زندگی اِس فکر کے مطابق ڈھال لی تو اُس نے تقویٰ کی روح کو پا لیا۔ جب بندہ اپنا محاسبہ اِس طریق سے کر لیتا ہے تو پھر اپنے جمیع اعمال کو دیکھتا ہے حتی کہ اپنے کھانے پینے، نشست و برخاست، رہن سہن، اوڑھنا بچھونا، سکوت و کلام ہر حوالے سے اپنا محاسب بنتا ہے کہ اللہ مجھے کہاں اور کس حالت میں دیکھنا چاہتا ہے۔

ایک طرف اللہ چاہتا ہے کہ میں اپنے بندے کو نیک کام کرتا ہوا، رزق حلال کماتا ہوا، عبادت کرتا ہوا، ذکر کرتا ہوا، خیر کا کام کرتا ہوا، دوسروں کو نصیحت کرتا ہوا، لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتا ہوا دیکھوں اور دوسری طرف اللہ چاہتا ہے کہ میں بندے کو کسی بُرائی میں نہ دیکھوں، جھوٹ بولتا ہوا، غیبت کرتا ہوا، چغلی کرتا ہوا، گناہ کرتا ہوا، نافرمانی کرتا ہوا نہ دیکھوں اور نہ بُرائی کی صحبت میں بیٹھا ہوا دیکھوں۔ لہذا کچھ امور اور کچھ جگہیں ایسی ہیں جو اللہ پسند نہیں کرتا اور جو اللہ کے غضب کا باعث بنتی ہیں۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جہاں اللہ چاہتا ہے کہ ہم وہاں ہمہ وقت ہوں تو وہاں ہم اُسے نظر نہیں آتے اور جہاں وہ ہمیں دیکھنا نہیں چاہتا، ہم وہاں براجمان نظر آتے ہیں۔ اگرا ُس نے یہ پوچھ لیا کہ میرے بندے میں جہاں تمہیں دیکھنا چاہتا تھا، تو وہاں مجھے نظر نہیں آتا تھا اور جہاں نہیں دیکھنا چاہتا تھا تو روز وہیں نظر آتا تھا تو اس وقت ہمارا جواب کیا ہوگا؟ لہذا بندے کو اللہ کے ساتھ قائم کیے ہوئے تعلق کو دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ اس کی تابعداری میں ہے یا اس کے حکم کی خلاف ورزی کررہا ہے؟ یہ وہ مرکزی فکر ہے جہاں سے تقویٰ انسان کی زندگی میں آتا ہے اور یہی تعریف امام غزالی نے تقویٰ کا لفظ استعمال کیے بغیر بیان کر دی ہے۔

اگر اِس اُصول کو ہم زندگی میں جگہ دے دیں بلکہ زندگی کو اِس کے اوپر اِستوار کر لیں تو ہم دیکھیں گے کہ یہ ایک سبق ہی پوری زندگی کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ یہ تقویٰ کا سب سے خوبصورت ترین معنیٰ ہے کہ ہر شخص یہ فیصلہ کرلے کہ جہاں میرا اللہ مجھے نہیں دیکھنا چاہتا، میں وہاں اُس کو نظر نہ آؤں اور جہاں اللہ چاہتا ہے کہ میں وہاں سے غیر حاضر نہ ہوں تو وہاں ہمیشہ حاضر رہوں۔

حضور غوث الاعظمؓ کے نزدیک تقویٰ کا معنیٰ

حضور سیدنا غوث الاعظمؓ تقویٰ کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

التقوی مجانبة کل ما یبعدک عن الله تعالیٰ.

(غنیة الطالبین، 1: 271)

’’ہر وہ چیز جو تجھے اللہ سے دور لے جائے، اُس سے بچ جانے کا نام تقویٰ ہے‘‘۔

یہ تقویٰ کی ایک جامع تعریف ہے۔ جب بندے کو یہ علم ہوجائے کہ اللہ سے دور اور قریب کرنے والی کیا چیز یں ہیں تو بندہ کوئی بھی کام کرے، کسی مجلس میں بیٹھے، کوئی فعل کرے،کوئی کلام کہے، کسی سے کوئی dealing کرے تو وہ اپنے طرز عمل، طرز گفتگو، طرز کلام الغرض جو کچھ بھی کرے، اس پر غور کرے اور سوچے کہ یہ عمل مجھے اللہ کے قریب کرے گا یا اللہ سے دور لے جائے گا۔ بندے کو یہ چیزیں پوچھنے کے لیے مفتی صاحب، امام صاحب، کسی عالم، فاضل یا مدرس اور استاد کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت نے من کے اندر ایک کسوٹی، ایک ترازو اور پیمانہ رکھا ہے۔ جس سے بندہ تعین کرسکتا ہے کہ یہ کام مجھے اللہ کے قریب کرے گا یا دور کرے گا۔

مثلاً: نماز، روزہ، زکوٰۃ، صدقہ، و خیرات، حقوق اللہ و حقوق العباد کی ادائیگی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، خدمتِ انسانیت، نیکی و بھلائی کے کاموں کا فروغ، توکل، تقویٰ، شکر، صبر، حیا اور اس جیسے تمام امور بندے کو اللہ کے قریب کرنے والے اعمال ہیں جبکہ ان کے برعکس امور کو سرانجام دینا بندے کو اللہ سے دور کردیتا ہے۔

اللہ سے دور کیا چیز کرتی ہے؟ نافرمانی اللہ سے دور کرتی ہے، شہوتیں، دنیاوی لذات کی اتباع، خواہش نفس کے پیچھے جانا، تکبر، غیبت، چغلی، بے صبری، ناشکری، دنیا کا حرص و لالچ، کبر اور عجب، دنیا پرستی، جاہ ومنصب کا حرص، دھوکہ دہی، خیانت اور بدیانتی، جھوٹ، بے ایمانی، مکر و فریب، دوسرے کا حق چھیننا، ظلم کرنا، ماں باپ کی بے ادبی، اساتذہ و اکابر کی بے ادبی یہ تمام عوامل اللہ سے دور کرتے ہیں۔ لہذا ان سے بچنے کا نام تقویٰ ہے۔

گویا ایسے اعمال و افعال جن میں اللہ کی نافرمانی پائی جائے، اللہ کی یاد میں غفلت آئے اور بندہ اللہ کے حکم کو پسِ پشت ڈالنے کا مرتکب ہو تو ایسے اعمال بھی بندے کو اللہ سے دور کردیتے ہیں۔ یہ ایک باریک چیز ہے جس کا فیصلہ بندے نے من کے اندر کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایسی چیزیں ہوتی ہیں کہ بندے کو سمجھ نہیں ہوتی کہ یہ اللہ کے قریب کرنے والی ہیں یا نہیں مگر مختلف پہلو اور جہات سے غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ وہ عمل اللہ کے قریب کرے گا یا اس میں کسی شر اور نقصان کا پہلو ہے۔

رجوع الی اللہ کے طریقے

اولیاء کبار اور سلف الصالحین میں سے حضرت ابو الخیر العقطہؒ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! مجھے کوئی راستہ بتائیں جس پر چلتے ہوئے اللہ سے ملاقات ہو جائے۔ اُنہوں نے جواب دیا۔ پانی اور محراب۔ سائل نے اس کا مفہوم پوچھا تو آپ نے فرمایا:

بیٹے اللہ کی طرف جانے والے بہت سارے راستے ہیں مگر ہم نے جس راستے پر اللہ کا وصال دیکھا اور جس راستے کو بہت مفید پایا، وہ دو راستے ہیں: پانی اور محراب۔ پانی سے مراد وضو اور محراب سے مراد سجدہ ہے۔ وضو طہار ت کا عنوا ن ہے اور محراب عبادت کا عنوان ہے۔ یعنی ہم نے جس راہ پر اللہ کو پایا، و ہ طہارت اور سجدہ ہے۔ ظاہر باطن کی طہارت رکھنا اور نماز کی تمام حقوق اور آداب کے ساتھ بجا آوری کرنا ہی طریق الی اللہ ہے۔

منہاج القرآن کے رفقاء اس بات کو بھی ذہن نشین رکھیں کہ یہ سوچ اور فکر آپ میں نہیں ہونی چاہیے کہ جو طریقہ ہمارا ہے، بس یہی طریقہ اللہ کی طرف لے جانے والا ہے اور کسی کا طریقہ اللہ کی طرف نہیں جاتا۔ ایسی سوچ کبھی نہ لائیں، یہ درست اور حق نہیں ہے۔اللہ کی طرف جانے والے بہت سے راستے ہیں۔ ہر ایک جماعت، تنظیم کا اپنا اپنا راستہ ہے اور ہر کوئی اپنے طریقے پر توجہ دیتا ہے۔ آپ کا طریقہ اور اُن کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے مگر کسی دوسرے کے طریقہ جو خیر پر قائم ہو، اس کے بارے میں یہ ہر گز خیال نہ کریں کہ اُن کا راستہ اللہ کی طرف نہیں جاتا۔ ممکن ہے وہ بھی اللہ کی طرف جاتا ہو۔ ہر ایک کا اپنا مزاج، طبیعت اور ذوق ہوتا ہے اور اُس کے مطابق ہر کوئی اپنا طریقہ وضع کرتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب پتھر پر عصا مارا تھا تو ایک چشمہ نہیں بلکہ بارہ چشمے پھوٹے تھے تاکہ بنی اسرائیل کا ہر قبیلہ اپنی سہولت، ذوق اور مزاج کے مطابق ایک ایک چشمے کو حاصل کر لے۔ کسی کو پابند نہیں کیا کہ ایک ہی چشمے سے استفادہ کریں، یہی پانی ستھرا، صاف اور حلال و طیب ہے۔ اگر ایک چشمے پر ایک قبیلہ بیٹھا ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی چشمے پاک نہیں ہیں بلکہ وہ بھی پاک ہیں۔ کس طریقے سے اللہ جلد ملے گا، یہ تو اللہ کو معلوم ہے۔

ہمارے ہاں خرابی یہ ہے کہ جو جس طریقے پر ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میرا طریقہ ہی حق ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ اللہ والے کبھی ایسے نہیں کہتے تھے اور آپ بھی ایسی سوچ سے بچیں۔ ایسی سوچ بڑی گمراہی اور کفر ہو گا۔ کبھی ایسے سوچ میں نہ جائیں۔ ہمیں اللہ پاک نے جو توفیق دی، جو الہام کیا، جو ہدایت فرمائی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو سمجھ عطا فرمائی، اس کے مطابق ایک طریقہ ہم نے وضع کیا اور پوری زندگی اس پر چلے، اس کی تفصیلات اور شکلیں بنائیں اور رفقاء کو اُس راہ پر ڈال دیا۔ اِن شاء اللہ! یہ راستہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جا رہا ہے اور اِس امر میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ منہاج القرآن کا طریقہ حق ہے، اللہ کی طرف جانے والا ہے، اللہ کا وصال دینے والا ہے، یہ دین کی تجدید و احیاء کا طریقہ ہے مگر ایسا کبھی نہ کہیں کہ صرف ہم ہی حق ہیں، دوسرا حق کے راستے پر نہیں ہے۔ یہ طرزِ فکر اللہ کو پسند نہیں، یہ غرور و تکبر کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسرے کے طریقے کو غلط کہنا بندے کا حق نہیں، یہ فیصلہ کرنے کا حق اللہ کے پاس ہے۔ نیتوں کا حال اللہ جاننے والاہے۔ بندہ، بندے کی نیتوں پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔

ہاں، البتہ منہاج القرآن کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں ہم نے بہت سارے طرق کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں طریقِ علم بھی جمع ہے، طریقِ زہد بھی ہے، طریقِ صفا، طریقِ سلوک، طریقِ تربیت، طریقِ دعوت، طریقِ تبلیغ اور طریقِ تجدید بھی ہے۔ اس کے علاوہ اور بے شمار طرق بھی ہوں گے جو اللہ کی طرف جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.

(العنکبوت، 92: 69، ص، 38: 72)

جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ ہم یقیناً اُن پر اپنے راستے کھول دیں گے۔

یہاں اللہ پاک نے لنہدینہم سبیلنا نہیں فرمایا:کہ ہم اُن پر اپنا راستہ کھول دیں گے۔ بلکہ فرمایا: سُبُلَنَا یعنی بہت سے راستے کھول دیں گے۔ پھر ہر کوئی اپنے ذوق، صلاحیت، فہم، طبیعت کے مطابق کوئی نہ کوئی ایک راستہ پکڑ کر چل پڑتا ہے۔ بندہ جو بھی راستہ اپنائے، اللہ کی ذات کو اِس سے فرق نہیں پڑتا مگر وہ چاہتا یہ ہے کہ بندہ جس راستے کو بھی اپنائے وہ راستہ میرا ہی ہو یعنی وہ راستہ میری طرف لے کر آئے تاکہ بالآخر بندہ مجھ سے مل تو سکے۔

تقویٰ پر میرا نقطۂ نظر

امام غزالیؒ اور حضور غوث الاعظمؒ کے بیان کردہ تقویٰ کی تعریف کے بیان کے بعد اللہ پاک کی توفیق سے تقویٰ کا ایک اور معنی میرے ذہن میں آیا ہے، جس نے دل کو بڑا لبھایا ہے۔ اس تقویٰ کے معنی کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اِس دنیا میں بھیجا تو زندگی کا سامان دیا۔ یعنی ہمیں نفس، قلب، دل، روح اور عقل دی، جس کے ساتھ ہماری زندگی چلتی ہے۔ کچھ چیزیں نفس کے ذریعے ہوتی ہیں، کچھ روح کے ذریعے اور کچھ عقل کے ذریعے ہوتی ہیں۔ جسم تو خاک میں چلا جائے گا اور باقی چیزیں اللہ کے ہاں چلی جائیں گی۔

اللہ رب العزت چاہتا ہے کہ اے میرے بندے! میں نے تجھے دنیا میں بھیجا اور وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِیتمہارے اندر اپنی روح پھونکی، لہذا جس حال میں تمہیں میں نے روح دی، اُسی حال میں مجھے واپس لوٹا۔ اُسے کرپٹ، داغ دار اور خراب کرکے نہ لٹا۔ جس طرح روشن، منور، مزین، پاکیزہ، طاقتور میرا ذکر کرتی، چمکتی دمکتی روح میں نے تیرے اندر ڈالی تھی تو اُسی حال میں لوٹا۔ جب بندہ اس روح کے اُس حال کو اُسی طرح برقرار رکھے جس حال میں اللہ سے لی تھی اور اُسی حال میں اللہ کو واپس پلٹائے تو یہ تقویٰ ہے۔

مثال کے طور پر ہم کسی دوکان سے کرائے پر ٹیکسی لے آتے ہیں تو قاعدہ اور کلیہ ہے کہ جس حال میں وہ کار لی ہے اُسی حال میں واپس لٹائیں گے۔ حتی کہ اگر دینے والے نے اس میں ڈیزل یا پٹرول ڈالا ہوا تھا تو واپسی پر اپنی طرف سے اُتنا ڈیزل یا اُتنا پٹرول پورا کرکے کار لوٹاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کار کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو یہ نقصان بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔

اللہ کے ہاں بھی یہی نظام ہے کہ اے بندے! اللہ نے تجھے پاکیزہ جوہر پر عقل دی، اگر تو نے وہ کرپٹ کر دی، اُس کو مکار، عیار اور بے ایمان بنا دیا تو اللہ اسے قبول نہیں کرے گا۔ اللہ فرمائے گا کہ مجھے اسی حال میں پاکیزہ عقل لوٹا جس حال میں پاکیزہ عقل دی تھی۔۔۔جس حال میں روح، نفس اور دل دیا تھا، اُسی طرح روشن اور پاکیزہ صورت میں واپس لوٹا۔

لہذا جس بندے کو یہ فکر رہے کہ مجھے اللہ نے یہ امانتیں دی ہیں، میں تو کرائے دار ہوں، اللہ نے استعمال کے لیے دی ہیں، مجھے ان کا مالک نہیں بنایا تو وہ اِن اعضاء اور نعمتوں کے استعمال میں اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ ہر حال میں ان نعمتوں کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اسی طرح لوٹاتا ہے جس حال میں اللہ نے اُسے وہ نعمت عطا فرمائی تھی۔

اللہ رب العزت کا درج ذیل فرمان بھی اسی پس منظر میں ہے:

إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ.

( البقرۃ، 2: 156)

ہم اِس جملے کوصرف موت کے موقع پر استعمال کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی طرف سے آئے اور اللہ کے لیے تھے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اگر اِس جملے کو موت سے نکال کر زندگی پر استعمال کردیں تو تقویٰ نصیب ہو جائے گا۔ اگر یہ فکر طاری ہوگئی کہ ہم اللہ کی طرف سے آئے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے تو ہر چیز کو اللہ دیکھے گا کہ اے بندے! میں نے تمہیں آنکھیں دی تھیں، تو نے ان آنکھوں کو کیسے استعمال کیا۔۔۔ کان کیسے استعمال کیے۔۔۔ دل کو کیسا رکھا۔۔۔ نفس کو کیسا رکھا۔۔۔ عقل کو کیسا رکھا۔۔۔ ظاہر وباطن کو کیسے رکھا۔۔۔ لہذا جب یہ فکر لاحق رہی کہ وہ مالک اپنی ہر چیز کا حساب لے گا تو اِس دنیا میں استعمال کرتے ہوئے ہم ہر چیزکا خیال رکھیں گے اور ظاہر و باطن کوبگڑنے نہیں دیں گے۔ اگر ان چیزوں کو اُن کے اصل حال پر برقرار رکھنے کی فکر آجائے تو اِس کو تقویٰ کہتے ہیں۔

اسی لیے قرآن مجید باربار یاد دلاتا ہے کہ:

اِلَیْہِ تُرْجَعُونَ.

(البقرۃ، 2: 28)

تم اُس کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔ پلٹانے کی بات باربار اِس لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہیں خیال رہے کہ جب مجھے لوٹانا ہے تو جیسے دیا تھا ویسے ہی لوں گا۔ جس نے میری امانتوں کو خراب کرکے لوٹایا تو اس کو اس کے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی۔

انوارِ الہٰیہ کا نزول

اللہ تعالیٰ ہر مومن کے دل پر انوار اُتارتا ہے، اگر دل اِس تقویٰ کے ساتھ مزین نہ ہو تو انوار کا دخول نہیں ہوتا۔ یعنی ہر دل کے دروازے تک انوارِ الہیہ پہنچتے ہیں اور دل کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور رک کر یہ دیکھتے ہیں کہ اس دل میں اللہ کے لیے جگہ خالی ہے یا کسی اور نے اس جگہ بسیرا کرلیا ہے۔۔۔ یہ دل اللہ کی چاہت، اللہ کے امر ونہی، اللہ کے حکم اور اللہ کے تقویٰ کے لیے ہے یا دنیاوی شہوتوں، زینتوں اور حرص ولالچ کے لیے ہے۔۔۔ اگر وہ دل دنیا کی شہوتوں کے ساتھ بھرا ہوا ہواور اللہ کے لیے خالی نہ ہو تو انوار دل کے دروازے سے واپس پلٹ جاتے ہیں اور جب وہ انوار دیکھتے ہیں کہ اِس بندے نے دل کا حجرہ اللہ کے لیے آراستہ کر رکھا ہے، اللہ کے نور کے لیے دل کی سیج سجا رکھی ہے۔۔۔ اللہ کے لیے دل خالی کر رکھا ہے۔۔۔ شہوتوں کو نکال رکھا ہے تاکہ میرے مولیٰ کی قربت کے انوار آئیں تو انوار دل میں داخل ہوجاتے ہیں۔

جس دل میں اللہ کے انوار داخل ہوجائیں تو وہ اس دل کو عرش کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ عرش پر بھی اللہ کے انوار ہوتے ہیں اور جب دل میں بھی اللہ کے انوارنے جگہ لے لی تو بندے کا دل سینے میں رہ کر عرشِ الہی سے مل جاتا ہے۔ اب بندہ زمین کے فرش پر چلتا ہے مگر عرشی ہوتا ہے۔۔۔ جسم فرشی ہوتا ہے مگر دل عرشی ہوتا ہے۔۔۔ اُس کے طور اطوار، اخلاق و احوال عرشیوں کے ہوتے ہیں۔۔۔ اُس کے وجود سے عرش والوں کی طرح برکات پیدا ہوتی ہیں۔۔۔ دنیا میں اُس کے نور سے روشنی پھیلتی ہے اور تاریکی ختم ہوتی ہے۔۔۔ مگر یہ سب اُس کو نصیب ہوتا ہے جو تقویٰ کے ذریعے اپنے دل کو اللہ کے لیے خالی کر دیتا ہے اور تقویٰ کے ساتھ دل، من، باطن کو منور اور مزین کر لیتا ہے۔

اللہ رب العزت ہمیں تصحیحِ اعمال، تحسینِ احوال، تہذیبِ اخلاق، تزکیہ نفس، تصفیہ قلب، دینی تعلیم، روحانی و اخلاقی تربیت، فکر ی نشوو نما، اخلاقی اقدار کا احیاء اور انسانیت کو پھر سے تقویت دینے کا عمل جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور سلف صالحین کے انوار ہمارے حال میں منتقل فرمائے۔