قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی ؒ

خصوصی مضمون

قدوۃ الاولیا حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤ الدینؒ القادری الگیلانی البغدادیؒ کے اخلاق و اوصافِ حمیدہ پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مرید صادق ہونے کے ناطے اپنے مشاہدات و محسوسات بیان کرتے ہوئے نہایت پرمغز اور بصیرت افروز گفتگو فرمائی۔ ان اوصاف ِ حمیدہ کے باب میں گیارہ جستہ جستہ پہلوؤں پر محیط ان مشاہداتی و تاثراتی گہرپاروں کی تلخیص نذرِ قارئین ہے۔


محبوبِ سبحانی قطبِ ربانی غوث الثقلین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے آج سے آٹھ صدیاں پیشتر اسلامی دنیا کے مرکز اور گہوارۂ تہذیب و تمدن کے حامل تاریخی شہر بغداد میں علم و معرفت اور فیضان و ہدایت کی جو قندیل روشن کی اس کی ضوفشانیاں قیامت تک مسلمانانِ عالم کو سراب کرتی رہیں گی۔ قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی اسی خانوادئہ غوثیت مآب کے چشم و چراغ ہیں جنہوں نے خرقۂ ولایت اپنے والدِ گرامی حضرت سیدنا محمود حسام الدین القادری البغدادی ؒسے زیب تن کرکے نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیائے شرق و غرب کے دیگر ممالک میں بھی سلسلۂ قادریہ کی تجدید و توسیع میں ایسی گرانقدر خدمات سر انجام دیں جن کے نقوش جریدۂ عالم سے کبھی محو نہیں ہوسکتے۔

حضور شیخ المشائخ سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادیؒ کے ساتھ میری صحبت کا زمانہ تا یوم وصال کوئی پچیس برسوں پر محیط ہے جس کا تذکرہ اخلاق و اوصافِ حمیدہ کے حوالے سے آپ پر سوانحی کتاب مرتب کرنے والوں کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ یادوں کا وہ بے بدل اور گراں بہا خزینہ ہے جس سے انتخاب کرکے حسنِ اخلاق کے جوہر سے ہم اپنی ویران زندگیوں کو پھر سے باغ و بہار میں بدل سکتے ہیں۔ یہاں یہ اصولی بات ذہن نشین کرنے کے قابل ہے کہ تصوف و روحانیت از سر تا پا حسنِ اخلاق کا نام ہے۔ خلقِ حسن اور ادبِ حسن یہ دونوں چیزیں جس میں جمع ہو جائیں وہ اچھا صوفی بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنی کم علمی اور بے علمی کی وجہ سے تصوف اور روحانیت کا جو تصور قائم کر رکھا ہے اس میں اب ان چیزوں کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے۔ جس تصوف اور فقر میں خوش خلقی اور اخلاق حمیدہ نہیں اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔

اولیاء سے بلند درجہ انبیاء علیہم السلام کا ہے جن سے برتر کوئی طبقہ مخلوق میں نہیں۔ بہت سے نبیوں کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ جس پیغمبر کا بھی ذکر ہوا ہے اس کے اخلاق حسنہ کے بیان کو اہمیت دی گئی ہے۔

جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا:

وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتٰبِ اِسْمَاعِیْل اِنَّہٗ کَانَ صَادِق الْوَعْدِ.

’’اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن حکیم کی تلاوت کرتے ہوئے میرے پیارے بندے اسماعیل کا ذکر بھی کر جو ایفائے عہد کے خوگر اور وعدے کے سچے تھے۔‘‘

اسی طرح قرآن مجید میں مختلف مقامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بعض دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کا جس حوالے سے بھی ذکر کیا گیا ہے وہ اخلاق حسنہ کے گرد گھومتا ہے۔

تصوف کے موضوع پر جن برگزیدہ ہستیوں نے کتابیں لکھیں وہ آسمانِ ولایت کے آفتاب و ماہتاب تھے۔ وہ امہات الکتب جو تصوف اور روحانیت میں سند کا درجہ رکھتی ہیں ان میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؓ کی کشف المحجوب، حضرت شیخ ابو القاسم قشیری کا رسالہ قشیریہ، امام ابو طالب مکی کی قوت القلوب، ابو النصر سراج کوفی کی کتاب اللمع، امام سلمی کی طبقات السلمی اور حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کی معروف تصانیف غنیۃ الطالبین، فتوح الغیب، الفتح الربانی میں سے کسی کو اٹھا کر دیکھ لیں وہ ساری کی ساری آپ کو اخلاقِ حسنہ پر مبنی ملیں گی۔ آپ کے مواعظِ حسنہ، الہاماتِ کشفی اور خطبات اسی موضوع سے متعلق ہیں۔

اسی طرح خواجہ اجمیرؒ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، خواجہ نظام الدین اولیائ، حضرت شیخ عمر سہروردیؓ کی کتابیں اور تصوف کی پوری تاریخ کھنگالی جائے یا حضور قدوۃ الاولیا کی تذکرہ قادریہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس سے آپ صرف ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے کہ روحانیت و ولایت سرتاپا اخلاق و آداب سے عبارت ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ولایت نہ جبہ و قبا میں ہے اور نہ چہرے کے جلال و دبدبہ، لہجے کی گرج، آنکھوں کی چمک دمک، تسبیح شماری، پیونددار کپڑے، اعلیٰ ریشمی لباس پہننے، کٹیا یا محل میں رہنے سے ہے، یہ ساری چیزیں ولایت اور روحانیت سے لا تعلق ہیں۔ ولی کوئی بھی ہوسکتا ہے خواہ وہ بوعلی قلندرؒ کی طرح پھٹے لباس میں ہو یا حضور غوث الاعظم ؓ کی طرح ستر ہزار دینار کی دستار پہنے ہوئے ہو، کوئی سوکھی روٹی پانی میں ڈبوکر کھانے والا ہو یا شاہی دسترخواں سے بھی بڑے لنگر خانے کا مالک نظام الدین اولیائؒ ہوں۔

حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامیؒ کے نام اور مقام سے کون واقف نہیں؟ ان کے احوالِ سیرت میں ہے کہ دور دراز کی مسافت طے کر کے کوئی شخص آپ کی خدمت میں مرید بننے کے لئے حاضر ہوا اور چالیس دن صحبت میں گزار کر بیعت کئے بغیر واپس جانے لگا تو آپ نے اس کو واپس بلالیا اور پوچھا کس لئے آئے تھے اور جاکیوں رہے ہو؟ وہ کہنے لگا کہ حضرت بیعت کرنے کے لئے آیا تھا لیکن اتنے دن آپ کی صحبت میں گزارے مگر کوئی کرامت ہوتی نہیں دیکھی اس لئے کسی اور آستانے کی طرف جا رہا ہوں۔ آپ فرمانے لگے اے شخص بیعت کر یا نہ کر، تیری مرضی مگر ایک بات کا جواب دیتا جا، فرمایا: کیا تو نے ان چالیس دنوں میں جو ہمارے پاس گزارے ہمارا کوئی کلام یا کوئی فعل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کے خلاف دیکھا؟ کہنے لگا کہ حضرت ایسی تو کوئی بات نہیں دیکھی۔ آپ نے فرمایا کہ جا ہمارے پاس اس سے بڑی کرامت اور کوئی نہیں۔ اولیاء اللہ کا فرمان ہے ’’الاستقامۃ فوق الکرامۃ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین پر چلتے چلتے استقامت آجائے تو یہ کرامت سے بھی بڑی بات ہے۔

حضور بایزید بسطامیؓ وہ ہستی ہیں جن کے بیس سال اس عالم میں گزرے کہ وہ اللہ سے ہمکلام ہوتے تھے لیکن لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم سے خطاب کر رہے ہیں۔ وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قائم رہنے کو اور ثابت قدم رہنے کو کرامت سے بھی بلند تر مقام دے رہے ہیں۔ اس طرح اور بھی اولیاء کرام کے واقعات ہیں جن کے تذکرے کا یہ محل نہیں۔ ہمارا موضوع حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادیؒ کے اخلاقِ حمیدہ کے گیارہ اوصاف ہیں جن کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

پہلا وصف: سکوت کثیر، کلام قلیل

حضور پیر صاحب کثیر السکوت اور قلیل الکلام تھے۔ آپ مجالس میں ہوتے تو سکوت کثیر اورکلامِ قلیل فرماتے یعنی بولتے کم اور زیادہ دیر خاموش بیٹھے رہتے۔ حضرت سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنتِ غوثیہ پر عمل پیرا ہوتے۔ آپ کا معمول تھا کہ سر مبارک جھکا کر دیر تک دوسروں کا کلام سنتے رہتے۔ ہم نے اکیس سالہ دور میں حضرت کی زندگی میں خلق کا یہ پہلو بدرجہ اتم دیکھا اور یہ ہم سب کے لئے بہت سبق آموز ہے۔

دوسرا وصف: حسبِ حال اور حسبِ ضرورت کلام

حضرت میں دوسری خوبی یہ تھی کہ حاضرین و سامعین کے حسبِ حال اور حسبِ ضرورت کلام فرماتے۔ اگر علماء سامنے ہوتے تو علمی گفتگو فرماتے جس سے ان کی تشنگی دور ہوتی، مریدین، فقراء اور روحانی الذہن افراد ہوتے تو ان کی ضرورت کے مطابق کلام کرتے اور ریاضت کی تلقین کرتے۔ طلبہ حاضر ہوتے تو آپ کے کلام میں ان کی رہنمائی کا سامان ہوتا، اطباء اور حکماء ہوتے تو آپ کی گفتگو طب اور حکمت کے لطائف و رموز سے مزین ہوتی۔ مختلف اقسام کے پتھروں کا موضوع چھڑتا تو آپ اس پر معلومات کا دریا بہا دیتے، علم جغرافیہ اور سمندری علوم کا کوئی ماہر سامنے ہوتا تو آپ کی گفتگو میں ایسے ایسے گوشے بے نقاب ہوتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ اسی طرح علم جفر، رمل اور علم نجوم پر آپ حسب ضرورت سیر حاصل گفتگو فرما لیتے اور اس کا کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑتے۔ سیاست اور بین الاقوامی امور پر گفتگو فرماتے تو اس کے ہر گوشے اور ہر پہلو پر آپ کی گہری نظر ہوتی۔

یہ بات شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت اوائل عمر میں یو این او میں عراقی وفد کی قیادت اور نمائندگی بھی کرچکے ہیں۔ برطانیہ میں ایک سرکاری وفد کی قیادت کے علاوہ حکومت عراق کی سیاسی اور دیگر امور میں عظیم خدمات سر انجام دیں۔ اس ضمن میں ایک واقعے کا تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہوگا ہم لندن کے ایک ہوٹل میں کھانے کے لئے گئے تو وہاں ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی جو پنجاب یونیورسٹی میں میر اشاگرد رہ چکا تھا اور ان دنوں وہاں ایل ایل ایم کرنے گیا ہوا تھا، وہ لندن ہی میں مقیم تھا۔ میں نے اسے حضرت کے پاس بیعت کرنے کے لئے بھیجا۔ وہ آپ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوا تو اس نے بل کے پیسے ادا کرنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو آپ نے منع فرمادیا۔ وہ مصر ہوا کہ حضور آپ ہمارے مہمان ہیں۔ آپ نے اس سے سنِ پیدائش پوچھا تو اس نے بتایا، اس پر آپ فرمانے لگے کہ تمہارے پیدا ہونے سے دس سال پہلے میں عراق کے سرکاری وفد کی قیادت کرتے ہوئے آیا تھا۔ بولو مہمان آپ ہیں یا ہم؟

اسی طرح ایک اور موقع پر ایک شخص نے لندن ہی کے ایک ہوٹل میں یہ کہہ کر کھانے کا بل ادا کرنے کی کوشش کی کہ حضور آپ سفر میں ہیں اور سفر میں کرنسی محدود ہوتی ہے، لہذا مجھے بل ادا کرنے دیں۔ اس کی یہ بات سن کر آپ نے اپنی عبا کی جیب میں ہاتھ ڈال کر کوئی بارہ چودہ ملکوں کی کرنسیوں کا انبار لگادیا۔

آپ کا ایک مرید ایک گمنام جزیرے کا رہنے والا تھا۔ آپ نے اثنائے گفتگو اس جزیرے کی ایسی تفصیلات بیان کردیں جو خود اسے بھی پہلے معلوم نہ تھیں۔ بہت سارے واقعات جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہوگی اس بات پر شاہد ہیں کہ اپ ہر سامع کی افتادِ طبع، مزاج اور علمی استعداد کے مطابق کلام فرماتے اور اس میں کوئی ضروری پہلو تشنہ نہ رہتا۔

تیسرا وصف: صدق و راست گوئی

سچ بولنا، سچ سنتا اور سچ کو پسند کرنا آپ کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ اگر کوئی شخص آپ کی مجلس میں غلط بیانی سے کام لیتا تو آپ کا غصہ اور جلال دیدنی ہوتا۔ آپ جھوٹ کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ آپ سراپا صداقت اور سچائی ہی سچائی تھے۔ راست بازی اور راست گوئی آپ کے خمیر میں شامل تھی۔ آپ کی طبعیت مبارکہ تھی کہ آپ کبھی گول مول بات نہیں کرتے تھے۔

چوتھا وصف: ایفائے عہد و پابندی وقت

حضرت جو وعدہ کرتے وہ پورا کرتے، کبھی زندگی میں وعدہ خلافی نہیں کی، ایفائے عہد اور پابندی وقت کا بہت اہتمام فرماتے۔ حضورختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل اتباع کو اپنا شعار بنائے ہوئے تھے جن کے بارے میں ارشاد باری ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃً حَسَنَہ.

اس فرمان خداوندی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے آپ کی شخصیت رنگی ہوئی تھی۔ سیرت مبارکہ جو اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان احسنکم ایمانا و احسنکم اخلاقا (تم میں سب سے بڑھ کر ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہے) کا فیضان پوری طرح آپ کی زندگی میں رچ بس گیا تھا۔

پانچواں وصف: مہمان نوازی، سخاوت، دسترخوان کی کشادگی

یہ مشاہدے کی بات ہے کہ مہمان نوازی حضرت کی شخصیت کا لازمی جزو تھی۔ آپ کے دسترخوان جیسا وسیع بادشاہ کا دسترخواں نہ ہوگا۔ تحریک کے آغاز کے ابتدائی دور میں درسِ قرآن کے سلسلے میں جب میں کوئٹہ یا کراچی جاتا تو تین چار دن کے قیام کے دوران میرے لئے حکم ہوتا تھا کہ کھانا مستقلاً ان کے ہاں کھاؤں، کسی اور جگہ کھانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ میں نے ہمیشہ آپ کے دسترخوان پر علمائ، تاجر اور سیاسی لوگوں کو پایا۔ ہر کھانے پر اتنا بڑا دسترخوان بچھا ہوتا کہ ڈیڑھ دو درجن لو گ شریک طعام ہوتے، ہر دسترخوان کی کشادگی کا یہی حال ہوتا، یوں لگتا کسی بادشاہ وقت کا دسترخوان ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ یہ غوث الاعظم ؓ کا دسترخوان تھا جو کسی سلطانِ عالم کے دسترخوان سے کم نہ تھا، پھر دسترخواں پر چنے ہوئے کھانوں کو شرکائے طعام دیکھتے تو عش عش کر اٹھتے۔ اس پر ایسے پھل موجود ہوتے جن کے نام بھی بہت سوں نے نہ سنے ہوتے۔ خود مجھے ایسا اتفاق ہوا اور ایسے پھل کھانے کو ملے جن کے نام سے بھی میں آشنا نہ تھا۔ حضرت کا دسترخواں صحیح معنوں میں ایک بین الاقوامی دسترخوان تھا جس پر بہت سی نادر ڈشیں موجود ہوتیں۔

چھٹا وصف: علم اور اہلِ علم کی تعظیم و تکریم

حضور پیر صاحب چونکہ خود صاحب علم، علم کا سمندر اور علم کے بڑے قدر دان تھے، علماء کی تکریم فرماتے اور ان کی خاطر مدارات کرنے میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے علم اور علماء کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ آپ بھی اہل علم حضرات کی بہت تکریم کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل پیرا تھے حالانکہ وہ خود علم کا بحر بیکراں تھے جبکہ ہماری مثال سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی ہے۔

ساتواں وصف: امراء و حکام کے دروازے پر جانے سے اجتناب

حضرت سربراہِ وقت، امراء و حکام کے دروازے پر کبھی نہ جاتے تھے۔ آپ نے کسی اہل دنیا کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا تھا۔ آپ سائل نہیں بلکہ معطی تھے اور ہمیشہ معطی رہے۔ آپ کا ہاتھ دینے والا تھا، لینے والا نہیں تھا، آپ حضور غوث پاکؓ کی سنت پر دل و جاں سے عمل کرتے تھے۔ امراء اور بڑے بڑے متمول افراد کے ہاں آنا جانا کبھی آپ کا معمول نہ تھا بلکہ اس کے برعکس بڑے صاحب ثروت اور دنیا دار لوگ آپ کے دروازے پر سائل بن کر آتے تھے۔ لوگوں نے سابق صدر محمد ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کو آپ کے درِ دولت پر آتے دیکھا۔ وہ اگر چاہتے تو ایک اشارہ ابرو پر حاکمانِ وقت سے جو چاہتے حاصل کر سکتے تھے مگر استغناء اور شان بے نیازی آپ کے کردار سے جھلکتی تھی جو کسی اہل دولِ سے رسم وراہ رکھنے میں حائل تھی۔ چشم فلک نے بار ہا منظر دیکھا کہ دنیادار لوگ بار ہا آپ کے دروازے پر آتے لیکن آپ نے کسی سربراہ، حاکم، امیر کے دروازے پر جانے کا سوچا بھی نہیں۔

آٹھواں وصف: اتباع شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ناموسِ رسالت کی حمیت

حضرت خلقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکمل نمونہ تھے۔ دُنیااسلام، شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ناموسِ رسالت کی غیرت و حمیت آپ کے ریشے ریشے میں رچی بسی ہوئی تھی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی برداشت نہ کرتے تھے۔ اگر کسی کی طرف سے دریدہ دہنی کا ارتکاب دیکھتے تو اس وقت آپ کی رگِ حمیت بھڑک اٹھتی اور آپ کا غصہ و جلال دیدنی ہوتا۔

نواں وصف:کمال درجہ وصفداری تقوی اور پرہیز گاری

آپ زہد و ورع، تقویٰ و پرہیزگاری، پابندی شریعت اور اتباع سنت میں استقامت کے کوہِ گراں تھے۔ آپ کی پوری زندگی اطاعتِ حق اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مطابعت کا نمونہ تھی، طہارت، تقویٰ و پرہیزگاری کے اتنے عظیم پیکر تھے کہ آپ کا ظاہر بھی آپ کے باطن کی طرح بے داغ صاف ستھرا اور اجلا ہوتا تھا۔ حددرجہ وصفدار تھے، کبھی آپ کے ساتھ تنہائی کے لمحات میسر آتے تو مجھ پر اتنی شفقت فرماتے جو بیان سے باہر ہے۔ مجھے طاہر کہہ کر پکارنا آج بھی یاد آتا ہے تو کان آج بھی اس پکار کو ترستے ہیں۔ وہ تنہا ایسی ہستی تھی جو میرے لیے شفقت پدرانہ کے بے پناہ جذبات رکھتی، میری سماعت میں آج بھی وہ شیریں الفاظ رس گھولتے ہیں، ہمیشہ سفید لباس زیب تن کئے رہتے جس پر کبھی کوئی ہلکا سا دھبہ یا داغ نہ ہوتا۔ تقوی اور پرہیزگاری کا اتنا خیال رکھتے کہ اتباع سنت اور خلقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا اوڑھنا بچھونا ہوتا تھا، پوری زندگی ظاہری و باطنی طہارت کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔

دسواں وصف: خوش اخلاقی اور حقوق العباد کی پاسداری

حضرت انتہائی خلیق، خوش مزاج اور خوش اخلاق تھے۔ آپ کے چہرہ مبارک پر ہر وقت تبسم کھلتا رہتا، نیم وا لبوں پر اکثر مسکراہٹ رہتی جو ایک جمال آفریں کیفیت کی آئینہ دار تھی، جب بھی آپ کسی مرید یا عقیدت مند سے بات کرتے تو شفقت پدری بولتی محسوس ہوتی۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیتے، جو بات کہتے شائستگی اور اخلاق کے دائرے کے اندر ہوتی اور اگر کسی پر غضبناک بھی ہوتے تو خلافِ حق اور ظلم و زیادتی کی بات پر ہوتے ورنہ وہ ہر ایک کے لئے سراپا رحمت اور سراپا شفقت تھے۔ نرمی و شفقت اور اخلاق کے ساتھ ملتے، کسی ملاقاتی سے مصافحہ کرتے تو پورا ہاتھ ملاتے اور ہمہ تن متوجہ ہوتے۔ آپ کی صحبت میں بیٹھنے والا ہر شخص یہ سمجھتا کہ مجھ پر سب سے زیادہ شفیق ہیں۔ مجلس میں ایک ایک آدمی پر نظر ہوتی۔ آپ کی نگاہیں ہر ایک کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہوتیں سب سے یکساں محبت و عاطفت سے پیش آتے۔

گیارہواں وصف: فراست و بصیرت

ایک خاص خوبی جو حضور غوث پاک کی نسبت سے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ آپ کی سوچ اور فکر میں بہت وسعت اور کشادگی تھی، تنگ نظری نام کو نہ تھی۔ آپ کے انداز میں بے پایاں حکمت و تدبر، بصیرت اور فراست تھی جو سالہا سال کے تجربات کا حاصل تھی۔ کسی کی چھوٹی سی کہی ہوئی بات سن کر فوراً تہہ تک پہنچ جاتے۔

آپ کی بصیرت اور فہم و فراست کے مظاہرے کئی بار دیکھنے کو ملے۔ جب آپ نے مجھے تنہائی میں بٹھا کر نصیحت فرمائی کہ فلاں شخص ایسا ہے اس سے بچ کے رہنا، وہ ایسا ہے اس سے ایساتعلق رکھنا۔ آپ میری تربیت فرماتے رہتے تھے، اللہ کی عزت کی قسم! آپ نے اپنے زندگی بھر کے تجربات کی روشنی میں جس کسی کے بارے میں جو کچھ فرمایا ان کو بلا کم و کاست ویسا ہی پایا۔ میرے شیخ کامل صوفیانہ بصیرت کے مالک تھے، طبیعت میں اعتدال تھا، انتہا پسندی نام کو نہ تھی، وسعتِ نظری تھی، کشادہ ظرفی تھی۔

آخری بات ایک علمی مسئلے پر پاکستان کے بیشتر علماء نے میرے خلاف فتوے دیئے۔ آپ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا کہ علمی بحث اپنی جگہ کسی سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے۔ ان میں سے اکثر لوگ آپ سے حسد کرتے ہیں ان کے منہ نہ لگیں۔ ایسی باتوں سے جو خلفشار کا موجب بنیں، بچنا چاہیے۔حضور قدوۃ الاولیاء کے اخلاق عالیہ کے یہ گیارہ گوشے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان کا صحیح خوشہ چین بنائے اور ہم ان کے فیض سے اپنے دامن کو مالا مال کرتے رہیں۔