القرآن: نیکیوں اور گناہوں کے حوالے سے لوگوں کے اَحوال

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے:

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ. فَهُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَةٍ. وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ. فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ.

(القارعة، 101، 6۔9)

’’پس وہ شخص کہ جس (کے اعمال) کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہ خوشگوار عیش و مسرت میں ہوگا اور جس شخص کے (اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوں گے تو اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم کا گڑھا) ہوگا‘‘۔

بروزِ قیامت کفار اور مشرکین کا طبقہ ایمان نہ لانے کے سبب جہنم کا ایندھن بنے گا مگر مومنین اور زندگی میں نیک اعمال کرنے والوں کے نجات اور عذاب کے حوالے سے درج ذیل طبقات ہوں گے:

1۔ پہلا طبقہ: بعد العذاب مستحقِ جنت

بروزِ قیامت مومنین کا ایک طبقہ وہ ہوگا جو حساب و کتاب کے نتیجے میں اپنے حصے کا عذاب بھگتنے کے بعد جنت کے حقدار قرار پائے گا۔ یہ طبقہ اگرچہ ایمان لایا اور نیک اعمال کیے مگر اس کے ساتھ ساتھ گناہ، بدکاریاں، معصیت کاری، نافرمانیاں اور مظالم بھی کیے۔ لہذا عدل یہ ہے کہ وہ اپنے کئے گئے گناہوں کی سزا بھگتیں۔ یہ طبقہ چونکہ کلمہ گو اور اہلِ ایمان ہیں اس لیے اپنے حصے کا عذاب بھگت لینے کے بعد بلآخر اُن کی بخشش ہوگی اور یہ بعد العذاب جنت میں جائیں گے۔

2۔ دوسرا طبقہ: بعدالحساب مستحقِ جنت

مومنین کا دوسرا طبقہ وہ ہوگا جو جنت میں بغیر عذاب کے جائے گا مگر اس طبقہ کا حساب و کتاب ضرور ہوگا۔ یعنی اہلِ ایمان کا یہ طبقہ جہنم میں نہیں جائے گا مگر اُن کا حساب ہو گا۔ وہ اپنے حساب میں اپنے رب العزت کے فضل و کرم کے ساتھ بخشش کے حقدار قرار دیئے جائیں گے۔ اس طبقہ کی اطاعت کا پلڑا بھاری ہوگا، جس کے سبب یہ بعد الحساب جنت کے حقدار قرار پائیں گے۔

جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے پلڑے میں ہے ہی کچھ نہیں۔ اس پلڑے میں کچھ نہ کچھ نافرمانیاں اور گناہ ہوتے ہیں لیکن یہ پلڑا پہلے پلڑے کے مقابلے میں ہلکا ہوتا ہے۔ اسی بات کو قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے:

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ. فَهُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَةٍ. وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ. فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ.

(القارعة، 101، 6۔9)

’’پس وہ شخص کہ جس (کے اعمال) کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہ خوشگوار عیش و مسرت میں ہوگا اور جس شخص کے (اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوں گے تو اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم کا گڑھا) ہوگا‘‘۔

یعنی اہلِ جنت کیلئے کہا کہ ان کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا اور گناہوں کا پلڑا ہلکا ہوگا جبکہ اہلِ جہنم کے لیے کہا کہ ان کے گناہوں، نافرمانیوں اور معصیتوں کا پلڑا بھاری ہوگا اور نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا۔

پس دوسرا طبقہ وہ ہو گا جن کا حساب ہوگا، ان کے اعمال تولے جائیں گے، حساب دینے کے یہ لمحات اُن پر بڑے بھاری گزریں گے مگر اطاعات زیادہ ہوں گی لہذا بخشش و مغفرت اور جنت کی ڈگری عطا کردی جائے گی۔

3۔ تیسرا طبقہ: بغیر حساب و عذاب مستحقِ جنت

مومنین میں سے تیسرا طبقہ وہ ہوگا جو بغیر حساب کے سیدھا جنت میں جائے گا۔ عذاب تو دور کی بات رہی، اُن کا حساب بھی نہیں ہوگا اور بغیر حساب و کتاب کے یہ لوگ جنت میں بھیجے جائیں گے۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کے مختلف عدد بیان ہوئے ہیں۔ اِس زمرے میں داخل ہونے کا حق اُن کو ملے گا جو ہر روز خود احتسابی کرتے تھے، ہر روز اپنے آپ کو تولتے اور اپنے اعمال و احوال کے خود محاسب بنتے تھے۔

مذکورہ بالا طبقات کے حاملین کون لوگ ہیں؟

مذکورہ بالا طبقات میں کون کون سے لوگ شامل ہوں گے؟ اس حوالے سے اگر قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور ائمہ کے اقوال کا مطالعہ کریں تو اِس لحاظ سے چار طبقات ہیں۔ اِن چار طبقات کی تفصیل علامہ ابوالحسن الماوردی نے اپنی کتاب ’’ادب الدنیا و الدین‘‘ میں بیان کی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

1۔ اوامر و نواہی کا پابند طبقہ

ان طبقات میں سے پہلا طبقہ وہ ہے جو ہر روز اپنا محاسبہ اور خود احتسابی کرتا ہے۔ یہ طبقہ اللہ رب العزت کے اوامر و احکامات پر لبیک کہتا ہے اور نیکی، اطاعت، عبادت اور بھلائی کے تمام کاموں کو انجام دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حسبِ استطاعت گناہوں، معاصی اور نافرمانیوں سے بھی اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ جن لوگوں میں اوامر کی پابندی اور نواہی سے پرہیز دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، وہ اللہ رب العزت کے کاملاً فرمانبردار ہیں۔

علامہ ماوردی اس طبقے کے حوالے سے لکھتے ہیں:

فَمِنْهُمْ مَنْ یَسْتَجِیبُ إلَی فِعْلِ الطَّاعَاتِ، وَیَکُفُّ عَنْ ارْتِکَابِ الْمَعَاصِی.

(ماوردی، ادب الدنیا والدین، 1: 97)

جنہوں نے فعل طاعت پر لبیک کہا اور ارتکابِ معصیت سے رُک گئے۔ یہ طبقہ جزا اور ثواب کے حوالے سے سب سے اعلیٰ درجے کا حق دار ہے۔

اس طبقہ کے لوگوں کو دوہرااجر و ثواب اور دوہری قربت اور قدرو منزلت ملے گی، اس لیے کہ ایک طرف وہ اللہ کے اوامر کو بجا لائے اور دوسری طرف اللہ کے نواہی سے بھی اجتناب کیا، لہذا دوہرے اجر کے حقدار قرار پائے۔

2۔ نیکی سے گریز اور نافرمانی کا ارتکاب کرنے والا طبقہ

جس طرح پہلا طبقہ ایک کمال پر ہے کہ وہ اوامر و نواہی دونوں کا پابند ہے، اسی طرح دوسرا طبقہ دوسری انتہا پر ہے۔ اس طبقے کے بارے علامہ ماوردی کہتے ہیں:

مَنْ یَمْتَنِعُ مِنْ فِعْلِ الطَّاعَاتِ وَیُقْدِمُ عَلَی ارْتِکَابِ الْمَعَاصِی.

یہ طبقہ نیکی، اطاعت، عبادت، تقویٰ، خیر، بھلائی اور فرمانبرداری کے امور سے گریز کرتا ہے یعنی انہیں انجام نہیں دیتا اور گناہوں، نافرمانی، معصیت ،ظلم اور ناانصافی کی طرف اُس کے قدم بڑھتے ہیں۔

علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ یہ لوگ أَخْبَثُ أَحْوَالِ الْمُکَلَّفِینَ ہیں۔ یعنی جتنے لوگوں سے جواب طلبی اور حساب کتاب ہوگا ، ان میں سے اس طبقہ کے لوگ سب سے بد ترین حال کے مالک ہوں گے۔

اس طبقہ کے لوگوں کو دوہرا عذاب ہوگا۔ اللہ کے اوامر و احکام بجا نہ لانے پر عذاب اور گناہ و معصیت کے ارتکاب پر بھی عذاب۔ گویا ان کے لیے ایک عذاب اس لیے ہوگا کہ انہوں نے اللہ کے احکام کو ہلکا سمجھا اور بے پرواہی کی جبکہ دوسرا عذاب اس لیے ہو گا کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کرنے میں جرأت و جسارت کی۔

اللہ کی نافرمانی پر جرأت کا ارتکاب کیوں؟

توجہ طلب چیز یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ، قبر، روزِ قیامت، سزا و جزا، میزان ہر عمل کے لکھے جانے اور جنت و دوزخ پر یقین رکھنے کے باوجود اپنی زندگی میں اللہ کی نافرمانی کی جرأت کیوں کرتا ہے؟

  • جلیل القدر تابعی ابن شبرمہ بیان کرتے ہیں کہ

عَجِبْت لِمَنْ یَحْتَمِی مِنْ الطَّیِّبَاتِ مَخَافَةَ الدَّاءِ کَیْفَ لَا یَحْتَمِی مِنْ الْمَعَاصِی مَخَافَةَ النَّارِ.

(ماوردی، ادب الندیا والدین، 1: 97)

تعجب ہے اُس شخص پر جو بیماری سے بچنے کے لیے کئی پاک اور حلال چیزوں کے کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہے مگر کتنی حیرت ہے کہ وہی لوگ اپنے آپ کو دوزخ اور آگ سے بچانے کے لیے گناہوں اور معاصی سے پرہیز نہیں کرتے۔

زندگی میں ہم عموماً دیکھتے ہیں کہ شوگر کے مریض چینی اور میٹھی اشیاء سے پرہیز کرتے ہیں، کلیسٹرول بڑھ جانے کے ڈر سے کئی لوگ گھی اور تیل میں بنی اشیاء نہیں کھاتے اور اسی طرح ہم مختلف امراض سے بچنے کے لیے بہت سی حلال اور طیب اشیاء سے پرہیز کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ جاننے کے باوجود کہ جھوٹ، خیانت، غیبت، چغلی، حسد، لالچ، ظلم، حرام خوری اور دیگر گناہ دوزخ میں لے جائیں گے مگر ہم ان گناہوں سے پرہیز نہیں کرتے بلکہ جرأت سے انہیں سرانجام دیتے رہتے ہیں۔

ابن صباوۃ فرماتے ہیں کہ

إنَّا نَظَرْنَا فَوَجَدْنَا الصَّبْرَ عَلَی طَاعَةِ اللَّهِ تَعَالَی أَهْوَنَ مِنْ الصَّبْرِ عَلَی عَذَابِ اللَّهِ تَعَالَی.

(ماوردی، ادب الدنیا والدین، 1: 97)

ہم نے زندگی کے احوال و معاملات پر غور و خوض کیا تو ہم نے دیکھا کہ اگر بندہ اللہ کی اطاعت پر صبرکرلے تو یہ صبر اللہ تعالیٰ کے عذاب پر صبر کرنے سے زیادہ آسان ہے۔

یعنی اگر بندہ اللہ کی اطاعت پر پختگی سے عمل پیرا ہوجائے، اللہ کی اطاعت کو زندگی میں حرزِ جاں بنالے تو اطاعتِ الہٰی پر صابر رہنا اور اُس پر قائم و دائم رہنا، قیامت کے دن اللہ کے عذاب پر صبر کرنے کی نسبت بہت آسان ہے۔ دوزخ میں عذاب کی شدت اِتنی ہو گی کہ اُس پر کوئی صبر نہیں کر سکے گا اور اُس کو برداشت کرنا بڑا مشکل ہوگا جبکہ اطاعت ، اللہ کی عبادت، نیکی، بھلائی اور خیرات کے کاموں کو اگر مستقل طور پرجاری رکھنے پر تھوڑی مشقت آ بھی جاتی ہے تو اُسے برداشت کر لینا بہت آسان ہے۔ اگر بندہ اس مشکل کا اللہ کے عذاب کے ساتھ موازنہ کرے کہ قیامت کے دن دوزخ کے عذاب کی شدت کو برداشت کرنا آسان ہے یا آج اللہ رب العزت کی اطاعت اور نیکی میں مشقت برداشت کرنا آسان ہے تو لازمی بات ہے کہ ایک بندۂ مومن اطاعت و عبادات میں آنے والی مشقت کو برداشت کرنے کو ترجیح دے گا۔

حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ سے کہاگیا:

رَضِیَ اللَّهُ عَنْک.

اللہ آپ سے راضی ہو۔

حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا:

کَیْفَ یَرْضَی عَنِّی وَلَمْ أُرْضِہِ.

(ماوردی، ادب الدنیا والدین، 1: 97)

وہ مولا مجھ سے کیسے راضی ہو گا؟ جب میں خود اس سے راضی نہیں ہوں۔

یعنی جب بندہ اُس کے حکم کی تعمیل نہیں کرتا، اُس کے منع کرنے کا احترام نہیں کرتا ،اُس کے فیصلے کی قدر نہیں کرتا،و ہ جو چاہتا ہے بندہ اسے نہیں چاہتا، الغرض بندہ اپنی مرضی سے زندگی گزارتا ہے اور اُس کے قضا ، امر ،حکم سے راضی نہیں تو رب اس سے کیسے راضی ہو گا؟ دوسرے طبقے والوں کا یہی حال ہوتا ہے، اس لیے وہ سراسر خسارہ میں ہوتے ہیں۔

3۔ نیکیوں کا پابند مگر نافرمانیوں کا بھی مرتکب طبقہ

پہلے دو طبقات کے احوال واضح ہیں مگر تیسرے طبقے کے حال عجیب ہیں اور کثرت کے ساتھ لوگ ان حالات میں گرے اور پھنسے ہوئے ہیں۔ تیسرے طبقہ کے بارے میں علامہ ماوردی لکھتے ہیں:

مَنْ یَسْتَجِیبُ إلَی فِعْلِ الطَّاعَاتِ وَیُقْدِمُ عَلَی ارْتِکَابِ الْمَعَاصِی.

(ماوردی، ادب الدنیا والدین، 1: 97)

اس طبقہ میں شامل لوگ نیکیاں بھی کرتے ہیں ،فرائض، واجبات، سنتیں، نوافل بھی بجا لاتے ہیں، حج، عمرہ، نیک کام، اعتکاف، توبہ کی مجلس میں شرکت، خیرات و حسنات کی انجام دہی، روزہ، زکوٰۃ، صدقہ و خیرات کی ادائیگی الغرض اطاعات اور خیر کے امور کی انجام دہی میں پیش پیش رہتے ہیں مگر گناہوں کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ یعنی افعالِ خیر کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ زندگی میں گناہ، معصیت، نافرمانیاں، کبائر و صغائر، ظلم، حق تلفی، ناانصافی، غیبت، چغلی، برائی، جھوٹ، تکبر، عجب، عیب جوئی، نفرت و حقارت، تہمت، لغو گوئی، لالچ، حرص، گالی گلوچ اور خیانت بھی کرتے ہیں۔ وضع قطع بھی دینی رکھتے ہیں، دینی احکام کو بجا بھی لاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ معاملات کی انجام دہی میں عدمِ اطاعتِ الہٰی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ گویا ان کی زندگی اِن دو قسموں کے معاملات کے ساتھ بھری ہوتی ہے۔

یہ ایک مشکل (critical) کیس ہے۔ chronic infection ہے،اِس سے نجات پانے کی ضرورت ہے۔ اللہ رب العزت کی ایسی نافرمانی اور اِس جرأت پر اس طبقے کے لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ اس طبقے میں شامل لوگوں کی نیکیوں اور اعمالِ حسنہ کا کیا بنے گا جو وہ سرانجام دیتے رہے ہیں؟ یاد رکھیں! یہ لوگ جس قسم کی برائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، یہ برائیاں ان کی نیکیوں کو کھاتی چلی جاتی ہیں، جب آدمی قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہوگا تو اس کے وہ تمام گناہ اور نافرمانیاں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے ،لوگوں پر مظالم اور لوگوں کی حق تلفیوں سے ہے، ان تمام کا حساب دیئے بغیر اور عذاب چکھے بغیر نجات ممکن نہیں۔

(1) حق تلفی کی تلافی کے بغیر نجات نہیں

حق تلفی کا ایک وسیع مفہوم ہے۔ صرف کسی کا مال چرا لینا، ڈاکہ ڈال لینا، یا کسی کو جان سے مار دینا حق تلفی نہیں ہے بلکہ کسی کی غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، تہمت لگانا، بدگمانی کرنا، کسی کی عزت کے خلاف کچھ کہنا، کسی کا دل توڑنا اور کسی کی بے عزتی کرنا بھی حق تلفی کہلاتا ہے۔ الغرض بہت سارے ظاہری و باطنی امور حق تلفی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی آنکھوں سے دکھائی دینے والے امور بھی حق تلفی میں شمار ہوتے ہیں اور وہ امور جن کا ارتکاب دل اور نیتوں کے ذریعے ہوتا ہے، وہ بھی حق تلفی میں شمار ہوتے ہیں۔

اس طبقے میں شامل جب کوئی آدمی نیکیاں اور حق تلفی کی صورت میں کیے گئے گناہ لے کر قیامت کے دن حاضر ہوگا تو سب سے پہلے اُس کے نیک اعمال نہیں تولے جائیں گے بلکہ سب سے پہلے ان اعمال کا حساب لیا جائے گا جن کا اُس نے دنیا میں بدلہ نہیں چکایا تھا اور یعنی جس کسی کی بھی اس نے جس بھی طرح کی حق تلفی کی تھی مگر اس حق تلفی پر تلافی نہیں کی تھی، اُس کی امانت واپس نہیں کی تھی، معافی نہیں مانگی تھی، لوٹا ہوا مال واپس نہیں کیا تھا، جس کی بے عزتی کی، اس کی عزت بحال نہیں کی تھی، پہلے جھوٹ بولا اور پھر سچ بیان نہیں کیا تھا، کسی پر لگائی ہوئی تہمت کو واپس نہیں لیا تھا، یعنی تلافی نہیں کی تھی تو اب قیامت والے دن چونکہ تلافی کا وقت گزر چکا ہوگا، لہذا اب تلافی کی صورت یہ ہوگی کہ اُس کی ساری نیکیاں یکے بعد دیگرے فرشتے اِس کے نامۂ اعمال سے نکال کر اللہ کے حکم سے اُن لوگوں کے نامۂ اعمال میں ڈالتے جائیں گے جس سے اس نے دنیا میں زیادتی کی ہوگی یا جن کی حق تلفی کی ہوگی۔ حتی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اِس بندے کے نامہ اعمال میں ایک نیکی بھی نہیں بچے گی اور اس کا پلڑا ہلکا ہوکر اوپر چلا جائے گا۔

آقا علیہ السلام نے ایک روز صحابہ کرامl سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس اور کنگال کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: جس کے پاس کھانے کے لیے لقمہ نہیں ہے اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :نہیں، وہ مفلس نہیں ہے بلکہ مفلس وہ ہے جس کے نامۂ اعمال میں نیکیاں بھی تھیں اور ظلم، گناہ اور حق تلفیاں بھی تھیں۔ بعد ازاں اُس کی ساری نیکیاں تلافی کے لیے اُس شخص کو دے دی گئیں جس کی اس نے دنیا میں حق تلفی کی تھی اور اِس طرح ہر ایک کی تلافی کرتے کرتے اس کے اپنے نامہ اعمال میں کچھ بھی نہ بچا۔یعنی جس کا دامن خالی ہوگیا اور ساری نیکیاں ردِ مظالم میں چلی گئیں اور صرف گناہ ہی گناہ بچ گئے، اصل مفلس وہ ہے اور قیامت کے دن اُس کا حشر دیکھنے والا ہو گا۔

اسی لیے ایک اور موقع پر آقا علیہ السلام نے فرمایا:

أَقْلِعُوا عَنْ الْمَعَاصِی قَبْلَ أَنْ یَأْخُذَکُمْ اللَّهُ فَیَدَعَکُمْ هَتًّا بَتًّا.

لوگو! اپنے آپ کو گناہوں کی زندگی اور گناہوں کی آلودگی سے بچاؤ، قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس دن اللہ رب العزت تمہیں پکڑے گا اور پھر (تلافی کے لیے تمہارا محاسبہ کرے گا اللہ کا عدل) تمہیں توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دے گا۔

(2) شہوات اور شکوک و شبہات سے اجتناب کا حکم

اکابر اولیاء اللہ کہا کرتے تھے:

أَفْضَلُ النَّاسِ مَنْ لَمْ تُفْسِدْ الشَّهْوَةُ دِینَهُ، وَلَمْ تَتْرُکْ الشُّبْهَةُ یَقِینَهُ.

(ماوردی، ادب الدنیا والدین، 1: 97)

اچھے لوگ وہ ہیں جن کی شہوت اور نفس کی خواہش اُن کے دین کو اور شکوک و شبہات اُن کے یقین کو برباد نہ کرے۔

تیسرے طبقے میں وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے نیکیوں اور گناہوں کو خلط ملط کر دیا۔ یعنی نیکیاں بھی کرتے ہیں اور ظلم، زیادتی، گناہ اور نافرمانیاں بھی کرتے ہیں جبکہ حدیث مبارکہ میں افضل لوگ انہیں قرار دیا گیا جو نیکیوں اور گناہوں کو خلط ملط نہیں کرتے اور شکوک و شبہات کی بناء پر اپنے یقین کو برباد نہیں کرتے۔

خواہشِ نفس اور شکوک و شبہات یہ دو چیزیں انسان کو کھا جاتی ہیں۔ آدمی اچھا بھلا نیکی کر رہا ہے، دین اور انسانیت کی خدمت کر رہا ہے، دعوت و تبلیغ کر رہا ہے، اللہ کے دین، بھلائی اور خیر کے کام کررہا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اُس کی زندگی میں شکوک و شبہات بھی پل رہے ہیں۔ وہ جو نیکی کر رہا ہے، اُس کو خود اس پر یقین نہیں ہوتا کہ جو میں کہہ اور سن رہا ہوں، عین اِسی طرح ہوگا۔ اگر اسے اِس کا یقین ہو جائے تو وہ کبھی گناہ کو اپنے قریب بھی نہ آنے دے۔ جب بندہ نیکیوں کے ساتھ گناہ کو داخل کرتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس کے اندر شُبہات ہیں جو یقین کے مرتبے اور خالصیت کو گدلا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں پر اعمالِ حسنہ کے اثرات اور تاثیر مرتب نہیں ہوتی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ لوگ افضل ہیں جن کی نفسانی خواہشات اُن کے دین کو برباد نہیں کرتیں اور جن کے شبہات اُن کے یقین کومتزلزل نہیں کرتے۔

ہم زندگی میں بہت سے ایسے لوگ دیکھتے ہیں کہ جو نیکیاں کرتے نظر آتے ہیں مگر پتہ نہیں چلتا کہ نیکی کے ساتھ ان کی commitmentکی nature کیا ہے؟ motivation کیا ہے؟ اُن کے ساتھ اُن کے حسبِ خواہش معاملہ ہوتا رہے تو وہ خوش رہتے ہیں لیکن اگر اُن کی مرضی کے برخلاف معاملہ ہوجائے تو وہ عملِ خیر ہی سے رک جاتے ہیں۔

مثلاً: ایک آدمی ہمارا بڑا تابع فرمان ، اطاعت گزار ہے، عزت، ادب اور تعظیم کرتا ہے مگر یہ سب کچھ وہ اُس وقت تک کرتا ہے جب تک ہم اُس کی خواہش کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں اور جب ہم اس کی خواہش کے برعکس اس سے معاملہ کرتے ہیں، مثلاً: اس کی مالی مدد کرنے سے کسی سبب رُک گئے ہیں تو وہ ادب، تعظیم، اطاعت سب کچھ چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب تک ہم اُس کی مالی مدد کرتے رہے تو وہ ہماری تعریف میں رطب اللسان رہا، وہ تعریف درحقیقت ہماری نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ اپنی غرض اور طمع کی وجہ سے ایسا کر رہا تھا۔ گویا کسی لالچ، مفاد یا خوف سے نجات کی خواہش نے اسے ہمارے ساتھ وابستہ کررکھا تھا اور وہ ہماری تعریف و اطاعت میں سرگرداں تھا مگر جونہی ہمارے سے وابستہ اس کے مفادات، لالچ یا خوف ختم ہوا تو اب اس کا ہمارے ساتھ پہلے والا برتاؤ نہ رہا۔ اسی طرح اگر کسی کو منصب، کوئی ذمہ داری یا آفس دے رہے ہیں جس میں اُس کی عزت اور تکریم ہے تو وہ ہمیں واہ واہ کہے گا مگر جس لمحے ہم نے اُس سے منصب اور ذمہ داری واپس لے لی، اسے تبدیل کر دیا اور وہ ذمہ داری کسی اور کو دے دی تو اسی وقت ہی ہمارے ساتھ اُس کی عقیدت بھی چلی جائے گی۔

معلوم ہوا کہ اس کی عقیدت کی motivation، ہماری تعریف کرنے کے پیچھے اس کا محرک اور بنیاد اس کا لالچ اور مفاد تھا لیکن اگر کسی منصب، عہدہ، مال و دولت کے مفاد، لالچ، خوف کے بغیر بھی اطاعت، فرمانبرداری، تعریف، تعظیم اور عزت کا وہی رشتہ برقرار رہے جو پہلے تھا اور اس حالت میں تغیرنہ آئے تو یہ استقامت، صدق اور اخلاص ہے۔

(3) امتحان اور آزمائش کا وقت کون سا ہے؟

کسی سے اُس کی خواہش کے برعکس معاملہ ہوجانا اور کسی سے وابستہ مفاد کا ختم ہوجانا، درحقیقت وہ وقت ہے جسے آزمائش، ابتلاء اور امتحان کہا جاتا ہے کہ کیا اب اس کا اندر متغیر ہوتا ہے یا یہ استقامت سے قائم رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ.

(البقرة، 2: 124)

’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں‘‘۔

ابراہیم علیہ السلام کو ان کے صدق، اخلاص، سچی وفاداری، حقیقی تابعداری نے امام الانبیاء بنایا کہ ہر حال میں اللہ کے سچے اور مخلص بندے تھے۔ جب آگ میں بھی پھینک دیا تو اللہ سے تعلق کی نوعیت میں تغیر نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرشتے نے کہا کہ اگر آپ مجھے کہیں تو میں آپ کے لیے نمرود کی جلائی ہوئی اس آگ کو بجھا دوں؟ا آپ نے فرمایا: اگر تو اپنے طور پر میری مدد کرنا چاہتا ہے تو مجھے تیری کوئی حاجت نہیں اور اگر اللہ کے امر سے یہ کہہ رہا ہے تو اللہ میرے حال سے تم سے زیادہ واقف ہے۔اس آگ کے اندر کھڑا ہو کر بھی میرا تعلق اُس مولا کے ساتھ وہی ہے جو پہلے تھا۔

یعنی جب آگ میں نہیں پھینکا گیا تو اس وقت بھی میں اپنے مولا سے راضی تھا اور اب جب آگ میں پھینکا گیا ہوں تو میرے دل کی اب بھی وہی کیفیت ہے کہ میں اپنے مولا سے راضی ہوں۔ اسی طرح جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آخری عمر میں عطا ہونے والے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور اپنی بیوی ہاجرہh کو بیابان میں چھوڑنے کا حکم ہوا اور بعد ازاں اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ہوا تب بھی اللہ کے ساتھ تعلق، صدق، وفاداری، اخلاص، چاہت، حلاوت اور لذت وہی رہی جو ان احکام کے ملنے سے پہلے تھی۔

سمجھانا مقصود یہ ہے کہ ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور لوگوں سے نیکیاں کرنے کے معاملے میں ہر حال میں ایک جیسا ہونا چاہئے۔ اللہ کی بارگاہ سے انسان کو جو کچھ مقدر ہے، ہر حال میں اسی پر راضی رہنا اور اس طرح بندوں کے ساتھ بھی ہر حال میں نیکیوں کے معاملہ کو جاری رکھنا خواہ اس کا عمل ہماری خواہشِ نفس کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ ہمارا اللہ اور اس کی مخلوق کے ساتھ تعلق ریت پر قائم تھا اور اس تعلق کی حقیقت کوئی نہ تھی۔ بندہ کا اپنے مولا کے ساتھ تعلق ریت پر قائم ہونے سے مراد یہ ہے کہ بندہ مصیبتوں اور مشکلات میں اللہ سے شکوہ و شکایت کرتا ہے۔ ہاں اگر اُ س کا یقین اِتنا کامل ہو کہ اس کا حال متغیر ہی نہ ہو تو پھر وہ ہر وقت صدق، اخلاص، اللہ کی اطاعت اور قربت کو قائم رکھتا ہے اور اُس کی معصیت اور ناراضگی سے ڈرتا ہے۔

حضرت فضیل ابن عیاض ؒسے کہا گیا :

مَا أَعْجَبُ الْأَشْیَاءِ؟

آپ کے نزدیک عجب ترین چیز کیا ہے ؟

فَقَالَ: قَلْبٌ عَرَفَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ عَصَاهُ.

فرمایا: وہ دل بڑا عجیب ہے جو اللہ کو پہچان لے اور پھر اُس کی نافرمانی کرے۔

(ماوردی، ادب الدنیا والدین، 1/97)

یعنی وہ پہچان لے کہ وہ میرا مولا ہے، مجھے رزق دینے والا، مجھے پیدا کرنے والا، مجھے عزت دینے والا ،مجھ پر کرم کرنے والا، مجھے مال دینے والا ،سہولت دینے والا، مجھے نعمتوں سے نوازنے والا، اطاعت پر مجھے اپنا قرب اور جنت عطا کرنے والا ہے اور معاصی و نافرمانی پر عذاب دینے والا ہے، یہ سب کچھ جان لے پھر بھی اس کی نافرمانی کرے، اِس سے بڑی عجیب چیز دنیا میں کوئی نہیں۔

  • ایک شخص نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

أَیُّمَا أَحَبُّ إلَیْک رَجُلٌ قَلِیلُ الذُّنُوبِ قَلِیلُ الْعَمَلِ، أَوْ رَجُلٌ کَثِیرُ الذُّنُوبِ کَثِیرُ الْعَمَلِ؟

ان دو میں سے کون سا شخص آپ کو زیادہ اچھا لگتا ہے: وہ شخص جس کے گناہ بھی کم ہیں اور عمل بھی کم ہیں یا وہ شخص جس کے عمل بھی زیادہ ہیں اور گناہ بھی زیادہ ہیں؟

حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا:

لَا أَعْدِلُ بِالسَّلَامَةِ شَیْئًا.

گناہ، اللہ کی نافرمانی اور دین کو نقص پہنچانے سے سلامت رہنا، اِس کے برابر کائنات میں کوئی شے نہیں ہے۔

یعنی بندہ اللہ کی اطاعت کرے اور نافرمانی کے ذریعے اُس اطاعت کو نقصان نہ پہنچنے دے۔ یہ سلامتی دین ، سلامتیِ قلب و روح اور سلامتیِ اطاعتِ الہٰی ہے۔ اِس سلامتی سے بہتر کوئی شے کائنات میں نہیں ہے۔ گویا اللہ جس کو نیکی کی توفیق دے دے پھر اُس پر واجب ہے کہ اس نیکی کی حفاظت کرے اور نیکی کی حفاظت یہ ہے کہ معصیت ، نافرمانی ،گناہ اور شر سے پرہیز کرے۔

  • اہل اللہ میں سے کسی کو کہا گیا:

مَا تَقُولُ فِی صَلَاةِ اللَّیْلِ؟

صلاۃ اللیل، قیام اللیل کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

اُنہوں نے جواب دیا:

خَفْ اللَّهَ بِالنَّهَارِ وَنَمْ بِاللَّیْلِ.

دن کے وقت اللہ سے ڈر اور رات کو سو جا۔

یعنی سارا دن اللہ کے خوف میں گزارنا اور رات راحت کی نیند پانا، یہ اس امر سے پسند ہے کہ رات کو بندہ نفل پڑھے اور دن خدا سے بے خوف ہو کر ظلم، معصیت، نافرمانی،حلال ترک کرنے اور گناہ کے ارتکاب میں گزارے۔

  • اہل اللہ میں سے کوئی سوئے ہوئے تھے تو کسی نے انہیں کہا:

أَهْلَکَکُمْ النَّوْمُ. فَقَالَ: بَلْ أَهْلَکَتْکُمْ الْیَقِظَةُ.

تمہیں نیند نے ہلاک کر دیا۔ اُس ولی اللہ نے کہنے والے کے حال کی طرف نظر کی اور پھر اسے فرمایا: تمہیں جاگنے نے ہلاک کر دیا۔

گویا جس آدمی کا جاگنا پاک اور اللہ کی اطاعت میں ہے تو وہ اللہ کو محبوب و مرغوب ہے، اُس کی ساری نیند بھی عبادت اور اللہ کی اطاعت میں ہے اور اگر رات کی نیند کے وقت میں بھی عبادت کرتاہے اور اطاعت بجا لاتا ہے تو وہ نور کے اوپر مزید نور حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ جس کا جاگنا اللہ کی اطاعت میں نہیں ہے، اُس کی نیند بھی ہلاکت ہے۔

4۔ نیکی اور برائی دونوں سے گریز کرنے والا طبقہ

چوتھے طبقے والوں کا حال بھی تیسرے طبقے والوں کی طرح نہ صرف عجیب ہے بلکہ لوگوں کی اکثریت اس میں گرفتار ہے۔ علامہ ماوردی فرماتے ہیں:

مَنْ یَمْتَنِعُ مِنْ فِعْلِ الطَّاعَاتِ، وَیَکُفُّ عَنْ ارْتِکَابِ الْمَعَاصِی.

(ماوردی، ادب الدنیا والدین، 1: 97)

وہ لوگ جو نیکی کے کام کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں اور برائی و معاصی کے ارتکاب سے بھی رکتے ہیں۔

یعنی نیکی کے کام بھی نہیں کرتے اور گناہ بھی نہیں کرتے۔ اس طبقے کے لوگوں کو بھی اللہ عذاب دے گا، اس لیے کہ اِنہوں نے اللہ کے احکام کو ہلکا جانا اور اس کو کھیل تماشہ سمجھا اور اللہ کے احکام کا یقین نہیں رکھا۔ گویا نیکی فرائض، واجبات، سنن، خیرات، حسنات اور اطاعت بجا نہیں لائے اور اللہ کے حکم کو رد کر دیا۔ دوسری طرف اگر یہ لوگ گناہ نہیں کرتے تو وہ اس کام سے اللہ کے حکم کی وجہ سے نہیں رکے بلکہ وہ اُن کی ایک اپنی approach اور سوچ ہے۔ان کے اس عمل میں خیر ہے مگر آخرت کا اجر نہیں۔ اگر وہ اللہ کا امر سمجھ کر گناہوں سے بچتا تو اُس سے پہلے وہ اللہ کا امر سمجھ کر اُس کے احکام اور اطاعت کو بجا لاتا۔ تاہم اِس طبقہ کے لوگوں کو ایک حصہ کا عذاب ملے گا اور ایک حصے کا عذاب نہیں ملے گا۔ اوامر کو بجا نہ لانے کا عذاب ملے گا اور گناہ کا ارتکاب نہ کرنے پر عذاب نہیں ملے گا مگر اس پر اُسے ثواب بھی نہیں ملے گا، اس لیے کہ اگر وہ اللہ کے امر کی اطاعت میں معاصی سے پرہیز کرتا تو اِس پرہیز پر اسے اجر و ثواب ملتا۔ وہ تو اپنے ذوق، سمجھ، approach humanitarian، کلچر یامعاشرے کے ڈر کی وجہ سے گناہوں سے بچا ہوا ہے، اس لیے یہ اُس کے لیے دنیا میں تو خیر ہے اور آخرت کے عذاب سے بھی بچ گیا مگرStill اطاعت بجا نہ لانے کا جو عذاب ہے اُس کے اوپر قائم ہے، اُس سے اپنے آپ کو اس سے نہیں بچایا۔

پہلے زمانوں کے اولیاء و صوفیاء میں سے ایک ولی اللہ ایک ایسے اجتماع میں خطاب کررہے تھے کہ اُن کے ایک طرف غنی لوگ تھے اور دوسری طرف فقیر اور محتاج لوگ تھے۔ انہوں نے اغنیاء اور مال داروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

یَا مَعْشَرَ الْأَغْنِیَاءِ لَکُمْ أَقُولُ: اسْتَکْثِرُوا مِنْ الْحَسَنَاتِ فَإِنَّ ذُنُوبَکُمْ کَثِیرَةٌ.

(ماوردی، ادب الدنیا والدین، 1: 100)

اے مال دارو! نیکیوں کی کثرت کروچونکہ تمہارے گناہ بہت ہیں۔

یعنی نیکیاں بہت ہوں گی تو گناہوں کی تلافی کا سامان پیدا ہوگا۔ پھر غرباء، مساکین، محتاج اور فقراء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

وَیَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ لَکُمْ أَقُولُ: أَقِلُّوا مِنْ الذُّنُوبِ فَإِنَّ حَسَنَاتِکُمْ قَلِیلَةٌ.

اے فقرائ! تم اپنے گناہوں کو کم کرو چونکہ تمہارے پاس نیکیاں کم ہیں۔

معلوم ہوا غریبی اور امیری پر آخرت کی نجات و فلاح اور جنت دوزخ کا مدار نہیں ہے۔ کوئی چیز کسی کے نام رجسٹرڈ نہیں ہے، نہ امیر کے لیے اور نہ غریب کے لیے۔ اگر غریب کے پاس نیکیاں کم ہیں اور گناہ کثیر ہیں تو اُس کی غربت اسے نہیں بچائے گی اور غریب ہونے کی وجہ سے اسے گناہوں کی معافی نہیں ملے گی۔ اسی طرح کوئی امیر ہے اور اُس کی نیکیاں کم اور گناہ کثیر ہیں تو اُس کی امارت اسے گناہوں سے معافی نہیں دلوائے گی۔ امیر کے پاس مال کی کثرت کئی ایسے گناہوں کا سبب بنتی ہے جو غریب کے لیے باعث نہیں بنتی، اس لیے اسے زیادہ نیکیاں کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، جبکہ دوسری طرف غریب مال کی کمی کی وجہ سے کئی طرح کی نیکیاں حاصل نہیں کر پارہا لہذا اسے اپنے گناہ کم کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔

امیر کے لیے کئی گناہوں کا سبب اس کا مال و دولت ہے جبکہ غریب کے لیے اور اسباب ہیں جو گناہ کے اسباب بن جاتے ہیں۔ اِس لیے کہ بعض اوقات بولنے، دیکھنے، سننے، سوچنے اور دل کی خواہشات سے بھی نیکیاں اور گناہ سر زد ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو اِن گناہوں اور نیکیوں کے سر زد ہونے کا علم نہ ہو مگر اللہ رب العزت کی نگاہ سے کچھ پوشیدہ نہیں۔

پس نیکیوں کے کرنے اورگناہوں سے اجتناب کے باعث یا نیکیوں اور گناہوں کو خلط ملط کرنے یا گناہوں کے کرنے اور نیکیوں کے نہ کرنے یا گناہوں اور نیکیوں دونوں کو نہ کرنے کے لحاظ سے لوگوں کے احوال اور طبقات قائم ہوتے ہیں۔ نیکیوں اور گناہوں کے حوالے سے توازن قائم کرنا دین کو مضبوط کرتا ہے اور توازن کا قائم نہ کرنا دین کو کمزور کرتا ہے۔ اِس لیے اس کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ آدمی جو نیکیاں کرے اور اطاعت بجا لائے اُن کو مکمل آداب کے ساتھ بجا لائے۔ اگر بندہ ادب کے ساتھ اطاعت بجا لائے اور اُس کے ساتھ حسنِ خلق رکھے تو وہ اطاعت از خود بُرائی ،معاصی اور گناہ کو اُس کی جڑ سے کاٹتی چلی جاتی ہے اور گناہوں کے وزن کو کم کرتی چلی جاتی ہے۔

(جاری ہے)