شیخ الاسلام کے اوصاف و کمالات

شفقت اللہ قادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری رواں صدی کی ایک عظیم شخصیت ہیں اور اس حقیقت کا اظہار ان کا ہمہ جہتی علم ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آپ علم و فضل کے اعتبار سے ہر محاذ پر اسلامی تعلیمات کے محافظ ہیں۔ آپ کی ان صلاحیتوں کا انکار سورج کے طلوع ہونے کے بعد اس کے طلوع ہونے سے انکار کرنے کے مصداق ہے۔ عشقِ الہٰی، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشقِ اہلِ بیت و صحابہ آپ کی زندگی کا جزوِ لاینفک بلکہ فطرتِ ثانیہ ہے جو بچپن سے آپ کے معمولاتِ زندگی میں شامل ہے۔

شیخ الاسلام کے نزدیک حقوق اللہ اولین ترجیح کے حامل ہیں جبکہ حقوق العباد اور حسنِ خلق حقوق اللہ کی قبولیت کا ذریعہ ہیں۔ علوم القرآن اور علوم الحدیث پر کامل دسترس شیخ الاسلام کا اثاثہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور فیض رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آئینہ دار ہے۔ اسی طرح شیخ الاسلام غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے فیوضات و کمالات کے امین اور وارثِ حقیقی بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے آپ دورِ حاضر کے چراغِ علم و عرفان ہیں جس کی روشنی سے ایک عالم منور و تاباں ہے۔ یہ شیخ الاسلام کی ذات ہی ہے جس نے نوجوانانِ ملت کو جہالت و بے راہ روی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر علم و عرفان کے نور سے مالا مال کیا۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام امتِ مسلمہ کا عظیم سرمایہ اور علم و فضل کا لازوال خزانہ ہیں۔ بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دورِ حاضر میں آپ اسلام کی حقیقی فکر کے پیامبر ہیں۔

شیخ الاسلام کے علم و عمل نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بحالی کے لیے ظلم و استبداد کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کرکے اسلام کا اصلی اور حقیقی چہرہ روشناس کرایا ہے۔ بچپن سے ہی ذہانت و فطانت اور روحانیت آپ کی معصوم چشمان سے عیاں ہوتی تھی۔ شیخ الاسلام فصاحت و بلاغت، فنِ خطابت، ہدایت یافتگی، ظاہر و باطن، قول و فعل، جلوت و خلوت میں یکتا و بے مثال ہیں۔ آپ سیرت و کردار کے آئینے میں اقبال کے شاہینِ لاہوتی، شاہ ولی اللہ کے علم و فضل کی حقیقی تصویر و تفسیر، غوث الثقلین کا کاسہ لیس اور ولایتِ علوی کے آئینہ دار، قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علائوالدین القادری الگیلانیؒ کے فیض امین اور فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری کی دعا کا ماحصل ہیں۔

آپ کے ایام علمی عقدہ کشائی اور ورق گردانی میں گزرتے ہیں اور راتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچہری، خلفائے راشدین، عرفا کاملین، صالحین، امام ہائے حقِ اہل بیت کی ہم نشینی میں گزرتی ہیں۔ آپ ظلم و استبداد کی چکی میں پسی ہوئی قوم کے نجات دہندہ اور مصلح، طاغوتی اور سامراجی قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار، مظلوم اور غریب کے حقوق کے علمبردار اور غاصب و جابر جاگیردار و سرمایہ دار کے خلاف اعلانِ جنگ ہیں۔ ادب و آداب، تہذیب و تمدن میں شائستگی اور عزم و ارادے میں پختگی، رحم دلی، تہجد گزاری، صوم و صلوٰۃ، تلاوتِ قرآن اور حفظِ مراتب کا خیال آپ کا ابتدائی تربیتی نصاب تھا۔

علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین آپ کا نصاب عشق ہے۔جیسا کہ آپ کے ربطِ الٰہی اور ربطِ رسالت کی کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔مزاح، لطافت اور خوش طبعی آپ کی طبیعت کا لازمی جزو ہے جبکہ کسی کی دل آزاری، حوصلہ شکنی اور ناموں کو بگاڑنے پر سرزنش کرتے اور اصلاح فرماتے ہیں۔ آپ نے قلوب و اذہان میں رکھے نفرتوں اور کدورتوں کے بت گرادیئے۔ آپ ہی قوم کے محافظ اور اسلام کے حقیقی سپہ سالار ہیں۔ فیضان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم و عرفان کی صورت میں آپ کے قلب و ذہن پر القائ، الہام اور بشارت کی طرح اترتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تسخیر قلوب و اذہان آپ کا خاصہ اور کرامتِ خاص ہے۔

شیخ الاسلام خداداد صلاحیت رکھنے والی ایسی شخصیت کے مالک ہیں جو ابتداء سے ہی اسلام کی عظمت، محبت، فوقیت اور مصطفوی انقلاب کی بنیادی روح سے روشناس ہوچکے تھے اور سنِ شعور سے ہی آپ کی شخصیت میں قائدانہ صلاحیتیں اور قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کا مصمم ارادہ موجود تھا۔

آپ کی علمی کاوشوں میں سیکڑوں کتب شامل ہیں مگر خاص طور پر قرآنی انسائیکلو پیڈیا اور انسائیکلو پیڈیا آف حدیث کے علاوہ ترجمہ عرفان القرآن آپ کی علمی کرامت ہیں۔ علم و فضل آپ کی روحانی غذا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی دوا و شفاء ہے۔ آپ کی پرکشش شخصیت کو عقل و خرد کے پیمانے سے ناپنا ناممکن ہے کیونکہ یہ فقط عشقِ جنون کی عملی تصویر ہے جو قلبِ عاشق میں تو اتر سکتی ہے مگر کسی اوزان پر نہ تولی جاسکتی ہے اور نہ اس کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔

آپ کے گفتار و کردار میں ایسا سحر مخفی ہے جو تاریکی کو دور کرکے محبت و الفت کے چراغ روشن کرتا ہے اور آپ کے لہجے سے عیاں ہے کہ الفاظ اور علمی و فکری اور روحانی نکات آپ کے قلب و ذہن پر القاء ہوتے ہیں۔ آپ ایسا سمندرِ بے کراں ہیںجس کی لہروں میں علم، قابلیت، عمل اور انقلابیت کے موتی تیر رہے ہیں۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں اس آدم شناس عظیم المرتبت قائد کے شمعِ علم کو خود خدا روشن فرما رہا ہے اور گنبدِ خضریٰ کا فیضان آپ پر سایہ فگن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمِ لدنی علومِ قرآنی اور علوم الحدیث آپ کی روحانی اور علمی خوراک ہے۔ الغرض آپ کی شہرہ آفاق اور عالمگیر ہستی میں ایک عالم ڈوبا ہوا ہے جو آپ کی آفاقی حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ آپ کے انداز بیان، ندرتِ طبعی اور سانسوں میں پھیلی خوشبو سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ عطائے خیراتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک نمودار ہورہی ہے۔

آپ شجاعت و بہادری میں بے مثال، قوم کے محافظ اور اسلام کے سپہ سالار ہیں جن کا چرچہ شرق تا غرب چہار سو پھیل چکا ہے۔ یہ امت کی خیر خواہی اور جود و سخا کی برکت کا نتیجہ ہے۔ آپ کی شخصیت سائبانِ علم و فضل اور محبتوں کی ترجمان ہے۔ آپ کا نصاب صبرو قناعت ہے اور آپ مکتب عشق کے امام ہیں۔ آپ کی قیادت و سیادت انمول، جمال میں تمکنت، حسن لازوال، جبین ناز میں سجدوں کی حلاوت، ساقی شراب عشق، مسیحائے درد و غم، صاحب کردار لاثانی، گفتار کے عجب شاہسوار جس نے عالم دجل و فریب کی جمی ہوئی برف اتار دی، جس نے بدی کے بت پاش پاش کردیئے اور غفلت میں خوابیدہ قوم کا سویا مقدر جگادیا۔ آپ وہ کلمہ حق بلند کرنے والے پختہ صاحبِ ایمان ہیں جنہوں نے اسلام اور امتِ مسلمہ پر منڈلاتے دشمن کے سائے منتشرکردیئے اور راہِ حق میں لگے رکاوٹوں کے پہاڑ مسمار کردیئے۔

میں سلام پیش کرتا ہوں آپ کو جنم دینے والی اس نیک سیرت عظیم ماں کوجن کی زندگی کا واحد مقصد شوہر کی خدمت اور اولاد کی بہتر پرورش کرنا تھا۔۔۔ میں سلام پیش کرتا ہوں اس عظیم باپ کو جن کی دعاؤں کی قبولیت کے نتیجے میں اللہ رب العزت نے آپ کو ایسا عظیم فرزند عطا کیا جس کی سیرت پر شکوہ، صورت پر رونق، لب و لہجہ دیدنی، جس کا جاہ و جلال عکسِ جبروتی، جس کا تبسم عکسِ ملکوتی، جس کے سحر نے عالمِ انسایت کو حیران و ششدر کر کے رکھ دیا۔ اس صاحبِ کردارِ لا ثانی کو سلام۔