شہادتِ امام حسینؑ اور اتحادِ امت کانفرنس

رپورٹ: محبوب حسین

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام شب عاشور دس محرم الحرام کی رات، شہادتِ امام حسینؑ کے حوالے سے ’’شہادت امام حسینؑ اور اتحاد امت کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں قرأ حضرات نے تلاوت قرآن مجید اور ثناء خوانانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کے ساتھ ساتھ امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام، اہلِ بیت اطہار اور شہدائے کربلا کے حضور بھی خراجِ عقیدت پیش کیا۔ نقابت کے فرائض محترم منہاج الدین، محترم علامہ میر آصف قادری اور محترم سرفراز احمد قادری نے سرانجام دیئے۔

اس کانفرنس میں محترم مفتی خلیل احمد قادری (شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ داتا دربار لاہور)، علامہ حافظ کاظم رضا نقوی (پرنسپل جامعہ قرآن بحریہ ٹائون لاہور)، پیر زادہ برہان الدین محمد عثمانی (سیکرٹری جنرل علماء و مشائخ رابطہ کونسل جماعت اسلامی)، سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (امیر متحدہ مجلس جمعیت اہلحدیث)، محترم علامہ امداد اللہ قادری، تحریک منہاج القرآن کے جملہ مرکزی قائدین، منہاج القرآن علماء کونسل کے ممبران، علماء و مشائخ اور عوام الناس کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

  • ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن محترم خرم نواز گنڈا پور نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور معزز مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام نہ صرف ملک پاکستان میں بلکہ کم و بیش ساٹھ ممالک میں اس وقت براہ راست منہاج ٹی وی کے ذریعے لائیو دکھایا جارہا ہے۔ اس پروگرام میں پوری دنیا سے لاکھوں لوگ شریک ہیں۔ اس پروگرام کے انعقاد کا مقصد جہاں امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا اور اہل بیت اطہارؓ کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے وہاں شہادت سیدنا امام حسینؑ کی اہمیت کو اجاگر کرنا بھی مقصود ہے۔ اس کانفرنس کے مقاصد میں ایک اہم مقصد اتحاد امت کا پیغام عام کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں مختلف مکاتبِ فکر کے لوگ موجود ہیں جو اس امر کا اظہار ہے کہ حسینؑ ہم سب کے ہیں اور ہم سب فرقہ واریت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ آج عصر حاضر میں اتحاد امت اسلامیہ کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ چونکہ کفار کی یلغار چار سو سے امت مسلمہ کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس وقت اسلام دشمن قوتیں یکجا ہوکر عالمِ اسلام کو تقسیم کرنے کی پوری کوشش کررہی ہیں۔ شہادتِ امام حسینؑ کا پیغام یہی ہے کہ امت اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک ہوجائے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب

اس کانفرنس میں ’’شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے پیدا کیے گئے شکوک و شبہات کے ازالہ‘‘ کے موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے درج ذیل آیت مبارکہ کو موضوع گفتگو بنایا:

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَهُمُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا. وَالَّذِیْن یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا.

(الاحزاب، 33: 57، 58)

’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بے شک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا‘‘۔

شیخ الاسلام نے فرمایا: بلاشک و شبہ اہلِ بیت کی محبت و مؤدت مسلمانوں کے لیے ایمان کی اصل اور زینت بھی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ کی تعظیم و تکریم، ان سے محبت اور ان کی پیروی ہمارا ایمان بھی ہے اور ایمان کے حصول کے تقاضوں میں سے بھی ہے۔

بدقسمتی سے بہت سے ایسے مسلّمہ حقائق ہیں کہ گزشتہ 14 سو سال میں کبھی کسی زمانے میں علماء کو ان کے ثبوت اور وضاحت کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ آج ایک ایسا زوال کا دور ہے کہ مسلّمہ حقائق کو ثابت کرنے کے لیے بھی دلائل درکار ہیں۔ شہادت امام حسین اور واقعہ کربلا کے حوالے سے ایسے بے بنیاد شکوک و شبہات پیدا کیے گئے ہیں جن سے لگتا ہے کہ سچائی دھندلا رہی ہے، لوگوں کے ذہن منتشر ہوگئے ہیں یا منتشر کیے جارہے ہیں، ابہامات پیدا کیے جارہے ہیں تاکہ لوگ اہل بیت اطہارؓ کی محبت و مودت کے اس رشتے سے کٹتے چلے جائیں یا یہ رشتہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے۔ اس طرح امت کے وہ لوگ جو شکوک و شبہات کا شکار ہوکر اپنا رشتہ اہل بیت اطہار کی محبت اور مؤدت پر کمزور کر بیٹھیں تو وہ حضور علیہ السلام کی بارگاہ سے بھی کٹ جائیں، ان کے دلوں سے تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی کمی واقع ہوجائے، آقاؑ کے ساتھ عشق و محبت کا تعلق کمزور پڑ جائے اور ساری خیرات و برکات جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے اہل ایمان کو اس واسطے سے نصیب ہونی ہے، امت اس سے محروم ہوجائے۔

لہذا ضروری ہے کہ اہل بیت اطہارؓ اور شہادت امام حسینؑ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے، ان کا قلع قمع کیا جائے تاکہ لوگوں کے ایمان کی حفاظت ہو اور اہل بیت نبوی کے ساتھ ان کا تعلق محبت و مودت قائم رکھا جاسکے۔

آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اس لیے جس شخص کی بات دس بندے بھی سننے والے نہیں تھے، وہ بیہودہ باتیں، بے بنیاد باتیں اور بے دلیل باتیں کرکے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے اپلوڈ کردیتے ہیں جو لوگوں کی کثیر تعداد تک پہنچ جاتی ہے اور اس سے خرافات پھیلتی ہیں جو لامحالہ بعض ذہنوں کو تشکیک کی گرد کے ذریعے خراب کرتی ہیں۔ ذیل میں ان شکوک و شبہات میں سے چند ایک کا تذکرہ درج کیا جارہا ہے:

1۔ ان اشکالات میں سے ایک اشکال یہ پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ نفسِ انسانی کے قتل کا مسئلہ ہے اور چونکہ قتل کا عمل حرام ہے، اس لیے اسے کفر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یہ علت قائم کرکے درحقیقت یزید اور اس کے حواریوں کو جو دشمنانِ اہلِ بیت ہیں ان کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ امام حسینؑ اور دیگر اہلِ بیت اطہارؓ کے نفوس قدسیہ کا قتل ایک عام نفس انسانی جیسا تھا یا مومن انسان کے قتل جیسا تھا یا اس کا حکم ان سے جد ااور بالا تر ہے؟

2۔ اسی طرح یہ شبہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ واقعات و کربلا اور اہل بیت نبوی و عترت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت اور بے حرمتی کے واقعات میں کچھ من گھڑت ہے، کچھ قصے اور کہانیاں ہیں چونکہ یہ تاریخی واقعات ہیں اور تاریخی واقعات میں بڑی کمی بیشی ہوتی ہے اور اس کی اصل حقیقت کا پتہ نہیں چلتا۔ لہذا اس پر شدت کے تحت کوئی حکم قائم نہیں ہونا چاہئے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ تاریخی قصے کہانیاں ہیں؟ کیا یہ پورا واقعہ کربلا اور یہ تمام امور کمزور روایات پر قائم ہیں یا یہ مسلمہ حقائق ہیں؟ یاد رکھیں! پورے واقعہ کی بنیاد احادیث صحیحہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستقبل کی غیبی خبروں کے طور پر امت تک پہنچائیں اور یہ معتمد روایات پر قائم ہیں۔ مؤرخین سے بڑھ کر ان کی توثیق بڑے بڑے ائمہ محدثین، ائمہ فقہا، ائمہ متکلمین اور جمیع اکابرین امت نے کی ہے۔

3۔ اسی طرح یہ شبہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ سیدنا امام حسینؑ کو تو ابن زیاد اور اس کی فوج نے شہید کروایا، یزید نے تو براہ راست آپ علیہ السلام کو شہید کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ لہذا اس پر آپ علیہ السلام کی شہادت کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔

اس بات کاجائزہ لینا ہے کہ کیا شہادتِ امام حسینؑ کی ذمہ داری صرف ابن زیاد اور اس کی کوفی فوج پر ہے یا براہ راست یزید ذمہ دار ہے؟ کیا یزید کے ایمائ، حکم، مرضی اور منصوبہ بندی کے ساتھ واقعہ کربلا ہوا تھا یا نہیں؟

4۔ یہ بھی جائزہ لینا ہے کہ یزید کا عمل اور کردار کیا ہے؟ کیا وہ لعن و تکفیر کا مستحق ہے یا نہیں؟ اس کا تین چار سالہ دور حکومت کے نمایاں خدوخال کیا ہیں اور ان کی روشنی میں وہ کہاں کھڑا ہے۔۔۔؟ پھر جب یزید کی جگہ متعین ہوتی ہے تو اس کے حواری کہاں کھڑے ہیں۔۔۔؟ اس سے ہمدردی رکھنے والے کہاں کھڑے ہیں۔۔۔۔؟ اس کی حفاظت اور اس کے ایمان کے تحفظ کا اہتمام کرنے والے کہاں کھڑے ہیں۔۔۔؟اس سے وفا کرکے اہل بیت اطہارؓ کے ساتھ جفا کرنے والے کہاں کھڑے ہیں۔۔۔؟

یزید اور اس کے اعوان و انصار جنہوں نے نہ صرف نواسۂ رسول کو شہید کیا بلکہ پوری عترتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کیا، ان کے مقدس لاشوں پر گھوڑے دوڑائے، ان کے سر کاٹ کر نیزوں پر چڑھائے، کوفے کے بازاروں میں انہیں گھمایا اور سیدہ زینب اور سیدنا امام زین العابدینk سمیت پورے قافلہ اہلبیت کو قیدی بنایا، انہیں زنجیروں میں جکڑا، ان کے گلے میں طوق پہنائے، پائوں میں بیڑیاں پہنائیں اور جنگی قیدیوں کی طرح قافلہ بناکر انہیں کوفے سے لے کر دمشق تک چلایا اور پوری دنیا کو دکھایا کہ یہ ہے مسلمانوں کے رسول اور نبی کی عترت۔۔۔ یہ سر ہے اس حسین کا جو نبی کے کندھوں پر سواری کرتا تھا۔۔۔ یہ سارے سر ہیں رسول پاک کے ان شہزادوں کے جن کے حقوق کی پاسداری کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تھا۔۔۔ جن کے حقِ حرمت کو قرآن مجید کے حق کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوڑا تھا اور فرمایا تھا کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر بھی میرے پاس قرآن اور میری عترت اکٹھے وارد ہوں گے۔

اس تمام کچھ کے کرنے کے پیچھے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ یہ ہے تخت دمشق اور یزید کی قوت و طاقت۔ گویا لوگوں کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ آج کے بعد خبردار کوئی ظالم و جابر کے سامنے نہ کھڑا ہو ورگرنہ اُسے بغاوت کا نام دے دیا جائے گا۔ اس قافلہ اہل بیت کو دیکھو! بغاوت کرنے والوں کا حشر یہ ہوتا ہے۔ تاکہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ آئندہ وہ حق کا ساتھ دینا چاہتے ہیں یا طاقت کا۔۔۔؟ وہ آئندہ عدل کا ساتھ دینا چاہتے ہیں یا قوت کا۔۔۔؟

5۔ اس امر کا جائزہ بھی لینا ہے کہ کیا یہ سوچنا جائز ہے کہ جب شہادت امام حسینؑ کا معاملہ آئے، قاتلین حسین کا معاملہ آئے، یزید اور ان کے اعوان و انصار کا معاملہ آئے تو ہم اس کو اس طرح سوچیں کہ آپ کو شہید کرنے سے تو کوئی شخص کافر نہیں ہوجاتا چونکہ انسانی نفس کا قتل حرام فعل ضرور ہے مگر یہ باعثِ کفر نہیں ہے۔

معاذ اللہ یہ باتیں ٹی وی چینل پر کہی جارہی ہیں۔ نوجوان نسل کے ذہنوں کو برباد کیا جارہا ہے اور چودہ سو سال سے متصلاً جو ایمان اور عقیدت کا رشتہ ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور جس پر ائمہ امت نے ہمیشہ تعلیم و تلقین دی ہے اس کو کاٹا جارہا ہے۔ امام عالی مقام کی شہادت کو ایک عام نفسِ انسانی کے مقام پر لاکر کھڑا کردیا جائے، عترتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کو عام نفوس انسانی کے قتل کے برابرٹھہرادیا جائے اور کہا جائے کہ جس طرح نفسِ انسانی کے قتل سے بندہ کافر نہیں ہوتا اسی طرح شہادتِ امام حسینؑ کے ذمہ دار بھی اس عمل سے کافر نہیں ہوئے۔

یاد رکھیں! شہادت امام حسینؑ کے حوالے سے حکم قائم کرنے کا مسئلہ نفس انسانی کے قتل کے حکم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیدنا امام حسینؑ اور اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچانا، اذیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچانا کفر ہے۔

شیخ الاسلام نے مذکورہ بالا اشکالات اور اس طرح کے دیگر کئی شکوک و شبہات کا ازالہ اپنے اس خصوصی خطاب میں فرمایا۔ اس خطاب کی تفصیل کے لیے www.minhaj.org اور www.minhaj.tv ملاحظہ فرمائیں۔

  • کانفرنس سے محترم علامہ میر آصف قادری (جنرل سیکرٹری منہاج القرآن علماء کونسل) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کے اس مرکز پر ہمیشہ کی طرح اس سال بھی شہادت امام عالی مقام سیدنا امام حسینؑ کے موقع پر اتحادِ امت کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے۔ یہ کانفرنس قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اتحاد، امن اور محبت پر مبنی فکر کی آئینہ دار ہے۔ شیخ الاسلام وہ جلیل القدر ہستی ہیں جنہوں نے اتحاد، امن اور محبت کا علَم اس وقت بلند کیا جب اس شعبہ کے اندر کام کرنا جرم تصور کیا جاتا تھا۔ اس عظیم خدمت سرانجام دینے کی پاداش میں آپ کے خلاف کیا کچھ منفی پروپیگنڈے نہیں کیے گئے، لیکن شیخ الاسلام ان تمام سازشی ہتھکنڈوں کی پرواہ کیے بغیر کلمہ حق بلند کرتے رہے اور اپنی فکر کو تسلسل کے ساتھ پھیلاتے رہے۔ آپ کی فکر اور تعلیمات اعتدال و توازن پر مبنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان جب کسی مسئلے پر حقیقی تفہیم چاہتا ہے تو وہ شیخ الاسلام کے خطابات اور کتب کی طرف رجوع کرتا ہے۔
  • محترم مفتی خلیل احمد قادری (شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ داتا دربار لاہور) نے کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس عظیم الشان فلسفہ شہادت امام حسینؑ و اتحاد امت کانفرنس میں ہر مکتبہ فکر سے علماء اور عوام بھی شامل ہیں۔ یہ منظر منہاج القرآن کی اتحاد امت کے لیے کاوشوں اور راهِ اعتدال پر ہونے کا عکاس ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب کا مطالعہ کرنا بلاشبہ قاری کو نہ صرف حقیقت سے آشنا کرتا ہے بلکہ دین کا حقیقی فہم بھی عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو یقینا قبول فرمارہا ہے۔ ان کے کام کے مقبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ یہ کام دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ محبت اہل بیت اور محبت صحابہ کرامؓ کے حوالے سے شیخ الاسلام کی جمیع خدمات امت میں اعتدال و توازن کو فروغ دینے اور فرقہ واریت کا قلع قمع کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شہادتِ امام حسینؑ کے پیغام کو عام کریں، اسلام کی سربلندی کے لیے کاوش کریں، امن و سکون کا پیکر بنیں اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر اسلام کے فروغ کے لیے کام کریں۔
  • علامہ حافظ کاظم رضا نقوی (پرنسپل جامعہ قرآن بحریہ ٹائون لاہور) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے کی طرح آج بھی یہ شرف حاصل ہورہا ہے کہ عالم اسلام کے اس عظیم مرکز پر امام حسینؑ کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دعوت پر حاضر ہوا۔ میں جامعہ المنتظر میں ایک طویل عرصہ تک استاد رہا اور وہاں سے یہاں حاضر ہوتا رہا ہوں۔ مگر شیخ الاسلام کے دو پروگرام میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ جب مولا کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف کسی شخص نے ہرزہ سرائی کی تو ہم محبت علی رضی اللہ عنہ رکھنے والوں میں سے ہر کسی نے اپنی بساط کے مطابق جواب دیا مگر شیخ الاسلام نے دو راتیں سات اور آٹھ گھنٹوں پر مشتمل نشستوں میں دشمن علی رضی اللہ عنہ کو وہ مدلل جواب دیئے کہ اس وقت میرا جی چاہتا تھا کہ میں شیخ الاسلام کے ہاتھ چوموں۔ آج میں انہیں ہدیہ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ دوسرا پروگرام حال ہی میں سیدہ طاہرہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے حوالے سے ہے۔ یہ خطاب بھی اپنی مثال آپ ہے اور ہر علمی، فکری حلقہ میں سراہا جارہا ہے۔ شیخ الاسلام کی کتب کو دیکھیں تو کیا کمال کی کتابیں ہیں۔ جن میں محبتِ الہٰی، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبتِ اہل بیت اور محبتِ صحابہ کرام کے رنگ جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔ میں ان تمام خدمات پر شیخ الاسلام کو خراج تحسین اور سلام پیش کرتا ہوں۔

شیخ الاسلام حقیقی معنوں میں اہل بیت کے غلام ہیں، میں نے ان کی محبتِ اہلِ بیت کا نظارہ خود ایک دفعہ حج کے موقع پر دیکھا۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے محسوس کیا کہ ان کا اوڑھنا بچھونا صحابہ کی محبت اور خصوصاً اہل بیت کی محبت ہے۔ مدینہ منورہ میں ہم نوافل پڑھتے تھے اور یہ وہاں پر بھی مؤدت و محبت اہل بیت اور حقانیتِ اسلام پر کتب لکھ رہے ہوتے تھے۔ چنانچہ ادھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرتے اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام کی زیارت کرتے۔ خداوندِ عالم ایسی ہستیوں کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے، ان کا فیض دنیا میں جاری و ساری رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شہادت امام حسینؑ کے پیغام کو سمجھنے، محبت صحابہ و محبت اہل بیت کو فروغ دینے اور وحدتِ امت کے لیے کام کرنے کی توفیق دے۔

  • پیر زادہ برہان الدین محمد عثمانی (سیکرٹری جنرل علماء و مشائخ رابطہ کونسل جماعت اسلامی) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو اگر کسی کے ساتھ محبت ہوتی ہے تو پھر محبوب کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے اور محبوب کے ہر تعلق و نسبت کے ساتھ محبت ہوتی ہے اور پھر وہ محبت خوشی کے گھونٹ بھی پلاتی ہے اور غم کے آنسو بھی بہاتی ہے۔ امام عالی مقام اور آپ علیہ السلام کے خانوادے کی شہادت کا غم کسی بندۂ مومن کے دل کے اندر کیونکر ہے؟ اس لیے کہ غمِ حسینؑ غمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور اگر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی نسبت کو قائم کرتا ہوں اور کلمہ پڑھتا ہوں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو غم چودہ سو سال پہلے ہوا تھا، آج بھی میرے دل کے اندر اسی طرح سے زندہ ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں غم حسینؑ منایا جاتا ہے، غم حسین ؑمنانے کے لیے شیعہ ہونا ضروری نہیں، بلکہ غم حسینؑ منانے کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے میدان کربلا میں جو نذرانہ پیش کیا اس کا مقصد اپنے نانا کی امت کے لیے ایک رول ماڈل پیش کرنا تھا کہ ظالم کے سامنے سرنگوں نہیں ہونا چاہیے۔ یزید چودہ سو سال پرانا ہو یا آج کا یزید ہو، ظالم کے سامنے گردن نہیں جھکانی اور اس گردن کو نہ جھکانے نے ہی امام حسین علیہ السلام کو قیامت تک کے لیے زندہ کردیا ہے۔ اگر اب ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی وہ لازوال نسبت نصیب ہوجائے تو قیامت تک ہمیں اپنے دل کے اندر محبت حسینؑ کو آباد کرنا ہوگا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آج حقیقی معنوں میں محبت اہل بیت اور محبت صحابہ کو دلوں میں آباد کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اتحاد امت کے لیے ان کی کاوشوں اور جذبات کا میں خود عینی گواہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی عطا فرمائے۔

  • سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (امیر متحدہ مجلس جمعیت اہلحدیث) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یقینا آج کا دن میرے لیے انتہائی فرحت کا باعث ہے کہ پاکستان اور عالم اسلام کے اس عظیم مرکز منہاج القرآن انٹرنیشنل میں ایک ایمان افروز، روح پرور اور دلآویز کانفرنس شہادتِ سیدنا امام حسینؑ اور اتحادِ امت میں شریک ہوں۔ عنوان میں بظاہر دو چیزیں ہیں: شہادت امام حسینؑ اور اتحاد امت۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام وہ ہیں کہ جن کے نام پر امت میں آج بھی اتحاد ہوسکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’حسین منی وانا من الحسین‘‘

’’ حسین منی‘‘ کا مطلب ہے کہ میں حسین کا نانا ہوں اور حسین میرا نواسہ ہے۔۔۔ میں بابا ہوں، حسین میرا فرزند ہے۔۔۔ میں پھول ہوں، حسین میری خوشبوہے۔۔۔ میں چاند ہوں، حسین میری چاندنی ہے۔۔۔ میں سورج ہوں، حسین میری روشنی ہے۔۔۔ میں کُل ہوں، حسین میرا جُز ہے۔

وانا من الحسین کا مطلب ہے کہ کربلا میں اگر میرے موقف کو جاننا ہوگا تو میرے حسینؑ کا مؤقف میرا مؤقف ہوگا۔۔۔ کربلا میں جو حسین کہہ رہے ہوں گے وہ دراصل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ رہے ہوں گے۔۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اتحاد، تمہاری رہنمائی اور تمہیں اصولِ زندگی سکھانے کے لیے مجھے رب نے دو چیزیں عطا فرمائیں: ایک قرآن اور دوسری میری عترت اہل بیت۔ تم میں یہ دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اگر تم ان کو تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ آج بھی امت اگر ان دونوں چیزوں سے اپنا تعلق بنائے رکھے، ان کی ادب و تعظیم کو حرزِ جاں بنائے تو کامیابی و کامرانی اس کے قدم چوم سکتی ہے۔

ششیخ الاسلام نے حسینیت کا پرچم اٹھایا ہے اور ثابت کیا کہ صداقت بیان کرنے سے مومن رک نہیں سکتا اور نہ جھک سکتا ہے۔ اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ حسینیت کا پرچم بلند کرنے کی وجہ سے اللہ نے جو شہرت ڈاکٹر صاحب کو دی ہے وہ کسی اور کو نصیب نہیں۔ ہم بھی دنیا بھر میں جاتے ہیں، دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں، جہاں جہاں جاتے ہیں وہاں ڈاکٹر طاہرالقادری کی خوشبو آتی ہے۔ اس لیے کہ علامہ اقبال نے کہا تھا:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اتحاد امت کے لیے شیخ الاسلام نے مسلکی اختلافات پر بلڈوزر چلایا ہے اور محبت کا پرچم بلند کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو عزتیں ایسے ہی نہیں ملتیں بلکہ یہ اہل بیت کی نسبت کی برکت ہے اور جو حسینی ہے وہ ہمارے سر کا تاج ہے۔