المنہاج السوی من الحدیث النبوی کی نصابی اہمیت

پروفیسر محمد الیاس اعظمی

معاشرہ مختلف طبقات کے مل جل کر زندگی بسر کرنے سے معرضِ وجود میں آتا ہے۔ ایک معاشرے کے اندر مختلف خیال رکھنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں اور متفقہ سوچ رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح افکار و خیالات اور نظریات میں اتفاق و اختلاف کی بنیاد پر قومیں وجود میں آتی ہیں۔ قوم افراد کے ایک ایسے مجموعہ کا نام ہے جو زندگی سے متعلق مشترکہ عقائد و نظریات رکھتا ہے۔ گویا کسی بھی قوم کا کوئی فرد فکری و نظریاتی طور پر اپنی قوم کا نمائندہ و ترجمان ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات لازمی اور ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ کارگہ حیات میں اپنی قوم کا نہ صرف ایک مہذب فرد کہلواسکے بلکہ وہ اپنی گفتار و کردار میں اس کا بہترین ترجمان بھی ثابت ہوسکے۔ تب وہ قوم اپنے وجود کے اعتبار سے اقوامِ عالم کی صف میں ایک ممتاز اور مہذب قوم شمار ہوسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر اس کا عالمی معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہوگا۔

اس لیے یہ بات لازمی ہے کہ اس دورِ جدید میں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں نونہالانِ اسلام کی اس نہج پر تربیت کی جائے اور ان کی سیرت و کردار کی اس طرح تعمیر کی جائے کہ وہ اقوامِ عالم میں اپنے کردار و عمل کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کے قابلِ فخر ترجمان بن سکیں۔ اس مقصد کے لیے سب سے اہم ترین بات تعلیم کے میدان میں ایسے نصاب کی تیاری ہے جس کو پڑھ کر ایک ایسا انسان وجود میں آئے کہ جو اپنے اخلاق و عمل کے اعتبار سے معاشرے کا قابلِ فخر نمائندہ بھی اور قوم کی آنکھوں کا تارا بھی ہو تو ایسا فرد ہی اپنی قوم کی ترقی و عروج کا ضامن بن سکتا ہے۔ بقول اقبال

افراد کے ہاتھوں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدرکا ستارہ

گویا کہ بات یہ ٹھہری کہ قوم سازی کی بنیاد نظامِ تعلیم ہوتا ہے اور بہترین تعلیم بہترین نصاب کی متقاضی ہے۔ اس لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ نصابِ تعلیم ان ارفع و اعلیٰ مقاصد پر مشتمل ہو۔ جس قدر مقاصد بلند ہوں گے اس نصاب کے ذریعے نکلنے والے انسان بھی عمل و کردار میں اسی قدر بلند ہوں گے اور ایسے انسان مل کر ہی ایک بلند کردار قوم کی تشکیل کا قابلِ فخر فریضہ سرانجام دیں گے۔

بلا شبہ زوال و انحطاط کے موجودہ دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری قدرت کا ایک انتخاب اور ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک انمول عطیہ ہیں جن کو منعمِ حقیقی نے کردار و عمل کی لازوال خوبیوں سے بھی بہرہ ور کیا ہے اور ملت کے درد آشنا دل سے بھی نواز رکھا ہے۔ انہوں نے احیائے ملت کے لیے تعلیم و تدریس کا میدان چنا اور افرادِ ملت کی تیاری کے لیے ایک ایسا نصاب بھی قوم کو دیا ہے کہ جس کی تدریس سے ایک ایسا پاکیزہ فکر رکھنے والا فرد تیار ہوتا ہے جو معاشرے کا ایک مفید اور لائقِ تقلید شخص قرار پاتا ہے۔

معلمِ کائنات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ امتی ہونے کی نسبت اور دینِ محمدی کا پیروکار ہونے کے ناطے امتِ مسلمہ کے ہر فرد کے لیے لازمی ہے کہ وہ درج ذیل اوصافِ جمیلہ سے متصف ہو:

  1. صحتِ عقیدہ کا حامل
  2. حسن اخلاق مرقع
  3. عملِ صالحہ کا پیکر

انسانی زندگی کے یہی وہ تین پہلو ہیں جن کے باعث کوئی بھی شخص اپنی قوم اور دیگر اقوام میں ممتاز قرار پاتا ہے۔ اگر یہ تینوں یا ان میں سے کوئی بھی انسانی کردار سے نکل جائیں تو وہ جسمانی وجود کے اعتبار سے تو اگرچہ انسان میں شمار ہوتا رہے گا لیکن حقیقت میں وہ حیوانوں سے بھی بدتر قرار پاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے تعلیمی اداروں کو جو نصابِ تعلیم دیا ہے، اس میں ان تینوں پہلوئوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

یوں تو شیخ الاسلام نے بالعموم اس امت کے افراد کی بالخصوص نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے سیکڑوں کتب تصنیف فرمائیں اور ان میں سے کئی کتب بطور نصاب تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں مگر ’’المنہاج السوی من الحدیث النبوی‘‘ ڈاکٹر صاحب کی ایسی کتاب ہے جو تحریک کے مختلف تعلیمی اداروں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے اور یہ کتاب مذکورہ بالا تینوں پہلوئوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ پوری کتاب کو سولہ مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جو اس طرح ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

  • الباب الاول، جس کو ایمان، اسلام اور احسان کے نام سے معنون کیا گیا ہے اور یہ باب چند فصلوں پر مشتمل ہے۔ مثلاً فصل فی الایمان (ایمان کا بیان)، فصل فی حقیقۃ الایمان (حقیقت ایمان کا بیان)، فصل فی علامات المومن و اوصافہ (مومن کی علامات اور صفات کا بیان)، فصل فی الاسلام (اسلام کا بیان)، فصل فی علامات المسلم و اوصافہ (مسلمان کی علامات اور اوصاف کا بیان)، فصل فی حق المسلم علی المسلم (مسلمان پر مسلمان کے حقوق کا بیان)، فصل فی الاحسان (احسان کا بیان)، فصل فی علامات المحسن و اوصافہ (محسن کی علامات اور اوصاف کا بیان)، فصل فی علامات الکفر والنفاق (کفر اور نفاق کی علامات کا بیان)

اس باب کے اندر ڈاکٹر صاحب نے ان ارشاداتِ نبویہ کو عام فہم اور آسان اردو ترجمہ اور مکمل حوالہ جات کے ساتھ جمع کیا ہے کہ جس کو پڑھ کر طالب علم ایک ایسا انسان بن کر نکلتا ہے جو:

1۔ اسلام کے بنیادی عقائد کا براہ راست قرآن وسنت کی نصوص کی روشنی میں علم رکھنے والا ہوتا ہے۔

2۔ وہ اس سے کماحقہ آگاہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں اور دیگر لوگ جو اسلام کے دامن سے وابستہ نہیں ہیں، عقائد صحیحہ کی کس قدر اہمیت ہے؟ اور یہ کہ اسلام کے دامن سے وابستہ ہونے کی اصل بنیاد کیا ہے؟

3۔ توحید اور شرک کے درمیان حدِ فاصل کیا ہے؟

4۔ ایمان محض چند کلمات کا زبان سے اقرار کرلینے کا نام نہیں بلکہ ایمان کی حقیقت کچھ اور ہے اور اخلاصِ نیت کے ساتھ احکامِ شریعت پر عمل پیرا ہوکر زبان کے اقرار کو عمل کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔

5۔ ایک بندۂ مومن کو ایمان کی اعلیٰ ترین منزل پر فائز ہونے کے لیے اپنے اندر کن کن صفات کا پیدا کرنا ضروری ہے جن کے باعث وہ اپنے اندر ایمان کی حلاوت محسوس کرتا ہے؟ بندۂ مومن ان اعلیٰ ترین اقدار و اوصاف سے کامل طور پر آگاہی حاصل کرتا ہے اور اس طرح اس کے اندر جذبۂ عمل جنم لیتا ہے۔

6۔ وہ کون سی حدود ہیں جو ایمان اور کفر و نفاق کے درمیان حائل ہیں؟ ان ارشاداتِ نبویہ کی تدریس سے انسان کے اندر کفر و نفاق کی ناپسندیدہ راہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ راہوں کا مسافر بن کر شاہراہِ حیات پر گامزن رہتا ہے۔

  • کتاب میں ’’عبادات اور مناسک‘‘ کے حوالے سے ہے، ایک باب اتنی جامعیت کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے کہ طالب علم اس کو پڑھ کر اسلام کی تمام بنیادی عبادات اور ان سے متعلق ضروری امور سے آگاہی بھی حاصل کرتا ہے اور زبانِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی فضیلت کو پڑھ کر اس کے دل میں عبادات کی ادائیگی کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے اور ان سے رو گردانی کے باعث اپنے خالق کی ناراضگی کا خوف بھی پیدا ہوتا ہے۔

الباب الثالث سے لے کر الباب السادس تک انہی ارکانِ اسلام سے متعلق نبوی ہدایات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان چاروں ابواب (3 تا 6) کا مطالعہ کرنے سے طالب علم کے اندر دینِ اسلام میں بدنی اور مالی عبادات کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے اور ان پر عمل پیر اہونے کا شوق بھی دل میں موجزن ہوتا ہے۔

  • الباب السابع ’’الاخلاص والرقائق‘‘ یعنی اخلاص اور رقتِ قلب کے اہم ترین تربیتی موضوع کے حوالے سے ارشاداتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اخلاص ایک ایسی دولت ہے کہ جس کو یہ نصیب ہوجائے، اسے بہت بڑی دولت ہاتھ آجاتی ہے۔ اس لیے کہ اسی دولت کی بنیاد پر تھوڑا اور معمولی سا عمل بھی حضورِ ایزدی میں شرفِ قبولیت پالیتا ہے اور اس کے بغیر پہاڑوں کے برابر اعمال بھی لائقِ التفات نہیں ہوتے۔ اسی لیے ارشاد گرامی ہے:

انما الاعمال بالنیات.

اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔

اس باب کے اندر ڈاکٹر صاحب نے اعمالِ خیر سے متعلق نبوی ہدایات کو جمع کیا ہے جن سے انسانی سیرت و کردار میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور معاشرے کے لیے اس کا وجود باعث خیر بنتا ہے۔

  • آٹھواں باب: ’’فضل العلم والاعمال الصالحہ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس میں مختلف امورِ خیر کے علاوہ علم اور علماء کی فضیلت و اہمیت سے متعلق احادیث مبارکہ کو جمع کیا گیا ہے جن کو پڑھ کر علم اور تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔
  • باب نو سے لے کر باب بارہ تک عظمتِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ اسلام کے نظامِ تعلیم اور تربیت میں ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کلیدی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس نظریہ کی علمی اہمیت، اعتقادی ضرورت اور معاشرتی بنیادوں کو واضح کیا گیا ہے تاکہ افرادِ امت اپنے ظاہرو باطن میں عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ روشن کرکے یکسوئی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن رہیں۔

اس باب کا دوسرا اہم ترین پہلو صلحاء امت کا خوبصورت بیان ہے جن کی شبانہ روز کاوشوں سے اسلام ہم تک پہنچا اور آج تک زندہ ہے۔ ان محسنینِ اسلام سے عقیدت و محبت اور اصحاب و اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی قربانیوں سے شجرِ اسلام ثمر بار ہوا ہے، اس باب میں ان کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے، جن کو پڑھ کر ان بندگانِ قدسی صفات کی عظمتوں کے چراغ دل میں روشن ہوتے ہیں۔

  • کتاب کا تیرھواں باب ’’الاعتصام بالسنۃ‘‘ سنت و سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو واضح کرتا اور قاری کو بدعت و گمراہی کی راہوں سے بچاکر سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ راہوں سے آشنا کرتا ہے۔
  • چودھواں باب ’’البر والصلۃ والحقوق‘‘ جب کہ پندرھواں باب ’’الاداب والمعاملات‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں ابواب زندگی کے ان معاشرتی پہلوئوں سے بحث کرتے ہیں جن سے انسان کو اپنے گھر سے لے کر پورے معاشرے میں مختلف لوگوں والدین، خاندان کے دیگر افراد، عام مسلمانوں اور انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی معرفت کے حوالے سے نبوی ہدایات فراہم کی گئی ہیں۔ جن کی بنیاد پر ایک مثالی اور لائقِ تقلید معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو امن و سلامتی،اخوت و محبت اور ایثار و قربانی کا عملی مظہر ہوتا ہے۔

وجوہ بالا کی بنیاد پر یہ بات کسی تردد کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ پاکیزہ افکار و خیالات اور نیک سیرت و پاکیزہ کردار کے حامل افراد اور معاشرہ کی تعمیرِ سیرت کے لیے شیخ الاسلام کی اس کتاب سے راہنمائی لینا نصابی مقاصد کے حصول کے لیے لازمی و ضروری ہے اور ایسی کتب ہی قوم سازی کے مشن میں خضرِ راہ کا کام سرانجام دیتی ہیں۔