شیخ الاسلام کی قیام امن کے لیے عالمگیر مساعی کا جائزہ

خصوصی رپورٹ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے انتہا پسندی، تنگ نظری، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف قیام امن کے لیے علمی و فکری میدانوں میں بھرپور جدوجہد کی۔ ذیل میں دہشت گردی کے خلاف اور قیام امن کے لیے شیخ الاسلام کی عالمگیر سطح پر کی جانے والی علمی و فکری کاوشوں کا ایک اجمالی جائزہ نذرِ قارئین ہے:

1۔ 13 اگست 1999ء کو اوسلو میں بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دو ٹوک انداز میں اسلام کی’’ امن فلاسفی‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:

’’اسلام میں جس چیز کو قابلِ ذکر طور پر انتہائی اہمیت حاصل ہے وہ اوّل تا آخر اور ابتدا سے انتہا تک سوائے امن کے اور کچھ نہیں۔ کوئی چیز جو امن کے خلاف، امن کے منافی، امن سے متصادم اور امن سے متضاد ہو تو اس کا قطعی طور پر اسلامی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں۔ چاہے جو کوئی بھی ہو اگر اس کے مزاج اور کردار میں دہشت گردی یا انتہا پسندی کا مادہ ہے اور وہ قومی و بین الاقوامی سطح پر امن کے لئے خطرے کا باعث ہے تو مطلق طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور وہ دین کا مخالف ہے۔‘‘

2۔ فرغانہ انسٹی ٹیوٹ مانچسٹر کے زیر اہتمام ’’Islam on Peace, Integration & Human Rights on Islam" کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے بہت سی دیگر مثالوں کے علاوہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اسلام کی اساس اور بنیاد کو واضح کیا۔ آپ نے فرمایا:

’’عرب معاشرہ تشدد، ظلم و وحشت اور سفاکی سے بھرپور معاشرہ تھا لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو امن و سلامتی عام کرنے پر زور دیا‘‘۔

3۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے واشنگٹن ڈی سی (امریکہ) کے معروف اور ثقہ تھنک ٹینک United States Institute of Peace (USIP) میں ’’اسلام کے تصور جہاد‘‘ پر خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’اسلام کا تصورِ جہاد عالمی سطح پر قیامِ امن اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی ضمانت دیتا ہے۔ جہاد کی پانچ اقسام ہیں:

  1. ’’جہاد بالنفس‘‘: اپنے نفس کی اصلاح کا ذریعہ ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کو قابو کرنے کے لئے روحانی تعلیمات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
  2. ’’جہاد بالعلم‘‘: پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے اجتہاد اس جہاد کے زمرے میںداخل ہے۔ اسلامی اصولوں کی ضروریات کے مطابق تشریح کرنا تاکہ اسلام جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر انسانیت کے لئے امن و محبت کا پیامبر بنا رہے۔
  3. ’’جہاد بالعمل‘‘: اس جہاد کے ذریعے لوگوں تک تعلیم کو پہنچانا اور انسانیت کی بہتری کے لئے کام سرانجام دیئے جاتے ہیں۔ یہ جہاد مجموعی طور پر معاشرہ کی مختلف برائیوں اور ناانصافی کے خاتمہ اور مثبت موثر تبدیلی کے لئے ہے۔
  4. ’’جہاد بالمال‘‘ : اس کے ذریعے معاشرے میں معاشی ناہمواری کو دور کرنا مقصود ہے۔ انسانی فلاح و بہبود اور معاشرتی بہتری کے لئے خرچ کرنا جہاد بالمال ہے۔
  5. ’’جنگ کے خلاف دفاعی حکمتِ عملی‘‘: اگر کوئی تم پر حملہ آور ہو تو اپنے دفاع کے لئے لڑنا جہاد ہے۔ اسی تصور کو اقوام متحدہ نے بھی اپنے آئین میں درج کرلیا ہے‘‘۔

’’جہاد عالمی قیامِ امن اور فلاح و بہبود کی ضمانت ہے۔ اسلام کا تصورِ جہاد بہت واضح ہے، بدقسمتی سے اسے بالکل غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ بعض جہادی گروہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے جہاد کا غلط معنی و مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا جس سے جہاد اور دہشت گردی کو خلط ملط کردیا گیا‘‘۔

4۔ ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’The Reality of Terrorism‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں۔ دہشت گردی ایسی چیز نہیں جو اچانک ظہور پذیر ہو جائے بلکہ دہشت گردی کا ارتقائی عمل تنگ نظری اور انتہا پسندی سے ہو کر گزرتا ہے اور عسکریت پسند دہشت گردی کے عمل میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ تنگ نظری اور انتہا پسندی کے رویے فکری اور نظریاتی ہیں جو عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے عمل کو جنم دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے انسانیت کش عمل کو کسی بھی مذہب کے ساتھ منسوب کرنا درست عمل نہیں کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب انسانی جانوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔

دہشت گردی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک کی معیشت کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہورہی ہے۔ اس کے سدِّ باب کے لئے ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی غربت کو ختم کرنے کے لئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ انسانوں کو باہم قریب لانے کے لئے ضروری ہے کہ مذاہب کے مابین مکالمہ اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے نیز موثر انداز میں معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے Multiculturalism اور Integration کو بھی بروئے کار لاتے ہوئے عالمی سطح کے سیاسی تنازعات کو بھی ان کے حقیقی معنوں میں حل کیا جائے‘‘۔

5۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے انتہا پسندی، تنگ نظری، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف علمی و فکری میدانوںمیں بھرپور جد و جہد کی ہے۔ اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ناقابلِ تردید دلائل و براہین پر مشتمل آپ کا تاریخی فتوی 2010ء سے کتابی شکل میں دست یاب ہے اور دنیا بھر میں قبولِ عام حاصل کر چکا ہے جسے دنیا بھر کے محققین نے سراہا ہے۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے تحقیقی ادارے مجمع البحوث الاسلامیۃ (قاہرہ، مصر) نے بھی اس کے مشتملات کی تائید کی ہے اور اس پر مفصل تقریظ لکھی ہے۔ آپ کا یہ تاریخی فتویٰ اِس وقت تک اردو، عربی، انگریزی، نارویجن، فرانسیسی، ہندی، سندھی اور انڈونیشین زبانوں میں چھپ چکا ہے، جب کہ ڈینش، ہسپانوی، ملایالم، فارسی اور ترکی زبانوں میں بھی جلد شائع ہوگا۔

6۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشتگردی اور دہشتگرد نظریات کے خاتمے کیلئے ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کیلئے 46کتابوں پر مشتمل ’’امن نصاب‘‘ مرتب کر کے عظیم کارنامہ سرانجام دیا جسے مسلم و غیر مسلم معاشروں میں پذیرائی ملی۔ اِنتہا پسندانہ تصورات و نظریات کے خلاف اور اِسلام کی محبت و رحمت، اَمن و رواداری اور عدمِ تشدد کی تعلیمات پر مبنی یہ نصاب دنیا میں امن و سلامتی کے لیے منہاج القرآن انٹرنیشنل اور شیخ الاسلام کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ضرورت اِس اَمر کی تھی کہ اِس علمی ذخیرہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک قدم اور آگے بڑھا جائے اور مختلف طبقاتِ زندگی کے لیے مختلف دورانیے کے کورسز تیار کیے جائیں تاکہ ان کورسز کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد کو عملی طور پر اتنا تیار اور پختہ کر دیا جائے کہ وہ کسی بھی سطح پر اِنتہا پسندانہ نظریات و تصورات سے نہ صرف خود محفوظ رہیں بلکہ اپنے اپنے حلقات میں اِسلام کے اَمن و محبت اور برداشت پر مبنی اَفکار و کردار کو بھی عام کر سکیں۔

اِس وقت عالم انسانیت کا سب سے اہم مسئلہ اَمن و اَمان کی بحالی ہے۔ اس اہم اور فوری مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کوئی ادارہ، ریاست یا یونیورسٹی آگے نہیں بڑھی کہ قیامِ اَمن اور اِنسداد دہشت گردی و انتہا پسندی کو ایک science، subject اور curriculum کے طور پر متعارف کروایا جائے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس فوری اور ناگزیر ضرورت کا بروقت اِدراک کرتے ہوئے فیصلہ فرمایا کہ تحریک منہاج القرآن اپنی تعمیری اور فکری روایات کے مطابق اِس ذمہ داری کو بھی پورا کرے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے اُنہوں نے ’فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب (Islamic Curriculum on Peace and Counter-Terrorism)‘ مرتب فرمایا جو پانچ مختلف طبقات کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی طرف سے یہ نصابِ امن نہ صرف اُمتِ مسلمہ بلکہ پوری دنیا کے لیے یہ ایک عدیم النظیر اور فقید المثال تحفہ ہے۔ اِن شاء اﷲ یہ نصابات بحالیِ اَمن کے سلسلے میں مختلف طبقاتِ معاشرہ کی فکری و نظریاتی تربیت کے سلسلے میں ایک سنگِ میل ثابت ہوں گے۔

پانچ مختلف طبقات کے لیے تیار کردہ نصاب کی تفصیل یہ ہے:

  1. یہ نصاب ریاستی سکیورٹی اِداروں کے افسروں اور جوانوں کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے نہ صرف اُن کی علمی و فکری اور نظریاتی و اِعتقادی تربیت کی جائے بلکہ اُنہیں عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہونے کا کامل تیقن بھی دیا جائے۔
  2. یہ نصاب اَساتذہ کرام، پروفیسرز، ججز صاحبان، وکلائ، میڈیا پرسنز اور دیگر جملہ دانش ور طبقات کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ وہ دہشت گردوں کے فکری سرپرستوں کے غلط دلائل کا ردّ کرتے ہوئے نوجوان نسل اور اَفرادِ قوم کو اَمن پسندی کی تعلیم دے سکیں۔
  3. یہ نصاب اَئمہ، خطباء اور علماء کرام کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اِس کا مقصد انتہا پسندی و دہشت گردی کے حوالے سے انہیں قرآن و حدیث اور دیگر مستند و معتبر کتب سے مواد فراہم کرنا ہے تاکہ اَئمہ و خطباء اور علماء کرام درس و تدریس اور خطابات و مواعظ کے لیے مصادرِ اِسلامی سے ضروری رہنمائی حاصل کرسکیں۔
  4. یہ نصاب کالجز، یونی ورسٹیز اور دیگر تعلیمی اِداروں کے طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ وہ اِنتہا پسندانہ فکر سے متاثر ہونے کی بجائے اِسلام کے تصورِ اَمن و اِعتدال سے رُوشناس ہو کر معاشرے کے ذِمہ دار اور کارآمد اَفراد بن سکیں۔
  5. یہ نصاب سول سوسائٹی کے تمام طبقات کے لیے مرتب کیا گیا ہے چاہے اُن کا تعلق کسی بھی شعبہ ہاے زندگی سے ہو۔ یہ عوام النا س میں محبتِ اِنسانیت، عدمِ تشدد اور معاشرے میں اِسلام کے تصورِ اَمن و سلامتی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ بقیہ چار نصابات کے برعکس یہ صرف نصاب نہیں ہے بلکہ ایک مکمل درسی کتاب ہے جس میں نصاب کی تمام تفصیلات مع مشتملات شامل کردی گئی ہیں۔

’فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا یہ اِسلامی نصاب‘ نہایت جامع ہے۔ اگر مقتدر طبقات معتدل فکر کو پروان چڑھانے کے لیے اِس اِسلامی نصاب سے کما حقہٗ اِستفادہ کریں اور مذکورہ طبقات کے لیے اِس کے کورسز کا بھرپور اِہتمام کریں تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کامل یقین ہے کہ معاشرے اور دنیا سے اِنتہا پسندی و تنگ نظری کے عفریت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگا، اِنتہا پسندوں کی صورت میں دہشت گردوں کو ملنے والی نرسری کی نشو و نما ممکن نہ رہے گی اور اِن شاء اﷲ تعالیٰ ہماری دنیا صحیح اِسلامی تعلیمات کے مطابق اَمن و سلامتی، تحمل و برداشت، اِعتدال و میانہ روی، رواداری اور ہم آہنگی کا گہوارہ بن سکے گی۔