اسلام کے تصورِ اعتدال پر مبنی فکر کا نام تحریک منہاج القرآن ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

17 اکتوبر 2020ء تحریک منہاج القرآن 40 واں یوم تاسیس منا رہی ہے۔ تحریک کے فکری تشخص اور اس کی نظریاتی اساس کے باعث الحمدللہ تعالیٰ آج مغربی اور اسلامی دنیا میں تحریک منہاج القرآن اور اس کی کتب اسلام کی حقانیت اور حقیقی تعلیمات پر باقاعدہ عالمی حوالہ بن چکی ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کی فکر اور آواز اللہ رب العزت نے جتنی تیزی کے ساتھ اسلامی اور مغربی دنیا میں پہنچائی ہے اور جو سفر 40 سال میں طے ہوا، اس کی مثال پیش کرنا نہایت مشکل ہے۔

اللہ رب العزت کی توفیق سے آج شرق سے غرب تک تحریک منہاج القرآن کی فکر کو اسلام کی ایک مثبت علامت اور اچھی شناخت کے طور پر مغربی دنیا میں دیکھا جارہا ہے۔ دنیا میں دہشتگردی اور انتہاء پسندی کو اسلام کے ساتھ منسوب کردیا گیا تھا، اس سوچ نے اسلام کا چہرہ مسخ اور گدلا کردیا۔ اس بگڑے ہوئے تناظر میں جب اسلام کی صحیح، پُرامن اور مثبت شناخت کی تلاش کریں تو عالمِ مغرب، مغربی میڈیا اور سوشل میڈیا پر منہاج القرآن کا نام سرفہرست نظر آتا ہے۔ ان حقائق کو کوئی بھی فرد انٹرنیٹ پر باقاعدہ چیک کرسکتا ہے۔

تحریک منہاج القرآن عالمی تجدید اسلام کے دور میں داخل ہوگئی ہے اور آج اسلام کی مثبت تعبیر اور اسلام کی پرامن جدید مثبت شناخت کا نام تحریک منہاج القرآن ہے۔ اس سے مراد کسی اور کی نفی کرنا یا کسی پر Comment کرنا نہیں بلکہ یہ سب تحدیثِ نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو رحمت تحریک منہاج القرآن پر فرمائی ہے اس پر اس کی بارگاہ میں شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت کی خاص توفیق سے ہم عالمی سطح پر محض 40 سالوں میں اتنا سفر طے کرچکے ہیں، جو سفر لوگ سو سالوں میں بھی طے نہیں کرسکے۔

مغربی دنیا میں دیگر جماعتوں اور شخصیات کے تذکرے اسلام کی انتہا پسندی اور تنگ نظری کی تعبیر کے حوالے سے تھے جبکہ آج کے اس جدید دور کے مطابق اسلام کی جدید ماڈرن تعبیر، متوازن، مثبت، پرامن، جمہوری تعبیر اور شرق و غرب کو ملانے والی تعبیرجس سے مغربی دنیا خوف زدہ نہیں ہوتی بلکہ اسلام کو پڑھنے میں دلچسپی لیتی ہے، جب اس حوالے سے اسلام کی تعبیر کی بات آتی ہے، تو ان تمام جگہوں پر تحریک منہاج القرآن کا نام سرفہرست نظر آتا ہے۔ ان شاء اللہ آنے والے سالوں میں یہ حوالہ مزید معتبر، مضبوط اور ثقہ ہوتا جائے گا اور اگلی کئی صدیوں تک افقِ عالم پر چمکتا رہے گا۔

تحریک منہاج القرآن کو آپ صرف پاکستان کی حدود کے تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ اس کو عالمی سطح پر دیکھیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے تحریک منہاج القرآن کو کس مقام پر پہنچایا ہے۔ آج تحریک منہاج القرآن کے ذریعے اسلام کی تبلیغ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش تک محدود نہیں بلکہ شرق تا غرب تجدیدِ اسلام، تجدیدِ شناختِ اسلام، تجدیدِ تشخصِ اسلام یعنی اسلام کے پورے تشخص و تصور کی تجدید، تحریک منہاج القرآن کے ذریعے عالمی سطح پر ہورہی ہے۔

تحریک کی انفرادیت

ایک غیر جانبدار شخص سوال کرسکتا ہے کہ آپ نے سب کچھ ہی تحریک منہاج القرآن کو قرار دے دیا، جبکہ عالمی سطح پر اسلام کی تبلیغ تو شرق تا غرب اور جماعتیں بھی کررہی ہیں، منہاج القرآن نے کون سا بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم کسی پر تنقید نہیں کررہے،ہر ایک کا کام اللہ تعالیٰ کے ہاں اخلاص کے ساتھ قبول ہوتا ہے۔ ہر ایک کی اسلام کے لیے خدمات اور کاوشیں ہیں۔ لیکن میں نے تحریک منہاج القرآن کے حوالے سے جو خصوصی بات کی، اس پیمانے اور معیار کو سامنے رکھ کر مشرق و مغرب کی کسی ایک جماعت کا World Wide اس طرح کا حوالہ نہیں ہے کہ اُس جماعت کا نام اسلام کی پرامن، Progressive اور ماڈریٹ شناخت کے طور پر لیا جاتا ہو۔

بلاشبہ عالمی سطح پر ہمیں دوسری جماعتوں کے نام بھی نظر آتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان کے نام، ان کی کتب کے حوالے اور ان کا تذکرہ کس تناظر میں کیا جاتا ہے؟ یاد رکھیں! اس وقت انسانیت اور اسلام کو جس پر امن اور متوازن چہرے اور شناخت کی ضرورت ہے، اس شناخت کے حوالے سے دیگر جماعتوں کے تذکرے عالمی سطح پر نہیں ہیں۔

اگر سوال کیا جائے کہ ذکر تو آج بھی کتابوں میں ڈیڑھ دو سو سال پہلے کام شروع کرنے والوں کا زیادہ ہے تو آپ یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک ڈیڑھ دو سو سال پہلے کام شروع کرنے والوں کا ذکر کتابوں میں زیادہ ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اسلام کے پرامن، مثبت چہرہ کی شناخت، وقت کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق تبلیغ و تجدیدِ اسلام کے حوالے سے عالمِ مغرب میں کون مؤثر کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارا Break Through عالمی سطح پر مغربی دنیا میں یا عالمی منظر نامہ میں گزشتہ کچھ سالوں میں شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے مثبت و پرامن شناخت کے طور پر ایسی پذیرائی ملی جو کسی دوسرے کو اس تناظر میں نصیب نہ ہوئی۔

تحریک کے بےمثال کارکنان کا کردار

عالمی سطح پر تحریک کی یہ پذیرائی پاکستان سمیت دنیا بھر میں کام کرنے والے کارکنان و رفقاء کی بدولت ہی ممکن ہوئی۔ عالمی سطح پر تحریک منہاج القرآن کو ملنے والی پذیرائی کے پیچھے ایک ایک کارکن و رفیق کی محنت کارفرما ہے۔ ہر کارکن کا پرامن کردار اس عالمی پذیرائی کی بنیاد ہے۔ اس لیے کہ عالمِ مغرب کسی بھی تحریک یا شخصیت کو محض ایک یا دو واقعات یا کتب دیکھ کر پذیرائی نہیں دیتا بلکہ وہ اس تحریک اور اس کی قیادت و کارکنان کے ایک ایک پروگرام اور ان کی کاوشوں کو عمیق نظروں سے دیکھتا ہے۔ وہ صرف دو تین Events کو دیکھ کر کسی کے بارے تصور قائم نہیں کرتے۔ دو تین Events تو ایسے ہی ہیں جیسے بلبلہ آیا اور ختم ہوگیا۔ عالم مغرب اور اُن کا میڈیا کسی تحریک یا جماعت کی پوری تاریخ دیکھتے ہیں کہ اس تحریک اور اس شخصیت کی تاریخ اور پس منظر کیا ہے؟

تحریک منہاج القرآن کی تاریخ میں یونین کونسلوں، قصبوں، دیہاتوں، تحصیلوں اور اضلاع میں گزشتہ 40 سالوں سے تحریک کے لیے اپنا خون، اپنی جان، مال، اپنی توانائیاں، اپنے شب و روز دینے والے کارکنان کی قربانیاں ہیں۔ ان کارکنان کے کردار و عمل کا ایک تسلسل ہے۔ جس نے تحریک کو اتنی ثقاہت دے دی ہے کہ اسے عالمی تاریخ کا ایک حصہ بنادیا ہے جسے دنیا کا کوئی میڈیا نظر انداز بھی نہیں کرسکتا۔

عالمِ مغرب نے تحریک منہاج القرآن کے 40 سال کے تسلسل کو دیکھا کہ اس تحریک کے سفر میں کسی بھی جگہ کجی اور ٹیڑھا پن نہیں ہے، یعنی ایک ہی فکر جو شروع سے چلی تھی، اس تحریک کے کارکن ہمیشہ اسی راستے پر گامزن چلے آرہے ہیں۔ یہ کبھی دہشتگردی میں ملوث نہیں ہوئے، یہ کبھی کسی قسم کی زیادتی اور کرپشن کی طرف نہیں گئے، اس کے کارکنان پر فتنہ و فساد اور انتہا پسندی کا الزام اور دھبہ آج تک نہیں لگا۔ انہوں نے فروغِ تعلیم کا کام بھی کیا اور فلاحِ عامہ کے امور بھی سرانجام دیئے۔

سمجھانا یہ مقصود ہے کہ عالمی سطح پر ملنے والی اس شناخت اور پہچان کو کارکنان و رفقاء کی 40 سال کی کاوشیں طاقت دیتی ہیں۔ اگر کارکنان دعوت و تربیت اور فلاحِ عامہ کے کاموں میں مصروف ہیں اور تحریک کے تمام فورمز اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں تو ہر ایک کی کاوش کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہورہی ہے۔ عالمی سطح پر مانیٹرنگ کرنے کا طریقہ اور پیمانہ یہ ہے کہ اس امر کو دیکھا جاتا ہے کہ اس تحریک کے تمام کارکنان اپنی اپنی جگہ کاوشیں کرتے ہیں مگر سمت ایک ہی ہے، ان کے دعوے اور عمل میں کہیں فرق نہیں ہے، ان کی تحریک کی فکر سیکرٹریٹ ہو یا تحصیل لیول کے کارکنان، ہر جگہ ایک ہی ہے۔ جب اُن کی اس حوالے سے تسلی ہوئی ہے تو تب جاکر تحریک منہاج القرآن اُن کے نزدیک اسلام کے مثبت شناخت کا عنوان بن گئی ہے۔

اگر تحریک کی فکر اور اس کے کارکنان کے کردار و عمل میں تضاد ہوتا، تسلسل نہ ہوتا، کارکنان و رفقاء کی ہر فورم، نظامت اور شعبہ میں 40 سال کی کوشش و جدوجہد نہ ہوتی تو اس مقام تک پہنچنا ناممکن تھا۔ عالمی سطح پر تحریک کو ملنے والی پذیرائی کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ عالمِ مغرب کو ہمارے کردار و عمل اور فکر میں کہیں تضاد اور خلاء نظر نہیں آیا، تب جاکر انہوں نے تحریک کے جملہ علمی و فکری کام کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسلام کا اصل چہرہ قرار دیا اور اس کے لیے ان کے پاس کارکنان کے کردار و عمل کی صورت میں 40 سالوں پر مبنی گواہی موجود ہے۔

تحریک: اسلام کے معتدل چہرہ کی شناخت

تحریک منہاج القرآن ملکی و بین الاقوامی سطح پر آقاe کی غلامی و نوکری کررہی ہے۔ اسلام کی پرامن تعلیمات کی پیامبر اور عالمِ عرب و عجم میں اسلام کا تعارف اور شناخت کروارہی ہے۔ مغربی میڈیا نے برملا لکھا کہ گذشتہ 25 سالوں میں جب سے دہشتگردی کا ایک ماحول بنا ہے، ان سالوں میں اسلام کا چہرہ مسخ ہوگیا تھا مگر تحریک منہاج القرآن نے 25 سال سے چھائے ہوئے اندھیرے دور کرکے ہمیں اسلام کا حقیقی روشن چہرہ دکھادیا۔ انتہا پسندی، ماڈرن ازم اور مادیت پرستی ان تینوں انتہاؤں سے بچا کردینِ اسلام کی اصل تعبیر دینے والی ایک واحد تحریک صرف تحریک منہاج القرآن ہے۔ الحمدللہ! اس تحریک کو اللہ نے وہ کامل اعتدال عطا کیا ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ.

’’ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو ‘‘۔

(البقرة، 2: 143)

تحریک نے اس امت اور دین کو انتہاء پسندی لبرل ازم، الحاد، دہشت گردی اور مادیت سے بچایا، الغرض جملہ غلط اور گمراہ کن تصورات، تعبیرات اور Isms سے بچایا اور اسلام کو صحابہ، تابعین، ائمہ اور مجتہدین کے اسلام کے طور پر پیش کیا اور اعتدال کے ساتھ متعارف کروایا۔ اپنے آغاز کے اولین دن سے لے کر آج تک اسلام کے تصورِ اعتدال پر مبنی فکر کو لے کر آگے چلنے کا سہرا تحریک منہاج القرآن کے سر پر ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے قیام کا مقصد

ہماری تحریک، ہمارا مشن اور ہماری جدوجہد احیائے اسلام، تجدید دین اور غلبہ حق سے عبارت ہے۔ اس تحریک کا عنوان ’’منہاج القرآن‘‘ ہے یعنی قرآن کا راستہ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کرنے کا مقصد بھی یہی ہے جسے اللہ رب العزت نے یوں بیان فرمایا:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.

(التوبۃ، 9: 33)

وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے۔

غالب کرنے کے کئی معانی ہیں مگر ان تمام معانی میں بنیادی چیز ’’دین کو مغلوبیت کے حال سے نکالنا‘‘ ہے۔ یعنی دین کو طاقت و مضبوطی فراہم کرنا، اسے مستحکم کرنا اور زندگیوں اور معاشرے میں غالب کرنا ہے۔ اس مشن کو میں نے ابتدا میں ہی تحریک منہاج القرآن کا نام دیا۔ بعد ازاں اس کام کو ہمہ گیر اور جامع بنانے کے لیے ہم یکے بعد دیگرے مختلف جہات سے اضافہ کرتے چلے گئے۔

  • منہاج القرآن نے قیام کے بعد جس میدان سے عملی زندگی کا آغاز کیا وہ ’’دعوت‘‘ ہے۔
  • بعد ازاں تنظیمات قائم ہوئیں اور نظامتِ تربیت سمیت دیگر نظامتیں اور فورمز معرضِ وجود میں آتے چلے گئے۔
  • تحریک کے ساتھ وابستگی کو ’’رفاقت‘‘ کا نام دیا گیا۔
  • فروغِ تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے نام سے کام کا آغاز کیا۔ ایک اکیڈمی بنائی پھر انسٹی ٹیوشن بنا، پھر جامعہ بنی، پھر یونیورسٹی ہوئی۔
  • بعد ازاں منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے ذریعے سکولز اور تعلیمی ادارے بنتے چلے گئے۔ گویا دعوت، تربیت اور تنظیم کے کام کے ساتھ تعلیم کے کام کا آغاز کیا۔
  • تعلیم کے کام کا آغاز کر لینے کے بعد پھر خدمتِ انسانیت ’’ویلفیئر‘‘ کے کام کا آغاز کیا۔
  • تعلیم، صحت اور فلاح عامہ کا ملک بھر میں نیٹ ورک قائم کرنے کے بعد لوگوں کے اندر شعور کی بیداری اور نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔

تجدید دین کے سفر کی انتہاء نہیں ہے!

یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ غلبۂ دین حق، تجدید اسلام اور احیائے اسلام کے اس مصطفوی مشن کی تکمیل کو کبھی کسی متعین وقت کے ساتھ خاص نہ کریں۔ ایسا کبھی مت سوچیں کہ تحریک جن میادین میں کام کررہی ہے، ان میں سے کسی ایک پر اگر ہم اپنی توجہ کاملاً مرکوز کر لیں گے، تو اگر ایک خاص عرصہ میں اس کا حتمی نتیجہ غلبۂ حق، تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کی شکل میں ظاہر ہوگیا تو کام مکمل ہو گا ورنہ کام ادھورا رہ جائے گا۔

نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کام جب اپنی سمت میں نتائج پیدا کرتا ہوا جا رہا ہو، اُس کی کئی جہات ہوں اور اُس میں نشیب و فراز (ups and downs) آ رہے ہوں تو اس امر کو دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر یہ اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہے ہیں یا اُس ہدف و مقصد سے دور ہورہے ہیں۔

میں یہ سمجھتا ہوں تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کا یہ سفر ہمیشہ سوئے کمال جاری رہے گا۔ اس لیے کہ کمال (perfection) کی کوئی آخری حد (limit) نہیں ہوتی کہ اب اس کے بعد آگے perfection کی ضرورت نہیں ہے۔ نہیں بلکہ ہر قدم perfection کے بعد بھی perfection کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تکمیل ایک ایسا process ہے کہ اس کی کوئی انتہا (end) نہیں ہے۔ تکمیل (perfection) کسی بھی چیز کا کمالِ حسن (extreme beauty) ہے اور تکمیل (perfection) اور حُسن (beauty) کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ آپ ایک خوبصورت ترین شے بنا لیں، تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے بعد اس مکان، لباس، باغ، سڑک، سٹریٹ یا دنیا کی کوئی بھی شے ہو، اس سے زیادہ خوبصورت نہیں بن سکتی۔ نہیں، یہ سمجھنا کہ اس سے زیادہ خوبصورت کوئی شے نہیں ہو سکتی۔

گویا ہم ہمیشہ تکمیل کے سفر میں رہتے ہیں اور تکمیل کے سفر میں بڑے مراحل اور منازل ہمیشہ ہوتی ہیں جنہیں انسان achieve کرتا چلا جاتا ہے۔ اگر وہ یہ سمجھ لے کہ تکمیل کا سفر تمام جہات سے (in all aspects) ختم ہو گیا ہے اور end ہو گئی ہے، اس سے آگے تکمیل کے لیے کوئی اور مرحلہ نہیں ہے تو پھر انسان کی محنت، کوشش (struggle) جامد (static) ہو جاتی ہے، اُس میں جمود آ جاتا ہے، تحرک (mobility) نہیں رہتا، action نہیں رہتا، movement اور evolution نہیں رہتی۔ لہذا یاد رکھیں کہ ارتقاء کی صورت میں تکمیل کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔

تکمیلِ تجدیدِ دین کا مفہوم

تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کے لیے میں نے تحریک منہاج القرآن قائم کی تھی۔ اللہ رب العزت نے مجھے جس ذمہ داری اور نوکری کے لیے چنا اور احسان کیا، ایک لحاظ سے وہ تجدیدِ دین ہوچکی ہے اور دوسرے لحاظ (Sense) سے یہ سفر جاری ہے۔ دین اسلام نے چونکہ قیامت تک رہنا ہے، اس لیے یہ نہیں کہتے کہ اس کے بعد کسی کام کی ضرورت نہیں، یہ ایک ایسی تکمیل ہے جس کے مرحلے تسلسل سے جاری رہیں گے، میری زندگی میں بھی رہیں گے، میری زندگی کے بعد بھی رہیں گے اور پھر کئی مرحلے آگے بڑھتے رہیں گے۔

تجدید دین کی تکمیل کیسے ہو چکی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ کو ذہن میں رکھیں اور یہ بات ذہن میں رہے کہ مجدد کاوش (struggle) کرتا ہے، فرائض ادا کرتا ہے تو اس کے کام اور خدمات کے اثرات (impact) موجودہ صدی کے اختتام اور اگلی صدی کے شروع میں ظاہر ہوتے ہیں۔

اس موقع پر میں آپ کو سابقہ صدیوں کے مجددین اور تحریک منہاج القرآن کا ایک موازنہ دینا چاہتا ہوں۔ چودہ سو برس کی تاریخِ تجدیدِ دین اور تاریخِ دعوت و عزیمت پر مختلف کتب ائمہ نے اپنی اپنی معلومات، معرفت اور فہم کے مطابق اپنے اپنے زمانے میں تحریر کی ہیں کہ کس شخصیت نے تجدیدِ دین کے حوالے سے کیا کام کیا ہے۔ اس موضوع پر لکھی گئی تمام کتب کا بغیر تعصب اور بغیر عقیدت کے بالکل صاف ذہن کے ساتھ درج ذیل سوالات کی روشنی میں غیر جانبدارانہ مطالعہ کریں:

  1. اس دور کے کیا حالات تھے؟
  2. اُس دور کی کیا کیا ضرورت تھی؟
  3. دینِ اسلام کے فروغ کے حوالے سے کیا کیا کمی تھی؟
  4. کس میدان میں تجدید کی ضرورت تھی؟
  5. دین کے کس کس گوشے میں مغلوبیت تھی؟
  6. کن تعلیمات اور اقدار پر کام ہونے بند ہو گئے تھے؟
  7. دین پر عمل کے لحاظ سے کیا ماحول تھا؟
  8. اس صدی کے مجدد نے کیا اور کس طریقے سے contribute کیا؟
  9. اُس مجدد کی مجددانہ خدمات کے کیا نتائج آئے اور کیا اثرات مرتب ہوئے؟
  10. اس کام نے سوسائٹی میں کیا تبدیلی پیدا کی؟
  11. اس مجدد نے دین کے اندر کس چیز کو غالب کیا جس کی وجہ سے امت نے بلا اختلاف اُن کے کام کو متفقہ طور پر اُس صدی کی تجدید کہا؟

چاہیں چودہ صدیوں کے کل مجددین کے کام کو پڑھ لیں، چاہیں تو کوئی دو چار مجدد جو امت مسلمہ کی تاریخ میں سب سے بڑے ہوئے اور جنہوں نے تجدید اور احیائے دین کا فریضہ ادا کیا، اُن کے کام کو چن لیں اور ان کی تمام contribution کا مطالعہ کریں اور پھر آج سے 40 سال قبل قائم ہونے والی تحریک منہاج القرآن کے کام اور خدمات کا بھی اسی تناظر میں مطالعہ کریں کہ 40 برس میں آج تک جو کچھ یہاں سے produce ہوا اور سوسائٹی اور امت کو ملا، اس نے تجدیدِ دین کے حوالے سے کیا کردار ادا کیا اور امت اور معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

کون تجدیدِ دین کررہا ہے اور احیائے اسلام کے مشن پر کاربند ہے؟ اسے جاننے کے لیے مذکورہ بات کو پیمانہ بنالیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کو کسی سے عقیدت اور محبت ہے تو اُس کے کام کو تجدید کہہ لیں اور کسی سے اختلاف ہے تو اُس کے تجدیدی کام کا انکار کر دیں۔ یہ آپ کی اور ہماری مرضی سے طے نہیں ہوگا بلکہ پورے تیرہ چودہ سو سال کے تجدیدی کاموں کا جو معیار ہے اُسی کو پیمانہ مقرر کرلیں اور اس پیمانہ پر منہاج القرآن کے کام کو پرکھ لیں۔

کسی سے جھگڑا کرنے، اختلاف کرنے، کسی کے کام کے انکار کرنے اور بحث و تکرار کی ضرورت نہیں۔ بس وہ مجددین، جن کو امت اور دنیا مانتی ہے کہ انہوں نے دین کی تجدید اپنی صدی میں کی، ان کے کام کا احاطہ کریں اور پھر تحریک منہاج القرآن نے 40 سال میں جو خدمات سرانجام دیں، اس کے ساتھ موازنہ کرلیں، اس غیر جانبدارانہ و غیر متعصبانہ تجزیہ سے یہ حقیقت آپ پر واضح ہوجائے گی کہ تحریک منہاج القرآن ہی اس صدی میں تجدیدِ دین کی تحریک ہے۔

اس تناظر میں کیے گئے موازنہ کے نتیجے میں اگر چودہ سو سال میں کسی ایک صدی کا کام بھی تحریک منہاج القرآن کے کام سے بڑھ جائے، تو بلا جھجک تحریک منہاج القرآن کی تجدیدی خدمات کا انکار کر دیں۔ تحریک منہاج القرآن کے کام میں موجود ہمہ گیریت و عالمگیریت ہی کی بناء پر میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ تحریک منہاج القرآن اس صدی کی تجدیدِ دین کی تحریک ہے۔

تحریک کی ہمہ جہتی خدمات کا اجمالی جائزہ

ذیل میں تحریک منہاج القرآن کی چند تجدیدی خدمات کا اجمالی خاکہ درج کیا جارہا ہے:

1۔ علمی و فکری تجدیدی خدمات

تحریک منہاج القرآن 40 سال کے عرصے میں 600 سے زائد مطبوعہ کتب امت کو دے چکی ہے۔ اتنی تعداد میں کسی کی کتب کا اس کی زندگی میں شائع ہوجانا، تاریخ کا کوئی ایسا واقعہ میرے علم میں کبھی نہیں آیا۔ قرآن مجید کے فہم کے لیے عرفان القرآن امت اور انسانیت کو دیا ہے۔ جس کا دنیا کی کئی بڑی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ صرف حدیث پر چھوٹی بڑی تمام کتابیں، اربعینات جیسے کتابچے (subject wise) ملا کر دو سو سے زائد کی تعداد میں اس تحریک نے امت کو دیئے ہیں۔ برصغیر میں کئی صدیوں سے حدیث پر کام اور لٹریچر کا پیدا ہونا بند ہو چکا تھا۔ چھ سات سو سال پہلے کے کیے ہوئے کاموں پر زیادہ تکیہ تھا۔ پچھلی ایک دو صدیوں میں کچھ کام ہوئے ہیں مگر وہ شروح اور حواشی تک محدود تھے۔ ہر موضوع کو حضور علیہ السلام کی حدیث کی شکل میں ایک compendium کے طور پر لوگوں کے ہاتھ تک پہنچایا اور علم الحدیث میں اتنا بڑا کام جو کئی صدیوں سے بند تھا، اسے الحمد للہ تحریک منہاج القرآن کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ نے امت کو عطا کیا۔ آج عالمِ مغرب اور عالمِ عرب بھی اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام کی حقیقی تعلیمات پر مبنی ہر موضوع پر ثقہ اور مستند کتب بھی تحریک منہاج القرآن کا وہ تجدیدی کام ہے جس سے پوری دنیا میں اسلام کا معتدل و متوازن نظریہ (Moderate Vision) فروغ پارہا ہے۔

2۔ فروغِ عشقِ رسول ﷺ

ماضی میں حضور علیہ السلام کی ذاتِ اقدس کے ساتھ عشق و محبت اور آقا علیہ السلام کا ادب اور تعظیم کا تصور، دوسرے خیالات اور افکار و نظریات کے غلبے کے باعث ختم ہو گیا تھا یا دب گیا تھا یا نہایت کمزور ہو گیا تھا۔ یہ concept دلیل سے خالی اور صرف رسمی (traditional) رہ گیا تھا۔ عقیدئہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عقیدئہ ادبِ رسول a، عقیدئہ نسبتِ رسول a کے پیچھے دلیل ختم ہو گئی تھی اور لوگ اس محبت کے تصور کو traditionally اور emotionally رکھتے تھے اور صرف اَن پڑھوں، جاہلوں میں یہ چیز گھرتی جارہی تھی۔ سوسائٹی، امت اور ہمارا یہ خطہ برصغیر پاک و ہند، مجموعی طور پر اس عقیدہ سے خالی ہوگیا تھا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ محبتِ رسول رہی نہیں تھی، نہیں بلکہ عشقِ رسول اور محبتِ رسول رسماً (traditionally) برقرار تھی مگر بہت سارے گھروں اور حلقوں سے نکل گئی تھی۔ عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی دین، مذہب اور عقیدہ غالب اور طاقتور ہو گیا تھا۔ پڑھا لکھا طبقہ دوسری سوچ کی طرف متوجہ (attract) ہو گیا اور جو لوگ عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرنے والے تھے وہ پسماندہ تصور ہونے لگے۔ اُن میں بات کرنے کی جرأت نہ رہی۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عظمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدے کے دلائل تھے مگر یہ سارا خطہ عقیدے کی دلیل سے خالی ہو گیا تھا۔

اس عرصے میں دروس قرآن سے میں نے ابتداء کی، حلقات کیے، اجتماعات کیے، خطابات کیے، کتب تصنیف ہونا شروع ہوئیں، لٹریچر آیا اور پھر اتنی کتبِ حدیث اور دلائل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آگیا کہ اب اس کو کوئی رد نہیں کر سکتا۔

یعنی ہم نے نہج، سوچ، فکر، کلچر تبدیل کر دیا اور محبت و عشقِ رسول اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سوسائٹی میں دوبارہ بطورِ کلچر بحال کر دیا۔ اس کو تجدیدِ دین کہتے ہیں کہ ہم نے سوچ کی طرز، فہم اور کلچر بدل دیا ہے اور جو عقیدہ مغلوب تھا اُس کو غالب کر دیا ہے۔ اب اس پر کوئی طعن نہیں کر سکتا، کوئی celebrate کرے یا نہ کرے مگر کسی کی مجال نہیں ہے کہ کسی سمت سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آواز اٹھے۔

3۔ دہشتگردی کے خلاف فتویٰ

اسی طرح جب دہشتگردی اور انتہا پسندی کی لہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اسے چیلنج کرنے کی پوری مسلم دنیا میں کسی نے جرأت ہی نہیں کی۔ بس ایسے ہی مذمت (condemn) کرتے تھے مگر دلیل کی قوت کے ساتھ کوئی اُس کے سامنے کھڑا نہیں ہوا اور متبادل بیانیہ(counter narrative) پیش نہیں کیا۔ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف آج کے دن تک بھی پوری مسلم دنیا میں counter narrative صرف منہاج القرآن نے پیش کیا۔ آج امریکہ، انگلینڈ، یورپ اور عرب دنیا میں اسلام کے حوالے سے جو ابحاث ہوتی ہیں اورجو لوگ اسلام کی تعلیمات کا دفاع کرتے ہیں اور counter terrorism کا narrative پیش کرتے ہیں تو اُن کے پاس الحمدللہ سوائے ہمارے کسی اور کا حوالہ ہی نہیں ہوتا۔ وہ دہشت گردی کے خلاف دیئے جانے والے ہمارے مبسوط فتویٰ اور کتب کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور یہ تمام چیزیں صرف مبالغہ اور خالی دعویٰ ہی نہیں بلکہ یہ حقائق Online موجود ہیں۔

اامریکہ اور یورپ میں موجود وہ غیر جانبدار غیر مسلم سکالر جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آشنا ہیں، جب وہ مسلمانوں اور اسلام کی حمایت میں بات کرتے ہیں تو وہاں میرے فتویٰ اور کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ کئی ممالک میں ہمارا فتویٰ ان ممالک کی سرکاری compendium اور guideline بن گیا ہے۔ لہذا یہ تحریک منہاج القرآن کا تجدیدی کارنامہ ہے کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف متبادل بیانیہ (counter narrative) پیش کیا ہے۔

4۔ ہر طبقہ فکر میں پذیرائی

گزشتہ کچھ عرصہ سے اسلام کو practice کرنے والے لوگ بالکل انتہا پسند ہوگئے یا بالکل سیکولر ہو گئے۔ درمیان میں space ختم ہو گئی تھی یا بہت تھوڑی رہ گئی تھی جس میں لوگ معتدل (moderate) ہوں۔ یعنی اسلام کی اقدار کو رکھنے میں جھجھک و شرم محسوس نہ کریں، ماڈرن بھی رہیں اور commitment بھی دین کے ساتھ رہے۔ نیز اُن کو کوئی moderate vision ملے جو سیکولر مزاج لوگوں کے لیے بھی قابل قبول ہو سکے۔ برصغیر پاک و ہند میں پچھلے ساٹھ ستر سال سے moderate vision رکھنے والا اور دین کی approach دینے والا کوئی نہیں رہ گیا تھا۔

ان حالات میں تحریک منہاج القرآن نے اسلام کا moderate vision اور version قوت اور طاقت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آج الحمدللہ نہ صرف نوجوان نسل، پڑھا لکھا طبقہ بلکہ دنیا کی بڑی بڑی نامور شخصیات تحریک منہاج القرآن کی ممبر شپ لیتے ہوئے اعزاز محسوس کرتی ہیں۔ تحریک منہاج القرآن نے اسلام کا Moderate vision اس مضبوطی اور دلائل کی قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا کہ نوجوان نسل کے اندر کا سویا ہوا اسلام پھر سے زندہ کر دیا ہے اور اُن کو پھر دینِ اسلام سے ایک رغبت و تعلق حاصل ہوگیا ہے۔ نوجوان نسل اور مؤثر لوگ دینی حلقے سے دور بھاگ گئے تھے، وہ کسی عالمِ دین یا دینی آدمی کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ تحریک نے احیاء اسلام کا یہ کام کیا کہ اُن کے اندر دین کی مری ہوئی وابستگی پھر سے زندہ کردی۔

کارکنان کے لیے پیغام!

تحریک منہاج القرآن کے 40 سال کی خدمات اور اس کے نتائج و اثرات کا گزشتہ صدیوں میں ہونے والے تجدیدی کام سے موازنہ (compare) کیا جائے تو الحمدللہ تحریک کی تجدیدی خدمات گزشتہ صدیوں میں ہونے والی تجدیدی خدمات سے کئی گنا زیادہ نظر آئیں گی۔ اللہ رب العزت نے تحریک کو اس صدی کی تجدیدی تحریک کے طور پر منتخب فرمایا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے۔ کارکنان و رفقاء اس انعامِ خداوندی پر جتنا بھی شکر بجا لائیں کم ہے، مگر ابھی ہم نے جامد (static) نہیں ہونا بلکہ بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہم اپنی کاوشیں جاری رکھیں گے کہ آنے والی صدیوں میں بھی زمانے تحریک منہاج القرآن کی علمی و فکری خدمات سے نور لیتے رہیں اور تحریک کا فیض ہر خاص و عام تک پہنچے۔ لہذا اس تحریک کو آنے والی صدیوں تک پہنچانا، شمع سے شمع جلانا اور اگلے زمانوں کو روشن کرنا اور اگلی نسلوں کو منتقل کرنے کے اس مشن پر استقامت سے آگے بڑھتے رہیں۔ کارکنان و رفقاء تحریک! وہ لوگ جنہوں نے 1980ء میں میرے ساتھ مل کر اس تحریک کی بنیادیں رکھی تھیں اور آج کے کارکنان، تمام تنظیمات اور خواتین و حضرات رفقاء ان تمام کی کوششیں تحریک کی عالمی پذیرائی اور اسلام کے فروغ کی کاوشوں میں جمع ہیں اور تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ابھی ہم نے اس جدوجہد کو اسی طرح جاری رکھنا ہے اور انسانی تاریخ میں افقِ عالم پر اسلام کا معتبر حوالہ بننا ہے۔ اگلی نسلوں تک اصلاح کی ذمہ داری کم از کم ایک سو سال تک تحریک منہاج القرآن کے سپرد ہے۔ اگلی صدی کو اب اسلام کی حقیقی تعلیمات اور اسلام کے پرامن چہرہ کی وراثت تحریک منہاج القرآن نے سپرد کرنی ہے۔ ان شاء اللہ اگر استقامت و اخلاص سے رہے اور امانت و دیانت، محبت و اخلاص اور ریاضت و مجاہدے کو جاری رکھا تو اللہ تعالیٰ آپ کو بہت بلندیاں عطا فرمائے گا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کو قبولیت کی مبارکبادیاں نصیب ہوں گی۔