بین المذاہب ہم آہنگی: سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں

پروفیسر محمد الیاس اعظمی

اللہ تعالیٰ نے انسان اور انسانی تہذیب کی بنیاد عالمگیریت پر رکھی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر انسانیت کے رہبر اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اپنے دور میں اپنی امتوں کو اتحاد و اتفاق اور باہمی اخوت و محبت کا درس دیتے رہے ہیں۔ بطورِ خاص اس حوالے سے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے معاشرے میں اصلاحِ احوال کا علَم بلند کیا کہ جس میں اگرچہ بہت سی خوبیاں بھی تھیں مگر معاشرتی اعتبار سے اس میں کچھ خرابیاں بھی متحرک تھیں جن میں مذہبی انتہا پسندی، ظلم و تشدد، مذہبی منافرت اور تنگ نظری بھی عروج پر تھی۔ جو لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوتِ توحید کو قبول کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے تو داعیانِ کفر و شرک کی طرف سے ان موحدین کے لیے زندگی اجیرن بنادی جاتی۔ انہیں نہ صرف اپنے وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا جاتا بلکہ ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے اور انہیں حقِ زندگی ہی سے محروم کردیتے تھے، یا پھر مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی اذیت ناک سزائیں دیتے کہ ہاتھ پائوں میں میخیں تک ٹھونک دیتے تھے،اس ضمن میں قرآن مجید میں ہمیں نمرود، فرعون اور دیگر منکرین و معاندینِ انبیاء کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سیرتِ مبارکہ اور اپنے طرزِ عمل سے مذہبی ہم آہنگی کے ماحول کو فروغ دیا اور اس کی معاشرتی ضرورت و اہمیت پر بھی زور دیا جس کے نتیجے میں مذہبی منافرت اور تنگ نظری کا وجود پاش پاش ہوگیا۔

معاشرے میں موجود دیگر مذاہب اور تہذیبوں کے لوگوں کے ساتھ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ایک مسلمان کو کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ نیز غیر مسلموں کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے چاہئیں کہ جس سے معاشرے کے اندر کوئی مذہبی منافرت بھی نہ پھیلے اور معاشرہ انسانی اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کی مضبوط بنیاد پر آگے بڑھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتا رہے۔ آئندہ سطور میں انہی سوالات کا سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا۔

مذہبی دہشت گردی اور تنگ نظری ہر دور میں معاشرتی فتنہ وفساد کا سبب بنتی رہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بھی مصطفوی تحریک کے مخالفین کفار و مشرکینِ عرب کی مذہبی دہشت گردی اپنے عروج پر تھی جس کی چند مثالیں ذیل میں ملاحظہ ہوں:

1۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بن رباح کا شمار اُن سات ’’السابقون الاولون‘‘ میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے توحید کی دعوت پر لبیک کہا۔ چنانچہ قبولِ حق کے اس جرم کی پاداش میں اُن کے مالک امیہ بن خلف نے مذہبی تعصب اور تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح آپ پر مظالم کے پہاڑ توڑے وہ تاریخ، انسانی کا ایک بدترین باب ہے۔

2۔ مکہ کے جاہل معاشرہ میں نہ صرف مردوں کو مذہبی تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ صنفِ نازک میں سے بھی جو خوش نصیب عورتیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ توحید پر لبیک کہتے ہوئے دامنِ اسلام سے وابستہ ہوجاتیں تو ’’مردانِ حبل‘‘ اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ حضرت سمیہ، حضرت عمار بن یاسر کی والدہ اور ابو حذیفہ بن مغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں۔ جب مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید کی صدائے حق بلند کی تو حضرت سمیہؓ عالمِ پیری کی زندگی بسر کررہی تھیں۔ اعلانِ نبوت سن کر اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متاثر ہوکر حضرت سمیہؓ، آپ کے خاوند حضرت یاسرؓ اور بیٹے حضرت عمارؓ تینوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس طرح اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں نمبر حضرت سمیہؓ کا تھا جن کو ’’السابقون الاولون‘‘ کا شرف حاصل ہوا۔

قبول اسلام کے بعد چند ہی روز اطمینان سے گزرے تھے کہ قریشِ مکہ نے آپؓ کے گھرانہ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور پھر روز بروز اس میں شدت بھی آتی رہی اور بالآخر آپ کو شہید کردیا گیا۔

3۔ داستانِ عشق و مستی رقم کرنے والے اور کتابِ شجاعت و بسالت کا ایک نمایاں عنوان حضرت خبابؓ بن ارت ہیں۔ آپ کا شمار بھی ’’السابقون الاولون‘‘ میں ہوتا ہے اور آپ چھٹے خوش نصیب فرد ہیں جنہیں زبانِ رسالتِ پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعوتِ توحید سن کر اس پر لبیک کہنے کا شرف حاصل ہوا اس لیے آپ کا لقب ہی تاریخِ اسلام میں ’’سادس الاسلام‘‘ پڑ گیا۔

حضرت خبابؓ بن ارت غلام ہونے کی وجہ سے بے یارو مددگار تھے۔ آپؓ کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ ہرطرف کفر کی یلغار اور شرک کی تاریکی کا راج تھا۔ ایسے جب آپؓ نے کلمہ پڑھ کر اسلام لانے کا اعلان کیا تو ہر طرف سے کفار کا غیظ و غضب اُن کے خلاف اُبل پڑا۔ آپؓ کو لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں لٹادیا جاتا کہ لوہے کی گرمی کی تپش سے اُن کا جسم تپنے لگے۔ کبھی ننگے بدن دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹادیا جاتا اور سینہ پر بھاری پتھر رکھ کر ایک آدمی مسلتا۔ حضرت خبابؓ یہ انسانیت سوز مظالم برداشت کرتے، انگاروں پر لوٹتے لوٹتے گوشت کباب کی طرح بھن جاتا۔ لیکن ان سب سختیوں کے باوجود آپؓ قریش کے مظالم سے مرعوب نہ ہوئے اور دینِ اسلام پر ثابت قدم رہے۔

یہ چند مثالیں ہیں جو مذہبی دہشت گردی کے تاریخی پسِ منظر کے طور پر تحریر کی گئیں۔ تاریخ میں اس قسم کے ہزاروں واقعات محفوظ ہیں۔

یہ تھی وہ تہذیب جس کی زلفِ پریشاں کی حنا بندی کرکے حضور ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حسنِ کردار اور سنہری تعلیمات کے سانچے میں ڈھال کر دنیائے انسانی کو ایک ایسی تہذیب سے نوازا جس کا ہر پہلو اپنی تابناکی میں مہرِ فلک کی کرنوں کو شرماتا ہے۔ وجودِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھوٹنے والی اسلامی تہذیبِ نونے جب ارتقاء کی منازل طے کیں تو دنیائے انسانی کو وہ تہذیبی نمونے دیئے کہ جن کی سیرت و کردار کا فیض پاکر بادیۂ ضلالت میں بھٹکنے والے افراد آفتابِ ہدایت بن کر فلکِ حیات پر چمکنے لگے۔

عہدِ رسالت میں مذہبی ہم آہنگی کے چند مظاہر

کفرو شرک کی دلدادہ تہذیب کے تاریک ماحول میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس حسنِ تدبیر اور بلند کردار سازی کے ساتھ انسانوں کے درمیان باہمی محبت و موانست، تحمل وبردباری اور برداشت و رواداری کی ایسی تخم ریزی کی کہ ہر طرف اخوت و محبت، پیار و الفت کی کشتِ خضریٰ لہلہانے لگی۔

آیئے! اس عہدِ ہمایوں پر اس حوالے سے نظر ڈالیں کہ اس دورِ زرّیں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آپس میں مذہبی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے میں کس طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ غیر مسلموں کے جان و مال، عزت و آبرو کے حوالے سے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا عملی نمونہ پیش کیا اور یہ کہ اپنے غلاموں یعنی صحابہ کرامؓ کو کیا ہدایات عطا فرمائی تھیں کہ جو آئندہ نسلوں کے لیے بھی رہنمائے حیات قرار پائیں۔ غیر مسلموں سے معاشرتی تعلقات کے بارے میں نبوی نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ اہلِ نجران کے ساتھ معاہدہ

اسلام کی شوکت قائم ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ نجران (عیسائیوں) کے ساتھ معاہدہ کیا، وہ اس قدر جامع ہے کہ اپنے مشتملات کے اعتبار سے وہ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی، مذہبی، معاشرتی، معاشی اور قانونی حقوق کی ایک ایسی دستاویز ہے کہ جس نے غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کردی ہے۔ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسلامی ریاست اور اہلِ نجران کے درمیان طے پانے والے اس معاہدہ کو بہت سے محدثین اور مورخین نے اپنی اپنی کتب میں روایت کیا ہے۔

اس معاہدۂ نبوی میں نجران کے غیر مسلموں کو درج ذیل مذہبی آزادیاں دے کر ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی کا عملی ثبوت دیا گیا ہے:

  1. غیر مسلموں کو ان کے عقیدہ و مذہب سے نہ ہٹائے جانے کی ضمانت فراہم کردی گئی ہے۔ اس سے اُن کے عقیدہ و مذہب کو تحفظ فراہم کردیا گیا۔
  2. اُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت دے دی گئی۔
  3. اُن کے مذہبی راہنمائوں کے تحفظ کی ذمہ داری اسلامی حکومت کا فریضہ قرار دے دی گئی۔
  4. اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو برابر کے مذہبی و قانونی حقوق حاصل ہوں گے۔
  5. غیر مسلموں کی عزت و آبرو، جان و مال کی حفاظت مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔
  6. غیر مسلم اپنے مذہبی عہدیداروں کو خود منتخب کریں گے۔
  7. اُن کی عبادت گاہ کے تمام حقوق کی رعایت کی جائے گی۔
  8. کسی مذہبی منصب کے حامل کو اس کے منصب سے معزول نہیں کیا جائے گا۔ (دہشت گردی اور فتنہ خوارج، شیخ الاسلام، ص 199)

2۔ مسجدِ نبوی میں نصاریٰ کو عبادت کی اجازت

نجران کے عیسائیوں کا وفد جو ساٹھ سواروں پر مشتمل تھا اور اس میں ’’اسقف ابوالحارث‘‘ جو گرجا کا امام تھا، اس کے ساتھ ’’ایم‘‘ نامی علاقہ کا جج اور حاکم جس کا لقب ’’عبدالمسیح‘‘ تھا اور اسے ’’سید‘‘ کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا، کے علاوہ نصاریٰ کے چوبیس مشہور سردار بھی شامل تھے، یہ قافلہ عصر کے وقت بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ یہ وقت اُن کی عبادت کا تھا (ممکن ہے کہ وہ اتوار کا دن ہو جس میں مسیحی عبادت کرتے اور اسے مقدس مانتے ہیں)۔ انہوں نے عبادت کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مسجد میں عبادت کرلینے کی اجازت مرحمت فرمادی تو انہوں نے مسجد سے مشرق کی جانب رخ کرکے اپنے مذہب کے مطابق نماز ادا کی۔ بعض مسلمانوں نے ان عیسائیوں کو مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عیسائیوں کے طریقے کے مطابق نماز پڑھتے دیکھ کر روکنا چاہا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا۔

(رحمة اللعالمین ﷺ، محمد سلیمان منصور پوری، ج: 1، ص: 182)

3۔ خیبر کے یہودیوں کے ساتھ سلوک

یہودِ مدینہ جن میں خیبر کے یہودی بھی شامل تھے، اسلام دشمنی میں انہوں نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ ہجرت مدینہ کے بعد قریش مکہ سے مل کر انہوں نے نہ صرف اسلامی ریاست کے خلاف سازشوں کے جال بُنے بلکہ مسلمانوں میں سے جو کوئی کسی یہودی کے ہاتھ آجاتا اس پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخیاں کرکے قلبِ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کو اذیت دینا اُن کا روز کا معمول تھا مگر اس کے باوجود جب خیبر کی فتح کے موقع پر کچھ مسلمانوں نے ان کے مویشی کھول لیے اور ہانک کر لے گئے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ سے روایت ہے:

غزونا مع رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم غزوۃ خیبر فاسرع الناس فی حظائر یهود فامرنی ان انادی الصلوة۔۔۔ ثم قال ایها الناس انکم قد اسرعتهم فی حظائر یهود الا لا تحل اموال المعاهدین ابجقها.

(احمد بن حنبل، المسند، 89، رقم: 16362)

’’ہم غزوۂ خیبر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ لوگ (مجاہدین) جلدی میں یہود کے بندھے ہوئے جانور بھی لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نماز کے لیے اذان دینے کا حکم فرمایا۔۔۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! تم جلدی میں یہود کے بندھے ہوئے جانور بھی لے گئے ہو، خبردار! سوائے حق کے غیر مسلم شہریوں کے اموال سے لینا حلال نہیں ہے‘‘۔

اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ بھی بیان کیا گیا ہے:

الا وانی احرم علیکم اموال المعاهدین بغیر حقها. (ایضاً)

’’خبردار! میں تم پر غیر مسلم اقلیتوں کے اموال پر ناحق قبضہ کرنا حرام کرتا ہوں‘‘۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ طرزِ عمل صحابہ کرامؓ کے لیے اسوہ اور عملی نمونہ تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ مبارک کے بعد جب خلافتِ راشدہ کا دور آیا تو درسگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ خلفاء راشدینؓ نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھا اورغیر مسلم شہریوں کو وہ تمام حقوق دیئے جو کسی بھی اسلامی ریاست میں مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ان کی عزت و آبرو، مال مویشی، عبادت گاہیں، تجارت اور کاروبار اسی طرح محفوظ تھے جس طرح مسلمانوں کے حقوق محفوظ تھے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین کے دورِ خلافت میں بھی غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ قائم رہا جیسا کہ عہدِ صدیقی میں تو یہ معمول تھا کہ جب کسی لشکر کو روانہ کیا جاتا تو اسے جو خصوصی ہدایات دی جاتیں، اُن میں یہ امور و احکام شامل ہوتے تھے کہ:

’’خبردار! زمین میں فساد نہ پھیلانا اور احکامات کی خلاف ورزی نہ کرنا۔۔۔ کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ انہیں جلانا، چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا اور نہ پھل دار درختوں کو کاٹنا اور نہ کسی عبادت گاہ کو گرانا اور نہ بچوں، بوڑھوں اور عورتوںکو قتل کرنا۔ تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے گرجا گھروں میں اپنے آپ کو محبوس کر رکھاہے اور دنیا سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا‘‘۔

(موطا امام مالک، 2: 448، رقم: 966)

خلیفۂ ثانی سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی کس قدر فکر تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو ایک اقلیتی فرقہ کے فرد ہی نے شہید کیا تھا، اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ نے جو وصیت کی اس میں یہ بھی تھا کہ:

’’مَیں اپنے بعد والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ میں آنے والے غیر مسلم شہریوں کے بارے میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان سے کیے ہوئے عہد کو پورا کریں۔ ان کی حفاظت کے لیے بوقتِ ضرورت لڑا بھی جائے اور اُن پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے‘‘۔ خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے غیر مسلموں سے متعلق جو سرکاری فرمان جاری کیا تھا، اس میں یہ الفاظ بھی تھے:

انی اوصیک بہم خیرا فانہم قوم لہم الذمۃ۔ ’’مَیں تمہیں ان غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ وہ قوم ہے جنہیں جان ومال، عزت و آبرو اور مذہبی تحفظ کی مکمل امان دی جاچکی ہے‘‘۔

حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کے مطالعہ سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ بعض مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رواداری و ہم آہنگی سے کام لیتے ہوئے کفار کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا اور بعد میں اس کے انتہائی موثر و مثبت نتائج سامنے آئے۔

4۔ صلح حدیبیہ اور مذہبی ہم آہنگی

صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح کی شرائط طے ہورہی تھیں اور بعض مراحل پر ایسی صورتِ حال بھی در پیش آئی کہ دونوں طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ کفار کی طرف سے سخت لہجہ اختیار کرنے کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائمی اور حقیقی مفادات جن سے مستقبل میں اسلام کو بہت سے فوائد پہنچ سکتے تھے، کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بعض مسنون اور مستحب امور کو ترک کردیا مثلاً جب شرائط طے ہوگئیں اور اب معاہدہ تحریر کرنے کا وقت آیا تو کفار نے تحریری وثیقہ کی ابتداء میں بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لکھنے پر اعتراض کیا حالانکہ اُن کا یہ اعتراض بے جا اور ہٹ دھرمی کا عملی مظاہرہ تھا۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ معاہدہ ختم ہوجاتا مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نرم روی اور ہم آہنگی سے کام لیتے ہوئے تسمیہ کی جگہ صرف ’’باسمک اللہم‘‘ لکھنے کا حکم دے کر حالات کو کشیدگی کی طرف لے جانے سے بچالیا۔

(سیرة الرسول ﷺ، محمد حسین، هیکل، ص: 464)

مزید برآں اسی موقعہ پر معاہدہ پر جب معاہدے کے فریقین کے نام لکھنے کا موقع آیا تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات یعنی ’’محمد رسول اللہ‘‘ لکھا تو اس پر کفار نے اپنے معاندانہ رویہ کا اظہار کرتے ہوئے پھر اعتراض کیا۔ ان الفاظ کو بدلنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے مشکل تھا اور اُن پر شاق بھی گزر رہا تھا لیکن اس موقع پر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دور رس نتائج کی خاطر ’’محمد بن عبداللہ‘‘ لکھ دیا اور کفار کے بے جا مطالبہ کو مان کر حالات کو مکدر ہونے سے بچالیا۔

(سیرت النبی ﷺ، مولانا شبلی نعمانی، ج: 1، ص: 423)

یہ نبوی حکمت عملی اور اسوہ حسنہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے سبب صلح حدیبیہ جس کو قرآن میں ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا گیا ہے، کے بعد آنے والے زمانے میں اسلام کی فتح کا دروازہ کھل گیا اور لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوکر دامنِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہونے لگے اور تھوڑے عرصہ میں آفتابِ اسلام کی پُر نور کرنیں اطرافِ عالم کو منور کرنے لگیں اور اس کا پیغام امن چار دانگِ عالم میں پھیل گیا۔

5۔ عصرِ حاضر اور سیرتِ نبوی ﷺ سے استفادہ

آج کی عالمی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت تشدد اور انتہا پسندی میں پھنسی ہوئی ہے۔ مذہبی، سیاسی اور فکری انتہا پسندی نے انسان کو اعتدال کی راہ سے ہٹادیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ایک عالمگیر تہذیب کے قیام و تشکیل کے لیے نہایت موثر اور مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ذیل میں چند سفارشات پیش کی جاتی ہیں جن پر عمل کرکے امتِ مسلمہ پھر دنیائے انسانی کی امامت و قیادت کا فریضہ سرانجام دینے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرسکتی ہے:

  1. موجودہ دور میں امت مسلمہ بالخصوص اہل پاکستان کو درپیش مشکلات، مصائب اور مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلیمات قرآن کی روشنی میں پوری قوم کو اجتماعی طور پر اپنے ہر قسم کے گناہوں، کوتاہیوں اور بداعمالیوں سے توبہ کرنی چاہئے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے اور اُن سے محبت رکھتا ہے۔
  2. نصابِ تعلیم میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلامیات لازمی یا اختیاری کے ضمن میں پڑھانے کی بجائے کم از کم بی۔ اے، بی۔ ایس۔سی، بی۔ایس کی سطح پر ایک لازمی مضمون کے طور پر شاملِ نصاب کرکے سبقاً سبقاً پڑھایا جائے تاکہ اسلامی فکر اور روحانی الطبع افراد معاشرہ تیار ہوسکیں اور وہ عملی زندگی میں اسوہ حسنہ پر گامزن ہوکر ایک صالح اور دینی و روحانی اقدار کے حامل معاشرہ کی تشکیل کرسکیں۔
  3. معاشرے کے اندر سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کے طریقہ پر چلتے ہوئے اجتماعی عدل کے ماحول کو فروغ دیاجائے۔
  4. سیرتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے معاشرتی زندگی کو ایسے خطوط پر استوار کیا جائے جن سے افرادِ معاشرہ میں اخوت، محبت، باہمی ہمدردی، بھائی چارہ، ایثار، خدمت خلق، ہم آہنگی، رواداری، تحمل و برداشت اور مروت کے جذبات فروغ پاسکیں اور آپس میں وحدت و یگانگت کی فضا پیدا ہو۔
  5. سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر سیمینارز اور کانفرنسز کا اہتمام کیا جائے تاکہ عامۃ الناس اور بالخصوص نوجوان نسل میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کا شعور پیدا ہو اور وہ سیرت پر عمل کرنا اپنی دینی ذمہ داری سمجھیں۔
  6. حکومتی اور نجی سطح پر میڈیا پر سیرت طیبہ سے متعلق زیادہ سے زیادہ پروگرام نشر کیے جائیں تاکہ لوگوں کی صحیح پیمانے پر ذہن سازی کی جاسکے۔
  7. اسلام کے پیغامِ امن و سلامتی، اخوت و محبت، ہم آہنگی و رواداری کو غیر مسلموں تک پہنچانے کے لیے مشنری جذبے سے ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو ایسے تربیت یافتہ افراد تیار کریں جو علمی و عملی ہر دو اعتبار سے سیرت اور اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلتے پھرتے نمونے ہوں تاکہ اپنے اور پرائے اُن کے حسنِ عمل سے متاثر ہوکر اسلام کی سنہری تعلیمات کی طرف کشاں کشاں کھچے چلے آئیں۔
  8. پاکستانی معاشرہ میں موجود دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے انسانی بنیادوں پر بہتر اور اچھے تعلقات ہر سطح پر قائم کیے جائیں تاکہ معاشرے میں باہمی محبت اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہو اور معاشرتی امن و استحکام کو عملی طور پر مستحکم بنایا جاسکے۔

ان تجاویز پر عمل کرکے ہم ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔