تحریک منہاج القرآن مقاصد

خصوصی تحریر

اُمتِ مسلمہ کے دورِ عروج میں بحیثیتِ مجموعی ہر طرف غالب قوت اِسلام ہی کی تھی اور اگر کوئی بگاڑ ہوا تو وہ جزوی نوعیت کا تھا، چنانچہ علماء کرام، صوفیاء عظام اور مردانِ حق اُس کی اِصلاح کرتے رہے۔ موجودہ دورِ زوال میں بگاڑ کی نوعیت جزوی نہیں رہی بلکہ کلی ہوگئی ہے، لہٰذا اِس اَمر کی شدّت سے ضرورت محسوس ہوئی کہ ملّی سطح کے اِس بگاڑ کی اِصلاح کے لیے اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک ہمہ گیر تحریک بپا کی جائے۔ ہر عہد کی تجدیدی و اِحیائی تحریکوں کی یہ دینی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خیرِ اُمت کی نمائندگی کرتے ہوئے اِصلاحِ اَحوالِ اُمت کا فریضہ سرانجام دیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم ہم سے تقاضا کر رہا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ.

(آل عمران، 3: 110)

تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی راہ نُمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اِن دینی و عصری مقتضیات کے پیشِ نظر آج سے تقریباً 40 سال قبل تحریکِ منہاجُ القرآن کے نام سے تجدید و اِحیاء ِ دین، اِصلاحِ اَحوالِ اُمت، ترویج و اشاعتِ اِسلام اور اِتحادِ اُمت کے لیے قرآن و سنت کے عظیم فکر پر مبنی مصطفوی اِنقلاب کے لیے پُراَمن جد و جہد کا آغاز کیا گیا۔

مقصدِ تحریک: مصطفوی اِنقلاب

تحریک منہاج القرآن علمی و فکری، اَخلاقی و روحانی، تعلیمی و شعوری اور سماجی و معاشرتی اِصلاح کے لیے کوشاں ہے۔ تحریک اپنے اِنقلابی سفر کے مراحلِ خمسہ میں سے دعوتی، تنظیمی اور تربیتی مراحل کے ساتھ مرحلہ تحریک بھی شروع کر چکی ہے اور اِس جد و جہد کے جملہ مراحل کا نام مصطفوی اِنقلاب ہے، جس کی کامیابی درج ذیل اُمور پر مشتمل ہے:

  1. دعوت و تبلیغِ حق
  2. اِصلاحِ اَحوالِ اُمت
  3. تجدید و اِحیاءِ دین
  4. ترویج و اِشاعتِ اِسلام
  5. اُمت میں اِتحاد و یگانگت
  6. بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری
  7. اِنتہاپسندی کا اِنسداد اور اَمن و اِعتدال کا فروغ

دورِ حاضر کے ہمہ گیر بگاڑ کے ماحول میں مذکورہ ساتوں کام اور اُن کا باہمی ربط و اِتصال اَز حد ضروری ہے۔ اِس ہمہ جہت جدوجہد کے بغیر اِن میں سے کسی ایک کام کے نتائج و ثمرات بھی دیرپا نہیں ہوسکتے۔

اَہدافِ دعوت

تحریک منہاج القرآن دعوت و تبلیغِ حق اور اِصلاحِ اَحوالِ اُمت کی تحریک ہے۔ تحریک کی دعوت درج ذیل سات اَہداف پر مشتمل ہے:

  1. الدعوۃ اِلی اللہ
  2. الدعوۃ اِلی الرسول ﷺ
  3. الدعوۃ اِلی القرآن
  4. الدعوۃ اِلی العلم والخُلق
  5. الدعوۃ اِلی الاخوۃ والمودّۃ
  6. الدعوۃ اِلی الجماعۃ
  7. الدعوۃ اِلی الاقامۃ

تحریکِ منہاجُ القرآن کی ہمہ گیر جد و جہد کا معروف عنوان مصطفوی اِنقلاب ہے جو ایک ہمہ جہت تبدیلی سے عبارت ہے اور بیک وقت دعوت، اِصلاح، تجدید، ترویج اور اِقامت کے سب مراحل کو محیط ہے۔ تحریک معروف معنوں میں ایک غیر سیاسی تنظیم ہے تاکہ سرکاری و غیر سرکاری اِداروں میں کام کرنے والے اَفراد بھی معاشرے کے دیگر اَفراد کی طرح بلاتأمل تحریک میں کسی بھی سطح پر شامل ہو کر خدمات سراَنجام دے سکیں۔

کام کے تنوع اور دائرہ کار کی وسعت کے باعث مرکزی سطح پر تحریک کو درج ذیل مختلف نظامتوں؍فورمز میں تقسیم کیا گیا ہے:

  1. نظامتِ دعوت
  2. نظامتِ تربیت
  3. نظامتِ تنظیمات
  4. نظامتِ تعلیمات
  5. نظامتِ طباعت و اِبلاغیات
  6. نظامتِ تحقیق و تدوین
  7. نظامتِ اُمورِ خارجہ
  8. نظامتِ سیکرٹریٹ
  9. نظامتِ نشر و اِشاعت
  10. نظامتِ تعمیرات
  11. نظامتِ مالیات
  12. نظامتِ اِجتماعات و مہمات
  13. نظامتِ بین المذاہب رواداری
  14. نظامتِ تمویلات
  15. نظامتِ ممبرشپ
  16. نظامتِ اَملاک
  17. منہاج القرآن علماء کونسل
  18. منہاج القرآن ویمن لیگ
  19. مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ
  20. منہاج القرآن یوتھ لیگ
  21. پاکستان عوامی تحریک

تحریکِ منہاجُ القرآن کی مذکورہ بالا تمام نظامتیں، فورمز اپنا الگ اِنتظامی و تنظیمی ڈھانچہ رکھتے ہیں۔ یہ تمام نظامتیں اور فورمز تحریکِ منہاجُ القرآن کے دستور یا تحریک کے منظور کردہ اپنے اپنے جداگانہ نظام العمل (by-l صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ws) کے تحت کام کرتے ہیں۔ لیکن جملہ نظامتیں اور فورمز فکری، نظریاتی، تنظیمی اور اِنتظامی اِعتبار سے تحریک منہاج القرآن کے تابع ہیں۔ مصطفوی اِنقلاب کی جد و جہد میں شامل تمام نظامتوں، فورمز اور جملہ رُفقاء و وابستگان میں نہ صرف فکری، ذہنی اور نظریاتی حوالوں سے بلکہ پالیسی اور منصوبہ سازی کے حوالے سے بھی کامل ہم آہنگی (coordin صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم tion) اور یک جہتی قائم ہے اور ان کی سرگرمیاں باہم مربوط ہوتی ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کی تمام نظامتیں اور فورمز ہر مرحلہ پر تحریک کے فکری تشخص کو ہی پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔

تحریک کا نصب العین اور اَغراض و مقاصد

تحریک منہاج القرآن کا نصب العین کیا ہے اور وہ کون سے اغراض و مقاصد ہیں جن کا حصول اس تحریک کے پیشِ نظر رہتا ہے؟ ذیل میں اس امر پر روشنی ڈالی جارہی ہے:

نصب العین

تحریک کا اَوّلین مقصد دعوت و تبلیغِ حق، اِصلاحِ اَحوال اُمت، تجدید و اِحیاء ِ دین، ترویج و اِقامتِ اِسلام، اِتحادِ اُمت اور اِنسانی معاشرے میں اَمن و اِعتدال کے فروغ کے لیے قرآن و سنت کے عظیم فکر پر مبنی عالم گیر جد و جہد ہے۔

اَغراض و مقاصد

  1. قرآنی تعلیمات کی ایسی ترویج و اِشاعت جوعالمِ اِسلام میں عظیم فکری و عملی اِنقلاب کی بنیاد ثابت ہو۔
  2. کتاب و سنت کی حقیقی تعلیمات پر مبنی اِسلام کی ایسی تبلیغ جس سے عالمِ اِنسانیت کو در پیش مشکلات کا یقینی حل میسر آئے۔
  3. حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محبت اور اِطاعت کی ایسی تعلیم جو اُمتِ مسلمہ میں حقیقی وحدت کی اَساس فراہم کرے اور عشقِ مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے فروغ کا باعث ہو۔
  4. تجدید و اِحیاء ِ دین کے لیے جدید عصری تقاضوں کے مطابق ایسی اِجتہادی جد و جہد جس کے نتیجے میں قرآن و سنت کی روشنی میں عصری مسائل کا حل پیش کیا جا سکے۔
  5. نوجوانوں کی بالعموم اور طلبہ کی بالخصوص علمی، فکری، اَخلاقی اور روحانی تربیت کا ایسا مؤثر اِہتمام جس کے ذریعے وہ دین اور ملک و ملّت کی مخلصانہ اور ماہرانہ خدمت کے اَہل ہو سکیں۔
  6. غیر مسلم اَقوام میں اِسلام کی ایسی مؤثر تبلیغ و اشاعت جس سے وہ دینِ مبین کی ہدایت اور فیوض و برکات سے مستفیض ہو سکیں۔
  7. معاشرے میں اِنفرادی اور اِجتماعی سطح پر موجود اَخلاقی اور سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے مؤثر جد و جہد کرنا جس کے ذریعے لوگوں کو اِسلام کی پُراَمن اَخلاقی اور روحانی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب مل سکے۔
  8. پاکستان کو اِسلامی فلاحی مملکت بنانے اور عالمی سطح پر اَمن و سلامتی پر مبنی بین الاَقوامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے جد و جہد کرنا۔

حصولِ مقاصد کے پروگرامز

تحریک منہاج القرآن کے مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے درج ذیل لائحہ عمل موجود ہے۔ جس کی روشنی میں ہر نظامت/ فورم اپنے پروگرامز کو منعقد کرتا ہے:

  1. تحریک کے زیر اہتمام دعوت و تربیت کے ایسے نظام کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت کی تعلیمات کا وسیع پیمانے پر فروغ ہورہا ہے اور عملی زندگی میں ان کے اَثرات اور نتائج بھی مرتّب ہورہے ہیں۔
  2. تحریک کے زیر انتظام قدیم و جدید علوم کے اِمتزاج پر مشتمل مثالی تعلیمی اِداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن کے ذریعے مسلم نوجوانوں میں عصری مسائل کے اِسلامی حل کے لیے تخلیقی اور اِجتہادی صلاحیت پیدا کی جارہی ہے۔
  3. صحیح اِسلامی فکر کی بنیاد پر ایسے تعلیمی اِداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو معاشرے میں دین سے دوری اور اَخلاقی بے راہ روی کے خاتمے اور نوجوانوں کو علم و شعور سے آراستہ کرکے مفید شہری بننے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں۔
  4. جدید خطوط پر استوار ایسے تربیتی اِداروں؍حلقات کا قیام بھی تحریک کے امتیازات میں سے ہے جن میں قرونِ اُولیٰ کے صوفیانہ اُسلوب پر اَفراد کی تہذیبِ اَخلاق، تطہیرِ اَفکار، تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کا اِنتظام کیا جاتا ہے۔
  5. مواخاتِ مدینہ کی روشنی میں باہمی اُخوت و مودت پر مبنی فلاحی و رفاہی نظام کا قیام بھی تحریک کی انفرادیت ہے جس سے اِنفاق، اِحسان اور اِیثار کے تصورات کو معاشرے میں عملی شکل دی جارہی ہے۔
  6. اَمن کے فروغ، حقوق انسانی بالخصوص خواتین کے حقوق کی بحالی اور تحفظ کے لیے جد وجہد بھی تحریک کے اہم ترین مقاصد اور پروگرامز میں شامل ہے تاکہ حقیقی اِسلامی فلاحی معاشرہ تشکیل پا سکے۔
  7. جدید دور کے تقاضوں کے مطابق قرآن و سنت کی صحیح اور مستند تعبیر و تشریح جو اُمتِ مسلمہ اور عالمِ اِنسانیت کے لیے درست راہ نُمائی فراہم کرسکے۔ یہ مقصد شروع دن سے تحریک کے پیشِ نظر ہے اور ہر فورم پر اس مقصد کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
  8. معاشرے میں موجود جہالت، منافرت، بدعنوانی، اِنتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اِسلام کی پُر اَمن اور محبت و اِعتدال پر مبنی تعلیمات کو فروغ دینا بھی تحریک کے نمایاں اوصاف میں شمار ہوتا ہے۔
  9. ملک کے اِستحکام اور قانون کی حکمرانی کے لیے جد و جہد کرنا بھی تحریک کے پروگرامز میں سے ایک اہم پروگرام ہے جس کی اہمیت، افادیت اور اس ضمن میں اٹھائے گئے اقدامات کا ایک زمانہ معترف ہے۔

تحریکی سرگرمیوں کا دائرہ کار

تحریکی سرگرمیاں درج ذیل پانچ جہات پر مشتمل ہوتی ہیں:

  1. دعوت
  2. تربیت
  3. تعلیم
  4. رُوحانیت
  5. معاشی کفالت

1۔ دعوت

اس کے ذریعے درج ذیل مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں:

  1. دعوت کے ذریعے صحیح اِسلامی کردار کی تشکیل
  2. ہر سطح پر عوامی شعور کو بیدار اور اِحساسِ ذمہ داری کو اُجاگر کرنا
  3. حق اور عدل کے قیام کے لیے زندگی کے اِنفرادی اور اِجتماعی کرداروں میں پُراَمن اور قانونی جد و جہد کرنا

2۔ تربیت

تحریک کے تمام شعبوں اور منصوبوں سے وابستہ ہر فرد، کارکن اور عہدے دار کی اِستعدادِ کار، معیارِ کار اور رفتارِ کار میں اِضافے کے ذریعے اَفرادی وسائل کو مؤثر اور منظم قوت میں بدلنا تربیت کا بنیادی ہدف ہے۔ نظامتِ تربیت اس سلسلہ میں ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے۔

3۔ تعلیم

معاشرے میں تعلیمی اِنقلاب بپا کرنے کے لیے منہاج ایجوکیشن سوسائٹی اور منہاج یونیورسٹی مصروف عمل ہیں۔ جن کے تحت:

  1. عوامی سطح پر معیاری تعلیمی نیٹ ورک کا قیام
  2. اعلیٰ، معیاری، فنی، سائنسی اور تکنیکی مراکز کا قیام

4۔ روحانیت

اِنفرادی اور اِجتماعی سطح پر روحانی اَعمال اور دینی و اَخلاقی سرگرمیوں کا ایک ایسا نظام وضع کیا گیا ہے جس کے ذریعے معاشرے میں بالعموم اور کارکنان میں بالخصوص صدق و اِخلاص، اِطاعت و عبادت، زُہد و ورع، تقویٰ و طہارت اور اَخلاقِ حسنہ کا فروغ تحریک کا مطمع نظر ہے۔ مزید یہ کہ تعلق باللہ، عشق و اِتباعِ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، تکریمِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، مودتِ اَہلِ بیت علیہم السلام اور متابعتِ اُسوہ اَولیاء و صالحین کی پختگی کے لیے علم و حکمت اور ذکر و فکر کے ایسے حلقات کا قیام بھی ہمیشہ تحریک کے پیشِ نظر رہا ہے جن کے ذریعے قلوب و اَذہان کو دنیوی اَثرات اور رغبات سے بے خوف و بے نیاز کرنے اور رضاء ِ الٰہی کو زندگی کا مقصدِ وحید بنانے میں مدد ملے۔

5۔ معاشی کفالت

تحریک کے اَفرادی، مادّی، شعبہ جاتی وسائل اور تنظیمی نیٹ ورک کی بنیاد پر ایسے اِقدامات کو ترتیب یا فروغ دیا جاتا ہے جن سے خود اِنحصاری کے طریق پر کارکنان کی معاشی کفالت کی راہ ہموار ہوسکے۔

حاصلِ کلام

امت اس وقت جس زوال کا شکار ہے وہ جزوی نہیں بلکہ کلی اور ہمہ گیر نوعیت کا ہے جب اسلام کو مجموعی طور پر (روئے زمین پر) غلبہ حاصل تھا مختلف شعبوں میں وقتاً فوقتاً سیاسی، اخلاقی یا مذہبی اعتبار سے رونما ہونے والے بگاڑ کا تدارک جزوی اور ہنگامی کوشش سے ہوجاتا تھا لیکن اب ایک عرصے سے ملت اسلامیہ سیاسی و اقتصادی، اخلاقی و روحانی، مذہبی و دینی، علمی و فکری اور تہذیبی و ثقافتی اعتبارات سے مکمل زوال اور تباہ کن ابتلاء کا شکار ہے۔

چنانچہ تحریک منہاج القرآن کے قیام کا مقصد ہمہ گیر اصلاح ہے جو بیک وقت علمی و فکری جمود کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی زندگی کی روبہ زوال قدروں کو پھر سے بحال کردے۔

تحریک منہاج القرآن مسلکی و گروہی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر محبت و اخوت کی علمبردار ایک ایسی تحریک ہے جس کے دروازے ہر اس شخص کے لیے کھلے ہیں۔۔۔ جو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا امتی ہونے کا دعویدار ہے۔ جس کا دل فرقہ واریت اور گروہ بندیوں پر خون کے آنسو روتا ہے۔۔۔ جو ملت کو ایک شیرازے میں منسلک دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔ جو ہر سو محبت و مودت کے چراغ روشن دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔ جو منافقانہ اور اجارہ دارانہ ذہنیت کے تعفن سے دور انس و محبت کی پُر مہک فضائوں میں سانس لینا چاہتا ہے۔