تسخیرِ کائنات کے ضابطے

شفاقت علی شیخ


ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2018ء میں راقم الحروف کا ایک مضمون بعنوان ’’تسخیرِ ذات سے تسخیر کائنات تک ‘‘ شائع ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ انسان اس کائنات کی اعلیٰ ترین مخلوق ہے جس کے لیے ساری کائنات کو مسخر کر دیا گیا ہے۔ انسان کے علاوہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے، وہ نہ صرف انسان کے لیے ہی بنایا گیا ہے بلکہ اس کے تصّرف میں بھی دے دیا گیا ہے۔ مگر اس امکان کو حقیقت کا رُوپ دینے اور عملی شکل میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان پہلے اپنی ذات کی تسخیر کرے یعنی اپنے خیالات، جذبات اور خواہشات و غیرہ پر قابو پائے اور اُنہیں نظم و ضبط کے دائرے میں لائے۔ ایسا کرنے سے ہی وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے ار گرد کے ماحول پر قابو پا ئے اور اُسے حسبِ منشاء استعمال کرتے ہوئے خلافتِ ارضی کی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کر سکے۔ زیرِ نظر مضمون کو اُسی کا اگلا حصہ سمجھا جا سکتا ہے جس میں بتایا جارہا ہے کہ اس سفر کے لوازمات کیا ہیں؟


انسان کا اپنی ذات کو تسخیر کرنا اور اپنے خیالات، جذبات اور خواہشات کو قابو میں لانے کا لائحہ عمل (Road Map) کیا ہے جس پر چلتے ہوئے انسان کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے؟ اس سلسلے میں درج ذیل چار شرائط کو پورا کرنا لازمی ہے:

  1. ایمان
  2. علم
  3. عمل
  4. اخلاص

1۔ ایمان

ایمان چند حقائق کو مان لینے کا نام ہے۔ وہ حقائق جو نہ تو حواس کے ذریعے محسوس کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی عقل کی رسائی اُن تک ہوتی ہے۔ مثلاً: خدا کا وجود، آخرت کا اقرار، جنت و جہنم وغیرہ۔ ان تمام حقائق کو جاننے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ وحی ہے جو خدا اپنے منتخب بندوں (جنہیں پیغمبر کہا جاتا ہے) پر اُتار تا ہے۔ پھر یہ ماننا محض زبانی دعوے کی حد تک نہ ہو بلکہ دل و دماغ کی گہرائیوں تک اُتر جائے اور انسان کی شخصیت کو یکسر بدل کر رکھ دے۔

فرعون کے دربار میں جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلہ شروع ہونے سے پہلے فرعون سے پوچھا:

اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰـلِبِیْنَ.

(الاعراف، 7: 113)

’’یقینا ہمارے لیے کچھ اجرت ہونی چاہیے بشرطیکہ ہم غالب آجائیں‘‘۔

مگر جب مقابلہ کے وقت حق اُن پر آشکار ہو جاتا ہے اور وہ ایمان کو قبول کر لیتے ہیں تو فرعون کی اس دھمکی کے جواب میں کہ میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا کر تمہیں سُولی چڑھا دوں گا، وہ دو ٹوک جواب دیتے ہیں:

لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآئَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ط اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِہِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا.

’’ہم تمہیں ہرگز ان واضح دلائل پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے پاس آچکے ہیں، اس (رب) کی قسم جس نے ہمیں پیدا فرمایا ہے تو جو حکم کرنے والا ہے کر لے، تُو فقط (اس چند روزہ) دنیوی زندگی ہی سے متعلق فیصلہ کر سکتا ہے‘‘۔

(طه، 20: 72)

چند لمحے پہلے وہ نیاز مندی کہ للچائی ہوئی نظروں سے فرعون کے مال دولت کی طرف دیکھ رہے تھے اور اب یہ بے نیازی کہ موت کو بھی گلے لگا نے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ یہ ساری تبدیلی ایمان کی ہی مرہونِ منت ہے۔

ایمان کے نتیجے میں ایک بندہ مومن میں یہ ہمت و جرأت کیسے پیدا ہوتی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے تین نکات پر غور کریں:

(ا) ایمان باللہ

اللہ پر ایمان رکھنے والے شخص کو ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اُس کے تابع ہے اور اُس کی مرضی و منشاء کے بغیر ایک پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ نیز اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بھی وجود اُس کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ دوسری طرف اُسے اللہ تعالی کے اُن وعدوں کی صداقت پر کامل یقین ہوتا ہے جو اُس نے اپنے بندوں کے ساتھ قرآنِ مجید میں جا بجا فرمائے ہیں:

وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ.

(الروم، 30: 47)

’’اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمۂِ کرم پر تھا (اور ہے)‘‘۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.

’’اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آئو گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو‘‘۔

(آل عمران، 3: 139)

یہ یقین ایک بندہ مومن کو ہر خوف سے بے خوف کر دیتا ہے اور وہ ہر معرکہ میں مردانہ وار کودپڑتاہے۔

(ب) ایمان بالاخرہ

زندگی کے معرکہ میں جو چیز یں انسان میں خوف و ہراس اور بزدلی وپست ہمتی پیدا کرتی ہیں اُن میں سے ایک یہ احساس ہے کہ وہ ایک فانی مخلوق ہے اُس کا کوئی اقدام اُس کی موت کا پیغام نہ بن جائے اور وہ ہمیشہ کے لیے فنا نہ ہو جائے۔ لیکن آخرت پر ایمان کے نتیجے میں ایک بندہ مومن نہ تو اس زندگی کو اصل زندگی سمجھتا ہے اور نہ ہی موت کو زندگی کا ختتام۔ بلکہ اُس کے نزدیک تو یہ مختصر سی زندگی اُس اصل زندگی کا دیباچہ ہے جو موت کے بعد شروع ہونے والی ہے، موت اُس کی نظر میں ایک پردہ ہے جس کے پیچھے ابدی اور دائمی زندگی اپنی تما م تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موت کا احساس اُسے بزدل نہیں بنا تا۔ اس کے برعکس وہ آگے بڑھ کر حق کی خاطر موت کو گلے لگا لیتا ہے اور موت کے بعد اللہ کی رضا اور ابدی زندگی کی نعمتوں کو پالیتا ہے۔

(ج) ایمان بالقدر

تیسری چیز جو ایک بندہ مومن کے لیے قوت کا باعث بنتی ہے وہ اُس کا تقدیر پر محکم ایما ن ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جو مصیبت بھی اُسے پہنچتی ہے، اللہ کے اذن سے ہی پہنچتی ہے:

قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللهُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰـنَا وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ.

(التوبه، 9: 51)

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیجیے کہ ہمیں ہر گز (کچھ) نہیں پہنچے گا مگر وہی کچھ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے، وہی ہمارا کارساز ہے اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے‘‘۔

نیز وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہر قسم کی صورتِ حال میں اُس کے لیے خیر ہی خیر ہے:

وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ.

’’اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بہتر ہو‘‘۔

(البقره، 2: 216)

یہ ہیں وہ بنیادی اعتقادات جن کے نتیجے میں انسان کے اندر ایسی زبردست قوت پیدا ہوتی ہے جو تمام خطرات اور وساوس کا قلع قمع کر دیتی ہے اور وہ بے خوف و خطر زندگی کے ہر معرکے میں حصہ لیتا ہے اور سودوزیاں کے اندیشوں سے بالا تر ہو کر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تسخیر کائنات تو غیر مسلموں نے بھی کی ہے۔ اُنہوں نے بھی ستاروں اور سیاروں پر کمندیں ڈالی ہیں، پہاڑوں کا جگر کاٹ کر راستے بنائے ہیں، سمندروں کا رُخ موڑا ہے اور طوفانوں کے آگے بند باندھے ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں خدا کی دی ہوئی عقل سے کا م لے کر غیر مسلموں نے بھی بہت سے ایسے کام کیے ہیں مگر یہ سب اسباب کے دائرے میں ہیں۔ ایک صاحبِ ایمان شخص اسباب کو استعمال تو ضرور کرتا ہے مگر وہ اسباب کا پابند نہیں ہوتا۔ تمام انبیاء کرام f کے معجزات اور اولیائے کرام کی کرامتیں اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے ہزاروں میل پر لڑنے والے اسلامی لشکر کی حرکات و سکنات کو دیکھنا اور بغیر کسی ظاہری واسطے کے اُن تک پیغام پہنچانا، زلزلہ آنے پر زمین پر پاؤں مارکر اُسے تھم جانے کا حکم دینا اور زلزلہ کا رُک جانا، دریائے نیل کے نام خط لکھنا اور اُس کا چل پڑنا، یہ سب معاملات ماورایٔ اسباب ہیں اور ایمان ہی کے مرہونِ منت ہیں۔

2۔ علم

تسخیرِ کائنات کے سفر میں ایمان کے بعد جو دوسری بڑی طاقت ہے وہ علم ہے۔انسانیت کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں علم کا بہت زیادہ کردار ہے۔ ہر دور میں وہی قومیں قیادت کے منصب پر فائز ہوئیں جو علم میں دوسروں سے آگے تھیں۔ جس زمانے میں مسلمان علمی میدان میں برتری کے حامل تھے اُس وقت امامتِ عالم کا تاج بھی انہی کے سر پر سجا ہوا تھا لیکن جب سے علم کی دوڑ میں مغربی اقوام آگے بڑھ گئی ہیں، زندگی کے دوسرے میدانوں میں بھی قائدانہ حیثیت اُنہی کو حاصل ہے اور مسلمان ہر معاملے میں اُن کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام بڑے ٹھوس اور محکم قوانین پر اُستوار کیا ہے:

قَدْ جَعَلَ اللهُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا.

(الطلاق، 65: 3)

’’بے شک اللہ نے ہر شے کے لیے اندازہ مقرر فرما رکھا ہے‘‘۔

یہ قوانین اتنے اٹل ہیں کہ ان میں کسی بھی قسم کا تغیر و تبدل ممکن ہی نہیں:

سُنَّۃَ اللهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللهِ تَبْدِیْلًا.

’’اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے‘‘۔

(الاحزاب، 33: 62)

چنانچہ اس کائنات میں رونما ہونے والے ہر چھوٹے بڑے واقعہ کی تہہ میں کوئی نہ کوئی قانون کام کر رہا ہوتا ہے جسے سائنس کی زبان میں علت و معلول کا قانون (Law of Cause & Effect) کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی درخت کی شاخ سے ایک پتہ بھی کسی قانون کے بغیر نہیں گرتا ہے۔ علم کائنات کے سر بستہ رازوں کو انسان پر آشکار کرتا ہے اور اُن قوانین کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جو تمام حرکات و سکنات کے پسِ پردہ کار فرما ہیں۔ چنانچہ علم کی بدولت انسان کے لیے مظاہرِ کائنات کی حقیقت کو سمجھ کر اُن پر تصرف کرنا اور اُنہیں اپنے لیے مفید بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ جو قومیں آج ترقی کے بامِ عروج پر پہنچی ہوئی ہیں اور بحروبر پر حکمرانی کر رہی ہیں اُن کے پیچھے یہی علم کی قوت ہے۔ سائنس کی تمام ایجادات و اکتشافات علم ہی کے مرہونِ منت ہیں۔

جس طرح کائنات کا کارخانہ مخصوص قوانین کے تحت چل رہا ہے، اسی طرح خالقِ کائنات نے زندگی کی بقاء، ارتقاء اور نشونما کے بھی قوانین بنا رکھے ہیں۔ عروج و زوال اور فنا و بقاء کو خاص ضابطوں کا پابند بنا رکھا ہے۔ علم کے ذریعے اُن قوانین کو جان کر زندگی کے معیار کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور کامیابی، ترقی اور عرو ج کی فطری خواہش کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک وسیع کائنات موجود ہے جہاں جذبات، خیالات، خواہشات، آرزوئیں، اُمنگیں اور تمنائیں ہیں۔ علم کے ذریعے اپنے من کی دنیا میں جھانک کر ان چیزوں کو نظم و ضبط کا پابند بنا کر اپنی شخصیت کو مہذب اور پاکیزہ بنا یا جاسکتا ہے۔ شخصیت کے منفی رجحانات پر قابو پا کر مثبت رویوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے اور اپنی ذات کو اتنا نفیس بنایا جا سکتا ہے کہ وہ دنیا کے باغ میں ایک پھول کی طرح مہکتے ہوئے ماحول کو معطر کرے، سورج کی طرح روشنی بکھیرتے ہوئے ماحول کو منور کرے اور مرنے کے بعد جنت کی حسین و جمیل وادیوں میں بسنے کے قابل ہو سکے۔ چنانچہ علم انسان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں مطلوب اور پسندیدہ بنا دیتا ہے۔

حضرت سلمان علیہ السلام نے اپنے دربار میں بلقیس کے آنے سے پہلے اُس کا تخت منگوانا چاہا تو پہلی آفر طاقتور جن کی طرف سے آتی ہے کہ میں آپ کے دربار کے برخاست ہونے سے پہلے تخت لے آئوں گا۔ اس کی یہ آفر ٹھکرادی جاتی ہے۔ پھر ایک علم والا اُٹھتا ہے اور وہ پلک جھپکنے سے پہلے تخت لانے کی پیشکش کرتا ہے۔ یہاں موازنہ طاقت اور علم کا ہو رہا ہے۔ پھر دیے گئے وقت میں تخت کا آجانا ظاہر کر رہا ہے کہ علم کی طاقت جنات کی طاقتوں سے بڑھ کر ہے۔ یہاں سے علم کی برکت اور تاثیر کا اندازاہ لگا یا جاسکتا ہے۔

پھر جب پوچھا جاتا ہے کہ تخت کیسے آیا؟ تو وہ اُسے اللہ کا فضل قرار دیتے ہوئے اپنے حوالے سے ہر کمال کی نفی کر دیتا ہے اور اُسے اللہ کی طرف منسوب کر د یتا ہے۔ یہاں سے حقیقی علم کا ایک پیمانہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ جہا ں حقیقی علم ہوتا ہے وہاں تواضع، عاجزی اور انکساری جیسے اوصاف آتے ہیں۔ اس کے برعکس جہا ںتکبر، انا نیت اور گھمنڈ کی سوچ ہو تو وہاں صحیح معنوں میں علم نہیں ہوتا۔ بہر حال اس واقعہ سے واضح ہو رہا ہے کہ طاقت اور علم میں مقابلہ ہو تو تفوق اور برتری علم کو حاصل ہوتی ہے۔

دینا میں بڑے بڑے انقلابات علم کی طاقت سے ہی برپا ہوتے ہیں۔ علم سے مراد دکوئی مخصوص علم نہیں ہے بلکہ ہر قسم کا علم ہے۔ یہ علم مذہبی بھی ہو سکتا ہے اور سیکولر بھی، روحانی بھی ہو سکتا ہے اور مادی بھی، دین کا بھی ہو سکتا ہے اور دنیا کا بھی، قدیم بھی ہو سکتا ہے اور جدید بھی، کسی مخصوص شعبے (Specific Field) کا بھی ہو سکتا ہے اور عمومی (General) بھی۔ ایک شخص جو کسی بھی فیلڈ میں ہے، مثلاً: ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ تو جب تک وہ اپنے مخصوص شعبے کے حوالے سے علمی پختگی کا حامل نہیں ہوگا، کوئی بہت زیادہ ترقی نہیں کر سکے گا اور نہ ہی اس میں اپنا مقام بنا سکے گا۔ اور عمومی علم سے مراد ہے کہ س وقت دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ قومی معاملات کیا ہیں اور بین الاقوامی مسائل کیا ہیں؟ دنیا کن خطوط پر آگے بڑھ رہی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں کیا ترقیاں (Development) ہو رہی ہیں وغیرہ۔ جو شخص جس معاملے میں جتنا زیادہ علم حاصل کرے گااُس کی ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے امکانات اُتنے ہی زیادہ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔

3۔ عمل

علم سے اگلا مرحلہ عمل کا ہے۔ عمل سے مراد یہ ہے کہ علم کے نتیجے میں جو حقائق انسان پر منکشف ہوئے ہوں، زندگی کو اُن سے ہم آہنگ کیا جائے۔ فطرت کے جن قوانین کو علم نے آشکار کیا ہو، اُن کے مطابق عملی زاویوں کی اصلاح کی جائے اور روز مرہ کی سرگرمیوں کا رُخ اُن کے مطابق متعین کیا جائے۔

جس طرح چراغ جلے بغیرروشنی نہیں دیتا، اُسی طرح علم بھی عمل کے بغیر فائدہ نہیں دیتا، بالفاظِ دیگر نسخہ کتنا ہی بہتر ین ہو لیکن جب تک اُسے استعمال میں نہ لایا جائے مریض کو فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح انسان کتنا ہی اعلیٰ درجے کا علم حاصل کر لے اور حکمت و دانائی کی کتنی ہی باتوں کو جان لے، جب تک اُنہیں عملی سانچے میں نہیں ڈھالا جائے گا سب کچھ بے کا ر ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو علم کا مقصود ہی عمل ہے۔ عمل کے بغیر علم محض معلومات کا انبار ہے جو انسان کو کوئی خاص فائدہ نہیں دے سکتا۔ قرآنِ مجید میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا.

(الجمعه، 62: 5)

’’اُن لوگوں کا حال جن پر تورات (کے احکام و تعلیمات) کا بوجھ ڈالا گیا پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (یعنی اس میں اِس رسول (a) کا ذکر موجود تھا مگر وہ اِن پر ایمان نہ لائے) گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو‘‘۔

گویا قرآنِ مجید کے مطابق وہ علم جو عمل میں نہ آئے گدھے پر رکھے ہوئے اُس بوجھ کی مانند ہے جس کا کوئی فائدہ تو نہیں ہو رہا لیکن مشقت برداشت کرنی پڑرہی ہے۔ بقول حضرت واصف علی واصفؒ: ’’علم وہی ہے جو عمل میں آجائے، ورنہ اضافی بوجھ ہے‘‘۔

قرآنِ مجید میں جابجا ایمان کے ساتھ عمل کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ نظریات اُسی وقت باوقعت بنتے ہیں، جب اُن کے مطابق عمل کیا جائے۔ دنیا کی سار ی رونقیں حرکت اور عمل سے ہی عبارت ہیں جب کہ بے عملی اور جمود موت ہیں۔جتنی بھی ترقیاں اور انواع و اقسام کی ایجادات دکھائی دے رہی ہیں، یہ سب عمل ہی کی وجہ سے وجود میں آئیں۔ دنیا سے لے کر آخرت تک کی تمام سعادتوں کا دارو مدار عمل پر ہی ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ ؎

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

فطرت کا اٹل اُصول ہے کہ انسان نے جو کچھ بھی حاصل کرنا ہے اُس کے لیے کوشش اور جدو جہد کرنا ہوگی۔ اس لیے کہ فرمانِ الہٰی ہے:

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی.

(النجم، 53: 39)

’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)‘‘۔

4۔ اخلاص

عمل کے بعد ایک قدم اور ہے جسے اخلاص کہتے ہیں۔ اخلاص کا مطلب ہے اپنے تمام افکار و نظریات، اعمال و افعال اور حرکات و سکنات کو اللہ کے لیے خالص کر لینا۔ یعنی ہر کام فقط رضائے الہٰی کی نیت سے کرنا،کوئی اور غرض وغایت نہ رکھنا۔

یہ اخلاص بندگی کی روح بھی ہے اور ایک بندہ مومن کی زندگی کا نصب العین بھی۔ قرآن میں جا بجا اس کی تاکید کی گئی ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ.

(الانعام، 6: 162)

’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔

اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًا.

’’(اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیں‘‘۔

(الانسان، 76: 9)

جتنا زیادہ کسی عمل میں اخلاص ہوتا ہے، اُتنا ہی وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول اور قدر و قیمت کا حامل ہوتا ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا:

من احب للّٰه و ابغض للّٰه و اعطی للّٰه و منع للّٰه فقد استکمل الایمان.

’’جس نے اللہ کے لیے کسی سے محبت کی اور اللہ کے لیے ہی نفرت کی، اللہ کے لیے ہی کسی کو دیا اور اللہ کے لیے ہی نہ دیا اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا‘‘۔

اخلص دینک یکفک العمل القلیل.

’’اپنے دین کو خالص کر لے پھر تیرا تھوڑا عمل بھی کافی ہو جائے گا‘‘۔

اخلاص کی بدولت اعمال کی قدرو قیمت میں اضافہ کو مادی مثالوں کے ذریعے بھی سمجھا جا سکتا ہے:

  1. دودھ سے کریم بنتی ہے، کریم سے مکھن اور مکھن سے گھی نکالا جاتا ہے۔ ان سب کی قیمتوں میں جو فرق ہے وہ خالصیت کی بنیاد پر ہی ہے۔
  2. گلاب کے پھولوں سے عرق بھی بنتا ہے اور عطر بھی لیکن عرقِ گلاب کی بڑی بوتل کے مقابلے میں عطر کی چھوٹی سی شیشی کہیں زیادہ قیمت رکھتی ہے۔ یہ فرق بھی خالصیت کی مقدار کے فرق کی بنا پر ہی ہے۔

مندرجہ بالا چاروں چیزیں جس شخص کے اندر جس درجہ میں جمع ہوتی چلی جائیں گی اُسی تناسب سے اُس کے اندر تسخیر کی طاقت پیدا ہوتی جائے گی۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنا ت کے اندر فاعل بنا کر بھیجا ہے لیکن وہ مفعول بن کر رہ گیا ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ میرا بندہ کائنا ت کو مسخر کرے اور نیابتِ الہٰی کے منصب کی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے ماحول میں مئوثر کردار ادا کرے لیکن انسان اپنی نفسانی خواہشات اور پست جذبات کا غلام بن کر اپنے آپ کو مقامِ انسانیت سے گرا کر حیوانیت کی سطح پر لے آیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانے اور دنیا کی سٹیج پر اپنا پھر پور کردار ادا کرتے ہوئے اپنے رب کی رضا اور آخرت کی سعادتیں حاصل کرے۔ (وماتوفیقی الا بااللہ)