حمد باری تعالیٰ و نعت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حمد باری تعالیٰ

کسے حاصل ہوا ادراک خالق کی حقیقت کا
کرے آغاز حرفِ ’’کُن‘‘ سے جو ہر ایک خلقت کا

جبینِ سجدہ جھکتی ہے بس اِک معبود کے آگے
وہی معبود جو حقدار ٹھہرا ہے عبادت کا

خدا کی اور پیمبر ﷺ کی اطاعت ہم پہ لازم ہے
یہی ہے حکم قرآں کا، یہی فرمان سنت کا

فلاحِ دنیا و عقبیٰ کا ضامن دینِ پیغمبرa
قیامِ امنِ عالم راستہ ہے دینِ فطرت کا

خدا کی ذات کا عرفاں اِسی زینے سے ملتا ہے
بلا شبہ یہ قرآں ہی ہے زینہ علم و حکمت کا

ہم اُس کے نام سے ہر کام کا آغاز کرتے ہیں
ہے جس کی بائے بسم اللہ سے وا در خیر و برکت کا

ہیں نیّرؔ بے نشاں ہوکر بھی ہر جانب نشاں اُس کے
ہوا بے صورتی سے جلوہ پیدا اُس کی صورت کا

{ضیا نیّر}

نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ہم ہیں کہ جن پر عیاں خیرالبشرؐ کے راستے
کاٹ کر ظلمت بناتے ہیں سحر کے راستے

نام جب بھی سامنے آیا رسول اللہؐ کا
روشنی دل میں اتر آئی نظر کے راستے

ذّرے ذرّے کو کیا تو نے ہی منزل آشنا
ہیں معین تجھ سے خورشید و قمر کے راستے

شانِ درویشی کی منزل ہو کہ اوجِ قیصری
جو کوئی پہنچا وہ پہنچا تیرے در کے راستے

تیری رحمت سے، عنایت سے، کرم سے، لطف سے
آشیاں پر بند ہیں برق و شرر کے راستے

تجھ سے پہلے حق کی خوشبو سے چمن واقف نہ تھا
بند تھے پھولوں پہ تسکینِ سحر کے راستے

علم کا جب سے بنایا شہر خالق نے تجھے
ہوگئے آسان تر فکر و نظر کے راستے

ہیں بھُلا کر تجھ کو ہم اک ایسے رہرو کی طرح
بھول بیٹھا ہو جو خود اپنے ہی گھر کے راستے

جس طرف بھی جائیں گے ہم جاں نثارانِ رسولؐ
شمعِ ایماں سے اجالیں گے اُدھر کے راستے

اک نہ اک دن میں بھی پہنچوں گا مدینے میں ضرور
خود بناتا ہے جنوں اپنے سفر کے راستے

{حسرت حسین حسرت}