الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: اہلِ سنت کے چار مکاتبِ فقہ ہیں جن میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی شامل ہیں۔ کیا ایک شخص کے لیے ان چاروں فقہ پر عمل کرنا جائز ہے یا پھر کسی ایک فقہ پر عمل کیا جائے گا؟ اس بارے راہنمائی کر دیں۔

جواب: اس کے لیے کلام اللہ کے حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کی اتباع کو معیار قرار دیا گیا ہے۔ حلال و حرام، جائز و ناجائز اور اوامر و نواہی کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت لازمی ہے۔

قرآن و سنت میں دوطرح کے احکام ہیں:

بعض احکام محکم اور واضح ہیں جن میں اِجمال، اشتباہ، اِبہام یا تعارض نہیں، انھیں پڑھنے والا ہر شخص بغیر کسی اُلجھن کے اُن کا مطلب آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی فرضیت ہے اور زنا، شراب نوشی، چوری، فساد فی الارض اور قتل وغیرہ کی حرمت ہے۔

اس کے برعکس قرآن و سنت کے بعض احکامات میں عام آدمی کم علمی کے باعث واضحیت نہیں رکھتا۔ جیسے عبادات اور معاملات وغیرہ کے فروعی مسائل۔ قرآن و سنت سے ان احکام کے مستنبط اور اخذ کرنے کی دو صورتیں ہیں:

  1. ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کر کے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کر لیں اور اس پر عمل کریں۔
  2. دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے قرونِ اولیٰ کے جلیل القدر اسلاف کی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں اور انہوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔

چونکہ عام مسلمان قرآن و حدیث سے احکامِ شرع کے قواعد و ضوابط کو سمجھ کر مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے جمہور اہلِ سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ شرعی احکام و مسائل کے حل کے لیے امامِ اعظم ابوحنیفہ یا امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔ کیونکہ مذکورہ ائمہ اپنے تقویٰ، زہد و ورع، ثقاہت و دیانت، علم و فکر اور کردار کے حوالوں سے اعلیٰ ترین مقام و مرتبہ کی حامل قرونِ اولیٰ کی ہستیاں ہیں۔ انہوں نے امت کی سہولت کی خاطر نہایت جانفشانی اور دیانت و لیاقت سے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا۔ شریعتِ اسلامی کے ایسے اصول و قواعد و ضع کئے جس سے عام مسلمانوں کو دین فہمی اور شرعی احکام پر عمل پیرا ہونے میں سہولت ہوئی۔ صدیوں سے علماء کرام ان کے اقوال پر فتوی دیتے آئے ہیں۔ اللہ مجدہ کا ارشاد گرامی ہے کہ:

فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.

’’سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو‘‘۔

(النحل، 16: 43)

کسی امام یا مجتہد کی تقلید کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُسے بذاتِ خود واجب الاطاعت سمجھ کر اتباع کی جا رہی ہے یا اُسے شارع (شریعت بنانے والا، قانون ساز)کا درجہ دے کر اس کی ہر بات کو واجب الاتباع سمجھا جا رہا ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ پیروی تو قرآن و سنت کی مقصود ہے لیکن قرآن و سنت کی مراد کو سمجھنے کے لیے بحیثیت شارحِ قانون اُن کی بیان کی ہوئی تشریح و تعبیر پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔

ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے طریقہ پر احکامِ شرعیہ بجا لانا تقلیدِ شخصی کہلاتاہے، مثلاً امامِ اعظم ابو حنیفہ یا امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ میں سے کسی کے طریقے پر عمل کرنا۔

تقلید شخصی کی شرعی حیثیت میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

أنَّ الاُمَّۃَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ یَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِیْ مَعْرَفَةِ الشَرِیْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِیْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِیْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِیْنَ، وَ هَکَذَا فِیْ کُلِّ طَبَقَۃٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاءُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِمْ.

(شاہ ولی اللہ ، عقد الجید،1: 31)

امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے۔ تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔ اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا۔

اسی طرح تقلیدِ شخصی کو لازم کرنے کی ایک واضح نظیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ہے، جب انہوں نے قرآنِ حکیم کا ایک رسم الخط متعین کر دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے پہلے قرآنِ حکیم کو کسی بھی رسم الخط کے مطابق لکھا جا سکتا تھا کیونکہ مختلف نسخوں میں سورتوں کی ترتیب بھی مختلف تھی اور اس ترتیب کے مطابق قرآنِ حکیم لکھنا جائز تھا۔ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت کی اجتماعی مصلحت کے پیشِ نظر اس اجازت کو ختم فرما کر قرآن کریم کے ایک رسم الخط اور ایک ترتیب کو متعین کر کے امت کو اس پر متفق و متحد کر دیا اور امت میں اسی کی اتباع پر اجماع ہوگیا۔

(بخاری، الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب: جمع القرآن، 4:19۰۸، رقم: 4۷۰2)

مذاہبِ اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید کا فائدہ یہ ہے کہ عام مسلمان تفرقہ و انتشار سے بچ جاتا ہے۔ اگر تقلیدِ مطلق کی عام اجازت ہو اور ہر شخص کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس مسئلے میں جس فقیہ کی چاہے تقلید کر لے تو اس قسم کے اقوال کو جمع کر کے ایک ایسا مذہب تیار ہو سکتا ہے جس میں دین خواہشات کا کھلونا بن کر رہ جائے گا، جسے کسی بھی طور پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فقہاء کے نزدیک اب تقلیدِ شخصی کی پابندی ضروری ہے اور کسی ایک مجتہد (کے مکتبِ فکر) کو معین کر کے ہر مسئلے میں اسی کی پیروی کی جائے تاکہ نفسِ انسانی کو حلال و حرام کے مسائل میں شرارت کا موقع نہ مل سکے۔

سوال: قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر یا قرآن سر پر رکھ کر قسم کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب: قسم کھانے کی دو صورتیں ہیں:

  1. ماضی میں ہونے والے کسی کام یا واقعہ کے متعلق قسم کھانا۔
  2. مستقبل میں کسی کام کی قسم کھا لینا

صورتِ اول کی مزید دو قسمیں ہیں:

  1. وہ قسم جو لاعلمی یا غلط فہمی کی وجہ سے کھائی گئی ہو، یعنی انسان ماضی کے کسی واقعہ کے متعلق غلط فہمی کی بنیاد پر قسم کھائے کہ فلاں کام ایسے ہوا تھا، لیکن حقیقت میں ویسا نہ ہو۔ اِسے یمینِ لَغْو یعنی غلط فہمی کی قسم کہا جاتا ہے اور اس پر نہ گناہ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی کفارہ ہے۔
  2. ماضی میں ہونے والے کسی کام کے متعلق قسم کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی گزرے ہوئے واقعہ کے متعلق جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوئے قسم کھائے، یہ یمینِ غَموس یعنی جھوٹی قسم کہلاتی ہے۔ یمینِ غموس حرام ہے، اس کا کوئی مالی کفارہ تو نہیں، البتہ اس پر توبہ و استغفار لازم ہے اور آئندہ ایسا کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

مستقبل کے کسی معاملے کے متعلق کھائی گئی قسم یمینِ منعقدہ کہلاتی ہے۔ ایسی قسم توڑنا منع ہے اور توڑنے کی صورت میں قسم کھانے والے پر کفارہ لازم آتا ہے۔ اس کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو یا غلام میسر نہ ہو تو پھر دس مسکینوں کو دو وقت کا پیٹ بھر درمیانے درجے کا کھانا کھلانا، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پھر دس مسکینوں کو اوسط درجے کا لباس فراہم کرنا ہے۔ اگر تینوں میں سے کسی صورت کو بھی اختیار کرنے کی مالی استطاعت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنا ہے۔

یہ امر واضح رہے کہ قسم کسی بات کے انکار کرنے کے لیے کھائی جاتی ہے نہ کہ اپنا دعویٰ ثابت کرنے لے لیے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے، ایک مقام حضرموت سے اور دوسرا کندہ سے۔ حضرمی نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس شخص (کندی)نے میرے باپ کی طرف سے ملی ہوئی زمین کو مجھ سے چھین لیا۔ کندی نے کہا: وہ میری زمین ہے اور میرے تصرف میں ہے، میں اس میں زراعت کرتا ہوں، اس شخص کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا: تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَلَکَ یَمِینُهُ قَالَ: یَا رَسُولَ ﷲِ إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا یُبَالِی عَلَی مَا حَلَفَ عَلَیْہِ وَلَیْسَ یَتَوَرَّعُ مِنْ شَیْئٍ فَقَالَ لَیْسَ لَکَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ لِیَحْلِفَ فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ، لَمَّا اَدْبَرَ اَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَی مَالِہِ لِیَاْکُلَهُ ظُلْمًا، لَیَلْقَیَنَّ ﷲَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ.

پھر اس (کندی) شخص کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ جھوٹا ہے، جھوٹ پر قسم اٹھا لے گا، یہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔ جب کندی قسم کھانے کے لیے مڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس شخص نے اس کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی ہے تو جب یہ اللہ سے ملاقات کرے گا تو وہ اس سے ناراض ہوگا۔

(مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب وعید من اقتطع حق المسلم بیمین فاجرة بالنار، 1: 123، الرقم: 139)

مذکورہ بالا تصریح سے ثابت ہوا کہ مدعی ثبوت پیش کرتا ہے، اگر اس کے جواب میں مدعیٰ علیہ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو اپنی صفائی کے لیے قسم یا حلف دیتا ہے۔

قسم قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر کھائی جائے، قرآنِ مجید سر پر رکھ کر کھائی جائے یا بغیر قرآن اٹھائے کھائی جائے، قسم یکساں ہی رہتی ہے۔ قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھنا یا قرآنِ مجید سر پر رکھنا محض اپنی قسم کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی شخص قرآنِ مجید سر پر رکھ کر صحیح بات کہے یا بغیر قرآن کو اٹھائے سچ کہے برابر ہے، تاہم قرآنِ مجید سر پر رکھ کر یا قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانا گناہ کی سنگینی کو بڑھا دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قسم کھاتے ہوئے قرآنِ مجید سر پر رکھنا یا قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھنا اپنی قسم کی اہمیت جتانے کے لئے کیا جاتا ہے، اسی طرح کسی سے قسم لیتے ہوئے اس کے سر پر قرآنِ مجید رکھنا یا قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھوانا اسے ڈرانے کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ جھوٹی قسم نہ کھائے۔