بسمہ امجد کاچیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام کھلا خط

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب ہے کہ جب تک مظلوموں کو مکمل انصاف نہیں مل جاتا اور ظالم کیفر کردار کو نہیں پہنچ جاتے، یہ سانحہ اس نظام اور اس کے محافظوں کے لئے ایک داغ بنا رہے گا۔ 17جون 2014ء کے دن ریاست کے ادارے پولیس نے نواز شریف اور شہباز شریف کے حکم پر جس طرح ظلم و بربریت کا بازار گرم کیااور نہتے شہریوں کو خون میں نہلایا، اگر اس طرح کا واقعہ کسی مغربی ملک میں ہوا ہوتا تو وہاں کے عوام انصاف کی عدم فراہمی کی صورت میں پورے نظام اور اس کے محافظوں کو اٹھا کر سمندر میں غرق کر دیتے۔ بسمہ امجد، تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی ہیں، وہ متعدد بار حصولِ انصاف کے لئے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے ججز سے متعدد بار ملاقات کر چکی ہیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سانحہ کی ازسرنو غیر جانبدار تفتیش کی جائے کیونکہ 6سال گزر جانے کے بعد بھی کسی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے منصوبہ سازوں کو سزا دینا تو درکنار ان سے اس قتل عام کے بارے میں سوال تک نہیں کیا؟ بسمہ امجد نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس کا متن یہاں من و عن نقل کیا جارہا ہے:

’’میں بسمہ امجد سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہیدہ تنزیلہ امجد کی بیٹی ہوں۔ میں آج ایک بار پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے آپ سے دست بستہ اپیل کررہی ہوں کہ مجھے انصاف دیا جائے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس 6سال قبل جس جگہ تھا، آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ میں دکھی دل کے ساتھ عرض کر رہی ہوں کہ فوری فیصلوں اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سے سپریم کورٹ کی طرف سے فوری انصاف اور مختلف پٹیشنز پر فیصلوں کے حوالے سے جو ہدایات جاری کی گئی ہیں، میں ان پر عملدرآمد کی منتظر ہوں۔

جناب چیف جسٹس صاحب !آپ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے منصف ہیں۔ اللہ کے بعد انصاف کے لئے میری امیدوں کا مرکز آپ ہیں۔ 17 جون 2014ء کے دن پولیس نے اس وقت کے حکمرانوں کے حکم پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ماڈل ٹاؤن لاہور میں قتل عام کروایا۔ یہ قتل عام دن دہاڑے ہوا اور اس قتل عام کے دلدوز مناظر قومی میڈیا کے ذریعے پاکستان بھر کے عوام نے براہ راست دیکھے۔ اس قتل عام میں میری والدہ تنزیلہ امجد اور میری پھوپھی شازیہ مرتضیٰ و دیگران کو بھی ناحق، بلاجواز اوربلااشتعال بہیمانہ اور سفاکانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔

عزت مآب چیف جسٹس صاحب! سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بنیادی انسانی حقوق، چادر اور چار دیواری کے تقدس، مروجہ انسانی، اسلامی اور اخلاقی اقدار کوجس بری طرح پامال کیاگیا اس کی کوئی مثال کسی اور سانحہ میں نہیں ملتی۔ 17 جون 2014ء کے دن پولیس والوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا، وہ کسی بوڑھے کو چھوڑ رہے تھے نہ کسی جوان کو، نہ بچوں کو معاف کررہے تھے نہ خواتین کو، پولیس والے معصوم شہریوں کو نشانے تاک تاک کر اس طرح سیدھی گولیاں ماررہے تھے جیسے پرندوں کا شکار کھیل رہے ہوں۔

جناب چیف جسٹس صاحب! شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء 6 سال سے غیر جانبدار تفتیش کا حق مانگ رہے ہیں۔ جناب چیف جسٹس! آپ سے بہتر انصاف کے عمل اور اس کے قانونی مراحل کو اور کون سمجھ سکتا ہے کہ انصاف کی پہلی سیڑھی غیر جانبدار تفتیش ہے مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف تو درکنار، آج کے دن تک مجھے غیر جانبدار تفتیش کا حق بھی نہیں ملا۔

جناب چیف جسٹس صاحب! اپریل 2018 ء میں، میں نے اپنے دیگر بہن بھائیوں کے ہمراہ لاہور رجسٹری میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کی گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کر ان سے غیر جانبدار تفتیش کی صورت میں انصاف مانگا تھا۔ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے اپنے دفتر بلایا، میری بات سنی اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ ’’آپ تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے اپنی ماں کا خواب پورا کریں، آپ کو انصاف ہم دیں گے‘‘

جناب چیف جسٹس صاحب! والدہ کی شہادت کے بعد ہم نے ہر رات کانٹوں کے بستر پر گزاری، منصف اعلیٰ کی اس تسلی اور دستِ شفقت کے بعد شاید وہ پہلی رات تھی، جب میں یہ سوچ کر چین کی نیند سوئی کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے منصف نے مجھے انصاف دینے کی یقین دہانی کروائی ہے اور اب انصاف ضرور ہو گا۔

جناب چیف جسٹس صاحب! 5 دسمبر 2018ء کے دن چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے روبرو سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی ازسرنو تفتیش کیلئے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ ہوا۔ 3 جنوری 2019ء کے دن پنجاب حکومت نے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نئی جے آئی ٹی نے 14 جنوری 2019ء تا 20 مارچ 2019ء کام کیا اور ملزمان اور مدعی پارٹی کے کم و بیش تمام گواہان اور ملزمان کے بیانات قلمبند کئے۔ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ مرتب کرنے کے آخری مرحلہ میں تھی کہ لاہور ہائیکورٹ لاہور کی طرف سے ایک ملزم کی درخواست پر 22 مارچ 2019ء کے دن جے آئی ٹی کے خلاف حکمِ امتناعی جاری کر دیا گیا اورجے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔

جناب چیف جسٹس صاحب! اس حکمِ امتناعی کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی۔ سپریم کورٹ میں آپ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مورخہ 13 فروری 2020ء کو لاہور ہائیکورٹ لاہور کو ہدایت کی کہ بنچ بنا کر تین ماہ میں ترجیحاً کیس کا فیصلہ کیا جائے۔

جناب چیف جسٹس صاحب! آج 9 ماہ گزرنے کو ہیں، اس پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ میں نے پہلے بھی عرض کی کہ غیر جانبدار تفتیش انصاف کی پہلی سیڑھی ہے، اس سے قبل سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں دو جے آئی ٹیز بنی تھیں، ان دونوں جے آئی ٹیز نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے زخمیوں اور چشم دید گواہان کے بیانات تک قلمبند نہیں کئے تھے اور یکطرفہ چالان انسدادِ دہشتگردی عدالت لاہور میں پیش کیا گیا تھا جو غیر جانبدار تفتیش اور ٹرائل کے آئینی و قانونی حق کی نفی ہے۔ ویسے بھی یکطرفہ تفتیش جس میں ملزمان اس وقت کے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر قانون پنجاب، آئی جی پنجاب اور دیگر حکومتی اعلیٰ عہدوں پر تعینات شخصیات ہوں تو کیا سائلہ، دیگر ورثائے شہداء اور مضروبان کو انصاف دلایا جا سکتا ہے؟ کیا ایسی تفتیش کی بنیاد پر عدالت صحیح اور درست فیصلہ پر پہنچ سکتی ہے؟

جناب چیف جسٹس صاحب! میری آپ سے دست بستہ التجا ہے کہ مجھے غیر جانبدار تفتیش سمیت انصاف دیاجائے۔ مہذب اور قانون پسند معاشروں میں عدالتیں طاقتور کے مقابلے میں کمزوروں کو ان کا حق اور انصاف دلواتی ہیں۔اگر عدالت کا یہ شفیق، ہمدردانہ اور فیصلہ کن کردار نہ ہو تو طاقتور کمزوروں سے جینے کا بھی حق چھین لیں اور انسانی معاشرے جنگلوں سے بھی بدتر منظر پیش کرنے لگ جائیں۔ انصاف کے لئے اللہ کے بعد میری آخری امید آپ ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ کسی ادارے کے سربراہ کی کمٹمنٹ پورے ادارے کی کمٹمنٹ ہوتی ہے، میرے ساتھ انصاف کی فراہمی کی متعدد بار جو کمٹمنٹ کی گئی، میں اس پر عملدرآمد کی منتظر ہوں۔‘‘