مرتَّبہ: عین الحق بغدادی

انسان ساری زندگی دُنیوی اور اُخروی ترقی اور درجات کی بلندی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ہر صاحبِ نظر شخص خواہش مند ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت اسے دنیا و آخرت دونوں میں بلندی و کمال عطا فرمائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلندی، کمال اور رفعت کا حصول کیسے ممکن ہے؟ ہم میں سے اکثرلوگ اس حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے درجات کی بلندی کا ذریعہ ’مجالس‘ کو قرار دیا ہے۔وہ کون سی مجالس اور کن لوگوں کی مجالس ہیں جو بلندیِ درجات کا باعث ہوتی ہیں؟ اس سلسلے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِیْ الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللهُ لَکُمْ وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ.

(المجادلة، ۵۸: ۱۱)

’’اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہو جایا کرو، اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہوجاؤ تو تم کھڑے ہوجایاکرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے‘‘۔

اس آیت کریمہ سے درج ذیل نکات اخذ ہوتے ہیں:

  1. اس آیت کریمہ کے پہلے حصے میں ’المجالس‘ جبکہ آخری حصے میں ’العلم‘ کا ذکر ہے جس سے مجالسِ علم کی افادیت و اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
  2. اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو مجالس کے نشست و برخاست کے آداب سمجھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اگر تم یہ آدابِ مجالس بجا لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان اور علم والوں کے درجات بلند فرمائے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے درجات کی بلندی اور مجالس کو باہم منسلک (correlate) کیا ہے۔
  3. اس آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مجلس میں بیٹھنے سے درجات کی بلندی تبھی نصیب ہوگی جب بیٹھنے والے کو کوئی روحانی و اُخروی نفع حاصل ہو اور اس کی خیر میں اضافہ ہو۔ بالفاظِ دیگر روحانی، اُخروی یا دینی کسی بھی اعتبار سے خیر میں اضافہ درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ یاد رہے کہ ’خیر‘ میں اضافہ تبھی ہو تا ہے جب بیٹھنے والے کو مجلس سے ایمان اور علم دو چیزیں حاصل ہوں۔گویا کسی مجلس میں حاضری سے درجات کی بلندی کا حصول ’خیر‘ کے میسر آنے سے مشروط ہے اور ’خیر‘ کا اضافہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب اس مجلس العلم سے انسان ’ایمان‘ اور ’علم‘ کے نور سے منور ہو کر نکلے۔

ہم نشین نیک، عبادت گزار، متقی، اللہ سے محبت کرنے والا، عقیدۂ صحیحہ کا حامل، صدقِ نیت اور اخلاص کا پیکر ہونا چاہیے۔

اس ضمن میں ہمارے ذہن میں بہت سے سوالات سر اٹھاتے ہیں، مثلاً وہ کون سی مجالس ہیں جو بیٹھنے والوں کے ایمان اور علم میںاضافے کا باعث بنتی ہیں؟ کیسی مجالس اور کن اوصاف کے حامل ہم نشین کا انتخاب کرنا چاہیے؟ مجالس کے عنوان کیا ہوں؟ آئیے! اس سلسلے میں حضور نبی اکرم a کے ان فرامین سے رہنمائی لیتے ہیں جن میں حضور نبی اکرم a نے ایسی مجالس اور ہم نشینوں کی صفات بیان فرمائی ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما، قَالَ: قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ ، أَيُّ جُلَسَائِنَا خَیْرٌ؟ قَالَ: مَنْ ذَکَّرَکُمُ اللهَ رُؤْیَتُہٗ، وَزَادَ فِي عِلْمِکُمْ مَنْطِقَہٗ وَذَکَّرَکُمْ بِالآخِرَةِ عَمَلُهٗ.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہمارے بہترین ہم نشین کون ہیں؟ آپ a نے فرمایا: جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلا دے، جس کا بولنا تمہارے علم میںاضافہ کرے اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔

حضور نبی اکرم a نے اس حدیث مبارک میں صالح جلیس کی صحبت کے تین ثمرات ذکر فرمائے ہیں۔ گویا ہم نشین اگر نیک، عبادت گزار، متقی، اللہ سے محبت کرنے والے، علم و عقیدۂ صحیحہ کے حامل، صدقِ نیت اور اخلاص کے پیکر ہوں تو ان کے ساتھ مل بیٹھنے سے بھی خیر نصیب ہوتی ہے، ایمان اور علم کا نور حاصل ہوتا ہے، گناہوں کی بخشش ہوتی ہے اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرمa نے اِن جامع کلمات کے ذریعے مجالسِ علم کی برکات، صحبتِ صلحاء کے اثرات اور مجالس کے انعقاد کے مقاصد واضح فرما دیے ہیں۔

جس طرح ماحول کے اِنسانی جسم و روح پر اَثرات ہوتے ہیں اسی طرح صحبتِ صالحین اور مجالسِ علم کے قلب و روح پر اثرات ہوتے ہیں۔

صالح لوگوں کی محض زیارت انسانی جسم اور روح پر کیا اور کیسے اثرات مرتب کرتی ہے؟ اس بات کو مادی زندگی کی چند اَمثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔

  1. اگر کوئی شخص جسمانی طور پرتھکا ہارا اور طبیعت میں تلخی (depression) محسوس کرے تو ڈاکٹر اُسے سبزہ اور صاف ستھری کھلی فضاء میں کچھ لمحات گزارنے اور سیر کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اس خوش گوار فضا میں سانس لینے اور ہریالی، باغ، پھول، درخت، پانی، جھیل اور قدرتی مناظر کو دیکھنے سے اس کی طبیعت کو تازگی (freshness) ملتی ہے اور اعصابی تناؤ کم ہوتا ہے۔
  2. ماں باپ کو اپنی پیاری اولاد دیکھنے سے ایک فرحت حاصل ہوتی ہے۔
  3. اپنے محبوب دوست کو دیکھنے سے طبیعت میں فرحت و تازگی آتی ہے اور انسان کا باطن اس خوش گوار تبدیلی کو اس قدر محسوس کرتا ہے کہ اس کیفیت کا اظہار لکھنے، پڑھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہے۔

یہ قدرت کا نظام ہے کہ جس طرح چیزیں جسم پر اثرات مرتب کرتی ہیں، اسی طرح اشیاء اور ماحول کے اثرات قلب و روح پر بھی رونما ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عالمِ مادیات میں انسان کو پانچ حواس عطا کیے ہیں۔ ان حواسِ خمسہ سے وہ دیکھتا، چھوتا، سونگھتا، چکھتا اور سنتا ہے۔ انہی پانچ حواس کے ذریعے انسانی جسم پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب من پسند کھانے کا ذائقہ چکھتے ہیں تو ایک لطف محسوس ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کو موسیقی سے فرحت ملتی ہے۔بعض لوگ نعت سنتے ہیں تو اس سے طبیعت میں راحت ملتی ہے۔ کچھ لوگ قوالی سنتے ہیں تو اس سماع سے ان پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ گویا ظاہری طور پر خود کوئی عمل نہیں کیا، محض ماحول سے خوشبو کا جھونکا آیا توطبیعت تر و تازہ ہوگئی۔

اسی طرح ایک عالمِ قلب و روح بھی ہے۔ حواسِ خمسہ ظاہری کی طرح باطنی حواس یعنی روح کے احساسات بھی ہیں جن پر کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ جب کوئی خوش اِلحان قاری قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرتا ہے تو اس سے نہ صرف جسم پر اثرات وارد ہوتے ہیں بلکہ روح بھی معطر، منور اور سرشار ہو جاتی ہے اور نورِ ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔

اسی طرح وضو اور غسل بھی باطنی طہارت کا ذریعہ ہیں۔ ظاہراً ہم جسم کو دھوتے ہیں، مگر اس وضو اور طہارت کا نور اور اثرات قلب و باطن میں بھی سرایت کر جاتے ہیں۔ جس طرح ہم پھولوں کی خوش بو محسوس تو کرتے ہیں لیکن اسے بیان یا تحریر نہیں کر سکتے، اسی طرح کسی اللہ کے مقرب اور صالح بندے کو دیکھنے اور اس کی مجلس میں بیٹھنے سے اسی طرح کے خوش گوار اثرات روح پر بھی مرتب ہوتے ہیں جنہیں محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔