اداریہ: اگر مؤقف واضح اور ارادہ پختہ ہو تو...

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے 13 دسمبر 2020ء کو مینار پاکستان لاہور میں ہونے والے جلسے پر تبصرے ہوتے رہے، زیادہ تر غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ شدید سردی کی وجہ سے لوگوں کی حاضری کم رہی، اس قسم کے تبصرے ان تجزیہ نگاروں اور اینکرز حضرات نے بھی کئے جو عام طور پر ایک خاص جماعت کو سپورٹ کرتے رہتے ہیں اور اپنے نپے تلے الفاظ کے ساتھ اس جماعت کی خامیوں پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ کون کس کی سپورٹ کرتا ہے اور کون کس کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے، ان تجزیوں اور تبصروں میں جو بات ہمارے لئے قابل توجہ اور قابل ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ ’’شدید سردی کی وجہ سے لوگ جلسہ گاہ تک نہیں پہنچ سکے‘‘؟ حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ

ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

جب مقصد نیک اور واضح ہو، ارادہ پختہ ہو اور نظر وحدہ لاشریک پر ہو تو پھر راستے میں دریا آئیں، سمندر آئیں، پہاڑ آئیں، سنگلاخ چٹانیں آئیں، دسمبر کی سردی یا جون کی پگھلا دینے والی گرمی آئے تو پھر کوئی رکاوٹ، رکاوٹ نہیں رہتی۔ موسموں کی سردی اور گرمی اس وقت رکاوٹ اور عذر بنتی ہے جب عزائم گھناؤنے اوراغراض کی دبیز تہہ میں چھپے ہوئے ناپاک ارادے ہوں اور نظر خدا کی بجائے زمینی خداؤں اور مال و زر پر ہو۔ ایک معروف اینکر اور تجزیہ نگار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بے نظیر بھٹو کا مینار پاکستان پر بہت بڑا جلسہ موسم گرما میں ہوا تھا اور عمران خان کا جلسہ 30اکتوبر کو ہوا تھا اورموسم خوشگوار تھا، اس لئے لوگ زیادہ جمع ہوگئے۔ اس معروف اینکر نے بوجوہ 23 دسمبر 2012ء کے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے جلسے کا ذکر نہیں کیا۔ ہماری جدید صحافت کا یہ ایک المیہ ہے جس میں ناپسندیدہ سچ چھپایا اور پسندیدہ جھوٹ پھیلایا جاتا ہے۔

23 دسمبر 2012ء کا جلسہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا واحد سیاسی جلسہ ہے جس کی مثال اس سے پہلے موجود تھی اور نہ تاحال اس کی کوئی دوسری مثال سامنے آسکی ہے اور شاید مستقبل کی آنکھیں کسی قومی ایشو پر اتنا بڑا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کبھی مینار پاکستان کے سبزہ زار میں نہیں دیکھ پائیں گی۔ 23دسمبر 2012ء کے دن عوام کا سمندر ڈاکٹر طاہرالقادری کی ایک کال پر یخ بستہ اور منفی ڈگری والے دن مینار پاکستان پہنچا، کسی کو گاڑی دی گئی نہ کسی کو بریانی آفر کی گئی اور نہ ہی کسی کو دیہاڑی دینے کا لارا لگایا گیا۔ 23 دسمبر 2012ء کے دن مینار پاکستان میں جمع ہونے والا کراؤڈ روایتی سیاسی کراؤڈ نہیں تھا، اس کراؤڈ کا غالب حصہ تعلیم یافتہ افراد، پروفیشنلز اور مڈل کلاس کے دردمند محب وطن خاندانوں پر مشتمل تھا۔ اس کراؤڈ میں پروفیسرز بھی تھے، ڈاکٹرز بھی تھے، انجینئرز بھی تھے، اساتذہ بھی تھے، کلرک بھی تھے، مزدور بھی تھے، بیوروکریٹس بھی تھے، نوجوان بھی تھے، کسان بھی تھے، بزرگ، خواتین اور بچے بھی تھے۔ اتنا پڑھا لکھا کراؤڈ آج کے دن تک کوئی سیاسی شخصیت جمع کر سکی اور نہ کر سکے گی اور دوبارہ بھی جب کبھی ایسا موقع آیا تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی آواز پرہی قوم لبیک کہے گی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جب ارادہ پختہ ہو اور نظر خدا پر ہو تو پھر راستے کی کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہیں رہتی۔

آج کل جس انداز کی سیاست ہورہی ہے اور جس طرح مخالفین، مخالفین کے بارے میں ہم کلام ہورہے ہیں، یہ ہر گز شریفانہ طرز تکلم نہیں ہے۔ تہذیب یافتہ اور پڑھے لکھے گھرانوں کے افراد نے ٹی وی چینلز دیکھنے کم کر دئیے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جو کچھ آج کل ٹی وی پر نظر آتا ہے، وہ ہمارے بچوں کے اخلاق اور عمومی ذہنی صحت کے لئے مناسب نہیں ہے۔ بہرحال 23 دسمبر 2012ء کے دن لاکھوں افراد مینار پاکستان جمع ہوئے تھے تو اس کے پیچھے ایک مصمم ارادہ اور مشن تھا۔ وہ ارادہ تھا کہ اگر پاکستان کے جمہوری نظام کو راہ راست پر لانا ہے تو اس کے لئے شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنانا ہو گا، انتخابی اصلاحات لانا ہوں گی اور اسمبلی میں داخل ہونے کے خواہشمند ہر امیدوار کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63کی تکڑی میں تولنا ہوگا۔ 70 سال کی تاریخ میں پہلی بار کسی شخصیت نے قومی، جمہوری، نظام کے جسم کو لاحق کینسر کی تشخیص کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی دریافت کیا۔ یہ وہ ارادہ اور مقصد تھا جس نے پاکستان سے محبت کرنے والے ہرپڑھے لکھے شہری کو مسحور اور پرعزم بنا دیا تھا اور وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی کال پر لبیک کہتا ہوا مینار پاکستان اور پھر اسلام آباد پہنچا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے پر اپنے اور پرائے سبھی متفق تھے اور اس وقت کے حکمرانوں نے انتخابی اصلاحات کا وعدہ بھی کیا اور تحریری معاہدہ بھی۔ اس موضوع پر مزید کچھ کہنا عبث ہے کیونکہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے، تاہم ڈاکٹر طاہرالقادری کی تجویز کر دہ اصلاحات پر اس لئے عمل نہ ہو سکا کیونکہ ان اصلاحات سے اشرافیہ کا سیاسی مستقبل خطرات سے دوچار ہو جاتا۔

آج سے 8 سال قبل انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جن ایشوز پر ڈاکٹر طاہرالقادری بول رہے تھے آج وہی بولی سارے بول رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی، صحافتی اور پڑھے لکھے حلقے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری واحد لیڈر ہیں کہ وہ جب بھی بولے، ملک اور قوم کو درپیش ایشوز پر بولے اور پھر جلد یا بدیر سب نے اس کی تائید کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے کارکنان قومی و عوامی مقاصد کے حصول کے لئے کبھی دسمبر کی خون جما دینے والی سردی سے ڈرے اور نہ جلد پگھلا دینے والی گرمی سے ڈرے۔ آج اپوزیشن کے رہنما جو تاریخ کے بدترین کرپشن چارجز کی زد پر ہیں، ان میں سے کچھ کرپشن اور جھوٹ بولنے پر سزا بھی پا چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمارے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لئے سٹیٹ مشینری استعمال کی جارہی ہے، ہمارے راستے روکے جارہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے کارکنوں کا قتل عام کیا، ان پر بدترین تشدد کروایا، ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے کارکنان کا راستہ روکنے کے لئے پنجاب کو نو گو ایریا میں تبدیل کیا، ماڈل ٹاؤن کا محاصرہ کیا، محاصرہ کے دوران رہائشیوں کو دوائی اور خوراک خریدنے کے لئے بھی اجازت اور سفارش درکار ہوتی تھی، ڈاکٹر طاہرالقادری کاطیارہ فضاء میں معلق رکھا جاتا تھا، طیارے کو اپنے مقررہ مقام پر اترنے کی اجازت اس لئے نہیں ملتی تھی کہ اس میں ڈاکٹر طاہرالقادری سوار ہوتے تھے (اللہ کی شان جو غرورِ اقتدار میں چاہتے تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کی سرزمین پر قدم نہ رکھ سکیں، آج ان پر پاکستان کی زمین تنگ ہوچکی ہے)۔ منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے کارکنوں پر صوبہ بھر کے تھانوں میں مقدمات کی بھرمار کی گئی اور آج کے دن تک کارکن اشرافیہ کے درج کروائے گئے جھوٹے مقدمات بھگت رہے ہیں۔ ماضی کے قاتل اور آج کے اپوزیشن لیڈر کس انتقامی کارروائی کی بات کرتے ہیں؟ انتقامی کارروائی کا الزام لگانے سے قبل یہ لوگ ایک بار اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنے شرمناک ماضی کو یاد کریں۔ وزیراعظم عمران خان سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کی بات کرتے رہے ہیں، وہ اگر چاہتے ہیں کہ قاتل اور کرپٹ اپوزیشن اپنے انجام کو پہنچے تو وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو انصاف دلوانے کا اعلان کریں، ملکی تاریخ کا یہ ایک ایسا سانحہ اور قتل عام ہے جس کے دفاع کے لئے قاتل اشرافیہ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔