سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث (نشست: سوم، حصہ: 2)

خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

ائمہ علم اور ائمہ حدیث کا اجماع ہے کہ فضائلِ اعمال کے باب میں ضعیف احادیث کو قبول کیا جائے گا۔ ذیل میں فضائل و رقائق کے باب میں حدیث ضعیف کے جواز پر دلائل ذکر کیے جارہے ہیں:

امام نوویؒ کا قول

امام نوویؒ نے اولیاء، مشائخ، علماء، اہلِ فضل اور بزرگوں کی آمد پر تعظیماً کھڑے ہونے کو جائز قرار دینے پر ’’الترخیص بالقیام لذوي الفضل والمزیة من أہل الإسلام‘‘ کے عنوان سے ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے۔ اُس رسالے میں امام نووی نے طلبہ کو وصیت کرتے ہوئے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث مبارکہ ذکر کی ہے۔ اس حدیث کی سند کے متعلق امام نوویؒ فرماتے ہیں:

قد ضعَّف الجمهور أبا هارون (العبدی). ولکن هذا الحدیث من باب الفضائل. وقد اتفق أهل الحدیث وغیرهم علی العمل فی الفضائل ونحوها من القصص.

(سخاوي، فتح المغیث) (رملی، فتاوی)

جمہور علماء نے ابو ہارون کو ضعیف قرار دیا ہے مگر یہ حدیث فضائل کے باب میں آئی ہے اور اہلِ علم و محدثین کا اتفاق اور اجماع ہے کہ فضائل اور قصص ایسے امور میں ضعیف احادیث کو قبول کیا جاتا ہے۔

جب اتفاق کہتے ہیں تو پھر یہ ظنی اجماع بھی نہیں رہتا، یعنی کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔

حافظ عسقلانیؒ اور حدیث ضعیف کی شرائطِ قبولیت

امام سخاوی نے القول البدیع میں حافظ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے فضائلِ اعمال میں حدیث ضعیف کو قبول کرنے کے لیے تین شرائط کا ذکر کیا ہے: وہ فرماتے ہیں:

سمعت شیخنا الحافظ ابن حجر مرارا، إن شرائط العمل بالضعیف ثلاثة:

میں نے اپنے شیخ ابن حجر سے یہ کئی بار سنا کہ حدیث ضعیف کو قبول کرنے کی تین شرائط ہیں:

(1) ضعف غیر شدید ہو

الأول: أن یکون الضعفُ غیر شدید، فیخرُجُ مَنِ انفردَ من الکذّابین، والمتَّہمین بالکذب، ومَنْ فحش غلطہ۔

پہلی شرط یہ ہے کہ ضعف غیر شدید ہو۔ غیر شدید سے کذاب، متہم بالکذب اور فحش غلطی والے راوی نکل جائیں گے۔

ضعف کے زیادہ شدید نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ راوی کذاب نہ ہو، اُس کے اوپر کذب کی تہمت نہ ہو اور اس کے اندر فحش غلطی نہ ہو۔ اس لیے کہ اگر راوی کذاب ہو گا تو اُس کی روایت ’’موضوع‘‘ ہو جائے گی اور اگر اُس پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہوگی تو اُس کی روایت ’’متروک‘‘ ہوجائے گی۔ پس حافظ ابن حجر عسقلانی نے حدیث ضعیف کو قبول کرنے کی شرائط میں سے ’’موضوع‘‘ اور ’’متروک‘‘ کو خارج کردیا ہے۔ ان دو اقسام (موضوع اور متروک) کے علاوہ حدیث ضعیف کی باقی 37 اقسام فضائل اعمال کے باب میں قبول کی جائیں گی۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ امام علائی فرماتے ہیں:

هذا الشرط متّفق علیه.

اِس شرط پر ائمہ کا اتفاق ہے۔

(2) حدیثِ ضعیف میں مذکور عمل کی کوئی اصلِ عام ہو

حافظ ابن حجر عسقلانی نے حدیث ضعیف پر عمل کی دوسری شرط یہ بیان فرمائی کہ

أن یکون مندرجا تحتَ أصلٍ عامٍ.

حدیثِ ضعیف میں مذکورہ عمل کسی اصل عام کے تحت ہو۔

یعنی وہ مسئلہ کسی آیت قرآنی یا دوسری حدیث صحیح سے ثابت ہو اور پھر اُس کے ثواب وعقاب کے بیان میں تفصیل کے لیے کوئی حدیث ضعیف آ جائے تو اس حدیث ضعیف کو قبول کیا جائے گا۔

مثلاً: نماز کا باجماعت پڑھنا اس کی اصلِ عام احادیث میں موجود ہے یعنی نماز کو باجماعت پڑھنے کا حکم احادیث سے ثابت ہے۔۔۔ اسی طرح والدین کی خدمت کرنا اور ان کا ادب واحترام کرنے کی بھی اصلِ عام ہے کہ بہت سی احادیث اس پر موجود ہیں اور امورِ شرعیہ میں اِس کا انکار نہیں ہے۔۔۔ اسی طرح قرأت و سماعِ قرآن کی ترغیب دینے پر بھی اصلِ عام ہے یعنی اس موضوع پر احادیث اور احکام موجود ہیں۔

گویا روز مرہ کی دینی زندگی سے متعلق بہت سے مسائل پر ہمارے پاس دین کے شرعی اصول کے طور پر احادیث یا قرآنی آیات کے دلائل موجود ہیں اور یہ اصل عام ہیں۔ اب اس اصل عام کے تحت اگر کوئی ایک ایسی حدیث ضعیف آ جائے جو اصل عام پر مبنی کسی مسئلہ شرعی کے اندر کوئی خاص ثواب یا عقاب یا کوئی خاص نوعیت کی فضیلت بیان کر دے تو اس ضعیف حدیث کو قبول کیا جائے گا، اس لیے کہ اب اس حدیث ضعیف سے اصل مسئلہ ثابت نہیں کیا جا رہا بلکہ وہ مسئلہ شریعت، آیات قرآنیہ یا احادیث نبویہ سے بطور اصلِ عام الگ طور پہ ثابت تھا۔ اب اُس ثابت شدہ مسئلہ کے اندر ایک خاص ثواب، فضیلت اور ترغیب کی یہ ضعیف حدیث اضافتًا ہے۔

گویا حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ والدین کی تعظیم، باجماعت نماز، قرأت قرآن اور دیگر ایسے کئی امور میں اگر کوئی حدیثِ ضعیف آ جائے تو اُس پر عمل کیا جائے گا، اس لیے کہ اصلِ عام سے وہ حکم پہلے ثابت ہو چکا ہے اور اب یہ ضعیف حدیث معمول بہ حکم کے تحت ہے۔ یعنی ایک اضافی فضیلت اور ثواب کی بات ہو رہی ہے۔ سو ایسے امور میں حدیث ضعیف کو قبول کیا جائے گا۔

(3) حدیثِ ضعیف پر عمل میں احتیاط کا عقیدہ رکھنا

حافظ ابن حجر عسقلانی نے حدیث ضعیف کے قبول کرنے کے حوالے سے تیسری شرط یہ بیان کی کہ:

أن لا یُعْتَقَدَ عند العمل به ثبوته، لئلا یَنسِبَ إلی النبی ﷺ ما لم یقله، بل یُعتَقدُ الاحتیاط.

جب حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے تو اس سے سنت نبوی کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھے۔ اِس لیے کہ ایسی بات حضور ﷺ کی طرف منسوب نہ کرے جو حضور ﷺ نے فرمائی نہ ہو بلکہ احتیاط کا عقیدہ رکھتے ہوئے اس پر عمل کرے۔

یعنی یہ اعتقاد نہ رکھا جائے کہ اِس سے حضور علیہ السلام کی سنت ثابت ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ حدیث ضعیف ہونے کی وجہ سے اُس کے متن کے صحیح اور غلط دونوں ہونے کا احتمال ہے کہ شاید آقا علیہ السلام نے فرمایا ہو یا نہ فرمایا ہو، شاید ایسے ہی کیا ہو یا نہ کیا ہو، لہذا احتیاط کا عقیدہ رکھتے ہوئے عمل کیا جائے۔ عمل اس لیے کیا جائے کہ کہیں عمل نہ کرنے سے فضیلت ترک نہ ہو جائے، لہذا فضیلت کے ترک کرنے سے بچنے کے لیے احتیاط اپنے عقیدے میں رکھ کر حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا۔

قبولیتِ حدیث ضعیف کی متفق علیہ اور مختلف فیہ شرائط

حدیث ضعیف پر عمل کے حوالے سے حافظ ابن حجر عسقلانی کی بیان کردہ مذکورہ تین شرائط میں سے دو شرائط مختلف فیہ ہیں:

  1. وہ حکم اصلِ عام کے تحت ہو۔
  2. احتیاط کا اعتقاد ہو، ثبوتِ حکم کا اعتقاد نہ ہو

تمام ائمہ نے یہ دو شرائط نہیں لگائیں۔ یہ احتیاط در احتیاط کا پہلو ہے۔ جس شرط پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، وہ صرف پہلی شرط ہے کہ ضعف شدید نہ ہو۔ یعنی راوی وضاع نہ ہو، کذاب نہ ہو، اس پر تہمتِ کذب نہ ہو۔ گویا فقط موضوع اور متروک کو نکال دیں، باقی 37 انواعِ حدیثِ ضعیف پر فضائلِ اعمال میں عمل کرنا جائز ہے۔

اِن دو شرائط کے مختلف فیہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر حدیث ضعیف کسی خاص فضیلت اور خاص ثواب وعقاب کے بیان میں وارد ہوئی ہے اور اُس موضوع پر الگ سے کوئی حدیث صحیح اور حدیث حسن بھی اصل عام کے طور پر موجود نہیں، بلکہ حدیث ضعیف کی صورت میں صرف ایک ہی ثبوت ہے مگر حدیث فضائل کے باب میں ہے تو بہت سارے ائمہ کے نزدیک یہ حدیث ضعیف بغیر اصلِ عام کے بھی قبول ہو گی۔

اسی طرح تیسری شرط ثبوت حکم کا عقیدہ نہ ہو بلکہ احتیاط کا عقیدہ ہو، یہ شرط بھی متفق علیہ نہیں۔

اِن دونوں شرطوں کو صرف علامہ ابن عبدالسلام اور علامہ ابن دقیق العید نے بیان کیا ہے۔ باقی ائمہ حدیث ضعیف کے حوالے سے مذکورہ دوسری اور تیسری شرط بھی نہیں لگاتے۔ اس سے اندازہ کریں کہ ائمہ کے مسلک، مشرب، مذہب اور تحقیق میں کتنی وسعت ہے۔

قبولیتِ حدیث ضعیف کی مختلف فیہ شرائط پر احتمالات

حدیث ضعیف پر عمل کرنے کے باب میں علامہ ابن عبدالسلام اور علامہ ابن دقیق العید کی بیان کردہ دو شرائط جنہیں حافظ ابن حجر عسقلانی نے روایت کیا، یہ شرائط متفق علیہ نہیں ہیں۔ یہ شرائط کمزور ہیں اور مختلف فیہ ہیں۔ سب ائمہ نے ان کو قبول نہیں کیا اور حدیث ضعیف کی قبولیت کے بارے میں اِتنی سخت پابندی نہیں لگائی۔ اس مسئلہ کو سمجھانے اور اس کی وضاحت کے لیے اگر عارضی طور پر ان شرائط کی پابندی کو قبول کرلیں تو اس موضوع پر تمام ابحاث کو پڑھنے، ائمہ کی تصریحات اور علماء کی تشریحات کو دیکھنے کے بعد میرے نزدیک اِس کے چند امکانات اور احتمالات بنتے ہیں۔ ذیل میں اصول حدیث اور اصول فقہ کی روشنی میں اِن احتمالات کو بیان کیا جارہا ہے:

1۔پہلا احتمال: اباحت یا استحباب

حدیثِ ضعیف کی قبولیت کے حوالے سے پہلا امکان یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث ضعیف فضائلِ اعمال میں وارد ہوئی ہے اور اس میں ایک ایسی فضیلت کا بیان ہے کہ جس کے اندر کسی عمل کو حرام کیا جا رہا ہے اور نہ کسی عمل کو مکروہ کیا جا رہا ہے یعنی اس میں احتمالِ حرمت اور احتمالِ کراہت نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس حدیث کے ذریعے کسی عمل اور فعل کو حرام یا مکروہ قرار دیے جانے کا خدشہ اور احتمال نہیں ہے تو اب اُس حدیث کا درجہ کیا ہے؟

یاد رکھیں! اس طرح کی حدیث ضعیف کا عمل اور اثر صرف یہ ہے کہ اس سے اس فعل کا مباح یا مستحب ہونا ثابت ہورہا ہے۔

اگر یہ حدیث کسی عمل کو مباح ثابت کر رہی ہے تو ویسے ہی جائز ہے، اس لیے کہ کسی مباح عمل کے کرنے پر گناہ نہیں اور ترک کرنے پر بھی گناہ نہیں اور اگر یہ حدیث کسی عمل کو مستحب کررہی ہے تو اُس میں امکانِ ثواب ہے، تب بھی اِس صورت میں اُس حدیث پر عمل کر لیا جائے گا۔ اِس لیے کہ مستحب عمل کو کر لینے میں ثواب کی امیدہے اور ترک کرنے میں کوئی گناہ نہیںہے۔ پس امیدِ ثواب کی بنا پر حدیث ضعیف پر عمل کرلینا افضل ہے۔

اس مسئلہ میں ان لوگوں کے لیے غورو فکر کا سامان ہے جو مختلف مباح اور مستحب امور کو حدیث ضعیف کے ذریعے حرام قرار دینے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس لیے کہ حدیث ضعیف کے ذریعے حرام قرار دینا ممکن نہیں۔ خواہ وہ میلاد کا عمل ہو، خواہ وہ نعت خوانی کا عمل ہو، محفل نعت کا عمل ہو یا دست بوسی کا عمل ہو، حدیث ضعیف سے ان اعمال و افعال کا حرام ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔ حدیث ضعیف سے منع نہ درجۂ حرمت میں ثابت ہو سکتی ہے اور نہ درجۂ کراہت میں ثابت ہو سکتی ہے۔

دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو ان اعمال و افعال کو جائز سمجھ رہا ہے یا مستحب سمجھ رہا ہے، تو ان اعمال کا حدیث ضعیف سے ثابت ہونے کی وجہ سے اس پر کراہت کا حکم نہیں لگا سکتے، اس لیے کہ کسی عمل کو مکروہ یا حرام حدیث ضعیف کی بناء پر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لہذا مستحب ہونے کی وجہ سے احتمالِ ثواب ہے۔ جب ثواب کا امکان ہے اور کرنے پر گناہ نہیں تو کس چیزنے اس امکانِ ثواب کو حاصل کرنے سے روک رکھا ہے۔

احتمال چونکہ من وجہین ہوتا ہے لہذا دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ اعمال جائز تو ہیں مگر ان اعمال کے کرنے پر ثواب نہیں ہوگا، اسی طرح اگر یہ اعمال نہیں کیے تو گناہ بھی کوئی نہیں۔ اس احتمال کے مطابق بھی اس عقیدہ کے حامل لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہے، اس لیے کہ پریشانی تو اُن کے لیے ہے جو منع کا فتویٰ دینا چاہتے ہیں۔ یہ حدیث ضعیف پر عمل کے حوالے سے پہلا اصول ہے۔

2۔ دوسرا احتمال: حرمت یا استحباب

حدیثِ ضعیف کی قبولیت کے حوالے سے دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ اگر حدیثِ ضعیف میں بیان کردہ حکم یا عمل حرمت اور استحباب کے درمیان گھومتا ہو تو اب اس حدیث کا درجہ کیا ہوگا؟ یعنی ممکن ہے وہ فعل حرام ہو اور ممکن ہے کہ وہ فعل مستحب ہو۔ اگر اُس کے مستحب ہونے یعنی خیر کے عمل ہونے کے مقابلے میں احتمال حرمت پیدا ہو جائے کہ کہیں یہ عمل حرام نہ ہو، تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب اس حدیث کا درجہ کیا ہوگا؟

یاد رکھیں! اگر حدیث ضعیف میں بیان کردہ عمل میں احتمالِ حرمت اور احتمالِ استحباب دونوں پائے جائیں تو اُس حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ثواب کا احتمال کم ہے اور گناہ کا احتمال زیادہ ہے، لہذا ارجح یہ ہوگا کہ اس پر عمل نہ کیا جائے۔ یہ حدیث ضعیف کے حوالے سے دوسرا اصول ہے۔

مثلاً: ہم تقبیل ابہامین کرتے ہیں، حضور علیہ السلام کا اسم پاک سنتے ہیں اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ عالمِ عرب کے اہلِ سنت کے ہاں یہ متداول نہیں ہے۔ جس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہے، اِس کے اوپر حدیث ضعیف کا حکم ہے۔ ہمارے ہاں بحث ہوتی ہے کہ اِس مسئلہ کی اصل کوئی نہیں حالانکہ اس مسئلہ کا تعین کرنے کے لیے محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس کا تعین کرنے کے لیے فقہاء اور علماء کی طرف رجوع کرنا ہوگا کہ وہ اس طرح کے مسئلہ کا تعین کیسے کرتے ہیں؟

یاد رکھیں! یہ عمل جس حدیث سے ثابت ہے، وہ حدیث نہایت کمزور ہے مگر اس عمل کو دوسرے زاویہ سے دیکھیں کہ کیا اس کی ممانعت کی کوئی حدیث موجود ہے؟ جب ہم اس سمت سے اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس حوالے سے منع کی کوئی حدیث نہیں ملتی۔ یعنی اس حوالے سے نہ احتمالِ حرمت ہے اور نہ احتمالِ کراہت ہے۔ صرف دو احتمالات ہیں:

یا تو یہ عمل مباح ہے یا یہ عمل مستحب ہے۔

منع کا حکم اس پر اس لیے نہیں لگا سکتے کہ منع کرنے کے لیے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ منع کس درجے کی ہے: حرام ہے یا مکروہ ہے؟ منع کا تیسرا درجہ کوئی نہیں۔ منع حرمت کے درجے میں ہوتی ہے یا کراہت کے درجے میں ہوتی ہے اور اس حرام اور مکروہ کو ثابت کرنے کے لیے حدیث صحیح یا حدیث حسن کی دلیل درکار ہوتی ہے۔ اگر حدیث صحیح اور حدیث حسن دونوں نہ ہوں تو منع ثابت نہیں ہو سکتی۔ مسئلہ تقبیل ابہامین میں جب منع ثابت نہ ہوئی تووہ حکم یا عمل علی سبیل التنزل درجۂ اباحت پر آجانے کے سبب مباح ہے، جس کے کرنے میں گناہ ہے اور نہ ترک کرنے میں گناہ ہے۔ چاہتے ہیں کہ ترک کردیں تو اجازت ہے، نہ کریں۔ اور اگر کسی کا ذوق، طبیعت چاہتی ہے کہ کرے تو اُس کو منع نہیں کر سکتے، اسے کرنے دیں، فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا۔ گویا کوئی عمل اگر مستحب نہ بھی ہو تو اباحت سے نچلے درجے میں تو جا نہیں سکتا، اس لیے کہ اباحت آخری درجہ ہے۔ لیکن اگر معاملہ احتمالِ حرمت اور استحباب کے درمیان آجائے تو پھر احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ احتمالِ حرمت کی وجہ سے ترک کر دیں گے۔

(جاری ہے)