کورونا وائرس کی روک تھام، شیخ الاسلام کی ہدایات

خصوصی مضمون

کورونا وائرس کے اثرات اور اس کا پھیلاؤ بدستور قائم ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی تاریخ میں کسی وباء سے نبرد آزما ہونے کیلئے اس نوع کے غیر معمولی ہنگامی اقدامات بروئے کار لانے کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یورپ کے بعض ممالک شروع میں مکمل لاک ڈاؤن کی زد میں آئے اور آج تک کہیں مکمل اور کہیں سمارٹ لاک ڈاؤن کی کیفیت ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھائے گئے۔ حکومت نے کورونا کے آغاز پر بھی اور اب اس دوسری لہر کے آنے پر ایک بار پھر سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کو بند کردیا ہے۔ اسی طرح شادی ہالز اور سیاسی، سماجی تقریبات کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔

کورونا وائرس کی ابتداء سے لے کر آج تک ملکِ پاکستان میں عوام و خواص کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس وائرس کے حوالے سے نہ صرف بے احتیاطی سے کام لیا بلکہ اس وائرس سے حفاظت کے لیے بروئے کار لائے جانے والے حکومتی اقدامات اور ڈاکٹرز حضرات کی ہدایات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

کورونا وائرس کے آغاز میں جب اکثر پڑھے لکھے حلقوں بشمول مذہبی رہنماؤں و علماء کی جانب سے اس وباء کو خاطر میں نہ لایا جارہا تھا تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کورونا وائرس سے بچاؤ اور نبوی طریقہ کار، احکامات اور اقدامات پر روشنی ڈال کر نہ صرف اسلامیانِ پاکستان بلکہ ملتِ اسلامیہ اور پوری انسانیت کی رہنمائی کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس اہم موقع پر بلاتاخیر اپنا علمی اور فکری کردار ادا کرتے ہوئے اردو اور انگریزی میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے انتہائی مفید معلومات مہیا کیں جنہیں نہ صرف سوشل میڈیا کے ناظرین نے بے حد سراہا اور بروقت اور درست معلومات کی فراہمی پر اظہار تشکر کیا بلکہ ہمسایہ ملک کے الیکٹرانک میڈیا نے بھی اپنے ملک کی عوام کو اسلامی نقطۂ نظر سے آگاہ کرنے کے لیے شیخ الاسلام کے اِن خطابات کے کلپس کو اپنے TV پروگرامز میں نشر کیا۔

خطابات: ’’کورونا وائرس اور نبویؐ اقدامات و احکامات‘‘

ہمیشہ اَہلِ علم کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہر شے کو مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے عواقب و مضمرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتے اور دوسروں کو بھی راہ نُمائی فراہم کرتے ہیں۔ اِس آفت کے نزول کے وقت بھی ایسا ہوا کہ مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے ملک و قوم اور اِنسانیت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اِس وبا سے نبٹنے کے مفید اُصول فراہم کیے، جن کی تائید آج کی میڈیکل سائنس بھی کرتی ہے۔

جو احباب اپنی کم علمی کی وجہ سے کورونا وائرس سے حفاظتی اقدامات اور مذہبی تعلیمات کو خلط ملط کرتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ سماجی تعلقات،باہمی میل جول، مصافحہ، معانقہ ترک کر دینا کہاں کی حکمت عملی اور احتیاطی تدابیر ہیں؟ شیخ الاسلام نے اس سوچ کی اصلاح کی اور ان کی فکری رہنمائی کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ صرف صحت کے بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے جاری کی جانے والی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کی تنبیہہ کی بلکہ وباء کے پھوٹنے پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو سنتِ نبوی قرار دیا۔

شیخ الاسلام نے اِبتدائً ’’کورونا وائرس اور نبوی اِقدامات و اَحکامات‘‘ کے موضوع پر اُردو اور انگریزی میں دو لیکچرز دیے کہ جن میں واضح طور پر قرآن و حدیث سے اَخذِ فیض کرتے ہوئے راہ نُمائی فراہم کی کہ اس وبا سے نجات کا واحد حل social distancing ہے؛ یعنی اِحتیاط، اِحتیاط اور صرف اِحتیاط۔ پھر آپ نے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے موضوع پر بھی گفت گو فرمائی اور اِنتہائی مفید اور قابلِ عمل تجاویز و ہدایات سے نوازا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے یہ خطابات آج بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام و خواص کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ (www.minhaj.org)

  • اسی طرح جب کورونا وائرس کے دوران اِجتماعی عبادات کی بجا آوری کے مسائل پیدا ہوئے تو شیخ الاسلام نے ’’دورانِ وبا باجماعت نماز اور جمعہ کی ادائیگی‘‘ کے اَحکامات پر قرآن و حدیث اور کبار اَئمہ کے اَقوال کی روشنی میں لیکچرز دیے اور بڑی صراحت کے ساتھ بغیر کسی ifs and buts کے واضح طریقہ کار سے قوم کو آگاہ کیا۔ حالاں کہ اُس وقت دیگر علماء کرام اِس حکمتِ عملی سے کلی طور پر ناآشنا تھے۔ بعد ازاں جب اُنہیں حالات کی سنگینی کا اِدراک ہوا تو انہوں نے بھی وہی مؤقف اپنا لیا جو شیخ الاسلام روزِ اَوّل سے دنیا کو بتا رہے تھے۔

ایام خلوت اور ہماری زندگی: سلسلۂ خطابات

لاک ڈاؤن کی پیش آمدہ اس situation میں فرد کے مسائل اور اُن کے حل کے تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ’’اَیامِ خلوت اور ہماری زندگی‘‘ کے موضوع پر 17 لیکچرز دیے۔ جن کا مقصد یہ تھا کہ کورونا وائرس سے چونکہ ہماری سوشل زندگی بری طرح متاثر ہے اور ہر ایک کے پاس فارغ وقت کی فراوانی ہے تو اس وقت کا بہترین مصرف کیا ہو؟ نیز اِن حالات میں ہم نے اپنے ذاتی کردار و احوال کو کس طرح سنوارنا ہے؟ اس سیریز کے اِبتدائی چند لیکچرز تمہیدی گفت گو پر مشتمل تھے جب کہ چار لیکچرز ’’وقت: اَہمیت اور قدر و قیمت‘‘ کے موضوع پر ہوئے۔ دو لیکچرز میں آپ کا موضوع اِنفاق فی سبیل اللہ تھا۔

اِس سیریز کا اصل crux اور climax اُن لیکچرز میں سامنے آتا ہے جن میں آپ نے Anger Management کے موضوع پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔ ذیل میں ان موضوعات کا اِجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے:

  1. غصہ کیا ہے؟
  2. غصہ: اَسباب اور علاج
  3. غصہ ضبط کرنے کے فوائد
  4. غصہ ضبط کرنے کے طریقے (اَحادیثِ نبوی کی روشنی میں)
  5. غصہ اور بدگمانی
  6. غصہ کے نقصانات

اِن لیکچرز کے موضوعات کا تعلق ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کی اِصلاح سے ہے۔

سالانہ اعتکاف کے پروگرام کی منسوخی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور حکومتی ہدایات آنے سے بہت پہلے اپنے کارکنان اورذمہ داران کے ذریعے پوری ملتِ اسلامیہ اور انسانیت کی نہ صرف علمی رہنمائی کی بلکہ عملی اقدامات کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے سالانہ تربیتی اور اصلاحی پروگرامز تک مؤخر کر دئیے حالانکہ ان پروگرامز کی تیاری مہینوں پہلے کی گئی تھی اور ان پروگرامز کی تیاری اور انعقاد پر کثیر رقم بھی خرچ ہو چکی تھی لیکن انہوں نے انسانیت کے تحفظ اور بقاء کیلئے کسی قسم کی جذباتیت کو آڑے نہ آنے دیا اور دو ٹوک رہنمائی کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات بروئے کار لانے کی ہدایت کی۔

حلقات التربیۃ کا انعقاد

گزشتہ سال چونکہ کورونا وائرس کی شدت کے دوران ہی رمضان المبارک کے مہینہ کا بھی آغاز ہوگیا تو شیخ الاسلام نے اس موقع پر عامۃ الناس کی اِصلاحِ اَحوال اور آدابِ زندگی کی تعلیم کے لیے ’’صحیح البخاری‘‘ اور ’’اِحیاء علومِ الدین‘‘ سے حلقات التربیۃ کا آغاز کیا۔ بنیادی طور پر حلقات التربیہ میں ہونے والے دروس اور اسباق ’’صحیح البخاری‘‘ سے ہیں اور پھر ان منتخبہ موضوعات کی توضیح و تشریح کے لیے امام غزالی کی کتاب ’’اِحیاء علومِ الدین‘‘ کو بطور درس شامل کیا گیا۔ اِن حلقات التربیۃ کا موضوع اخلاقی و روحانی تربیت اور اِصلاحِ اَحوال ہے۔

کورونا وائرس سے حفاظت کے لیے ہدایات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کورونا وائرس کی روک تھام اور اس کے دیگر اثرات سے حفاظت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’تنہا حکومت کووڈ 19کی وباء کے مضمرات کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس کے لیے عوامی طبقات کو اپنے معاملات اور مشاغل کو محدود کرنا ہوگا۔ کورونا وائرس کا کوئی پہلا اور دوسرا فیز نہیں تھا، یہ وباء اول روز سے بدستورقائم ہے۔ جن ممالک نے ایس او پیز کو نظر انداز کیا، وہاں زیادہ نقصان ہوا۔ پاکستان میں بھی بے احتیاطی کی وجہ سے جانی نقصانات میں دن بدن شدت آ رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وباء کو سیاسی بیان بازی، کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ سے الگ تھلگ رکھنا ہوگا۔ کووڈ 19کی ویکسین مارکیٹ میں آنے تک یہ وباء ختم نہیں ہوگی۔ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وباء ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ قائم رہ سکتی ہے۔‘‘

امیر اور ترقی یافتہ ممالک ایس او پیز میں نرمی کر کے جو نقصان اٹھاتے ہیں، اپنی مستحکم مالی پوزیشن کے باعث اس نقصان کا ازالہ بھی کرلیتے ہیں لیکن پاکستان اپنی کمزور معیشت کے باعث براہِ راست عامۃ الناس کو بڑے پیمانے پر مالی امداد مہیا نہیں کر سکتا، اس لئے احتیاط ضروری ہے۔ کووڈ 19 کی وباء کے باعث نفسیاتی اوراقتصادی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، انہیں بھی ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی صورتحال اور عالمی ماہرین کی آراء کی روشنی میں ہم نے تحریک منہاج القرآن اور اس کے ذیلی اداروں کے ذمہ داران کو ہمیشہ سختی سے ہدایات دیں کہ کسی بھی سٹیج پر ایس او پیز کو نظر اندازنہ کیا جائے۔ منہاج القرآن اور اس کے ذیلی انسٹی ٹیوشنز میں ماسک اور دیگر حفاظتی اقدامات کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ تمام رفقاء و کارکنان جہاں کہیں بھی ہیں، ایس او پیز پر عملدرآمد کو بہر صورت یقینی بنائیں۔

ایسی عالمگیر وباؤں کے موقع پر کچھ کام اور اقدامات حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں اور کچھ کام Social Responsibilite (معاشرتی ذمہ داری) کے تحت عامۃ الناس کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ سوسائٹی کے ہر فرد اورخاندان پر لازم ہے کہ ایسی آفات کے آنے پر وہ اپنا ذمہ دارانہ سماجی کردار ادا کریں۔ کورونا وائرس ایک خطرناک وبا ہے، یہ کوئی روایتی وبا نہیں ہے کہ روایتی طور طریقے اختیار کر کے اسکا مقابلہ کیا جا سکے۔

اس ضمن میں درج ذیل حفاظتی اقدامات کو ہر شخص بہر طور اختیار کرے:

  1. کرونا وائرس سے بچنے کیلئے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ صابن سے ہاتھوں کو اچھی طرح دھوتا رہے۔ یہ پہلا حفاظتی قدم ہے۔ ایک وقت میں کم از کم 20 سیکنڈ تک ہاتھوں کو دھوئیں۔ اس آفت سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ بنانے کی یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
  2. کھانسی اور چھینک کی صورت میں ٹشو پیپر، رومال یا کوئی کپڑا منہ پر رکھیں تاکہ جراثیم ہوا میں نہ جائیں۔
  3. اگر ہاتھ دھلے ہوئے نہیں ہیں تو اپنے ہاتھوں کو منہ، ناک، آنکھ اور چہرے کو نہ لگائیں۔ کرونا وائرس منہ، ناک اور آنکھ کے راستے سے جسم میں داخل ہوتا ہے۔
  4. اگر نزلہ فلو، بخار ہے تو کسی دوسرے کو ٹچ نہ کریں، گھر میں رہیں، اس دوران مصافحہ بھی نہ کریں،کسی کو گلے بھی نہ ملیں۔
  5. سیاسی، سماجی، مذہبی اور سوشل میٹنگز اور اجتماعات میں جانے سے پرہیز کریں۔
  6. کورونا وائرس کی یہ خاصیت ہے کہ وہ لکڑی پر بھی منتقل ہو جائے تو ایک مخصوص مدت تک کسی دوسرے نفس میں منتقل ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔ کرونا وائرس لکڑی، کرسی ،ٹیبل اور زیر استعمال رہنے والی اشیاء کے ذریعے دوسروں تک منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ وائرس نہ صرف بلاواسطہ منتقل ہونے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ بلواسطہ بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ جس جگہ بھی آپ بیٹھیں، اسے اچھی طرح صاف کریں اور اپنے زیر استعمال اشیاء کی صفائی کا بھی پوری طرح خیال رکھیں۔ سب سے اہم چیز ہاتھوں کی صفائی ہے۔
  7. کل وقتی طور پر ماسک اور سینی ٹائزر کا استعمال کریں۔
  • ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ ان تدابیر کو اختیار کرے۔ میں تمام تنظیمی، تحریکی ذمہ داران اور کارکنان کو سختی سے یہ ہدایت کررہا ہوں کہ وہ اپنی سماجی، قومی، ملی، جماعتی، تحریکی، معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے مذکورہ بالا حفاظتی تدابیر اختیار کرے اور اس ضمن میں کسی قسم کی غفلت کے مرتکب نہ ہوں۔ ہر شخص نہ صرف خود ان ہدایات پر عمل کرے بلکہ اپنے اہلخانہ، عزیز و اقارب اور دوست احباب تک بھی یہ پیغام قومی، ملی، دینی فریضہ سمجھ کر پہنچائے۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسـٹیز ،نجی محفلوں میں ہر جگہ ان ہدایات پر عمل ہونا چاہیے۔
  • دنیا بھر کے کارکنان ، تنظیمات اور ذمہ داران کو میری یہ ہدایت ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے ضمن میں حکومتوں اور ان کے متعلقہ اداروں کی طرف سے جو ہدایات ملیں، ملک، معاشرے اور انسانیت کی حفاظت اور بقاء کے جذبہ کے ساتھ ان پر عمل کریں اور حکومتی مہمات کے ساتھ تعاون کریں، اس سے وباء کو روکنے میں مدد ملے گی۔اس حوالے سے ماڈرن سائنس سے آگاہی مل رہی ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشنز کی طرف سے بھی تلقین کی جارہی ہے اورڈاکٹرز بھی اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

احتیاط کو نظر انداز کرنا اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنا علمی، فکری اور اخلاقی کردار ادا کرتے ہوئے مذکورہ ہدایات پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’ان ہدایات کو نظر انداز ہر گز نہ کریں اور خوفزدہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ احتیاط اور تدبیر کو نظر انداز کرنے والا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند نہیں ہے۔ تدبیر اور احتیاط کو نظر انداز کرنے کا نام توکل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا تعلق تقدیر سے ہے۔ تقدیر اور تدبیر الگ الگ موضوعات ہیں۔ پیشگی حفاظتی اقدامات بروئے کار لانا الگ چیز ہے اور اللہ اور اس کی مشیت پر بھروسہ کرنا الگ باب اور موضوعِ بحث ہے۔ بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے ان دونوں امور کو آپس میں خلط ملط کرتے ہیں۔ بیماریوں سے بچنے کیلئے تدابیراختیار کرنے کا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سختی سے دیا ہے۔

صحیح بخاری ’’باب الطب‘‘ میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر تم کسی ملک، کسی شہر، کسی سرزمین کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون کی وباء پھیل گئی ہے تو اس ملک میں، اس خطے میں، اس علاقے میں ہر گز داخل نہ ہو اور اگر کسی علاقے، شہر، ملک میں یہ وباء پھیل جائے جہاں آپ پہلے سے موجود ہوں تو پھر وہاں سے باہر نہ جاؤ۔

اس زمانے میں ٹیسٹ لیبارٹریز نہیں ہوتی تھیں کہ اس بات کا پتہ چلایا جا سکے کہ کس شخص میں وباء کے اثرات ہیں اور کس میں نہیں ہیں؟ لہٰذا حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کی ایک ایسی احتیاطی تدبیر بتا دی جس کی آج کی ماڈرن سائنس توثیق کررہی ہے کہ متاثرہ علاقہ، ملک اور معاشرہ کا سفر اور آمدو رفت کو روک دیا جائے تاکہ اس موذی وباء سے ان علاقوں، خطوں اور ملکوں کے عوام کو بچایا جا سکے۔ چونکہ طاعون ایک متعدی مرض ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے، اسی لیے دونوں صورتوں میں انٹرایکشن سے روک دیا گیا۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے متعدی امراض کے پھیلاؤ کی روک تھام کیلئے جو ہدایات اور گائیڈ لائن دی ہے، ان کی روشنی میں کورونا وباء سے نبرد آزما ہونے کے لیے ان ہدایات پر سختی سے عمل کرنا ہم سب پر فرض اور لازم ہے۔‘‘

اس وباء سے نبرد آزما ہونے کے لئے ذات، جماعت، مذہب اور مسلک سے بالا ہو کر فکری اعتبار سے حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ضرورت تھی مگر بدقسمتی سے پاکستان کے اندر فکری ہم آہنگی کے فقدان کے باعث غیر ضروری تنازعات نے جنم لیا اور جو وقت اور وسائل کورونا وائرس کی وباء سے نبرد آزما ہونے کے لئے بروئے کار آنے چاہئیں تھے، وہ بے مقصد بحثوں کی نظر ہوئے۔ ان حالات میں شیخ الاسلام کا کردار تمام سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی آفات و بلّیات اور زمینی و آسمانی وباؤں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ