بین المسالک ہم آہنگی کا فروغ شیخ الاسلام کا کردار

میر محمد آصف اکبر قادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو ‘‘۔

(آل عمران، 3: 103)

اس آیتِ مبارکہ میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اللہ کی رسی یعنی دینِ حق کو مضبوطی سے تھام کر باہمی اتحاد و اتفاق کی تلقین اور تفرقہ و انتشار سے بچنے کی تاکید کی ہے۔

ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید نے باہمی اختلاف و نزاع اور تفرقہ پروری کو قوموں کے زوال کا سبب قرار دیا جس سے قوموں کا وقار مجروح اور رعب و دبدبہ ختم ہوجاتا ہے اور دشمنوں کی نظر میں ان کی حیثیت بالکل گِر جاتی ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ.

’’اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جائو گے اور (دشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائے گی ‘‘۔

(الانفال، 8: 46)

حضور نبی اکرم ﷺ نے تفرقہ پروری کے خلاف انتہائی سخت تعلیمات و احکامات فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

من اتاکم و امرکم جمیع علی رجل واحد یریدان یشق عصاکم او یفرق جماعتکم فاقتلوا.

’’جو شخص بھی تمہاری جماعت کی وحدت اور شیرازہ بندی کو منتشر کرنے کے لیے قدم اٹھائے، اس کا سر قلم کردو‘‘۔

(صحیح مسلم: 33، کتاب الامارۃ، 14، باب حکم من فرق امرالمسلمین، حدیث نمبر: 65)

ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرقہ پرست عناصر کی موت کو کفر کی موت قرار دیا۔ ارشاد فرمایا:

یداللّٰه علی الجماعة و من شَذّ شُذ الیٰ النار.

’’اجتماعی وحدت کو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی ہے جو کوئی اس سے جدا ہوگا، دوزخ میں جاگرے گا‘‘۔

(جامع الترمذی، 2: 39، کتاب الفتن، باب ماجاء فی الزوم الجماعة، حدیث: 2167)

اجتماعیت کو چھوڑ کر جدا جدا اکائیوں میں منقسم ہوجانا اور اپنے اپنے تشخص میں گم ہوجانا انتشار کو جنم دیتا ہے جس سے ملت کی اجتماعی قوت پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ بالآخر فرقہ بندی اور تفرقہ پروری کی یہی زندگی ایسی موت کی طرف لے جاتی ہے جو قرآن کی اصطلاح میں کفر کی موت ہے۔

قرآن و حدیث میں واضح تعلیمات کے باوجود بدقسمتی سے ملتِ اسلامیہ مختلف فرقوں اور طبقات میں منقسم ہوکر اپنے اپنے مسالک کے تحفظ کو اسلام کا تحفظ گردان رہی ہے اور کثرت سے دین کے نمائندے اسلام کی بجائے مسلک کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ اس پسِ منظر میں بین المسالک رواداری کے فروغ اور اتحادِ امت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی چند خدمات کا اجمالی خاکہ نذرِ قارئین ہے:

1۔ فرقہ پرستی کے خاتمہ کی علمی و فکری کاوشیں

قرآنی فلسفۂ اعتصام، تعلیماتِ مصطفی ﷺ اور تاریخی مشاہدے کی روشنی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آج سے چار دہائیاں قبل 1980ء کے اوائل میں اتحادِ امت کے لیے تحریری، تقریری اور عملی جدوجہد کا آغاز اس وقت کیا جب مناظروں، مباہلوں اور فتویٰ بازی کے عروج کا دور تھا۔ تکفیری قوتوں کے سامنے بولنا خودکشی کرنے کے مترادف تھا۔ حتی کہ اگر کوئی کسی دوسرے مکتبہ فکر کے عالم سے بھی ملاقات کرلیتا تو اسے کافر قرار دیا جاتا تھا۔ نفرتوں، انتہا پسندی، فرقہ وارانہ فسادات کے ماحول میں شیخ الاسلام نے اتحادِ امت کا علَم اٹھایا اور علمی مباحثوں، بین المسالک مکالمہ، میل ملاقات اور اتحاد بین المسلمین سیمینارز کا آغاز کیا۔

1985ء میں ’’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھ کر اتحاد و اخوت کے فروغ اور فرقہ پرستی کے خاتمہ کا درج ذیل لائحہ عمل دیا:

  1. عقائد و اعمال کے مشترک پہلو اور بنائے اتحاد
  2. مثبت اور غیر تنقیدی اسلوبِ تبلیغ
  3. حقیقی رواداری کا عملی مظاہرہ اور عدمِ اکراہ کا قرآنی فلسفہ
  4. دینی تعلیم کے لیے مشترکہ اداروں کا قیام
  5. علماء کرام کے لیے جدید عصری تعلیم کا انتظام
  6. تہذیبِ اخلاق کے لیے مؤثر روحانی تربیت کا انتظام
  7. فرقہ پرستانہ سرگرمیوں کے خاتمہ کے لیے چند قانونی اقدامات
  8. منافقانہ اور خفیہ فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی
  9. تمام مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماء کرام پر مشتمل قومی سطح کی سپریم کونسل کا قیام
  10. ہنگامی نزاعات کے حل کے لیے سرکاری سطح پر مستقل مصالحتی کمیشن کا قیام
  11. مذہبی سطح پر منفی اور تخریبی سرگرمیوں کے خلاف عبرتناک تعزیرات کا نفاذ

90ء کی دہائی میں حکومت پنجاب نے شیخ الاسلام کے اس لائحہ عمل کی روشنی میں سرکاری سطح پر محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام ’’اتحاد بین المسلمین کمیٹی‘‘ کو قائم کیا جس کے اغراض و مقاصد آپ نے طے کیے۔ جن کی روشنی میں بعد ازاں وزارت قانون تخریبی سرگرمیوں کے خلاف تعزیرات کا نفاذ عمل میں لائی اور قانونی اقدامات کیے۔ نیز اس سلسلہ میں حکومتی سرپرستی میں دینی تعلیم کے مشترکہ ادارے علماء اکیڈمی بادشاہی مسجد، جامعہ ہجویریہ داتا دربار اور صوبائی سطح پر دیگر اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا اور بعض غیر فعال اداروں کو فعال کیا گیا۔

2۔ شیعہ سنی فسادات کے خاتمہ میں کردار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی کتاب ’’سیفُ الجلی علٰی منکرِ ولایتِ علی‘‘ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا مشہور قول نقل کیا کہ ’’خلافت و امارت میں سیدنا صدیق اکبرؓ خلیفہ بلا فصل اور ولایت میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم خلیفہ بلا فصل اور ر‘شد و ہدایت میں تمام صحابہ کرام خلفاء بلا فصل ہیں۔‘‘ آپ نے شاہ ولی اللہ کی اس رائے کے مطابق شیعہ سنی فسادات کی آگ کو بجھانے کی کوشش کی تو فرقہ پرست عناصر نے اس کو غلط رنگ دے کر خوب پروپیگنڈا کیا۔

علمی خیانت اور بہتان کے ذریعہ یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ آپ افضلیت سیدنا صدیقِ اکبرg کے قائل نہیں جس پر شیخ الاسلام نے 2008ء میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی قرب و معیت و افضلیت پر خطاب کیا اور اس حوالے سے ہونے والے منفی پروپیگنڈے کا علمی جواب مرحمت فرمایا۔

3۔ تحمل و برداشت کے کلچر کا فروغ

اتحادِ امت کی اس جرأت مندانہ آواز کو دبانے کے لیے شیخ الاسلام کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے، درجنوں فتوے اور کتب شائع کی گئیں۔ آپ نے ہر سازش کو ناکام بناتے ہوئے اتحادِ امت کے مشن کو جاری رکھا۔ آپ کی اس استقامت نے فکری جمودکے طلسم کو توڑا جس سے مکاتبِ فکر کے علماء کرام کا دوسروں کے پاس آنا جانا شروع ہوا اور برداشت کا کلچر عام ہوا۔ اتحادِ امت اور بین المسالک رواداری کو فروغ دینے کے لیے منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام شیخ الاسلام کی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں اندرون و بیرون ملک قائم منہاج القرآن کے تمام مراکز پر منعقد ہونے والی کانفرنسز، سیمینارز، علمی مباحثے، مکالمے میں تمام مکاتبِ فکرکے جید نامور علماء و مشائخ دینی سکالرز اور محققین کو مدعو کیا جاتا ہے جن میں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس، یومِ عاشور پر اتحادِ امت کانفرنس، مشائخ کانفرنس، خلفاء راشدین کانفرنسز، عظمتِ اولیاء کانفرنس، تحدیثِ نعمت شیخ الاسلام کانفرنس کے علاوہ مشاہیرِ اسلام کے ایام پر مرکز اور فیلڈ میں بھی تقریبات ہوتی ہیں۔ اسی طرح منہاج القرآن علماء کونسل کے اراکین بھی دوسرے مسالک، دینی اداروں اور مذہبی جماعتوں کے زیرِ اہتمام ہونے والے پروگرامز میں شرکت کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مختلف مسالک کی نمائندہ شخصیات کا ایک دوسرے کے ہاں مختلف پروگرامز میں آنے جانے کی اس خوبصورت روایت کی ابتداء شیخ الاسلام نے کی۔

منہاج القرآن عملی طور پر اتحادِ امت کا کردار ادا کررہا ہے۔ تمام مکاتبِ فکر کے نامور جید علماء کرام کو مرکز تعلیمی اداروں میں بلاکر ان سے اظہار خیال کرواتے ہیں، اس کا یہ نتیجہ ہے کہ منہاج القرآن کے کارکنان، طلبہ اور وابستگان اعتدال اور برداشت کی عملی تصویر ہیں۔ ان کے اندر نفرت اور انتہا پسندی موجود نہیں بلکہ معتدل ہیں۔ شیخ الاسلام فرمایا کرتے ہیں کہ

’’ملک و ملت کے ساتھ وفاداری تب ہوگی، جب ہم مسلک کی بجائے دین کے ترجمان بنیں گے۔‘‘

شیخ الاسلام کی یہ کاوشیں الحمدللہ آج رنگ لاچکی ہیں اور حکومتیں، قومی سلامتی کے ادارے اور ذی شعور اعتدال پسند علماء و مشائخ اتحادِ امت کے لیے شب و روز مصروف عمل ہیں، انہیں احساس ہوچکا ہے کہ اس کے بغیر اسلام اور پاکستان کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس کی ایک مثال محرم الحرام کی تقریبات ہیں کہ جب یومِ عاشور کے موقع پر حکومت انتظامیہ اور سیکیورٹی ادارے مسلکی فرقہ وارانہ کشیدگی سے پریشان ہوتے ہیں، اسی رات منہاج القرآن کے مرکز پر اتحادِ امت کا حسین گلدستہ سجا ہوتا ہے جس میں تمام مکاتبِ فکر کے نامور جید علماء کرام اتحادِ امت اور مسلکی رواداری پر گفتگو کررہے ہوتے ہیں۔ رواں سال مرکز پر نامور اہلِ حدیث عالمِ دین علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (امیر متحدہ جمیعت اہل حدیث)، معروف شیعہ عالمِ دین علامہ حافظ کاظم رضا نقوی، معروف دیو بند عالم بین المسالک رواداری کے سرگرم راہنما مولانا سید عبدالخبیر آزاد خطیب بادشاہی مسجد لاہور، معروف اہلسنت عالمِ دین مفتی محمد خلیل قادری شیخ الحدیث جامع ہجویریہ داتا دربار اور پیرزادہ برہان الدین احمد عثمانی سربراہ مشائخ ونگ جماعتِ اسلامی پاکستان منہاج القرآن میں تشریف لائے اور اتحادِ امت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شیخ الاسلام کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

  • اسی طرح ہر سال عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر منہاج القرآن کا سٹیج مسلکی رواداری اور اتحادِ امت کا خوبصورت منظر پیش کررہا ہوتا ہے، جس میں تمام مکاتبِ فکر کی جلیل القدر شخصیات اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔

الغرض منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام ہونے والی ہر تقریب میں بین المسالک رواداری کے فروغ کے لیے جملہ مسالک کے نمائندگان کو بطورِ خاص مدعو کیا جاتا ہے۔

جملہ مسالک کی نمائندہ شخصیات کا خراجِ تحسین

جملہ مسالک کی نمائندہ شخصیات نے اتحادِ امت اور بین المسالک رواداری کے فروغ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اپنے اپنے انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، ان میں سے چند شخصیات کے کلمات کو قارئین کی دلچسپی کے پیشِ نظر یہاں درج کیا جارہا ہے:

1۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے معروف عالم دین محترم مولانا عبدالرحمن اشرفی مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، عالمی میلاد کانفرنس مینار پاکستان پر تشریف لائے اور بڑی فراخدلی سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کو شیخ الاسلام کے ٹائٹل سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’امتِ مسلمہ کو فرقہ واریت کی دلدل سے نکالنے کے لیے آپ نے اسلاف کی طرح بڑی مشکلات کو برداشت کیا۔‘‘

2۔ تبلیغی جماعت کے معروف مبلغ محترم مولانا طارق جمیل پہلی دفعہ جب منہاج القرآن تشریف لائے تو شیخ الاسلام کا کام دیکھ کر کہا:

’’اللہ تعالیٰ بعض اوقات ایک شخص سے ہزاروں افراد کا کام لیتا ہے۔ شیخ الاسلام ایک فرد ہوکر دین اسلام کے لیے ہزاروں افراد جتنا کام کررہے ہیں‘‘۔

آپ متعدد مرتبہ مختلف علمی موضوعات پر تفصیلی گفتگو کے لیے شیخ الاسلام سے ملاقات کے لیے تشریف لاچکے ہیں۔

3۔ محترم علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری امیر متحدہ جمعیت اہلحدیث جو مدینہ یونیورسٹی کے فاضل اور اہل حدیث مکتبہ فکر کے بڑے ثقہ اور معروف عالم دین ہیں، انہوں نے شیخ الاسلام کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:

’’’بین المسالک رواداری کے فروغ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 40 سال سے علمی و عملی کام کررہے ہیں، آپ کی گفتگو سن کر مجھے یوں لگتا ہے کہ میں حجۃ اللہ البالغہ کا پورا خلاصہ سن رہا ہوں۔ میں برصغیر میں کسی دوسرے شاہ ولی اللہ کا خطاب سن رہا ہوں۔ تعصب کے مارے لوگ میرے اس بیان پر کہیں گے کہ ضیاء اللہ شاہ اہلحدیث نے علامہ طاہرالقادری کو شاہ ولی اللہ بنادیا۔ مجھے ان کے اس بیان کی کوئی پروا نہیں، اس لیے کہ حسینی وہ ہوتا ہے جو حق اور صداقت بیان کرنے سے رک نہیں سکتا۔ شیخ الاسلام کو سن کر مجھے سید محمد داؤد غزنویؒ کے حجۃ اللہ البالغہ کے درس یاد آرہے ہیں کہ ان جیسا حجۃ اللہ البالغہ کا کوئی مدرس نہیں تھا‘‘۔

  • ایک دوسرے موقع پر محترم علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ:

’’شیخ الاسلام جس بصیرت، فراست، دانائی، حکمت وسعت اور جامعیت کے ساتھ محبتِ رسول ﷺ اور سیرت النبی ﷺ کے پیغام کو عام کررہے ہیں یہ آپ ہی کا خاصہ ہے۔ ان شاء اللہ آپ کی بات عنقریب بہت جلد پوری امت کی مشترکہ آواز ہوگی۔ آپ کو میں اس زمانے کا شاہ ولی اللہ مانتا ہوں۔ آپ حجۃ اللہ البالغہ کی عملی تصویر ہیں۔‘‘

محترم قارئین! یہ اس شخصیت کے کلمات ہیں جو نہ صرف جید اہلحدیث عالم دین ہیں بلکہ تمام مکاتب کے علماء کرام کے ہاں بھی اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔۔

4۔ ملک پاکستان کی ایک بڑی مذہبی و سیاسی جماعت، جماعت اسلامی جس کی پاکستان میں مذہبی، علمی، فکری، تنظیمی پہچان ہے اس جماعت کے امیر محترم سینیٹر سراج الحق، شیخ الاسلام کے لیے ان الفاظ میں گویا ہوتے ہیں:

’’ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مغرب میں بیٹھ کر مغرب کی زبان میں اسلام کی تعلیمات کو فروغ دیا ہے۔ یہ دین کی بہت بڑی خدمت ہے۔ آپ نے ہمیشہ امن اور رواداری کا راستہ اختیار کیا ہے۔‘‘

محترم قارئین! ایسی شخصیت کا اتنی فراخدلی سے بین الاقوامی سطح پر شیخ الاسلام کے علمی خدمات کو ماننا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

5۔ محترم علامہ راجہ ناصر عباس (سربراہ مجلس وحدت المسلمین) اہل تشیع کی سب سے بڑی مذہبی، سیاسی پارلیمانی جماعت کے قائد کہتے ہیں کہ:

’’منہاج القرآن میرا گھر ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے اپنے کارکنوں کو امن، محبت اور باہمی ہم آہنگی کی تربیت دی ہے، یہ ایک پاکیزہ تحریک ہے۔‘‘

6۔ محترم ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر صدر جمعیت علماء پاکستان (نورانی)، اہلسنت کے عالم، پی ایچ ڈی سکالر اور بہت بڑی خانقاہ کے سجادہ نشین ہیں۔ مولانا الشاہ احمد نورانیؒ کے قریبی ساتھی ہیں اور ملی یکجہتی کونسل کے صدر ہیں۔ انہوں نے شیخ الاسلام کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:

’’منہاج القرآن نے اپنی ابتداء علم اور رواداری سے کی اور یہ علمی سفر جاری و ساری ہے۔ دعا گو ہوں کہ یہ سفر اسی طرح جاری رہے۔ آپ نے اسلاف کے علمی کلچر کا احیاء کیا ہے۔‘‘

7۔ محترم خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ سجادہ نشین کوٹ مٹھن شریف نے شیخ الاسلام کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان الفاظ کا چنائو کیا:

’’ڈاکٹر طاہرالقادری کی دینی فکر میں جامعیت ہے۔ انہوں نے اسلام کو انتہا پسندی سے جوڑنے کی ہر سازش ناکام بنائی اور حقیقی تصوف کا احیاء کیا۔‘‘

8۔ محترم صاحبزادہ علامہ حسین رضا قادری، آپ جانشین محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمدؒ، سنی اتحاد کونسل کے وائس چیئرمین اور سابق وفاقی وزیر صاحبزادہ حاجی فضل کریم کے صاحبزادے ہیں، انہوں نے شیخ الاسلام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ:

’’منہاج القرآن پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ یہاں خلوص ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا قلم عشق مصطفی ﷺ ، صحابہ کرامl سے وفا اور اہل بیتf کی گداگری کی روشنی میں ڈوبا ہوا ہے۔‘‘

9۔ محترم حضرت پیر سید ریاض حسین شاہ ناظم اعلیٰ جماعت اہل سنت پاکستان جو کہ گزشتہ کم و بیش 30 سال جماعت اہلسنت پاکستان کے مرکزی ناظم اعلیٰ رہے۔ آپ نے اہلسنت کے تمام اداروں، جماعتوں، خانقاہوں کو بڑے قریب سے دیکھا۔ گذشتہ سال لاک ڈائون کے دوران راقم کو بہت سے نامور علماء و مشائخ کی شیخ الاسلام سے گفتگو کروانے کا موقع ملا، جن میں حضرت پیر سید ریاض حسین شاہ بھی شامل تھے۔ آپ نے ایک ملاقات میں مجھ سے فرمایا کہ:

’’ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اہلسنت علماء کی لڑائیوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام کو جاری رکھا۔ یہی بے پرواہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ اسی وجہ سے آج سب کا کام ایک طرف اور تنہا منہاج القرآن کا دینی، فکری، تنظیمی، تبلیغی کام ان سب سے زیادہ ہے۔‘‘

بعد ازاں میں نے شیخ الاسلام کی ہدایات پر آپ کو عالمی میلاد کانفرنس 2020ء میں شرکت کی دعوت بھی پیش کی جو آپ نے شفقت فرماتے ہوئے علالت کے باوجود قبول کی اور تشریف لائے۔ اس موقع پر آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ:

’’میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم القدسیہ کے حضور حرفِ سپاس پیش کرتا ہوں کہ امتِ مسلمہ پر جو قرض تھا آپ نے پوری دنیا میں دعوتِ دین کا وہ قرض اد اکردیا۔ منہاج القرآن کے وابستگان اور کارکنوں کی آنکھوں میں ایک روشنی نظر آتی ہے، ان کے ماتھے اور تکلم میں نور موجود ہے۔ میں طویل عرصہ بعد اس اسٹیج پر آیا ہوں، آپ نے آل رسول اور خاندان رسول کے لیے جن محبتوں کا اظہار کیا ہے، آپ کے ان چند الفاظ نے ہمارے دلوں کو خرید لیا ہے۔ میرے پاس خلوص کی دولت ہے، میرے پاس دعائیہ کلمات ہیں، میرے پاس مصطفی ﷺ کی اولاد میں سے ہونے کا شرف ہے، میں یہ ساری دولت آپ کے نام کرتاہوں۔ آپ نے پہلے بھی بڑا علمی روحانی کام کیا ہے۔ اللہ آپ کو مزید توفیق سے نوازے گا۔‘‘

محترم قارئین! یہ امر ذہن نشین رہے کہ حضرت پیر صاحب وہ شخصیت ہیں کہ جن کے سیکڑوں شاگرد، ہزاروں مریدین ہیں، کثرت سے علماء کرام آپ کے مرید ہیں۔ اس کے علاوہ آپ انجمن طلبہ اسلام کے راہنمائوں کے روحانی قائد اور اکثر کے شیخ طریقت ہیں۔ آپ کی طرف سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کی علمی و فکری خدمات کے اعتراف میں اس قدر محبت و شفقت کے کلمات نہ صرف حضرت پیر صاحب کی وسیع الظرفی، دینِ اسلام سے ان کی والہانہ محبت اور ان کے صاحبِ بصیرت ہونے کے آئینہ دار ہیں بلکہ منہاج القرآن کے لیے بھی ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔

10۔ محترم علامہ محمد امین شہیدی (سربراہ اتحاد امت پاکستان) نے شیخ الاسلام کو اِن کلمات کے ذریعے خراجِ محبت پیش کیا:

’’’تعصبات سے بالاتر ہوکر اسلام کی آفاقی تعلیمات کے فروغ کے لیے مسلم امہ کو جمع کرکے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علمی، فکری اور تحقیقی حوالے سے احسن انداز میں خدمات سرانجام دی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ فرقہ وارانہ فضا اور مسلکی تعصب سے بالکل بلند ہوکر مسلم امہ کوایک لڑی میں پرونے کی جدوجہد فرمائی۔‘‘

اتحاد امت کے لیے احکامات قرآنی اور فرمودات مصطفی ﷺ کی روشنی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے زمانے کی تندو تیز انتہا پسندانہ مذہبی لہروں کی پروا کیے بغیر اپنے رب اور رسول ﷺ کی رضا کی خاطر اس مشن کو استقامت کے ساتھ جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر مکتبہ فکر کے علماء یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام کی سربلندی، عروج اور ترقی کے لیے فرقہ واریت کے زہر کو ختم کرنا اشد ضروری ہے۔ منہاج القرآن علماء کونسل شیخ الاسلام کی اس فکر کی امین ہے جو تمام مسالک کے دینی اداروں، مذہبی جماعتوں کے مراکز پر ان کی تقریبات، کانفرنسز، مذاکروں اور مباحثوں میں شرکت کرکے مسلکی رواداری اور اتحاد امت کو فروغ دے رہی ہے۔