شیخ الاسلام کی تجدیدی خدمات کا اجمالی تعارف

حافظ ظہیر احمد الاسنادی

دورِ حاضر کے عظیم اِسلامی مفکر، محدّث، مفسر اور نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دینی و دنیاوی تعلیم اور روحانی نسبت کے اعتبار سے نہایت ہی اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپ نے دورِ جدید کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے علمی و تجدیدی کام کی بنیاد عصری ضروریات کے گہرے اور حقیقت پسندانہ تجزیاتی مطالعے پر رکھی، جس نے کئی قابلِ تقلید نظائر قائم کیں۔ فروغِ دین میں آپ کی دعوتی و تجدیدی اور اِجتہادی کاوِشیں منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ آپ نے دین کے ہمہ جہتی زوال کو عروج میں بدلنے کے لیے 17 اکتوبر 1980ء (بمطابق 8 ذوالحجہ 1400ھ) کو ادارہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھ کر اپنی عالمگیر تجدیدی کاوشوں کا آغاز کیا اور آج تک صرف 40سال کے قلیل عرصہ میں علمی وفکری، تحقیقی و تعلیمی اور عملی میدانوں میں اَیسے ہمہ جہت کارہائے نمایاں سر انجام دیئے جن کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ اِختصار کے پیشِ نظر ذیل میں آپ کے چند تاریخ ساز کارنامے پیشِ خدمت ہیں:

1۔ ترجمہ عرفان القرآن

شیخ الاسلام نے ’عرفان القرآن‘ کے نام سے اردو اور The Glorious Quranکے نام سے انگریزی زبان میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق عام قاری کو تفاسیر سے بے نیاز کر دینے والا قرآنِ مجید کا نہایت جامع اور عام فہم ترجمہ کیا ہے، جو قرآن حکیم کے اُلو ہی بیان کا لغوی ونحوی، ادبی وعلمی، اعتقادی، فکری اور سائنسی خصوصیات کا آئینہ دار ہے۔ یہ ترجمہ کئی جہات سے عصرِ حاضر کے دیگر تراجم کے مقابلے میں زیادہ جامع اور منفرد ہے۔

2۔ عصرِ حاضر اور ذخیرۂ حدیث کی تدوینِ نو

علم الحدیث میں آپ کی تالیفات ایک گراں قدر علمی سرمایہ ہیں:

  • امام نوویؒ کی رِیَاضُ الصَّالِحِیْن اور خطیب تبریزیؒ کی مِشْکَاۃُ الْمَصَابِیْح کے اُسلوب پر دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق الْمِنْہَاجُ السَّوِيّ مِنَ الْحَدِیْثِ النَّبَوِيّ پوری دنیا میں ہر خاص و عام سے دادِ تحسین وصول کرچکی ہے۔
  • هِدَایَةُ الْأُمَّة عَلٰی مِنْهَاجِ الْقُرْآن وَالسُّنَّة اڑھائی ہزار اَحادیث کا دو جلدوں پر مشتمل اِیمان اَفروز تربیتی نوعیت کا عظیم مجموعہ ہے جو آیاتِ قرآنی اور اَحادیثِ نبوی کے ساتھ ساتھ آثارِ صحابہ و تابعین اور اَقوالِ اَئمہ و سلف صالحین کا بھی نادِر ذخیرہ ہے۔
  • عقائد و عبادات، فضائلِ اَعمال، حقوق و فرائض، اَخلاق و آداب، اَذکار و دعوات اور معاملات و عمرانیات جیسے اَہم موضوعات پر مشتمل مَعَارِجُ السُّنَنِ لِلنَّجَاۃِ مِنَ الضَّلَالِ وَالْفِتَنِ کے نام سے پندرہ ضخیم جلدوں کا تاریخی مجموعہ عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ایک نادِر علمی کاوش ہے۔ اس عظیم کتاب کا ہر موضوع آیاتِ قرآنیہ سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ مستند و معتبر احادیثِ مبارکہ کا گراں قدر ذخیرہ ہے۔ یہ اَئمہ سلف صالحین کی تصریحات و توضیحات کا بھی عظیم مرقع ہے جس میں مفسرین و محدّثین کی تشریحات بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔ عام قارئین کے لیے سلیس و بامحاورہ اُردو ترجمہ مع جدید تحقیق و تخریج پیش کیا گیا ہے۔
  • اَحکام کے بیان پر مشتمل آیات و احادیث اور توضیحات و تصریحات پر مشتمل آٹھ جلدوں کا ایک الگ مجموعہ بھی ہے جس کی مثال پچھلی کئی صدیوں کے علمی سرمائے میں ناپید ہے۔ ۔۔ اِسی طرح اَلأَنْوَار فِي فَضَائِلِ النَّبِيِّ الْمُخْتَار ﷺ کے عنوان سے حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل، شمائل، خصائص اور معجزات کے حوالے سے بارہ جلدوں میں پانچ ہزار احادیث پر مشتمل مجموعہ بھی زیرِ ترتیب ہے۔ ۔۔ مزید برآں قاضی عیاض کی اَلشِّفَا کی طرز پر مَکَانَۃُ الرِّسَالَۃ وَالسُّنَّۃ کے موضوع پر عربی زبان میں ایک عظیم علمی شاہکار ہے۔۔۔ اُردو زبان میں سیرۃ الرسول ﷺ کی بارہ جلدوں پر مشتمل سب سے بڑی تصنیف بھی آپ ہی کی ہے۔۔۔ علاوہ ازیں اِیمانیات، اِعتقادیات، تصوف و روحانیت، معاشیات و سیاسیات، سائنس اور جدید عصری موضوعات پر بھی آپ کی متعدد تصانیف دنیا کی بڑی زبانوں میں منتقل ہورہی ہیں۔
  • (حدیث کے باب میں شیخ الاسلام کی خدمات پر تفصیلی مضمون زیرِ نظر شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں)

3۔ دہشت گردی کے خلاف تاریخی فتویٰ

وطنِ عزیز میں جہاں ہزاروں بے گناہ اَ فراد حالیہ دہشت گردی کی نذر ہورہے تھے وہیں دہشت گردوں کو بہت سی نام نہاد مذہبی جماعتوں کی خاموش حمایت بھی حاصل تھی۔ اَیسے پُر خطر ماحول میں اگر کسی نے کھلے الفاظ میں دہشت گردی کی نہ صرف مذمت کی بلکہ کمال جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن و حدیث کے سیکڑوں دلائل کے ساتھ دہشت گردوں کو دورِ حاضر کے خوارِج ثابت کرتے ہوئے اُن کے کفر پر 600 صفحات پر مبنی فتویٰ جاری کیا، تو وہ شخصیت شیخ الاسلام ہی کی ہے۔

یہ تاریخی فتویٰ دنیا بھر میں قبولِ عام حاصل کر چکا ہے جسے دنیا بھر کے محققین نے سراہا ہے۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے تحقیقی ادارے مجمع البحوث الاسلامیۃ (قاہرہ، مصر) نے بھی اس کے مشتملات کی تائید کی ہے اور اس پر مفصل تقریظ لکھی ہے۔ آپ کا یہ تاریخی فتویٰ اِس وقت تک اردو، انگریزی، عربی، ہندی اور دنیا کی کئی زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ دنیا کی لاکھوں ویب سائٹس پر ڈسکس کیا گیا، دنیا کے ہزاروں بڑے اخبارات نے پہلے صفحات پر نمایاں کوریج دی، سیکڑوں ٹی وی چینلز نے اُس پر تبصرے نشر کیے، بے شمار عرب اخبارات نے اُس فتویٰ کو خوب سراہا۔ یہ ساری کوریج منہاج القرآن کی ویب سائٹ www.minhaj.org پردیکھی جا سکتی ہے۔ عرب ممالک میں شائع ہونے والے کثیر الاشاعت اخبار ’الشرقُ الاوسط‘ نے چار بڑے صفحات پر فتویٰ کو کوریج دی اور لکھا:

ـ’’ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے اِس تاریخی فتویٰ کے ذریعے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں؛ اوّل اُن اسلام دشمن طاقتوں کی محنت پر پانی پھیر دیا جو اسلام کو مغرب میں ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر متعارف کروارہی تھیں دوسری طرف خود دہشت گردی میں ملوث تنظیموں اور ان کے حامیوں، ہمدردوں کے خلاف اس دلیرانہ اقدام سے دیگر اہل فکر و نظر کو جرأت مندی سے اپنا مؤقف پیدا کرنے کا حوصلہ دیا۔‘‘

4۔ عقیدئہ عشقِ رسول ﷺ کا فروغ

پچھلی صدی کے اختتام پر عقیدئہ عشقِ رسول ﷺ کو اس قدر متنازعہ بنا دیا گیا تھا کہ عشق و محبت ِرسول ﷺ کی بات کرنا بدعت تصور ہونے لگا تھا۔ ایسے میں شیخ الاسلام نے عقیدئہ عشقِ رسول ﷺ کے دِفاع و فروغ کو اپنے مقاصد میں سر فہرست رکھا۔ ادب و تعظیم مصطفی ﷺ اور عشقِ مصطفی ﷺ پر بیسیوں کتب لکھیں اور ہزاروں خطابات کیے۔ اس علمی دفاع کے نتیجے میں نوجوان طبقہ پھر سے اپنے محبوبِ نبی ﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کرنے لگا۔ یوں آپ نے عقیدئہ عشقِ مصطفی ﷺ کو دِفاعی پوزیشن سے نکال کر قرونِ اُولیٰ کی طرز پر غالب پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔

5۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ

عقیدہ ختم نبوت پر علماء کرام عموماً چند دلائل پر ہی اکتفا کیا کرتے تھے، مگر شیخ الاسلام نے اپنی کتاب میں پہلی دفعہ 100 قرآنی آیات اور 250 سے زائد احادیث سے عقیدئہ ختم نبوت ثابت کرکے ایک تاریخی کارنامہ سر انجام دیا، جو اس موضوع پر انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔

6۔ دفاعِ شانِ علی علیہ السلام وشانِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین

شیخ الاسلام نے جہاں سیدنا علی علیہ السلام کی شان پر تہمت لگانے والوں کی علمی سرکوبی کی، وہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو بھی قرآن و سنت کے دلائل سے اس قبیح عمل سے روکا۔ دفاعِ شانِ علی علیہ السلام کے نام سے 12 گھنٹے طویل خطاب کیا تو دفاعِ شانِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام سے خطابات کا سلسلہ دو ہفتے جاری رہا۔ آپ کے ان خطابات سے شیعہ سنی اتحاد کی راہیں ہموار ہوئیں اور صدیوں سے جاری مخاصمت کو علمی دلائل کی بنیاد پر ختم کرنے کا آغاز ہوا۔ اَگلی نسلیں یقینا اس کا ثمر پائیں گی۔

7۔ آمدِ امام مہدی علیہ السلام ۔۔۔ اشکالات کا ازالہ

یوں تو پہلی جنگ عظیم کے ساتھ ہی عالمِ اسلام دورِ فتن کی لپیٹ میں آگیا تھا، مگر چودھویں صدی ہجری کے اختتام کے بعد اُن فتنوں کی سنگینی میں نہایت تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ آئے دن نت نئے فتنے سر اٹھانے لگے۔ موجودہ دورِ فتن کی سنگینیوں کو دیکھ کر حدیث کا باقاعدہ علم نہ رکھنے والے بہت سے ’کم علم علماء‘ اسے آخری دورِ فتن سمجھ کر امام مہدیؑ کی جلد آمد کے مغالطے میں پڑ گئے اور ان کی آمد کو محض چند سالوں تک محیط گرداننے لگے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی لوگوں نے خود کو امام مہدی ظاہر کرکے لوگوں سے عقیدتیں اور نذرانے بٹورنا شروع کر دیے۔ اس نئے فتنے کی علمی سطح پر سرکوبی کے لیے شیخ الاسلام نے ’آمدِ امام مہدی علیہ السلام ‘ کے موضوع پر اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں سیر حاصل خطابات سے ثابت کیا کہ امام مہدی علیہ السلام کی آمد کو ایک طویل زمانہ باقی ہے۔

8۔ امام ابو حنیفہؒ اور علمِ حدیث

پچھلی صدی میں امام ابو حنیفہؒ کے علم حدیث پر بہتان اس قدر شدت اختیار کر گیا تھا کہ ایک مخصوص طبقے کے پروپیگنڈا کے زیر اثر لوگ معاذاللہ اُنہیں منکر ِ حدیث سمجھنے لگے تھے۔ شیخ الاسلام نے ’امام ابو حنیفہؒ امام الائمہ فی الحدیث‘ کے نام سے اپنی 3 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ امام اعظمؒ علمِ حدیث میں بہت سے ائمہ کے بھی امام ہیں۔ یوں آپ نے اپنی تجدیدی نگاہِ حکمت سے صدیوں کا قرض اُتارا۔ علاوہ ازیں آپ نے علمِ حدیث پر سیکڑوں خطابات میں بھی امام اعظمؒ کے علم حدیث کی شان ثابت کی ہے۔

9۔ گوشۂ درود و فکر اور حلقہ ہائے درود کا قیام

تحریک منہاج القرآن پر حضورنبی اکرم ﷺ کی بے پناہ نوازشات ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ان کرم نوازیوں میں سے سب سے بڑی کرم نوازی منہاج القرآن کے مرکز پر 2005ء سے قائم گوشہ درود ہے۔ گوشہ درود حرمین شریفین کے بعدزمین پر وہ مقام ہے جہاں چوبیس گھنٹے سال کے 365 دن ہر لمحہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں درود و سلام کے نذرانے پیش کیے جاتے ہیں۔

  • مرکزی گوشۂ درود کے قیام کے بعد تحریک منہاج القرآن نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں درود و سلام پیش کرنے کے عمل کو تحریک بنانے کے لیے دنیا بھر میں حلقہ ہاے درود کے قیام کا آغاز کیا ہے۔ اِس وقت دنیابھر میں ہزاروں مقامات پر تحریک منہاج القرآن اور اس کے فورمز - منہاج القرآن علماء کونسل، منہاج القرآن ویمن لیگ، منہاج القرآن یوتھ لیگ اور دیگر فورمز- کے زیر اہتمام حلقہ ہاے درود قائم ہیں، جہاں ہزاروں عاشقانِ رسول ﷺ صبح و شام بارگاہِ رسالت ﷺ میں ہدیہ درود و سلام پیش کرتے ہیں۔

حلقہ درود کے قیام کا یہ سلسلہ تیز رفتاری سے جاری ہے۔ ملک بھر میںیونین کونسل کی سطح تک حلقہ درود کا قیام تحریک منہاج القرآن کے مقاصد میں شامل ہے۔

10۔ اِحیائے تصوّف

شیخ الاسلام نے تصوّف کو کاروباری اور پیشہ ور لوگوں کے چنگل سے نکال کر اَصل روح کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا۔ تصوّف و روحانیت کے موضوع پر 40سے زائد کتب، سیکڑوں دروس، اِجتماعی اِعتکاف، شب بیداریوں اور محافلِ ذکر کے ذریعے عوامُ الناس کو تصوّف کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرایا، جو یقینا ایک تجدیدی کارنامہ ہے۔ علاوہ ازیں کبار ائمہ صوفیاء پر ان اعتراضات کا رد کیا جن میں ان کی علمی حیثیت کا انکار کیا جاتا تھا۔ شیخ الاسلام نے دلائل سے ان ائمہ تصوف کا علمی اور محدثانہ مقام و مرتبہ واضح کیا اور ان ائمہ کی مکمل اسناد کے ساتھ مرویات جمع کرنے کا اہتمام کیا۔

  • شیخ الاسلام نے امت مسلمہ کی بالخصوص نوجوانوں روحانی واخلاقی تربیت کے لیے شہر اعتکاف کی صورت میں ایک عظیم اور بے مثال اخلاقی و روحانی نظام تربیت دیا، جو حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اعتکاف بن چکا ہے۔ یہاں ہر سال ہزارہا افراد اعتکاف میں بیٹھتے ہیں، جنہیں تزکیہ نفس کے لیے منظم تربیتی نظام سے گزارا جاتا ہے۔

11۔ تحقیقی خدمات

ڈاکٹر طاہرالقادری کا شمار اُن حکیم و دانا اور مدبر و مصلح اَربابِ قلم میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی علمی و فکری اور فقہی و اِجتہادی مساعی سے نہ صرف ملت کی عروقِ مردہ میں زندگی کی لہر دوڑائی ہے بلکہ تعمیرِ ملت اور تدبیرِ منزل کے لیے بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ قوم کی وحدتِ فکری، تکریمِ انسانیت اور امنِ عالم کے قیام میں ان کا لٹریچر اِکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی تحریریں لاشعوری طور پر ایک قاری کے ذہن میں حُبِّ ملت، حُبِّ دین اور حُبِّ وطن کا احساس پیدا کرتی ہیں۔

ملک و قوم کے لیے اِن کی کتب کے مفید ہونے کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ مورخہ 8 جنوری 2015ء کے تمام قومی اخبارات کے مطابق حکومت پنجاب کے حکم پر متحدہ علماء بورڈ نے سیکڑوں علماء اور مصنفین کی کتب، رسائل و جرائد، سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کا تنقیدی جائزہ لیا، جس کے نتیجے میں 150سے زائد کتب کی نشر و اشاعت اور خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی 600سے زائد مطبوعہ کتب، پانچ ہزار سے زائد خطبات کی سی ڈیز، ڈی وی ڈیز اور دنیا بھر سے جاری ہونے والے درجنوں رسائل و جرائد میں سے نہ صرف یہ کہ کسی ایک کتاب، خطاب یا رسالے پر انگشتِ اعتراض بلند نہیں کی گئی بلکہ اس کے برعکس شیخ الاسلام کے خلاف لکھی جانے والی کتب اور سی ڈیز پر بھی پابندی لگادی گئی۔

  • شیخ الاسلام نے پاکستان میں اور بیرونِ ملک خصوصاً امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، سکینڈی نیویا، یورپ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا خصوصاً مشرقِ وُسطی اور مشرقِ بعید میں اِسلام کے مذہبی و سیاسی، روحانی و اَخلاقی، قانونی و تاریخی، معاشی و اِقتصادی، معاشرتی و سماجی اور تقابلی پہلووں پر مشتمل مختلف النوع موضوعات پر ہزاروں لیکچرز دیے۔ آپ کے سیکڑوں موضوعات پر سات ہزار سے زائد لیکچرز ریکارڈڈ ہیں، جن میں بعض موضوعات ایک ایک سو سے زائد خطابات کی سیریز کی شکل میں ہیں۔

12۔ پیغامِ اَمن کا فروغ

آج شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قائم کردہ تحریکِ منہاجُ القرآن دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں اِسلام کا آفاقی پیغامِ اَمن و سلامتی عام کرنے لیے مصروفِ عمل ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر دو متضاد قسموں کی انتہا پسندی کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے: ایک طرف مذہبی انتہا پسندی ہے تو دوسری طرف سیکولر انتہا پسندی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انتہا پسندی کی ان دونوں انتہائوں کے درمیان عالمی سطح پر پُر اَمن بقائے باہمی اور Moderation کا ایجنڈا متاثر کن اور مدلل انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔

آپ کو عالمی سطح پر اَمن کے سفیر کے طور پر پہچانا جاتا ہے؛ جب کہ بہبودِ اِنسانی کے لیے آپ کی علمی و فکری اور سماجی و فلاحی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اِعتراف بھی کیا گیا ہے۔ عالمی امن کے حوالے سے آپ کی خدمت کے پیشِ نظر سال 2011ء میں اقوام متحدہ نے تحریکِ منہاج القرآن کو ’خصوصی مشاورتی درجہ‘ دیا ہے۔

  • (بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی و رواداری کے فروغ کے لیے شیخ الاسلام کی خدمات کے موضوع پر تفصیلی مضامین زیرِ نظر شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں)

13۔ تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ

جب 2006ء میں مغربی دنیا میں موجود اِسلام دشمن عناصر کی طرف سے آزادیٔ اظہار کے نام پر ’توہین آمیز خاکوں کا فتنہ ظاہر ہوا تو شیخ الاسلام نے پاکستان کی سڑکوں پر ٹائر جلانے اور اپنی اَملاک تباہ کرنے کی بجائے عالمی سطح پر مؤثر احتجاج کیا۔ اَقوام متحدہ کے علاوہ یورپ اور امریکہ سمیت تمام عالمی رہنمائوں کو خطوط لکھے۔ ’عوامی دستخط مہم‘ کے ذریعے اقوام متحدہ کے نام 12کلو میٹر طویل کپڑے کا مراسلہ بھجوایا اور ان کوششوں کے ذریعے عالمی سطح پر یہ رائے ہموار کی کہ ’آزادیٔ رائے‘ کے نام پر ’کردار کشی‘ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

  • جب 2010ء میں امریکی پادری کی طرف سے فلوریڈا کے ایک بند کمرے میں قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے کے بعد اُس کی ویڈیو جاری کی گئی اور بعد ازاں کھلے مقامات پر قرآن کو جلانے کی مہم کا اِعلان ہوا تو شیخ الاسلام نے اَمریکی صدر باراک حسین اوبامہ کو تنبیہ پر مبنی خط لکھا کہ ایسی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں سے عالمی اَمن کی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ جلسوں جلوسوں کی بجائے سفارتی سطح پر کی گئی اس کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی حکومت نے فوری اُس پادری کو اِس قبیح حرکت سے روک دیا۔
  • حال ہی میں ایک مرتبہ پھر جب فرانس میں آزادی اظہارِ رائے کے نام پر توہین رسالت کے فتنے نے سر اٹھایا تو شیخ الاسلام نے ایک مرتبہ پھر دلائل و براہین کے ساتھ تمام عالمی رہنمائوں اور اداروں کو خطوط لکھے جن میں حضور نبی اکرم ﷺ کے مقام و مرتبہ، انسانیت کے لیے آپ ﷺ کی لازوال خدمات اور آپ ﷺ کی پرامن تعلیمات کو واضح کرتے ہوئے آزادیِ اظہارِ رائے کی حدود و قیود کو بھی واضح کیا اور متنبہ کیا کہ ایسے اقدامات دنیا میں قیامِ امن کے لیے کی جانے والی کاوشوں کے لیے حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ لہذا عالمی قیامِ امن کے لیے اس طرح کے قبیح فعل کے ارتکاب کو روکنا نہ صرف ضروری و لازمی ہے بلکہ ناگزیر ہے۔

14۔ مضبوط تنظیمی و انتظامی نیٹ ورک

شیخ الاسلام نے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق عالمی سطح پر تنطیمی نیٹ ورک قائم کیا اور تحریک منہاج القرآن کو نہ صرف ملک پاکستان کے کونے کونے میں UC لیول تک پھیلایا بلکہ بین الاقوامی سطح پر دنیا کے 100سے زائد ممالک میں مذہبی، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں پر مشتمل تنظیمی نیٹ ورک قائم کر کے تحریکِ منہاج القرآن کو اپنی نوعیت کی دنیا کی سب سے بڑی تحریک بنا دیا۔ آج یورپ کے ہر بڑے شہر میں آپ کو پاکستان کی کوئی اور پہچان ملے نہ ملے مگر منہاج القرآن کا عظیم الشان اسلامک سینٹر ضرور ملے گا۔ جو وہاں کی مقامی مسلم کمیونٹی کے لیے دینی، دعوتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے مراکز کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

15۔ دینی و دنیاوی تعلیم کی یکجائی

دین اور دنیا کی دوئی اور ثنویت (duality) کو ختم کرنے کے لیے دینی و دنیاوی تعلیم کو ایک چھت تلے جمع کرنا شیخ الاسلام کا عظیم تجدیدی کارنامہ ہے۔ مسلمانانِ پاکستان میں تعلیمی نظام دینی و عصری دو نظام ہائے تعلیم میں بٹ جانے کی وجہ سے تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ شیخ الاسلام نے احیائے ملتِ اسلامیہ کے جذبے کے ساتھ’ جامعہ منہاجُ القرآن‘ کی بنیاد رکھی، تاکہ دو سو سال سے تعلیم میں پیدا ہونے والی ثنویت کا خاتمہ کرکے دینی و دنیاوی تعلیم کو یکجا کیا جا سکے؛ ایسے طلباء تیار کیے جائیں جو تحقیق و اجتہاد کے دروازے کھولیں؛ معاشرے سے اور خصوصاً مذہبی طبقات سے نفرت اور کدُورت کے ماحول کو پاک و صاف کریں۔ قوم کو ایسی قیادت دی جا ئے جو نہ صرف وطن عزیز بلکہ پوری امتِ مسلمہ کو بحرانوں سے نکال سکے۔ چنانچہ آپ نے روایتی مذہبی تعلیم کے نصاب میں دَورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق انقلابی تبدیلیاں کیں اور جدید عصری تعلیم کو لازمی قرار دیا، جس سے معاشرے میں علماء کے وقار میں اِضافہ ہوا۔ آج 40 سال گزرنے کے بعد بہت سے مدارس اس ’تجدیدی حکمت‘ کو سمجھنے کے بعد اپنے ہاں دنیاوی تعلیم کا انتظام شروع کرچکے ہیں۔

  • (تعلیم اور شعور میں اضافہ کے لیے شیخ الاسلام کی خدمات پر مبنی تفصیلی مضمون زیرِ نظر شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں)

16۔ سیاسی، فکری اور شعوری تحریک کا آغاز

سیاسی سطح پر شیخ الاسلام کی خدمات پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ پاکستان میں فروغِ شعور و آگہی کی تحریک کا آغاز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 40 سال قبل تحریک منہاج القرآن کے قیام کے ساتھ ہی کر دیا تھا۔ 23 دسمبر 2012ء کو مینارِ پاکستان کے تاریخی سبزہ زار میں آپ کا فقید المثال عوامی اِستقبال - جو ’سیاست نہیں … ریاست بچاؤ‘ کے نعرے کے تحت منعقد کیا گیا - بھی اِسی سلسلہ کی ایک کڑی تھا۔ اس اجتماع میں قائد تحریک نے پاکستانی قوم کو آئین اور دستور سے آگاہ کیا اور باور کرایا کہ ہمارے ملک کے حکمران اس آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوکر حکومت کے ایوانوں میں براجمان ہوتے ہیں۔ چنانچہ 13 تا 17 جنوری 2013ء یخ بستہ راتوں اور بارش میں بھیگے ہوئے دنوں میں وابستگانِ تحریک کے عزم و حوصلے سے ایک جہاں متاثر ہوا۔

اِسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنا بھی ریاستی جبر، انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت دشمن قوتوں کے خلاف آئینی جد و جہد کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اِس کے بعد مختلف شہروں میں عوامی اِجتماعات منعقد کیے گئے تاکہ عوام میں اِس ملک کے اَبتر حالات اور اِس میں رائج اُس فرسودہ نظام کو بدلنے کے لیے شعور بیدار کیا جائے جو سراسر دجل و فریب، ظلم و نااِنصافی، خیانت و بددیانتی، کرپشن و لوٹ مار اور غریبوں کو اُن کے حقوق سے محروم رکھنے پر قائم ہے۔

اگست 2014ء میں پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم پر عظیم الشان انقلاب مارچ اور دھرنا ہوا۔ اس عالمگیر، پرامن اور علم و اخوت جیسی خصوصیات کی حامل تحریک کے جانثار کارکنان نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں جرأت، عزیمت، تحمل، برداشت، صبر اور قربانی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جن کا وجود عصرِ حاضر کی کسی تحریک، کسی تنظیم اور کسی مذہبی و سیاسی پارٹی کے ہاں ملنا مشکل ہے۔ شیخ الاسلام نے جہاں پاکستان کو درپیش مسائل کی اصل وجہ (root cause) سے عوام کو آشنا کیا، وہیں انہوں نے پاکستان کے روشن و مستحکم اور خود مختار مستقبل کے لیے اپنا اِنقلابی ویژن بھی پیش کیا ہے۔