شیخ الاسلام کی قانونی خدمات

نعیم الدین چوہدری ایڈووکیٹ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہمہ جہت شخصیت جدید وقدیم علوم کا حسین امتزا ج ہے۔ تمام شعبہ حیات میں آپ کی خدمات کے سب معترف ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کی ہمہ جہت شخصیت جس طرح مذہب، اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات اور روحانیت میں اپنا ایک اہم مقام رکھتی ہے، اسی طرح قانونیات میں بھی وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ حقیقتاً ایک ایسی ہی انقلابی شخصیت ہیں جو ہر شعبۂ حیات پر مکمل گرفت رکھتی ہے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کی قیادت کا حق رکھتی ہے، انہی کی قیادت میں مصطفوی انقلاب کے ذریعے ایک اسلامی، فلاحی ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔

آپ نے 1974ء میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے فرسٹ ڈویثرن میں ایل ایل بی کا متحان پاس کیا اور 1976ء سے جھنگ میں شعبۂ وکالت سے منسلک ہو گئے ۔دو سال بحیثیت ایڈووکیٹ پیشہ وکالت سے وابستہ رہنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں اسلامک لاء کے لیکچر ر کی حیثیت سے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ اس دوران اپنی نوعیت کا منفرد اورتاریخی واقعہ پیش آیا کہ اسلامک فلاسفی اور اجتہاد پر جناب اے کے بروہی نے طلبہ کو لیکچر ز دیئے تو بعد ازاں جب انہی موضوعات پر آپ نے بھی لیکچرز دیئے تو طلبہ نے موازنے کے بعد آپ کو انتہائی برتر پایا اور 500 طلبہ نے اعترافاً آپ کوباقاعدہ سلیوٹ پیش کیا۔

پنجاب یونیورسٹی لاء کالج نے شاندارخدمات کے اعتراف کے طور پر 1983-88ء میں ایل ایل ایم کے شعبہ اسلامک قانون سازی کا انچارج اور پروفیسرمقررکیا اور آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے پروفیسر کی حیثیت سے ایل ایل بی اور ایل ایل ایم کے طلبہ کو قانون کے موضوعات پر پُر مغز اور تحقیقی لیکچرز Deliever کئے۔ اپریل 1986ء میں پنجاب یونیوسٹی نے آپ کو پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان Punishment in Islam، their classification & Philosophy پیش کرنے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان کے مشیر بھی رہ چکے ہیں، آپ نے بہت اہم مقدمات میں وفاقی شرعی عدالت کی عمومی طور پر رہنمائی کی جس کا اعتراف مقدمات کے فیصلہ جات میں بھی کیاگیا اور آپ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بنچ کا مشیر نامز د کردیا گیا۔ آپ نے 1981ء تا 1988ء اعلیٰ عدالتوں کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ آپ فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے اہم دینی وقومی امور کے مقدمات میں خصوصی دلائل بھی پیش کرچکے ہیں۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امریکہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور مشرقی بعید کی یونیورسٹیوں میں مذاکروں، سیمینارز اور اجتماعات میں قانون کے موضوع پر اعزازی لیکچرز دیئے۔ آپ نے ملکی اداروں مسلح افواج، سول سروسز اکیڈمی، نیپا، ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالجز، جیل خانہ جات، کالجز، مختلف محکمہ جات اور مختلف فورمز میں اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں لیکچرز دیئے اور مقالہ جات پڑھے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بارایسوسی ایشن میں بھی لا تعداد خطابات کئے ہیں۔ بارایسوسی ایشن ملک کا ایک حساس اورباشعورفورم ہوتا ہے جہاں ملک کا دانشورطبقہ ملکی حالات میں نظریاتی وعملی طور پراپنا کردارادا کررہا ہوتاہے۔ بارایسوسی ایشن سے خطاب کرنا جہاں قائدین کے لئے ایک کٹھن مرحلہ ہوتاہے وہاں انتہائی اعزاز اور فخرکی بات بھی ہے۔

آپ کی قانون دانی اور قانون فہمی کی خصوصیت کی بار معترف ہے۔ بارکے فورمز پر آپ کے خطابات اور لیکچرز ایک بہت قیمتی اثاثہ ہیں۔ لیکچرز کے اختتام پر آپ اراکینِ بار کو خطاب کے موضوع اور دیگر موضوعات سے متعلق سوالا ت کرنے کی کھلی دعوت دیتے۔ آپ نے ملک گیر پیمانے پر ہائی کورٹ بارایسوسی ایشنز اور ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشنز سے خطابات کئے۔ آپ نے اسلامی تصورِ قانون، آئین، موجودہ عدالتی نظام اورججوں کے مسائل اور ان کے حل کے لئے بھی مختلف پیکجز پیش کئے ہیں۔

شیخ الاسلام کی قانون پر کتب

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قانون پر درجنوں کتب اور 150 سے زائد لیکچرزاور خطابات آڈیو،ویڈیوریکارڈنگ میں بھی دستیاب ہیں۔ موضوعاتِ قانون پر آپ کی درج ذیل کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں اکثر قانون کے کسی خاص موضوع کا احاطہ کرتی ہیں جبکہ کئی ایک ایسی ہیں جن میں ضمناً قانون و آئین کی تشریحات و توضیحات موجود ہیں:

  1. اسلامی قانون کی بنیادی خصوصیات
  2. اسلامی او رمغربی تصورِ قانون کا تقابلی جائزہ
  3. اجتہاد اور اس کا دائر کار
  4. عصرِ حاضراور فلسفۂ اجتہاد
  5. اسلام میں سزائے قید اور جیل کا تصور
  6. جرم، توبہ اور اصلاح احوالِ
  7. اسلام کا تصورِ اعتدال وتوازن
  8. سیاسی مسئلہ اوراس کا سلامی حل
  9. شریعت بل 1991ء کا جائزہ
  10. احکامِ اسلام اور تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ
  11. تحقیقِ مسائل کا شرعی اسلوب
  12. تاریخِ فقہ میں ہدایہ صاحب ہدایہ کا مقام
  13. نص اور تعبیرِ نص
  14. عصرِ حاضر کے جدیدمسائل
  15. سیرت الرسول ﷺ (مقدمہ)
  16. میثا ق مدینہ (کائنات انسانی کا پہلا تحریری دستور)
  17. Islamic Penal System and Philosphy
  18. Islam and Criminality
  19. Islamic Concept of law
  20. Islamic Concept of crime
  21. Islam the state religion
  22. Legal character of Islamic Punishments
  23. Legal structure of Islamic Punishments
  24. Classification of Islamic Punishments
  25. Quranic basis of constitutional theory
  26. Islamic philosophy of punishements
  27. philosophy of Ijtihad and Modern world
  28. Islam in various perspectives
  29. Quranic Philosophy of benevolence
  30. Quranic concept of Human guidance
  31. Islamic Philosophy of Human life
  32. Islamic concept of Human nature
  33. Islam and freedom of human will
  34. الجریمۃ فی الفقہ الا سلامی
  35. التصورالتشر یعی للحکم الا سلامی
  36. فلسفہ الا جنھادوالعالم المعاصر
  37. الا قصادالا ربو ی والنظام المصرفی الا سلامی

قانون سے متعلقہ آپ کی تحقیقی کا وشوں کا ایک بڑا ذخیرہ ابھی مسودات کی شکل میں موجود ہے اور اشاعت کا منتظر ہے۔

بطورِ قانون دان عملی کاوشیں

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ایک قانون دان کی حیثیت سے ملک وقوم اور امتِ مسلمہ کے لئے خدمات قابلِ تحسین ہیں۔ آپ کی خدمات کا دائر کار اتنی وسعت اختیار کرگیا ہے کہ ماہرینِ قانون آپ کو مفکرِ قانون، قانون ساز شخصیت، نظام ساز شخصیت اور نقاد کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ قانون دان کی حیثیت سے آ پ کی تاریخی خدمات درج ذیل ہیں:

1۔ ’’رجم‘‘ ایک حد

فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان نے 1979ء میں رجم کے حد ہونے کے انکارپر فیصلہ دیا جس پر ڈاکٹر صاحب نے رجم کے حد ہونے پر بھر پور دلائل دیئے، جس پر فیڈرل شریعت کورٹ نے 20جون 1982ء کو اپنا سابقہ فیصلہ واپس لیا اور اسلامی ریاست میں رجم کا حد ہونا تسلیم کیا۔

2۔ توہینِ رسالت ﷺ کی سزاموت

فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان میں توہینِ رسالت کی سزائے موت بطورِ حد کیس کی سماعت ہوئی۔ دیگر قانون دان اور اسلامک سکالرز کے ساتھ آپ نے بھی دلائل دیئے۔ آپ نے قرآن وسنت، آثارِ صحابہ اور آئمہ واسلاف کے اقوال سے توہینِ رسالت کے مرتکب کی سزائے موت کو ثابت کیا۔

3۔ قادیانیوں کیلئے شعائر اسلام کے استعمال پر پابندی

قادیانیوں نے فیڈرل شریعت کورٹ میں شعائرِ اسلام اور علاماتِ اسلام کے استعمال کیلئے اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق اورمذہبی آزادی کی حدود پر مبنی کیس دائر کیا تو ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس کیس کے اخراج پر پر زور دلائل دیئے۔ لہذا عدالت نے 20جو لائی 1984ء کو یہ کیس خارج کردیا۔

6۔ شریعت بل 1991ء کا قانونی وعملی محاکمہ

1991ء میں حکومت نے جب سرکاری شریعت بل 1991ء قومی اسمبلی سے منظور کروایا تو وہ شخصیت ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی کی تھی جنہوں نے اس کے قانونی وعملی کمزورپہلوؤں پر مبنی ایک مقالہ شائع کروایا جو متعلقہ شعبہ جات وشخصیات کے علاوہ عوام الناس میں بھی تقسیم کروایا۔

5۔ مروّجہ انتخابی نظام کی تبدیلی کی سفارشات

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 1993ء میں چیئر مین پاکستان عوامی تحریک اور نیشنل ڈیموکریٹک الا ئنس کے وائس چیئر مین کی حیثیت سے مروّجہ انتخابی نظام کی جگہ پاکستان کے سیاسی،سماجی اور اقتصادی صورتحال میں قابلِ عمل متناسب نمائندگی کا شو رائی نظام سفارشات اور اصلاحات کے ساتھ پیش کیا۔

6۔ احتساب قوانین

آپ نے 1996ء میں احتساب کے نظام کے قیام کی تحریک شروع کی اور بعدازاں حکومت کے جاری کردہ احتساب آرڈیننس کا باقاعدہ تنقیدی جائزہ لیا اور قابلِ عمل سفارشات پیش کیں جو آج تک احتساب قوانین میں وقفہ وقفہ سے شامل کی جاتی رہی ہیں ۔آپ نے انتخابات سے قبل احتساب کے عمل پر زوردیا اور لاکھوں افراد نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں احتساب مارچ کیا۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے 2001ء میں اس وقت کی حکومت نے احتساب قوانین کے موضو ع پر طویل نشست کی جس میں آپ نے احتساب قوانین کا ریفارمز پیکج پیش کیا۔ بعدازاں حکومت نے قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے اپنی پالیسی میں ان ریفارمز کو شامل کیا۔

7۔ حقوقِ نسواں کا چارٹرآف ڈیمانڈ

1996ء میں تحفظِ ناموسِ نسواں کنونشن منعقد کیا، جس میں بیجنگ میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں عریانی، فحاشی اور عورتوں کی اخلاقی بے راہ روی ومادر پدر آزادی کی خاطر کی جانے والی قانون سازی کی مذمت کی اور تحفظِ ناموسِ نسواں اور حقوقِ نسواں کے چارٹرز آف ڈیمانڈپیش کئے۔ جس میں آپ نے قرآن و سنت کی روشنی میں عورتوں کے حقوق وفرائض اس طرح بیان کیے کہ مغرب کی فکر بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکی۔

8۔ متفرق قانونی خدمات

1۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان میں اختیارات کو Decenterlizeکرنے اور عوام کو شریک اقتدار کرنے کے لئے لوکل گورنمنٹ کا مکمل پلان دیا بعدازاں گورنمنٹ نے Adopt کرکے عملاًاس کو نافذبھی کردیاہے۔

2۔ آپ نے مختلف پریس کانفرنسز میں الیکشن ریفارمز، آئینی ریفارمز، عدالتی قانونی اور پالیمانی ریفارمز کے حوالے سے مختلف پیکیج پیش کئے ہیں، انہیں حکومتی، سیاسی، بار و بنچ اورعوامی عدالتوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور بعدازاں آنے والی قانونی اصلاحات میں ان کو شامل بھی کیاگیا۔

3۔ آزاد، بالا دست اور خود مختار عدلیہ پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پریس کو مختلف انٹرویوز اورمقالات پیش کیے۔

6۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے میثاق مدینہ کا Constitutional Analysis کرکے قانون کی دنیا میں ایک تاریخی کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے جسے اہلِ قانون نے بے حدسراہا ہے۔

5۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پارلیمنٹ میں بطورِ پارلیمانی لیڈر (MNA) لیگل فریم ورک آرڈر کی قانونی حیثیت پر بحث کے دوران اپنا مدلّل مؤقف پیش کیا،جس کی پارلیمانی وعوامی حلقوں میں پذیرائی ملی۔

6۔ عدالتی اختیارات کی Decentralization کے حوالے سے آپ نے تصور پیش کیا ہے کہ وفاقی سطح پر وفاق اور صوبوں کے معاملات کے حل کے لیے فیڈرل کورٹ جبکہ اپیلوں کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹس صوبوں کی سطح پر اور ہائی کورٹس ڈسٹرکٹ کی سطح پر لے آئیں تاکہ عوام کو فوری انصاف میسر آئے۔

9۔ قانونی مسائل کے حل کے لیے نشاندہی

ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری صرف مفکر ہی نہیں کہ صرف مسائل کی نشاندہی کریں بلکہ آپ وکلاء کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اور ان کی صحیح نہج پر تربیت کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی کرتے ہیں۔ 26 فروری 2000ء کو آل پنجاب پام لائرز کنونشن میں 7 نکاتی Judicial Reforms Packageکا اعلان کیاکہ:

  1. بڑے شہروں میں لیگل ایڈ ڈیپارٹمنٹ قائم کئے جائیں۔
  2. غریب عوام کی مدد کے لئے یونین کونسل کی سطح تک سرکاری فری لیگل ایڈ سیلز کا قیام عمل میں لایاجائے جہاں عوام کو وکلاء کی خدمات مفت ملیں اور وکلاء کو فیس حکومت اداکرے۔
  3. رہنمائی برائے قانون کیلئے لاء سینٹر ز قائم کئے جائیں۔
  4. جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے Dispute resolving Society قائم کی جائیں تاکہ عدالتوں سے بوجھ کم ہوسکے۔
  5. پنچائتی و مصالحتی کورٹس بنائی جائیں
  6. Law reform commissionکے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کو بڑھایا جائے۔
  7. وکلاء کی بہبود کیلئے Legal Profession reforms کا قیام عمل میں لایا جائے۔

10۔ سیاسی و انتخابی اصلاحات کے لیے قانونی کاوشیں

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مورخہ 23 دسمبر 2012ء کو مینارپاکستان کے سائے تلے سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے بامقصد اور حقیقت پر مبنی نعرہ کے ساتھ ملک پاکستان کی مجبورومقہورعوام کی دادرسی کے لئے اور موجودہ سیاسی، انتخابی اور معاشی استحصال سے نجات دلانے کیلئے لاکھوں افراد کے اجتماع میں نظام کی تبدیلی، انتخابی اصلاحات اور آئین پاکستان کے آرٹیکلز 3، 9، 37، 38، 38 (a) 38 (d)، 38 (e)، 62(F)، 63(I، O)، 218 (III)، 254 کا تفصیل سے ذکر کیا کہ ان آرٹیکلز پر فوری طورپر عملدر آمد ہوجائے تو سیاست کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں اور جابروں کے ظلم، استحصال اور جبر کے نظام سے پاک کیا جا سکتا ہے اور 22 کروڑ عوام کو ان کا حق دلایاجاسکتاہے۔ نظامِ انتخاب اور نظامِ سیاست کی درستگی سے ملک سے سیاسی اور معاشی استحصال کا خاتمہ ہوسکتاہے اور ریاستِ پاکستان جن خطرات میں گھری ہوئی ہے، اسے ان خطرات اور گرداب سے نکال کر محفوظ وماموں کیا جاسکتا ہے۔

  • ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مورخہ 13 جنوری 2013ء کو آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، حقیقی جمہوریت کے قیام، استحصالی نظام کے خاتمے اور انتظامی اصلاحات کیلئے ملکی سیاسی تاریخ کا پہلا پُرامن لانگ مارچ کیا جس میں لاکھوں افراد نے عوام دشمن فرسودہ نظامِ انتخاب کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انتخابی اصلاحات کا ویژن دیا تھا۔ 2013ء میں اس وقت کی حکومت کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ بھی کیا تھا، جس کی دستاویز آج بھی محفوظ ہے، اس پر عمل کر کے ملکی حالات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ افسوس ’’سٹیٹس کو‘‘ سیاسی قوتوں نے عوامی رائے کو دباتے ہوئے انتخابی اصلاحات نہیں ہونے دیں۔ حکومت اور سیاسی جماعتیں اگرچاہتی ہیں کہ الیکشن شفاف ہوں، ملک مستحکم ہو تو وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ویژن کواختیارکریں۔
  • پاکستان عوامی تحریک نے 11 مئی 2013ء کو ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں کرپٹ نظامِ انتخاب کے خلاف دھرنا دیا جس میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نئے نظام کا حکومتی وانتظامی ڈھانچہ اور سستے وفوری عدل وانصاف کی فراہمی کی پالیسی قوم کے سامنے پیش کی اور ملک کے پسے ہوئے طبقات اور غریب عوام کی خوشحالی کیلئے 10 نکاتی انقلابی پروگرام قوم کے سامنے رکھا۔ اسی طرح ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انقلابی اقدامات پر عملدرآمد کرکے وسائل کی کس طرح دستیابی ہوسکتی ہے، اس کا مکمل عملی خاکہ بھی پیش کیا۔

11۔ لائرز ونگ کا قیام

ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی زیر سرپرستی پاکستان عوامی تحریک(لائرز ونگ) عوامی لائرز موومنٹ، پاکستان PALM )پام( کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کے نصب العین میں درج ذیل امور شامل ہیں:

  1. قرآن و سنت کے نظامِ قانون کی بالادستی
  2. فروغِ شعور
  3. انسانی حقوق کا تحفظ
  4. قانون کی حکمرانی
  5. امن و سلامتی
  6. وکلاء کے حقوق کا تحفظ

احتساب

  • PALM کے اغراض و مقاصد درج ذیل ہیں:

1۔ قرآن وسنت پر مبنی نظام قانون کی بالادستی، فروغ شعور، عوامی مسائل پر بیداری، قانون کی حکمرانی، امن وسلامتی اور وکلاء کے حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنا۔

2۔ فری عوامی لیگل ایڈسیلز تشکیل دینا

3۔ قانونی، آئینی، اسلامی اور ملکی مفاد کے امور پر ہائی کورٹس، فیڈرل شریعت کورٹس اور سپریم کورٹ وغیرہ میں مقدمات دائر کرنا۔

6۔ حقوق انسانی کونسل تشکیل دینا۔

5۔ اسلامک لاء ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنا۔

6۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی فکر اور لاء تصانیف کو فروغ دینا اور اسلامی قوانین پر آپ کی اجتہادی کاوشوں کو منظم کرنا۔

7۔ ملکی، قومی اورعدالتی نظام کی بہتری کیلئے جدوجہد کرنا۔

8۔ لاء کورسز اور لاء کالجز تشکیل دینا۔

9۔ ججز، وکلاء اور دیگردانشور افراد کے باقاعدہ فورمز منعقد کروانا جس میں باقاعدگی سے ملکی، قومی اور بین الاقوامی معاملات زیر بحث لائے جائیں تاکہ ان پر حتمی نظام وضع ہو۔

10۔ عوامی مسائل کے حل کیلئے حکومتی محکمہ جات اور غیرحکومتی فلاحی تنظیمات سے اشتراکِ عمل۔

11۔ اپنی مدد آپ کے تحت وکلاء کے حقیقی مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرنا اور بار کے حقیقی مقاصد کو فروغ دینا اور ترجیحاً نوجوان وکلاء کے مسائل کو حل کرنا۔

12۔ اسلامی قوانین پر اجتہادی نقطہ نظر کے حصول کیلئے سیمینارز، کانفرنسز اور کو ٹیشنز کرنا۔

13۔ دیگر مسلم ممالک کی وکلاء تنظیمات سے روابط کو اس طرح فروغ دینا کہ جو وکلاء ونگ کے اغراض و مقاصد کے فروغ کیلئے ممد و معاون ثابت ہوں۔