وسعتِ تجدید و اِحیائے دین اورخدماتِ شیخ الاسلام

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے ارواحِ انسانی کو پیکرِ بشریت کے سانچے میں ڈھال کر زمین پر بھیجتے ہوئے حکم دیا:

اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَـلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.

’’تم سب جنت سے اتر جاؤ، پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، نہ ان پر کوئی خوف (طاری) ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔

(البقرة، 2: 38)

یوں اللہ رب العزت نے انسانیت کی ہدایت کے لیے سلسلہ نبوت کا آغاز فرمایا۔ ہدایت کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھا کہ مبعوث کیے جانے والے انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کے زمانوں کے تقاضوں اور امم کے احوال کے مطابق تمام علوم و فنون اور صلاحیتوں میں کمال عطا کیا جائے تاکہ نہ صرف ہادی (پیغمبر) ہدایت کے تقاضے پورے کرسکے بلکہ اس کا اسوہ اس دور میں قابلِ تقلید ہو۔ اسی اصول کے تحت اللہ رب العزت نے انبیاء کرام علیہم السلام کو دعوت و تبلیغ اور ان کے زمانے کے مروّجہ علوم و فنون میں مہارت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ امت پر آنے والی آزمائشوں اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت بھی عطا فرمائی۔

آیئے! اس سلسلہ میں ہم انبیاء کرام علیہم السلام میں سے چند ہستیوں کو ودیعت کردہ علوم اور مہارتوں کا جائزہ لیتے ہیں:

1۔ سیدنا نوح علیہ السلام کو آدمِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے نو سو سال دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا۔ اللہ رب العزت نے آپ علیہ السلام کو communication کے تمام پہلوؤں پر مکمل مہارت عطا کررکھی تھی۔ جب کفار نے آپ علیہ السلام کی دعوت میں رکاوٹیں ڈالیں تو آپ نے اپنی دعوت و تبلیغ کو مؤثر بنانے کے لیے communication کے تمام ذرائع استعمال کرکے اپنی دعوت کو وسعت دی جس کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے:

ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا. ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا.

’’پھر میں نے انہیں بلند آواز سے دعوت دی۔ پھر میں نے انہیں اِعلانیہ (بھی) سمجھایا اور انہیں پوشیدہ رازدارانہ طور پر (بھی) سمجھایا‘‘۔

(نوح، 71: 8-9)

طویل عرصہ دعوت و تبلیغ کے بعد کفار کی ہٹ دھرمی اور کفر پر اصرار کے باعث حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی کشتی (بحری جہاز) بنانے کا حکم دیا اور اس کشتی میں خطے میں موجود تمام جانداروں کے ایک ایک جوڑے اور تمام مسلمانوں کو سوار کرنے کا حکم دیا۔ خطے میں موجود تمام جانداروں کے جوڑے، کلمہ پڑھنے والے تمام مسلمان، ایک طویل عرصہ زندے رہنے کے لیے ہر جاندار کے لیے خوراک کا ذخیرہ اور زندگی کی تمام ضروریات جمع کرنے کے لیے حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی نہیں بلکہ ایک بڑا جہاز بنایا۔ آپ علیہ السلام کے دور میں جہاز بنانے (ship making) کی کوئی انڈسٹری تو نہ تھی کہ جن سے رہنمائی لے لیتے۔ اس لیے کہ ایک ایسا جہاز جس میں ایک طویل عرصہ کے لیے تمام سہولیات کی فراہمی ممکن ہو، بنانے کے لیے بیسیوں علوم و فنون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت نے یہ سب فہم بھی اپنے نبی نوح علیہ السلام کو عطا فرمایا تھا۔ جس کی مدد سے آپ علیہ السلام نے مقررہ وقت میں وہ جہاز تیار کیا۔

دوسری طرف خطے میں پائے جانے والے تمام جانداروں کو جمع کرنا علم الحیاتیات (biology) اور علم الحیوانات (zoology) میں مہارت کے بغیر کیسے ممکن تھا! گویا اللہ رب العزت نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان علوم میں بھی مہارت عطا فرمائی تھی۔ اسی طرح تمام جانوروں کے لیے طویل عرصہ جہاز میں زندہ رہنے کے لیے درکار ماحول اور خوراک کے بارے میں آگاہی بھی ان علوم میں شامل تھی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو عطا فرمائے۔ سب سے بڑھ کر اللہ رب العزت نے آپ علیہ السلام کو crisis management میں کمال کی صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ جب طوفان کے کوئی آثار نہ تھے، اس وقت ایمان قبول کرنے والوں کی ٹیم تیار کرنا۔۔۔ ان سے جہاز کی تیاری اور دیگر تمام امور بروقت مکمل کروانا۔۔۔ طوفان کی ابتداء سے قبل سب کچھ جہاز میں منتقل کرنا۔۔۔ شدید ترین طوفان میںجہاز کو کنٹرول کرنا اور درست سمت میں رکھنا۔۔۔ طوفان کے تھمنے اور جہاز کے ساحل پر لنگر انداز ہونے تک تمام انسانوں اور جانوروں کو کنٹرول کرنا۔۔۔ یہ تمام امور تقاضا کرتے ہیں کہ ٹیم لیڈر کے پاس crisis management کی مکمل صلاحیت ہو۔ اللہ رب العزت نے ان تمام امور پر بھی مہارت حضرت نوح علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی۔ یہ آپ کے علوم اور مہارتوں کے چند گوشے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت اپنے انبیاء کو ان کے دور کے تمام علوم و فنون اور پیش آنے والے تمام چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔

2۔ اسی طرح اگر ہم سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیے گئے علوم و فنون کا جائزہ لیں تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ فلسطین کے نواح میں کنعان کی بستی میں پرورش پانے والا ایک بچہ جس نے اس سرزمین پر دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دینا ہے جو اس زمانے کی متمدن ترین ریاست ہے اور ’’مصر‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو صرف اس ریاست کے تہذیب و تمدن سے ہی مقابلہ نہیں کرنا تھا بلکہ بین الاقوامی سطح پر آنے والے سات سالہ قحط کا چیلنج بھی درپیش تھا۔ اللہ رب العزت نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو کون کون سے علوم اور مہارتیں عطا فرمائیں، ہم بغیر کسی تفصیل کے مختصراً جائزہ لیتے ہیں:

ذاتی دفاع (self defence)، گھڑ سواری، فنونِ حرب، human resource management اور دیگر بیسیوں علوم و فنون میں تجربہ حاصل کرنے کے مواقع آپ کو عزیز مصر کے محل میں میسر آئے تھے۔ دعوت و تبلیغ، صبر و برداشت اور communication skills آپ کو خاندانِ نبوت سے وراثت میں میسر آئی تھیں۔ خوابوں کی تعبیر (interpretation of dreams) کا علم اللہ رب العزت نے نوجوانی میں آپ علیہ السلام کو عطا کردیا تھا۔

مصریوں نے صدیوں کے تسلسل کے بعد فنِ تعمیر (architecture) میں وہ کمال حاصل کیا تھا کہ ان کے تیار کردہ اَہرامِ مصر کئی ہزار سال گزر جانے کے باوجود آج بھی فنِ تعمیر کی دنیا میں ایک عجوبہ دکھائی دیتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام تو کنعان سے ہجرت کرکے آئے تھے، وہاں تو ابھی تک کچی بستیاں تھیں۔ یوسف علیہ السلام کو وزیر خزانہ و خوراک بننے کے بعد سب سے پہلا چیلنج خوشحالی کے سات سالوں میں پیدا ہونے والے غلے کو ذخیرہ کرنے کے لیے گوداموں کی تعمیر تھی۔ اتنے بڑے بڑے گودام جو گندم کو خوشوں سمیت ذخیرہ کرنے (grain storage) کی گنجائش رکھیں۔ اس کے علاوہ جو چیلنج درپیش تھے ان میں:

  1. 7 سال مسلسل پوری قوم سے گندم کی خریداری کے لیے کثیر سرمایہ
  2. خوشحالی کے سالوں میں زراعت کو بڑھانے کے لیے زرعی اصلاحات (land reforms) کا نفاذ
  3. نئی قطعہ زمین پر کاشتکاری کے لیے نہری نظام (irrigation system) کی تیاری
  4. غذائی ضروریات کے تعین کے لیے مردم شماری (census)
  5. کاشتکاری میں وسعت لانے کے لیے جانوروں کی اَفزائش (livestock)
  6. بہتر پیداوار کے لیے بہتر بیج
  7. طریقۂ کاشت
  8. فصلوں کی کٹائی کے بہترین نظام کا علم
  9. 14 سال تک گندم کی حفاظت (preservation of food) کا علم
  10. مختلف طبقات سے 7 سال گندم خریدنے اور فروخت کرنے کیلئے sale، purchase اور marketing کا علم

ان تمام علوم کے ساتھ ساتھ مذہبی، سیاسی اور معاشی طور پر ملک کے مضبوط طبقات کی طرف سے کی جانے والی مزاحمت اور سازشوں کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔۔۔؟ ملک میں لاء اینڈ آرڈر کیسے بحال رکھنا ہے۔۔۔؟ معاشرے کے کمزور طبقات کو ظالموں کے ظلم سے کیسے بچانا ہے۔۔۔؟ پوری قوم کا مذہب تبدیل کرکے انہیں ایک خدا کے حضور سجدہ ریز کیسے کرنا ہے۔۔۔؟ یہ تمام علوم، فنون، حکمتیں اور صلاحیتیں اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر سیدنا یوسف علیہ السلام کو عطا فرمائیں۔

تمام علوم و فنون اور صلاحیتوں کا پیکرِ اتم

سابقہ سطور میں ہم نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ہر نبی کو اللہ رب العزت نے اس کے دور کے تقاضوں کے مطابق علم عطا کیا جیسا کہ سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے اپنے دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہر طرح کے علم و فن اور حکمت و صلاحیت سے نوازا۔ اسی طرح سیدنا داؤد علیہ السلام ، سیدنا سلیمان علیہ السلام اور حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کو سیاست، حکومت اور قیادت کی غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا۔ ان تمام سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کا زمانہ، دورِ حکومت، امتیوں کی تعداد، ان ادوار کے مسائل اور چیلنجز محدود تھے۔

اللہ رب العزت نے سلسلہ نبوت کو اس کی معراج عطا کرکے مکمل کرنا تھا اور اپنے محبوب نبی ﷺ کے لیے امت اور زمانہ بھی لامحدود رکھنا تھا لہذا ختم نبوت کا تقاضا تھا کہ اس ہستی کو نہ صرف کائنات کے سارے علوم و فنون عطا کیے جائیں بلکہ قیامت تک آنے والے تمام فتنوں اور چیلنجز سے آگاہ کرکے ان سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور علم بھی عطا کیا جائے۔

اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کے سرِ اقدس پر تاجِ ختمِ نبوت رکھا اور اعلان کروا دیا:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا.

’’محمد ( ﷺ ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے‘‘۔

(الاحزاب، 33: 30)

جب آپ ﷺ کو قیامت تک کے لیے نبی بنایا تو ضروری تھا کہ آپ ﷺ کو کائنات کے تمام علوم و فنون بھی عطا فرمائے جائیں۔ اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی وسعتِ علمی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَاَنْزَلَ اللهُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا.

’’اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے‘‘۔

(النساء، 4: 113)

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کو عطا کیے جانے والے علوم میں سے تین بڑے علوم کا ذکر فرمایا:

  1. قرآن مجید
  2. حکمت
  3. ہر وہ علم جو آپ ﷺ کے لیے ضروری تھا۔

قرآن مجید میں ہر خشک و تر شے کا علم اللہ نے رکھا ہے اور قرآن حضور نبی اکرم ﷺ کے علوم میں سے ایک علم ہے۔ حکمت ایک ایسے نور اور صلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے ہر چیلنج کا حل قرآن مجید سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں کے تذکرے کے بعد پھر فرمایا کہ آپ کی نبوت کے زمانے یعنی قیامت تک آپ کی اُمت کو جو چیلنجز درپیش آنے تھے، ان سے مقابلہ کرنے کے لیے جن جن علوم کی ضرورت تھی، وہ تمام علوم بھی آپ کو عطا فرمادیئے ہیں۔

اللہ رب العزت نے حضور ﷺ کے فرائضِ نبوت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘۔

(البقرة، 2: 151)

مذکورہ آیت کریمہ کے آخری حصے میں حضور ﷺ کی امت کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ تمام علوم جو قیامت تک تمہیں درکار ہوں گے میرا حبیب تمہیں سکھاتا ہے۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے اللہ رب العزت کے عطا کردہ علم و فہم سے مختصر ترین مدت میں کائنات کا سب سے بہترین معاشرہ تشکیل دیا۔ آپ ﷺ نے اپنے دور کے نہ صرف ہر چیلنج کا مقابلہ کیا بلکہ اپنی حیاتِ اقدس کے ذریعے قیامت تک انسانیت کے لیے بہترین نمونہ بھی عطا فرمایا۔

مجدّدین کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ ظاہری کے بعد اب قیامت تک کسی نبی نے نہیں آنا لیکن امت کو ہر روز ایک نئے چیلنج کا سامنا ہوگا۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی طرف سے نت نئے فتنے برپا کیے جانے ہیں۔ لہٰذا اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت میں مجدّدین کے ذریعے تجدید کا سلسلہ جاری فرما دیا۔ جس کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان اللّٰهَ یَبْعَثُ لِهَذِهِ الْاُمةَ عَلٰی رَاسِ کُلِّ مِأَةَ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدْ لَهَا دِیْنَهَا.

’’بے شک اللہ رب العزت میری امت میں ہر صدی کے آغاز میں ایک شخص (اشخاص) مبعوث فرماتا ہے جو ان کے لیے دین کی تجدید فرماتا ہے۔‘‘

یوں مجدّدین کو اللہ رب العزت نے قیامت تک دین اسلام کو ہر فتنے سے بچانے اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت عطا کر دی ہے۔ ہر صدی کا مجدّد حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ کی اس خیرات کو وصول کرتا ہے جس کا تذکرہ اللہ رب العزت نے یوں فرمایا ہے:

وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.

’’اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘۔

(البقرة، 2: 151)

مجدّد قرآن مجید، حضور ﷺ کی سیرت طیبہ اور آپ ﷺ کی بارگاہ سے ملنے والے ظاہری و باطنی علوم کے ذریعے اپنے دور میں آنے والے ہر فتنے کا خاتمہ کرتا ہے۔۔۔ اسلام کو درپیش ہر چیلنج کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنے دور کے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرکے ہر مسئلے میں امت کی راہ نمائی کرتا ہے۔

اگر ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ ظاہری کے بعد امت میں آنے والے فتنوں اور چیلنجز کا جائزہ لیں تو ہمیں جہاں فتنوں اور چیلنجز کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے، وہاں مجدّدین کا عظیم کردار بھی دکھائی دیتا ہے جو ہر دور میں اسلام کے چہرے کو روشن تر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ذیل میں اس سلسلے میں چند نمونے درج کیے جارہے ہیں:

1۔ پہلی صدی ہجری کے مجدّد: حضرت عمر بن عبد العزیزؓ

ائمہ و محدثین کے نزدیک پہلی صدی ہجری میں تجدید دین کا فریضہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے ادا کیا۔ تاہم ان کے دور کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ اس دور میں جب حجاج بن یوسف ثقفی کے ظلم سے دنیا لرز اٹھتی ہے۔۔۔ حکمرانی ملوکیت کی بدترین حدوں تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ بیت المال کو حکمران ذاتی جاگیر کے طور پر استعمال کرنے لگتے ہیں۔۔۔ جب اہلِ بیت اطہار کی عزت و ناموس پر حملے ہورہے تھے۔۔۔ جب معاشرے میں بدعات اور منکرات کا دور دورہ ہوچکا تھا تو ان خرافات کے قلع قمع کے لیے اللہ رب العزت نے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کو پہلی صدی ہجری میں تجدید دین کا فریضہ عطا فرمایا۔

آپ رضی اللہ عنہ جب پہلی صدی ہجری کے آخر پر تخت نشین ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور کی ان تمام خرافات اور فتنوں کا محض اڑھائی سالوں میں سدباب کیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے جو تجدیدی خدمات سرانجام دیں ان میں اہم ترین حسب ذیل ہیں:

  1. حکمران خاندان کی طرف سے لوٹے گئے مال و اسباب کو ان کے حق داروں کو واپس کرنا اور ایوانِ اقتدار میں کرپشن کا خاتمہ کرنا۔
  2. اہلِ بیت اطہار علیہم السلام پر سب و شتم کا خاتمہ اور ان کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا۔
  3. اسلام کی ترویج و اشاعت اور خصوصاً علمِ حدیث کی تدوین کا حکومتی سطح پر اہتمام کرنا۔
  4. سیاسی نظام میں اصلاحات لانا اور محاصل کی اصلاح کرنا۔
  5. اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق کے تحفظ کا اہتمام
  6. معاشرے میں رائج بدعات و منکرات کے خاتمے میں کردار۔

اللہ رب العزت نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو علم، عمل، تقویٰ و طہارت، فہم و بصیرت اور جرأت و بہادری کی خوبیوں سے نوازا تھا کہ محض اڑھائی سالوں میں آپ رضی اللہ عنہ نے اسلامی ریاست میں خلافتِ راشدہ کے دور کی جھلک دکھا دی۔

پانچویں صدی ہجری کے مجدّد: امام غزالیؒ

مجدّدین کی تجدیدی جدوجہد میں ایک اور عظیم نام دیکھیں تو پانچویں صدی ہجری میں بالاتفاق امام محمد بن محمد بن محمد غزالی کا کردار ہے۔ اس دور میں درج ذیل فتنے موجود تھے:

1۔ فلسفہ اپنے عروج پر تھا۔ لوگ روشن خیالی کے نام پر دین کی ضرورت اور وجودِ باری تعالیٰ سے بھی منکر ہوتے جارہے تھے۔ فلاسفہ مذہبِ اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے تھے۔

2۔ آپ کے دور میں دوسرا بڑا فتنہ فرقہ باطنیہ تھا۔ ایک ایسا فتنہ جس نے قرآن کے باطنی معنی کے نام پر دین کی من مانی تشریح و تعبیر شروع کردی اور جاہل و گمراہ لوگوں کو مزید گمراہی کی دلدل میں دھکیلنا شروع کردیا۔

3۔ آپ کے دور میں تیسرا بڑا فتنہ تکفیر کا تھا۔ فروغِ اسلام کے نام پر متعدد فرقے وجود میں آئے تھے۔ ہر فرقہ اپنے مخالف گروہ کی تکفیر کا قائل تھا۔ کسی کو مباح الدم اور مستحقِ جہنم قرار دینا ان کے لیے معمولی بات تھی۔

4۔ علماء اور سلاطین میں بگاڑ پیدا ہوچکا تھا۔ علماء دنیا کے مفادات کی خاطر حکمرانوں کی تعریف و توصیف کرتے اور بادشاہ بھی ایسے ہی لوگوں کو انعامات سے نوازتے جن سے ان کی مجالس کی رونق بڑھتی تھی۔

5۔ معاشرے میں تصوف اور اخلاقِ حسنہ میں بھی بگاڑ پیدا ہوچکا تھا۔

  • امام غزالیؒ کو اللہ رب العزت نے ان تمام فتنوں سے بیک وقت مقابلہ کرنے کے لیے علم کی اس قدر وسعت عطا فرمائی کہ آپ کا نام علم کا استعارہ بن گیا۔
  • آپ نے معرکہ آراء کتب تحریر کیں، جن میں مقاصدالفلاسفہ اور تہافۃ الفلاسفہ کے ذریعے روشن خیال فلسفیوں کے پھیلائے ہوئے ’’دین بیزاری‘‘ کے فتنے کا خاتمہ کیا۔
  • آپ نے المستطہری، حجۃ الحق، مفصل الخلاف، قاصم الباطنیہ اور دیگر کتب تحریر فرماکر فرقہ باطنیہ کا قلع قمع فرمایا۔
  • آپ نے اپنے دور میں پیدا ہونے والے تکفیری رجحان کے خاتمے کے لیے الاقتصاد فی الاعتقاد اور فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقۃ تحریر فرماکر اس طبقے کی اصلاح کی۔
  • امام غزالیؒ نے جواہرالقرآن، کیمیائے سعادت، مکاشفۃ القلوب اور دیگر متعدد کتب کے ذریعے علماء، صوفیاء اور حکمران طبقے کی اصلاحِ احوال کا کردار ادا کیا۔

الغرض! آپ کے دور میں جس قدر علمی، فکری، اعتقادی اور اخلاقی بگاڑ اور فتنوں نے جنم لیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق عطا فرمائی کہ آپ نے ان تمام محاذوں پر ان کا مقابلہ کیا۔

تجدیدِ دین کا دائرہ کار

مجدّدینِ اُمت میں سے ہم نے پہلی اور پانچویں صدی ہجری کے مجدّدین حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ اور امام محمد بن محمد بن محمد غزالیؒ کی تجدیدی خدمات کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔ اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت میں مجدّدین کو ان کے زمانوں میں پیش آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنہ کے خاتمہ کے لیے علم کی وسعت عطا فرمائی۔ اِسی طرح مختلف اَدوار میں پیش آمدہ مسائل و مصائب کو address کرنے کے لیے مختلف شیوخ الاسلام، مصلحین اور ناصحین آتے رہے، جنہوں نے اپنے اپنے دور کی ضروریات کے مطابق خدمتِ دین کا فریضہ ادا کیا۔

جب فتنہ اِنکارِ حدیث نے دین کے بنیادی مآخذ سے رشتہ کمزور کرنا چاہا تو امام محمد بن ادریس شافعی میدان میں اترے۔۔۔ جب فتنہ خوارج نے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنا شروع کیں تو کبھی قاضی محمد بن طیب باقلانی اور کبھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ جد و جہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ جب معتزلہ کا فتنہ اپنے عروج پر پہنچتا ہے تو اللہ رب العزت امام ابوالحسن اشعری کو ان کے خاتمے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔۔۔ جب پوری امت میں دعوت و تبلیغ، تعلیم و تدریس اور کردار و عمل کے ذریعے اسلامی علوم اور تعلیماتِ اخلاق و تصوف کو فروغ دینے کا چیلنج سامنے آتا ہے تو اللہ رب العزت اس امت میں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور خواجہ نظام الدین اولیاءؒ جیسی ہستیاں پیدا فرماتا ہے۔۔۔ جب ظالم و جابر بادشاہ یا صاحبِ اقتدار نے کسی اسلامی اصول کی بے حرمتی اور پامالی کی، باطل افکار و نظریات کو اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی تو اللہ رب العزت نے اعلاء کلمہ حق کی توفیق کبھی امام احمد بن حنبلؒ کو دی تو کبھی مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے دینِ اکبری کے خلاف اعلاء کلمہ حق کا فریضہ سرانجام دیا۔۔۔ جس دور میں ناصبیت یا رافضیت نے امن و سکون تباہ کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کی شان اقدس میں گستاخیاں حد سے بڑھنے لگیں تو کبھی امام محمد بن ادریس الشافعیؒ میدان میں آئے تو کبھی امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبریؒ نے ان فتنوں کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کیا۔

الغرض! گزشتہ 14 سو سالوں میں جس دور میں جیسا فتنہ آیا اللہ رب العزت نے مجدّدین، شیوخ الاسلام اور مصلحین کو توفیق عطا فرمائی کہ انہوں نے فتنوں کا سد باب کیا، چیلنجز کا مقابلہ کیا اور اسلام کو زندہ رکھنے کا فریضہ سرانجام دیا۔

پندرھویں صدی ہجری اور امت کا اجتماعی زوال

خلفائے راشدین کے دور سے لے کر پہلی عالمی جنگ کے خاتمے تک اسلام بطورِ نظام قائم رہا اور مسلمان تین براعظموں پر حکومت کرتے رہے۔ اسلام کے سیاسی اقتدار کو کبھی مسلمانوں کی باہمی چپقلشوں نے تو کبھی صلیبیوں نے نقصان پہنچایا۔ اسلام کو سب سے زیادہ نقصان منگولوں نے پہنچایا انہوں نے لاکھوں مسلمانوںکو شہید کیا جس کے نتیجے میں خلافتِ عباسیہ کا زوال ہوا مگر قلیل عرصے میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکل میں سیاسی اقتدار پھر بحال ہوگیا۔ مجموعی طور پر اسلام کی حکمرانی قائم رہی، اسی وجہ سے ہر فتنے کا سدِ باب اور چیلنج کا مقابلہ نسبتاً آسان تھا۔

اٹھارہویں صدی عیسوی یعنی تیرھویں صدی ہجری کے آغاز میں عالمِ کفر نے اسلام کے خلاف متحد ہوکر فتنوں کی ایسی یلغار شروع کی جس کی مثال گزشتہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ سب سے پہلے مسلمانوں کو سیاسی قوت و طاقت اور اقتدار سے محروم کرنے کی سازش کی گئی اور جو مسلم ریاستیں سلطنتِ عثمانیہ کے زیر اثر نہیں تھیں، ان پر الگ الگ قبضے کا پروگرام بنایا گیا۔

دوسری طرف پہلی عالمی جنگ کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ یوں امت کی سیاسی وحدت اور اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ اس زوال کو مستقل کرنے اور امت کو شکست خوردہ کرنے کے لیے عالمِ کفر نے سیکڑوں سازشوں کے جال بُننے شروع کردیئے۔ گزشتہ صدیوں میں برپا ہونے والے تمام فتنے اس دور میں دوبارہ اٹھا دیئے گئے۔ اس صدی میں پیدا ہونے والے فتنے اور چیلنجز درج ذیل ہیں:

  1. سر زمینِ عرب سے فتنہ خوارج کو پیدا کیا گیا۔ اس ایک فتنے نے کئی فتنوں کو جنم دیا۔ اس فتنے نے تنگ نظری، انتہا پسندی اور بالآخر دہشت گردی کو جنم دیا۔ اسی فتنے نے دنیائے اسلام کو فرقہ پرستی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ القاعدہ، داعش اور کئی چھوٹی بڑی تحریکیں اسی فتنے کا نتیجہ یا ثمر ہیں۔
  2. اسی طرح اُمتِ مسلمہ میں ایک اور فتنہ ’’قادیانیت‘‘ کے نام سے پیدا کیا گیا۔ یہ فتنہ برصغیر میں برطانیہ کے دور میں تیار کیا گیا اور تاحال اسلام دشمن طاقتوں کی سرپرستی میں دنیا بھر میں اسے فروغ دیا جارہا ہے۔
  3. ایسے ہی کہیں دشمنوں کی سازشوں اور کہیں اپنوں کی نادانیوں نے فتنہ رافضیت کو اور کبھی ناصبیت کو فروغ دیا۔
  4. کبھی حدیث کی حجیت سے انکار کے فتنے نے سر اٹھایا
  5. کبھی فتنہ انکارِ تصوف نے لوگوں کی روحانیت پر ڈاکہ ڈالا
  6. بعضوں نے آمدِ سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام کے بارے من گھڑت عقیدے کو فروغ دینا شروع کیا۔
  7. ایک طبقے نے اپنی من گھڑت فکر سے متضاد اور صحیح اسلامی فکر کو واضح کرنے والی احادیث کو کتب سے خارج کرکے کتب کے نئے ایڈیشن شائع کرنا شروع کر دیئے۔
  8. اسی دور میں گستاخی رسالت، بین المذاہب نفرتوں کے فروغ اور اہانتِ قرآن جیسے فتنے یورپ میں تیزی سے فروغ پارہے تھے۔

الغرض! یہ سارے فتنے بین المسالک ہم آہنگی، بین المذاہب رواداری، دورِ حاضر کے مطابق جدید سائنسی بنیادوں پر اسلام کی تعبیر و تشریح، فقہی و علمی جمود کا خاتمہ اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر سیاسی، معاشی، معاشرتی سطح پر ابھرنے والے چیلنجز دورِ حاضر کے مجدّد کے تجدیدی دائرہ کار میں وسعت مانگ رہے تھے۔ جس کے لیے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو ہمہ جہتی اوصاف و خصائل کی مالک ہو، تاکہ بیک وقت ان تمام فتنوں اور چیلنجز سے نبرد آزما ہوسکے۔

شیخ الاسلام کے تجدیدی دائرہ کار کی وسعت

19 فروری 1951ء میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ڈاکٹر فرید الدین قادری کے گھر جھنگ میں آنکھ کھولی۔ آپ نے 1971ء میں محض 20 سال کے عرصے میں دینی و عصری علوم کی تکمیل کے بعد مسلم اور غیر مسلم مفکرین کے افکار کا مطالعہ کیا اور عالمگیر سطح پر احیاء اسلام کو اپنی منزل بنایا۔ اسی دوران آپ نے جدید عصری، فکری اور سائنسی تقاضوں کے ساتھ قرآن مجید کا از سر نو مطالعہ کیا۔

آپ نے 1980ء میں منہاج القرآن کے نام سے ایک عالمگیر تحریک کا آغاز کردیا۔ آپ کو حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ سے قربِ ہدایت اور علم کی اس قدر خیرات میسر آئی کہ آپ نے اُمت کے اجتماعی زوال کے اس دور میں پیدا ہونے والے متعدد فتنوں اور چیلنجز کا تنہا مقابلہ کیا اور ایک تجدیدی تحریک کے ذریعے پوری دنیا میں شرق تا غرب اسلام کی امن و سلامتی کی تعلیمات کو عام کیا۔

ذیل میں ہم ان فتنوں اور چیلنجز کی فہرست دیکھتے ہیں جن کا سدِباب اور مقابلہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کیا، اس سے ہمیں آپ کی تجدیدی خدمات کی وسعت کا اندازہ ہوگا کہ دور حاضر کے کن اہم فتنوں کا سد باب شیخ الاسلام نے کیا:

  1. تکفیری رویہ (دوسروں کو کافر و مشرک قرار دینا)
  2. فتنہ انکارِ حجیتِ حدیث (حدیث کی حجیت سے انکار)
  3. فتنہ انکارِ تصوف (تصوف کو متبادل دین سمجھنے کا فتنہ)
  4. جھوٹے مدعیانِ نبوت کا فتنہ (فتنۂ قادیانیت)
  5. اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کی شان میں گستاخی کا فتنہ
  6. خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخی کا فتنہ
  7. تنگ نظری اور انتہا پسندی کا فتنہ 8۔ فتنہ خوارج
  8. دہشت گردی کا فتنہ
  9. گستاخیٔ رسالت کا فتنہ

شیخ الاسلام نے علمی، فکری، تحقیقی، عملی الغرض ہر سطح پر مذکورہ فتنوں کا نہ صرف سدِّباب کیا بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات بھی دنیا کے سامنے رکھیں جن سے اسلام کا پرامن چہرہ نہ صرف دنیا کے سامنے آیا بلکہ اُمتِ مسلمہ کے اذہان میں بھی اس حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات کا ازالہ ہوا۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو درپیش چیلنجز

مذکورہ فتنوں کے علاوہ شیخ الاسلام کو اس 15 ویں صدی ہجری میں درج ذیل چیلنجز بھی درپیش تھے:

  1. بین المسالک ہم آہنگی (اتحادِ امت) کا چیلنج
  2. بین المذاہب رواداری کے فروغ کا چیلنج
  3. فقہ حنفی کے دفاع کا چیلنج
  4. دہشت گردی کے اسباب کے خاتمے کے لیے متبادل بیانیے کی فراہمی کا چیلنج
  5. ملکی سیاسی مسائل کے حل کا چیلنج
  6. یورپی مسلمانوں کے معاشی و سیاسی استحکام کا چیلنج
  7. دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچانے کا چیلنج
  8. امتِ مسلمہ کے احیاء کے لیے فکری و عملی جدوجہد کا چیلنج
  9. ملک میں ظلم کے خاتمے اورباطل نظام کی تبدیلی کا چیلنج
  10. ملک کے معاشی و عدالتی مسائل کے حل کا چیلنج
  11. دنیا بھر میں امت پر لگنے والے الزامات کے دفاع کا چیلنج
  12. اصلاحِ احوالِ امت کا چیلنج

ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دنیا بھر میں عقائدِ اسلامی کے دفاع، اسلامی تعلیمات کے فروغ و اشاعت اور مسلمانوں کی اسلام کے ساتھ وابستگی کو مضبوط تر کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ، تحقیق و اشاعت کی لازوال تجدیدی خدمات سرانجام دیں۔ آپ کی تاحال طبع ہونے والی 600سے زائد تصانیف میں سے چند اہم ترین حسبِ ذیل ہیں:

  1. قرآن مجید کا جدید سائنسی ترجمہ ’’عرفان القرآن‘‘
  2. 15 جلدوں پر مشتمل قرآن مجید کی تفسیر (زیرِ طبع)
  3. 8 جلدوں پرمشتمل قرآنی انسائیکلو پیڈیا
  4. 40 جلدوں پر مشتمل حدیث کا انسائیکلو پیڈیا (زیرِ طبع)
  5. 50 سے زائد کتب پر مشتمل انسداد دہشت گردی اور فروغِ امن کا نصاب
  6. 15 جلدوں پر محیط مرویات سیدنا علی شیرِ خداؓ (زیرِ طبع)
  7. 12 جلدوں پر محیط سیرۃ الرسول ﷺ

دعوتی و تبلیغی خدمات

شیخ الاسلام نے 1980ء تا حال 40 سالہ دور میں زندگی کے ہر موضوع پرہزارہا خطابات فرمائے ہیں۔ ان خطابات میں اہم ترین موضوعات حسب ذیل ہیں:

  1. حجیتِ حدیث اور مقامِ رسالت پر 100 سے زائد خطابات
  2. تصوف اور تعلیمات صوفیاء پر 56 خطابات
  3. مجالس العلم (علم، علم کا ارتقاء اور وجود باری تعالیٰ کے مختلف موضوعات ) 60 لیکچرز
  4. دفاعِ شانِ شیخین پر 48 خطابات
  5. فقہ، اجتہاد اور تقلید کے موضوع پر لیکچر سیریز
  6. صحیح بخاری شریف پر حلقات التربیہ کے عنوان سے40 نشستیں
  7. دروس الشفاء (13 لیکچرز)
  8. عقائدِ اسلامیہ: امت میں تفرقہ و انتشار کے اسباب (17 نشستیں)
  9. صحیح بخاری و صحیح مسلم کے دروس پر مشتمل بیسیوں لیکچرز
  10. کورونا وائرس سے متعلق امت اور انسانیت کی راہنمائی (25لیکچرز)
  11. مثنوی شریف، غنیۃ الطالبین اور طبقات الصوفیاء پر سلسلہ وار دروس کے علاوہ سیرت النبی ﷺ کے ہر ہر پہلو پر سیکڑوں خطابات بھی شامل ہیں۔

معزز قارئین! زیر نظر مضمون میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے تجدیدی دائرہ کار کی وسعت کی مختصر وضاحت کی گئی ہے۔ تجدیدی خدمات کی تفصیلات ہمارا مقصود نہیں ہیں۔ تفصیلات اور جزئیات کا بیان راقم کی زیرِ ترتیب کتاب میں الگ سے آئے گا، مجلہ کے صفحات اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

اگر ہم گزشتہ صدیوں اور دورِ حاضر کے فتنوں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دورِ حاضر میں نہ صرف گزشتہ تمام صدیوں کے فتنے جمع ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر دورِ حاضر کے فتنے بھی جمع ہیں۔ فتنہ خوارج، دہشت گردی اور گستاخیِ رسالت کے فتنے جس قدر شدت کے ساتھ دورِ حاضر میں امت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ماضی میں ان فتنوں نے اس قدر نقصان نہیں پہنچایا۔

اسی طرح سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی، روحانی چیلنج اور خصوصاً امت کو ہمہ گیر زوال سے نکالنے کا چیلنج امت کو پہلی مرتبہ درپیش ہے۔ سابقہ مجددین کی تجدید کے دائرہ کار اس دور کی ضرورت کے مطابق اکثر علاقائی تھے۔ آج کے گلوبل ویلج کے دورِ میں ہر فتنہ اور چیلنج عالمی حیثیت رکھتا ہے۔ دورِ حاضر میں جب ہم OIC, UN اور WEF کے پلیٹ فارم پر بھی شیخ الاسلام کی تجدیدی خدمات کو دیکھتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ اس مجدّد کو اللہ رب العزت نے اس دور کے تقاضوں کے مطابق تجدید و احیاء اسلام کی ہمہ گیر اور عالمگیر ذمہ داری تفویض فرمائی ہے۔