قیادت کے تقاضے اور شیخ الاسلام کی ہمہ جہتی خدمات

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

تخلیقِ آدم کے وقت فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت آدمؑ کو اللہ کے نائب بنانے اور دنیا میں انہیں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجے جانے پر اپنے تحفظات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ایسا کیا ہے جو ہم میں نہیں ہے؟ اسے تو نے اپنی خلافت کے لیے کیوں چنا ہے؟ اللہ رب العزت نے اس کا جواب عطا فرمایا کہ کیا اِن چیزوں کے نام جو آدم علیہ السلام کو آتے ہیں تمہیں بھی آتے ہیں؟ فرشتوں نے کہا: مولیٰ ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ ہم ان ناموں سے واقف نہیں ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی فوقیت فرشتوں پر ثابت کی۔

ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ چیزوں کے نام جاننے میں کیا کمال ہے کہ اللہ رب العزت فرشتوں کے اعتراض کا جواب یوں دے رہا ہے کہ آدم کو اشیاء کے نام آتے ہیں اور فرشتے ان اشیاء کے نام نہ بتاسکے۔ تو کیا فقط اشیاء کے نام جان لینا اس کائناتِ انسانی پر اللہ رب العزت کا خلیفہ بننے کے لیے کافی ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ پھر اللہ رب العزت نے اُن فرشتوں کا جواب یوں کیوں دیا کہ آدم نے ان چیزوں کے نام بتادیئے ہیں، اس لیے خلیفہ بنا رہا ہوں۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ چیزوں کی حقیقت معلوم کی جائے۔ جب کسی شے کا نام کوئی ذی شعور انسان جانتا تو ہو مگر اس شے سے واقف نہ ہو تو کیا اس شے کا نام جاننے کا کوئی فائدہ ہوگا؟ نہیں، اس لیے کہ اگر کوئی بندہ کسی خاص شے کی حقیقت سے واقف ہی نہیں ہے تو اس شے کا نام جاننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ الغرض کسی شے کا جاننا اسی صورت فائدہ مند ہوگا جب اس کی حقیقت بھی جانیں گے۔

جب اللہ رب العزت نے فرمایا کہ آدم نے ہمارے سکھائے ہوئے اسمائِ اشیاء بتادیئے ہیں، اس لیے یہ خلیفہ بن سکتا ہے تو اس سے مراد یہ تھا کہ اسے فقط نام نہیں سکھائے بلکہ اس شے کی حقیقت بھی بتائی ہے۔ اس شے کی ابتداء، انتہاء اور مقصد بھی اس کے علم میں ہے۔ جو کچھ خدا نے بنایا ہے ہر شے کی حقیقت آدم جانتا ہے، اس لیے وہ خلیفہ بننے کے اہل ہے۔

گویا اللہ رب العزت نے ایک معیار مقرر فرمادیا کہ تمہارا خلیفہ، قائد اور رہبر و رہنما وہ ہے جو فقط فلسفے نہ جانتا ہو بلکہ معاملات کی حقیقت سے بھی واقف ہو۔۔۔ فقط امراض گِن گِن کر سناتا نہ ہو بلکہ ان کا حل دینا بھی جانتا ہو۔۔۔ یہ نہ کہے کہ دہشت گردی نے ملک کو مار دیا بلکہ دہشتگردی کا خاتمہ کرنا بھی جانتا ہو۔۔۔ یہ نہ کہے کہ قوم بے راہروی کا شکار ہو گئی بلکہ وہ اگلی نسل کی تربیت کرنا بھی جانتا ہو۔

قیادت کی اس تعریف اور معیار پر اگر ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت کو پرکھیں تو تمام میادین میں آپ کی ہمہ جہتی خدمات اس امر کا ثبوت ہیں کہ آپ اعلیٰ ترین اوصافِ قیادت سے متصف ہیں۔

آج ہم پوری دنیا میں اس عظیم قیادت کا 70 واں یوم ولادت منارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس عظیم قیادت کی سنگت و صحبت عطا کی ہے۔

علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا:

یہ غازی، یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قومی و بین الاقوامی سطح پر خدمات اس امر پر گواہ ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ نے جن بندگانِ خدا کا تذکرہ ان اشعار میں کیا ہے، شیخ الاسلام کی شخصیت میں یہ اوصاف بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔

اللہ کی ولایت کا حقدار کون؟

علامہ اقبالؒ کے مذکورہ اشعار میں جس ذوقِ خدائی کا ذکر ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذوقِ خدائی ہوتا کیا ہے؟ خدا خدائی کرتا ہے، خدا کا وہ کیا ذوق ہے جس کے تحت وہ خدائی کرتا ہے؟ اس ذوق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ’’ذوقِ خدائی‘‘ کو سمجھنے کے لیے ہمیں ولایت کے مفہوم کو سمجھنا ہوگا کہ اللہ کن لوگوں کو اپنا دوست بناتا ہے اور پھر اپنی دوستی پر انہیں کس نعمت سے سرفراز فرماتا ہے؟

امام قشیری ’’ولی‘‘ کی تعریف میں لکھتے ہیں:

’’ولی وہ شخص ہے کہ شاید خدا کے حقوق میں اس سے کوئی کمی رہ جائے لیکن خدا کی مخلوق کے حقوق میں وہ کمی نہیں رہنے دیتا‘‘۔

اس کا جینا مرنا خدا کی مخلوق کے لیے ہو جاتا ہے۔ وہ نہ عذاب کے خوف سے خدا کی بندگی اور اطاعت کرتا ہے اور نہ کسی اچھے ٹھکانے کی خواہش میں خدا کی اطاعت و بندگی کرتا ہے بلکہ وہ فرائض اور واجبات اس لیے ادا کرتا ہے کہ اس کو اپنے جینے کا مقصد وہی لگتا ہے۔

کئی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ خدا کا ولی کیسے بنا جاتا ہے؟ اس کا دوست کیسے بنا جاتا ہے؟ کبھی خیال آتا ہے کہ ایک شب میں ہزار ہا نوافل پڑھ لوں تو خدا راضی ہو جائے گا۔۔۔ کبھی خیال آتا ہے کہ پوری عمر روزوں میں گزار لوں تو شاید خدا راضی ہو جائے گا۔۔۔ کبھی کہتا ہے کہ میں فلاں فلاں عبادت کر لوں تو خدا راضی ہو جائے گا۔۔۔ آیئے ولایت کی ایک خوبصورت تعریف ملاحظہ کرتے ہیں کہ ولایت کیسے ملتی ہے اور کوئی ولی کیسے بنتا ہے؟

اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھیں کہ انسان اپنا دوست کسے بناتا ہے؟ کیا ہم اس شخص کو اپنا دوست بناتے ہیں جو صبح و شام ہماری خوشامد کرتا ہو؟ ہمارے گن گاتا ہو؟ ہماری ذاتی خدمت میں مصروف رہتا ہو؟ ہم اسے اپنی دوستی دیں گے یا اسے اجر دیں گے؟ دنیا کا قانون ہے کہ ہم ایسے شخص کو اجر اور صلہ دیں گے لیکن اپنی دوستی نہیں دیں گے۔ اس کے برعکس اپنا دوست اس شخص کو بنائیں گے کہ جس کے ساتھ ہم خیالی ہو۔۔۔ جس کے ساتھ ہماری سوچ ملتی ہو۔۔۔ جس کے ساتھ بیٹھنے کو دل چاہے۔۔۔ یعنی اس کا ذوق بھی اسی شے میں لگتا ہو جس میں ہمارا ذوق لگتا ہے۔۔۔ وہ بھی ویسا ہی سوچتا ہو جیسا ہم سوچتے ہیں۔۔۔ اس کی بھی دلچسپی اسی پراجیکٹ میں ہو جس پراجیکٹ میں ہماری دلچسپی ہے۔۔۔ یعنی ہماری اور اس کی دلچسپیاں مشترک ہوں۔۔۔ اگر اکٹھے بیٹھیں تو بات کرنے کے موضوعات مشترک ہوں۔۔۔ اس کے ساتھ نشست کرنے کو دل چاہے۔۔۔ گویا دلچسپی مشترک ہو تو اسے دوست بناتے ہیں۔ خوشامد اور تعریف کرنے والے کو دوست نہیں بناتے بلکہ اس کو تعریف کرنے کا اجر اور صلہ دے دیتے ہیں۔

بلا تشبیہ و بلا مثال اللہ رب العزت کا قانون اس سے مختلف نہیں ہے۔ جو شخص فقط نوافل اور وظائف کی کثرت اور خلوت و چلّے کاٹنے سے یہ سمجھے کہ خدا اُسے اپنا ولی بنالے گا، تو ایسا نہیں ہوتا۔ اللہ اجر کے طور پر جنت تو دے دے گا لیکن اپنی ولایت اور دوستی نہیں دے گا۔ خدا اپنا ولی اس شخص کو کرتا ہے جس کی اور اللہ کی دلچسپی مشترک ہو اورinterests common ہوں۔

سوال یہ ہے کہ خدا کا interest (دلچسپی) کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کا interest (دلچسپی) اس کی مخلوق ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ اس کے دین کا بول بالا ہو۔۔۔ خدا چاہتا ہے کہ مسلمان ہر میدان میں ترقی کے زینے طے کرتے چلے جائیں۔۔۔ خدا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق میں جہالت کے اندھیرے دور ہو جائیں۔۔۔ خدا چاہتا ہے اس کی مخلوق میں ظلم کا خاتمہ ہو جائے۔۔۔ خدا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کے بے روزگاروں کو روزگار مل جائے۔۔۔ خدا چاہتا ہے کہ ظالموں کا ہاتھ مروڑ دیا جائے۔۔۔ خدا چاہتا ہے کہ بے سہاروں کو سہارا دیا جائے۔۔۔ خدا چاہتا ہے بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے۔۔۔ قرآن میں جابجا خدا کہتا ہے کہ یتیموں کا سہارا بن، بے سہاروں کا سہارا بن۔۔۔ ظالموں کی گرفت کر، جہالت میں علم کا نور پھیلا۔۔۔ انصاف کر۔۔۔ لوگوں کی مدد کر، لوگوں کو جینے کے آداب سکھا۔۔۔ لوگوں کو شریعت کی تعلیم دے۔۔۔ یہ سب خدا کے interests (دلچسپیاں) ہیں اور جب کوئی بندہ یہی سارے interests اپنی ذات میں پیدا کر لیتا ہے، مخلوق کے درد میں تڑپتا ہے۔۔۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔۔۔ بے روزگاروں کو روزگار دینا چاہتا ہے۔۔۔ بے سہاروں کا سہارا بننا چاہتا ہے۔۔۔ بے سہارا عورتوں کے سر کی چادر بنتا ہے۔۔۔ انصاف کرنا چاہتا ہے۔۔۔ تو خدا فرشتوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے: دیکھو ان لوگوں میں وہی نظر آتا ہے جو صفتیں مجھ میں دیکھتے ہو، لہذا مخلوقِ خدا میں منادی کردو کہ ان کو میں نے اپنا ولی بنالیا ہے۔

خدا کا ایک اور انٹرسٹ بھی ہے جو سب سے بڑھ کر ہے اور وہ تاجدارِ کائنات ﷺ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میرے فرشتو! میں اور تم مل کر مصطفی ﷺ کی ذات پر درود پڑھتے ہیں، پھر وہ سب کو دعوت دیتا ہے کہ میری رفاقت میں آ جاؤ، میرے رفیق بن جاؤ اور مل کر میرے مصطفی ﷺ کی ذات پر عشق کا نذرانہ پیش کرو اور درود و سلام پیش کرو۔ اس لیے کہ میرا ایک انٹرسٹ میرا مصطفی ﷺ بھی ہے، جو میرے مصطفی ﷺ کو میری طرح چاہتا ہے، وہ میرا بھی رفیق ہے۔

عصرِ حاضر اور ولایت کے تقاضے

ولایت کی قیمت ہر دور میں بدل جاتی ہے۔ مثلاً اگر عام حالات ہوں اور کوئی فساد سے بچ کر اپنی جان بچائے تو عبادت ہے۔ عام حالات میں، گلی محلے کی لڑائی میں فساد انگیزی سے بچے اور اپنی جان کی حفاظت کرے تو یہ خدا کے حضور عبادت ہے۔ لیکن اگر میدانِ جنگ اور راہِ انقلاب میں جان بچا کر کوئی دوڑے اور راستے میں مارا جائے تو خدا کہتا ہے کہ یہ گناہ کی موت مرا۔ عمل ایک ہے، جان دونوں جگہ بچائی گئی ہے لیکن حالات مختلف ہیں۔ ایک جگہ وہی عمل کیا تو عبادت، دوسری جگہ وہی عمل کیا تو گناہ۔

اسی طرح ہر دور میں ولایت کی قیمت بدل جاتی ہے۔ اس لیے کہ ہر دور میں مخلوق کی ضرورت بدلتی رہتی ہے۔ خدا کو اپنی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ اس کو منتخب کرتا ہے جو اس کی مخلوق کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ جب ہر دور میں مخلوق کی ضرورت نے ہی بدل جانا ہے تو پرانے فارمولے پر کیسے دوستی ہو گی؟

ہر دور کی ضرورتیں جدا تھیں، جب اسلام اپنے عروج پر تھا، ترقی کی منازل طے کر رہا تھا، حکمران بھی مسلمان تھے، اسلامی ریاستوں کے انبار لگے ہوئے تھے، معیشت بھی مسلم تھی، بڑے بڑے سائنسدان بھی مسلمان تھے، بڑی بڑی ایجادات بھی مسلمان کر رہے تھے تو اس دور میں امت کو تصوف، بے نیازی، رغبت الی اللہ اور خلوتوں کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس دور میں صوفیاء اٹھے، انہوں نے خلوتوں کے درس دیئے، انہوں نے جنگلوں میں ریاضتیں کیں، اس لیے کہ اس دور میں مادیت سے دور لے جانا مقصود تھا۔ جنہوں نے اس پیغام کو پھیلایا، خدا نے ولایت کے لیے انہیں چن لیا۔

بعد میں آنے والے آج کے لوگوں نے سمجھا کہ آج بھی خلوت میں بیٹھے رہو اور دنیا کے امراض اور مسائل سے بیگانے رہو تو شاید آج بھی وہ ولایت دے گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کہ آج امتِ مسلمہ کا ہر پہلو زوال کا شکار ہے۔ نہ آج حکومت اسلام کے پاس ہے۔۔۔ نہ آج علم کی ترقی اسلام کے پاس ہے۔۔۔ نہ آج سائنسی ایجادات اسلام کے پاس ہیں۔۔۔ نہ فوجی طاقت اسلام کے پاس ہے۔۔۔ نہ سائنسدان اسلام کے پاس ہیں۔۔۔ نہ تعلیمِ شریعت اور احکامِ الٰہی اسلام کے پاس ہیں۔۔۔ نہ اخلاقیات اسلام کے پاس ہے، الغرض آج کچھ بھی مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔ مجموعی زوال آگیا ہے۔

آج اگر کوئی خلوت میں بیٹھ کر خدا کی دوستی چاہے گا تو ولایت کی قیمت آج ’’خلوت‘‘ نہیں ہے۔ آج کوئی ولایت چاہے، خدا کی دوستی چاہے تو اس کی قیمت امت کے مجموعی زوال کو عروج میں بدلنے کے لیے علمی، فکری، اخلاقی، روحانی، سیاسی، معاشرتی، الغرض ہر حوالے سے اور ہر میدان میں کردار ادا کرنا ہے۔

اطاعتِ مصطفی ﷺ میں ڈھلی تحریک

ہر دور اور ہر صدی میں جب انسانی معاشرے پر مصائب وآلام آتے ہیں تو پھر ہر صدی میں ایسی تحریکیں اٹھتی ہیں، جو تاجدارِ کائنات ﷺ کی اطاعت میں رنگی ہوتی ہیں۔ اُن تحریکوں کا ہر ہر فرد انحراف کو ترک کرکے اطاعت کو اپنا چکا ہوتا ہے۔ پھر وہ اُس صدی میں اِسی طرح انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کو انقلاب آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ صرف منہاج القرآن ہی کیوں تجدیدی جماعت ہے؟ صرف شیخ الاسلام ہی کیوں اِس صدی کے مجدد ہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انقلاب ہمہ گیریت اور ہمہ گیر تبدیلی کا نام ہے۔ جس صدی میں جو قیادت اور جو جماعت انسانی حیات کے اِسی طرح ہر ہر پہلو کو تبدیل کر رہی ہوگی، بس وہی ذات مجدد اور وہ جماعت تجدیدی جماعت ہے۔

تحریک منہاج القرآن اس لیے ایک تجدیدی تحریک ہے کہ:

  • جب معاشرے کے اندر لوگ ذہنی انحراف کا شکار تھے، تو اس تحریک نے اُن کو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ وابستہ کیا۔
  • جو لوگ ایمان کی سطح پر انحراف کا شکار تھے، اُن کو اطاعت سکھائی اور اُن کے ایمان کو مضبوط کیا ہے اور دنیا میں ہر شے پر اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کو ترجیح دینا سکھایا۔
  • تحریک منہاج القرآن اور اس کی قیادت نے اِس سرزمین پاکستان میں سیاسی پہلو کو بھی انقلاب آشنا کیا ہے، لوگوں کو اُن کے حقوق سمجھائے ہیں۔
  • تحریک منہاج القرآن نے منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کے ذریعے اِس معاشرے کے اندر معاشی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی ہے۔ لوگوں کو سکھایا ہے کہ بخل کی زندگی سے نکلو اور اپنے غریب بھائیوں اور بہنوں کی ایثار وقربانی کے ساتھ مدد کیا کرو۔
  • تحریک نے اِسی دور میں لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے ذریعے اُن کے اندر سے تفاخر، تکبر اور روحانی امراض کی تشخیص کرکے ان کے علاج کا تعین کیا ہے۔ اُنہیں عاجزی و انکساری کرنے والا بندہ بننا سکھایا ہے، یہ معاشرتی زندگی میں انقلاب ہے۔
  • شیخ الاسلام جہاں انفرادی زندگی میں انفرادی تربیت کر رہے ہیں وہاں اجتماعی زندگی میں منہاج القرآن کے نیٹ ورک کے ذریعے 90 ملکوں کے اندر اجتماعی تربیت کا سامان بھی مہیا کر رہے ہیں۔
  • آج پوری دنیا جب مذہب اور قوم کے نام پر دہشت گردی اور قتل وغارت گری کا شکار ہونے لگی، ممالک ایک دوسرے کا عرصہ زندگی تنگ کرنے لگے، ایک دوسرے پر حملے کرنے لگے، ایسے موقع پر شیخ الاسلام نے لوگوں کو احترامِ انسانیت کا درس دیا ہے، دہشت گردی کو کفر سے تعبیر کیا ہے، اسلام کا روشن چہرہ روشناس کروایا ہے اور لوگوں کو دوسرے مذاہب کا احترام کرنا سکھایا ہے۔
  • آقا علیہ السلام کے اُس ہمہ گیری انقلاب کو بھی ذہن میں رکھیں کہ آپ ﷺ نے کس کس پہلو کو انقلاب آشنا کیا اور پھر اسوۂ رسول ﷺ پر عمل پیر ا ہوتے ہوئے منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کاوشوں کو دیکھیں تو یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ انسانی معاشرے کا ہر وہ پہلو جس میں تاجدارِ کائنات ﷺ نے انقلاب برپا کیا وہ پہلو منہاج القرآن کے دائرہ کار اور اُس کے کام سے خارج نہیں ہے۔ ہر پہلو پر آقا ﷺ کی سنت کی اتباع میں آج اِسی طرح انقلاب برپا کرنے کی کاوشیں جاری ہیں۔

منہاج القرآن کی ہمہ گیریت کا راز

یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب سب سے پہلے انسان بطور شخص اپنے آپ کو انحراف کی زندگی سے نکال کر اطاعت کی زندگی میں ڈھال لے۔ اپنی زندگی کے ہر ہر پہلو کو تاجدارِ کائنات ﷺ کی محبت اور حضور کی سنتوں اور تعلیمات سے رنگ لے اور احادیثِ مبارکہ کا مظہر بن جائے۔ اُس کے بعد وہ ایسا خوشبو دار درخت بن جاتا ہے کہ جہاں بھی جاتا ہے معاشرے کو بھی انقلاب آشنا کرتا ہے۔

یاد رکھیں! انقلاب انسان کی انفرادی زندگی اور ذات سے شروع ہوتا ہے اور پھر اجتماعی زندگی کو انقلاب میسر آتا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے، جب اُس سے محبت ہو، جس کی اطاعت کی جا رہی ہے۔ بغیر محبت کے اطاعت مشکل ہو جاتی ہے، اس لیے کہ خوف سے تھوڑا عرصہ کام چلتا ہے، لیکن محبت ہوجائے تو پھر کوئی سامنے ہو یا نہ ہو، کام چلتا رہتا ہے۔

شیخ الاسلام نے منہاج القرآن کی صورت میں ہمیں جو پلیٹ فارم دیا، اس کے تحت جملہ منصوبہ جات در حقیقت ایک مشق ہیں جو بار بار کرکے ہم اپنے دل کو یہ سمجھاتے ہیں کہ ہم سب آقا علیہ السلام کے دین کے نوکر اور خادم ہیں۔ وہ ہمارے محبوب ہیں اور ہم ان ہی سے پیار کرتے ہیں۔ یہ محبت اِتنی پختہ اور کامل ہوجائے کہ پھر ہمیں اطاعت کرنے میں آسانی ہو جائے اور زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ہر ہر عمل ہم اطاعتِ نبوی ﷺ میں ڈھالتے چلے جائیں ۔

شیخ الاسلام سے محبت کے تقاضے

آج شیخ الاسلام کے یومِ ولادت کی تقریبات منعقد کرتے ہوئے جہاں ہم اللہ کی بارگاہ میں شکر بجا لا رہے ہیں وہاں یہ دن ہم سے کچھ تقاضا بھی کر رہا ہے اور وہ تقاضا خدا کے انٹرسٹ کو اپنانے میں ہے۔ وہ تقاضا آج کے دور کے مطابق ولایت کی قیمت ادا کرنا ہے۔ جو شخص قائد سے محبت کرتا ہے، قائد کے فلسفے اور ایجنڈے سے محبت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہمارا قائد اللہ کا مقرب بندہ ہے، اس کا ولی ہے، اس کا دوست ہے تو پھر ان کی راہ کو اپنائے۔ یہ سفر جیسے انہوں نے طے کیا ہے اسی نقشِ قدم پر چلتے جائیں۔ وہ نقشِ قدم اور راستہ مخلوق کا درد اور مخلوق کی خدمت ہے۔۔۔ وہ نقشِ قدم تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہے۔

آج کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ خواب، وہ نعرہ، وہ فلسفہ، وہ نظریہ، وہ ایجنڈا جس نے ہمارے قائد کو بے قرار کررکھا ہے، اس کی تکمیل تک کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد کیا جائے۔ آج ہمیں اپنے قائد سے وعدہ کرنا ہے اور یہ عزمِ مصمم کرنا ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے اور اپنی زندگی کا ہر لمحہ اس مقصد کے لیے وقف کر دیں گے۔ صرف عزمِ پختہ ہو جائے، یقین کامل ہو جائے تو راہیں آسان ہو جاتی ہیں۔