شعور و آگہی کے فروغ میں شیخ الاسلام کا کردار

علی وقار قادری

دور کوئی بھی ہو اصلاح کا عمل ہمیشہ’’ علم‘‘سے وابستہ رہتا ہے۔ اصلاح چاہے ظاہر و باطن کی ہو یا عقیدہ و عمل کی، معاملات کی ہو یا اخلاق کی، ہر طرح کی اصلاح کے لیے بنیادی مواد، لائحہ عمل اور روڈ میپ ’’ علمِ صحیح‘‘ فراہم کرتا ہے۔ خرابی جتنی کثیرالجہت ہوگی، اس کی اصلاح کے لیے اسی قدر علمی تنوع کی ضرورت ہوگی۔ قرآن مجید نے حضور نبی اکرمa کے فرائضِ منصبی بیان کرتے ہوئے اسی پہلو پر زور دیا اور بادی النظرمیں اصلاح کے لیے علم کا تقدم صراحت سے بیان فرمایا۔ قرآن مجید نے آپa کے چار فرائضِ منصبی بیان فرمائے ہیں جنہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  1. تعلیم/علم
  2. تعلیم کی بنیاد پر اصلاح

اس ضمن میں اہم ترین اور لطیف بات یہ ہے کہ ان چہارگانہ فرائضِ نبوت میں سے پہلے تین کا تعلق براہِ راست ’’علمـ‘‘ سے ہے اورچوتھے کا تعلق ’’اصلاح کے جملہ گوشوں‘‘ سے ہے۔ ’’علم ‘‘ سے متعلق فرائضِ نبوت یہ ہیں:

  1. تلاوت آیات
  2. تعلیمِ کتاب
  3. تعلیمِ حکمت

اصلاح کے جملہ گوشوں کے لیے جو جامع اصطلاح بیان کی گئی وہ ’’تزکیہء نفس/اصلاحِ احوال‘‘ ہے۔

چہارگانہ فرائضِ نبوت اور ان کی شاندار ترتیب کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ اصول نہ صرف واضح فرمایا بلکہ وضع بھی فرمادیا کہ علم، شعور، آگہی اور تعلیم وہ ابتدائی لوازمات ہیں جن کے بغیر کثیر الجہت اصلاح کا بیڑا کبھی نہیں اٹھایا جاسکتا۔ معاشرے کے جملہ پہلوئوں کی اصلاح کے لیے یہی نظم انبیاءf، صلحاء، ائمہ، مجتہدین اور مجددین نے بھی اپنایا۔

اصلاحِ امت کے لیے یہی نظم تحریک منہاج القرآن اور قائدِ تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنایا۔ آپ کی خدمات کسی ایک جہت میں نہیں بلکہ ہمہ جہت ہیں۔ اس لیے ’’تحریک منہاج القرآن کو رسول نما تحریک‘‘ کہا گیا ہے۔ منہاج القرآن کی وضاحت کے لیے اس سے زیادہ بہترین اصطلاح نہیں ہوسکتی۔ رسول نئی شریعت کے ساتھ ہمہ جہت اصلاح کے لیے مبعوث ہوتے ہیں جبکہ نبی پہلے سے موجود شریعت کی اتباع میںاُن اقدار کے احیاء کے لیے تشریف لاتے ہیں جو اپنی اصل کھو چکی ہوں۔ یہی فرق ہے رسول نما تحریک اور عام اصلاحی تحریک میں۔ رسول نما تحریک کا منصب زندگی کے ہر شعبہ کی اصلاح ہوتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے گزشتہ چار دہائیوں کے کام کا جائزہ لیں تو شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا ہو جس میںقومی اور بین الاقوامی سطح پر آپ کی طرف سے قابلِ ذکر کردار ادا نہ کیا گیا ہو۔

اس عالمگیر کام کا آغاز ہی علم، شعور، آگہی، حکمت، دانش اور تدبر سے عبارت ہے۔ اس عالمگیر کام کے لیے آپ نے ابتدائی طور پر علم کے فروغ کے لیے نہایت قابلِ ذکر کارنامے سرانجام دیئے جن سے ابتدائی سالوں ہی میں دنیا کے کونے کونے سے آپ کے عشاق، تشنگانِ علم ودانش سمٹتے چلے آئے اور یوں اہلِ دانش و محبین کا ایک ایسا طبقہ میسر آیا جن کی اخلاقی طور پر تربیت کر کے تعلیمی انقلاب کے عظیم مقصد کے لیے افراد تیار کیے گئے۔ یہ لوگ صرف دینی طبقہ سے ہی تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہلِ فکر تھے۔ اس طر ح سے علم ودانش کی وہ سلطنت جس کو آپ قائم فرماکر معاشرے کو علم کے نور سے منور کرنا چاہتے تھے، اس کی بنیادیں قائم کی جاچکی تھیں۔ ان بنیادوں پر دیواروں کا کام آپ کے سحر انگیر اور پُرمغز خطابات نے کیا۔ آپ کا تکلّم، الفاظ کا چنائو، معانی میں گہرائی وگیرائی، مؤثر اندازِ بیاں اور وسعتِ علمی نے لوگوں کو آپ کے خطابات کا گرویدہ کردیا اور چند ہی سالوں میں ایک دنیا آپ کے سحرِ خطابت کی اسیر ہوچکی تھی۔ ان دیواروں پر چھت کا کام آپ کی شاندار، بامقصد اور مدلّل تصنیفات نے کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے اہلِ فکر کے افکار پرچھا گئیں۔

یہ سفر یہیں ختم نہ ہوا بلکہ اپنے علمی و الہامی افکار کے فروغ اور اشاعت کے لیے شیخ الاسلام نے باقاعدہ تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی جس میں ہر سطح کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم آپ کے قائم کردہ تعلیمی ادارے ’’شعور وآگہی کے فروغ اور شرح خواندگی میں اضافہ‘‘ کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان ادارہ جات کی تفصیل یوں ہے:

1۔ منہاج یونیورسٹی کا قیام

منہاج یونیورسٹی لاہور (MUL) اپنے شاندار ڈگری پروگرامز، محنتی اور تجربہ کار تدریسی عملہ، معیاری تعلیم و تربیت اور صاف ستھرے ماحول کے باعث اِس وقت پرائیویٹ سیکٹر میں تیز ی سے ترقی کرنے والی یونی ورسٹی ہے۔ منہاج یونی ورسٹی ہر سال مستحق طلبہ و طالبات کو کروڑوں روپے کا مالی ریلیف بھی مہیا کرتی ہے۔ منہاج یونی ورسٹی لاہور پرائیویٹ سیکٹر کی واحد یونی ورسٹی ہے جس میں اِنتہا پسندی کے خاتمے اور بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے School of Peace اور Counter- Terrorism اور تصوف کے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں۔ یہ ڈگری پروگرامز نوجوانوں اور مختلف شعبہ جات میں خدمات انجام دینے والے پروفیشنلز میں بڑی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔

منہاج یونیورسٹی گزشتہ کئی سالوں سے بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس جیسے اہم عصری مسائل پر بین الاقوامی کانفرنسز کرا رہی ہے جس میں دنیا بھر کی یونیورسٹیز کے ماہرین شریک ہوتے ہیں۔

2۔ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز

منہاج القرآن کے زیرِ اِہتمام تعلیمی شعبہ میں منفرد خدمات انجام دینے والا بڑا تعلیمی ادارہ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز اور جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن ہے۔ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کا لاہور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اور منہاج یونی ورسٹی لاہور جبکہ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کا عالمِ اِسلام کی ممتاز یونی ورسٹی جامعہ الازہر مصر سے اِلحاق ہے۔ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز میں علومِ شریعہ کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ یہاں کا فارغ التحصیل بیک وقت دینی اسکالر بھی ہوتا ہے اور کامرس، آئی ٹی اور اسلامی معاشیات کا ماہر بھی ہوتا ہے۔ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے فارغ التحصیل اسکالرز اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے 90 ممالک میں بطور پروفیشنلز مختلف اداروں میں کلیدی عہدوں پر شاندار ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ منہاج المدارس کے عنوان سے ایک تعلیمی بورڈ قائم کیا گیا ہے جس کے ساتھ اِلحاق کے ذریعے دیگر مدارس بھی اپنے ہاں جامعہ اِسلامیہ منہاج القرآن کے نصاب اور تعلیمی نظام کا اِجراء کرتے ہیں۔

3۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کا قیام

تعلیم سے متعلق حکومتوں کی غیر سنجیدگی، بے حسی اور جاری نظامِ تعلیم میں عدمِ مقصدیت ایسے عناصر ہیں جس نے شیخ الاسلام کو منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے قیام کی طرف متوجہ کیا۔ 1994ء میں باقاعدہ طور پر منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اوربامقصد، معیاری، غیر منافع بخش، جدید اور اسلامی تعلیم کے امتزاج پر مبنی ادارہ معرضِ وجود میں آیا۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت ملک بھر میں چھ سو سے زائد تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جن میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، دس ہزار سے زائد(اساتذہ و دیگر افراد) کا روزگار وابستہ ہے۔ گزشتہ 25سالوںمیں کم وبیش دو لاکھ سے زائد طلبہ وطالبات سکولنگ کے بعد اعلیٰ تعلیم اور بعض اعلیٰ عہدوں پر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی ہر سال ہزاروں قابل اور غریب طلبہ کو وظائف دیتی ہے جو کیش، کتب، یونیفارم اور فیس معافی کی صورت میں ہوتے ہیں۔ MES سالانہ بنیادوں پر پورے ملک میں تقریباً دو کروڑ روپے مالیت کے تعلیمی وظائف دیتی ہے۔

منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کا نصاب شیخ الاسلام کی تعلیماتِ امن و آشتی کا عکاس ہے۔ MES کے سکولز میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامیات کا جامع نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ہر کلاس میں القرآن، الحدیث، الفقہ اور تاریخِ اسلام کے عناوین سے اسباق ترتیب دیئے گئے ہیں جو بچے کے عقیدۂ محبتِ الہٰی، عشق و ادبِ رسالتِ مآبa، اہلِ بیت کرام واصحابِ رسولl کی تعظیم، اولیاء وصالحین کا ادب اور اعلیٰ تر علمی استنباطات اور استدلالات کا مجموعہ ہیں۔ ساتھ ہی ’’اردو ریڈر‘‘ کے عنوان سے انبیائے کرامؑ ،اہل بیت واصحاب رسولa کی مبارک زندگیاں کہانی کے انداز میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں تاکہ ابتدائی سطح سے ہی بچہ اپنے لیے صحیح آئیڈیل کا تعین کر سکے۔ ابتدائی کلاسز میں قرآنی قاعدہ شاملِ نصاب ہے۔ اس کے ساتھ ’’تعلیم القرآن‘‘ کے عنوان سے قرآن مجید کا متن لفظی و بامحاورہ ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے تاکہ بچے پر تفہیمِ مفردات کا دروازہ کھلے اور قرآن مجید کو براہِ راست سمجھنا شروع کرے۔ یہ نصاب شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری اور چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی طرف سے اس ملک کے تعلیمی نظام پر ایک احسان ہے۔

4۔ لارل ہوم انٹرنیشنل سکولز کا قیام

یہ جدید ڈیجیٹلCMSپر مبنی نظامِ تعلیم ہے جو جدید ترین تدریسی منہج کے ساتھ ساتھ دینی، اخلاقی اور اعتقادی اقدار کا بھی ضامن ہے۔ اس میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامیات کا مذکورہ جامع نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ یہ فرنچائز ماڈل ہے۔ محض تین سالوں میں اس کے تحت چلنے والے سکولز کی تعداد سو سے بڑھ چکی ہے۔ لارل ہوم میں بچوں کی اخلاقیات کو پروان چڑھانے کے لیے Character based activity Calendar متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ کیلنڈر ہر ماہ کی ایک قدرمتعین کرتا ہے اور پھر اس ماہ کے چارہفتوںمیں اس قدر کو بچے کی شخصیت کا حصہ بنانے کے لیے سرگرمیاں کرائی جاتی ہیں۔ اس کیلنڈر میں اہم ترین اقدار میں سے ’’سچائی‘‘، ’’دیانت‘‘، ’’خدمتِ خلق‘‘ اور ’’ادب‘‘ شامل ہیں۔ ان اقدار کے احیاء کے ذریعے لارل ہوم معاشرے کو سچے، دیانتدار، مخلص اور باادب افراد دینے کا کام کر رہا ہے۔

5۔ منہاج کالج برائے خواتین کا قیام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 1996ء میں منہاج کالج برائے خواتین کی بنیاد رکھی۔آپ کا پہلے دن سے یہ مؤقف ہے کہ نہ صرف خواتین کو زندگی کے ہر شعبہ میں نمائندگی دی جائے بلکہ تعلیم و تعلّم بھی خواتین کے لیے لازمی ہے۔ ماں تعلیم و تربیت سے آشنا ہوگی تو پوری نسل کی تربیت درست ہوگی۔ اسی ضرورت کے تحت آپ نے کم وبیش چار دہائیاں قبل جب تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تو ساتھ ہی ویمن لیگ کا فورم قائم فرمایاجس پر اس وقت کے تنگ نظر لوگوں نے فتوے لگائے مگر شیخ الاسلام کی نگاہ کئی دہائیاں آگے دیکھتی ہے۔ آج وہی لوگوں اس ضرورت کے قائل ہوگئے ہیں۔

منہاج کالج برائے خواتین کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں جدید تعلیم اور دینی علوم کاشاندار امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ ادارہ بچیوں کے لیے انٹرمیڈیٹ(ایم اے، آئی سی ایس، آئی کام) کے ساتھ الشہادۃ الثانویۃ، گریجویٹ (بی ایس) کے ساتھ لازمی تعلیم کے طور پر الشہادۃ العالیۃ اور ماسٹر کی پروفیشنل ڈگری کے ساتھ الشہاد ۃ العالمیۃ کی ڈگری بھی مہیا کرتا ہے۔ یعنی منہاج گرلز کالج کی ہر طالبہ بیک وقت دینی و عصری علوم حاصل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایم فل پروگرام اور بہت سے شارٹ کورسز کا بھی وقتاً فوقتاً انعقاد کیا جاتا ہے۔

اب تک اس کالج سے فراغت پانے والی خواتین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیراور مذہبی طور پر تنگ نظر اور متشدد معاشرے میں دین و دنیا کے امتزاج کی حامل خواتین کا اس کثرت سے ہونا یقینا پاکستان اور اہلِ پاکستان کی آئندہ نسلوں پرشیخ الاسلام کا بہت بڑا احسان ہے۔ اس کے ذریعے شعورو آگہی کے فروغ اور شرح خواندگی میں اضافہ بھی خاطر خواہ حدتک ہو رہا ہے۔ ایک عورت کو شعور دینا صرف ایک عورت کو نہیں بلکہ کئی نسلوں کو شعور دینا ہے۔

6۔ آغوش آرفن کئیر ہوم کا قیام

اہلِ پاکستان کے لیے شیخ الاسلام کا یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ آغوش کمپلیکس میں چار ادارے کام کر رہے ہیں:

  1. آغوش آرفن کئیر ہوم
  2. تحفیظ القرآن
  3. آغوش گرائمر سکول
  4. منہاج کالج آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی

آغوش آرفن کئیر ہوم کا قیام 2005ء میں شیخ الاسلام کے دستِ مبارک سے عمل میں آیا۔ یتیم اور غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے یہ پراجیکٹ بے مثال ہے۔ یہ یتیم بچوںکے لیے بہترین رہائش، معیاری تعلیم، اچھی خوراک، مناسب لباس اور شاندار تربیت کا ضامن ہے۔ اس کا مقصد ایسے بچوں میں احساسِ کمتری کو ختم کر کے، تعلیم وتربیت کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ برابری کی سطح پر زندگی گزاریں اور معاشرے کے مفید اور کار آمد فر د بن سکیں۔ جو بچے آغوش کی آغوش میں پرورش پاکر دیندار، تعلیم یافتہ ہو کر باعزت زندگی گزار رہے ہیں، وہ نہ صرف انفرادی سطح پر ایک ذمہ دار شہری ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی معاشرتی ذمہ داریوں کو کماحقہٗ سرانجام دیتے ہیں۔ بصورتِ دیگر ایسے بچے آغوش جیسے اداروں کی عدم موجودگی اور معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے چوری، ڈکیتی، منشیات اور شدت پسندی جیسے قبیح رجحانات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ 15سالوں میں آغوش نے 1048 خاندانوں کے چشم و چراغ تعلیم وتربیت کے مراحل سے گزار کر باوقار فرد بنا دیئے ہیں۔ شیخ الاسلام کا یہ کردار شعور اور آگہی اور پاکستان کی شرح خواندگی کے اضافہ میںبھی ایک گراں قدر کارنامہ ہے اور کرائم ریٹ کم کرنے میں بھی شاندار حصہ ہے۔ ان بچوں کی تعلیم نے 1000سے زائد خاندانوں کو معیاری زندگی بھی عطا کر دی۔ آغوش سے تعلیم حاصل کرنے والے ان طلبہ میں سے کئی طلبہ سائنس مضامین میں ایم فل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں آغوش کے طلبہ کے ہر سال بورڈ میں شاندار نتائج آتے ہیں۔ کئی طلبہ جامعہ الازہر مصر میں زیر تعلیم ہیں، کئی پاک آرمی جوائن کر چکے ہیں، کئی اعلیٰ سرکاری ملازمتوںکو اختیار کرچکے ہیں۔ یہ پراجیکٹ معاشرے کے بے یارومدد گار اور پسے ہوئے طبقے کو شعور و آگاہی اور خواندہ کرنے کے حوالے سے بے مثال ہے۔

7۔ فروغِ علم کے لیے جدید لائبریریز کا قیام

منہاج القرآن کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کے تحقیق و مطالعہ کے لیے بین الاقوامی معیار کی لائبریریاں قائم کی گئی ہیں۔ پاکستان کے طول وعرض میں جہاں منہاج القرآن کے سینٹرز ہیں وہاں وہاںان سے متصل لائبریریز بھی قائم کی گئی ہیںتاکہ سینٹر پر آنے والا ہر شخص لائبریری سے استفادہ کی عادت اپنائے۔منہاج یونیورسٹی میں حال ہی میںایک لائبریری زیر تعمیر ہے جو ایشیاء کی پہلی ربوٹک (Robotic) لائبریری ہوگی۔

8۔ عالمگیر تعلیمی و دعوتی انفراسٹرکچر

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان اور بیرونِ پاکستان پوری دنیا میں اِسلامی مراکز، کمیونٹی سینٹرز اور تعلیمی اِدارہ جات قائم کیے ہیں جو مقامی آبادی کو علم و حکمت کے نور سے منوّر کرتے ہوئے ان کی فکری اور اَخلاقی و رُوحانی اِصلاح کا فریضہ بخوبی نبھا رہے ہیں۔ براعظم ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکہ و آسٹریلیا کے متعدد ممالک میں تعلیمی و اِسلامی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

9۔ فروغِ علم کے لیے تصنیف و تالیف

اللہ تعالیٰ نے تحریکِ منہاج القرآن کے بانی و سرپرستِ اَعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو زبان و بیان پر ملکہ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کی توفیق اور نعمت سے بھی بخوبی نوازا ہے۔ انہوں نے سیکڑوں موضوعات پر 1 ہزار سے زائد کتب تصنیف کی ہیں جن میں سے 600 کتب اُردو، عربی اور انگریزی زبان میں شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں قدیم اور جدید ہر طرح کے سیکڑوں موضوعات پر شیخ الاسلام نے ہزاروں خطابات اور لیکچرز و دُروس دیے ہیں۔ اِس طرح پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں اَفراد اِن تصنیفات و تالیفات اور خطابات سے مستفید ہو کر اپنی اصلاح و ہدایت کا سامان کر رہے ہیں۔

10۔ انسدادِ دہشتگردی اور فروغِ امن کیلئے جدوجہد

شیخ الاسلام نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر قیامِ اَمن کے لیے فکری، تحریری اور تقریری ہر میدان میں فقید المثال خدمات انجام دی ہیں اور اپنی تصنیفات و تالیفات اور خطابات کے ذریعے دنیا کو باور کروایا ہے کہ اِسلام اِنتہا پسندی کا نہیں بلکہ اَمن و محبت، اِعتدال و میانہ روی اور ہم آہنگی و رواداری کا دین ہے۔ خدمتِ اِنسانیت کے اِس باب میں 6 سو صفحات پر مشتمل اِنسدادِ دہشت گردی کا فتویٰ ایک ایسی علمی و فکری کاوش ہے جسے اپنوں اور غیروں سبھی نے بے حد سراہا ہے۔

تحریکِ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے 40 سے زائد کتب پر مشتمل فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب مرتب کیا گیا ہے جس کا برملا اِعتراف عالمِ اِسلام کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم OIC کی طرف سے بھی کیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فروغِ اَمن کی کاوشوں کے نتیجے میں مغربی دنیا نے اِسلام کے اَمن بیانیہ کو پذیرائی دی اور امریکہ میں شیخ الاسلام کے اَمن بیانیے کو نصاب میں شامل کیاگیا ہے۔ یہ کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ پورے عالم اِسلام کی سعادت و کامرانی ہے۔ شیخ الاسلام کی ان ہی ہمہ جہتی خدمات کی بناء پر آپ کی تحریک تحریکِ منہاج القرآن کو اَقوامِ متحدہ (UN) میں خصوصی مشاورتی درجہ بھی حاصل ہے۔

11۔ بیداریٔ شعور

کسی بھی معاشرے میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آسکتی جب تک قوم تبدیلی کی ضرورت اور اس کے تقاضوں سے مکمل طور پر آگاہ نہ ہو۔ شیخ الاسلام کے نزدیک مجموعی طور پر چار بنیادی اُمور تبدیلی اور بیداریٔ شعورکا تقاضا کرتے ہیں:

  1. یہ ایک منتشر (scattered) اور پارہ پارہ قوم ہے جسے اتحاد اور یگانگت کی سخت ضرورت ہے تاکہ دوبارہ وحدت کے رشتے میں پروئی جائے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کیلئے حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
  2. پاکستانی قوم مایوسی کے گرداب میں دھنستی جا رہی ہے، اسے یاس و ناامیدی کی دلدل سے نکال کر امید اور یقین کے نور سے بہرہ ور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بھی حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
  3. بدقسمتی سے ہماری قوم بے مقصدیت کا شکار ہوگئی ہے۔ اِس کے سامنے ایسا کوئی نصب العین نہیں جو ٹکڑوں میں بٹ کر منتشر ہو جانے والے جتھوں کو ایک اکائی میں پرو کر متحد کرسکے؛ جو سب کو بحیثیت ایک قوم کے جینے اور ترقی کرنے کا سلیقہ سکھا سکے۔ بے مقصد قوم کو مقصد اور آگہی کا شعور دینے کے لیے حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
  4. ہماری قوم بے سمت ہوگئی ہے۔ کراچی سے خیبرپختونخوا تک اور کشمیر سے چمن کی سرحدوں تک من حیث القوم اس کی کوئی سمت ہی نہیں رہی۔ اس کی سوچیں، وفاداریاں، مفادات، ترجیحات اور ایجنڈے سب متضاد ہیں۔ بائیس کروڑ عوام کا بے ہنگم ہجوم ایک قوم، ایک وحدت اور اکائی بن کر ایک مقصد کے ساتھ ایک سمت کی طرف چل پڑے؛ لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس کے لیے ایک ہمہ گیر تبدیلی کی ضرورت ہے۔

انتشار، مایوسی، بےمقصدیت اور بےسمتی میں مبتلا قوم مجموعی طور پر اکثر شعبہ ہائے حیات میں زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے اگرچہ انفرادی اور گروہی طور پر اس کی کارکردگی قابلِ رشک ہے۔

اہل پاکستان میں بالخصوص اور پوری امت مسلمہ میں بالعموم بیداریٔ شعور کے حوالے سے کام شیخ الاسلام کے عظیم مشن کا ہمیشہ سے بنیادی ستون رہا ہے۔ آپ سیاسی، مذہبی، معاشرتی، روحانی، الغرض ہر سطح پر بیداریٔ شعور کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے حتی الوسع مساعی کر رہے ہیں۔ معاصرین کا آپ سے بڑا اختلاف ہی یہ ہے کہ آپ وہ رجالِ کار تیار فرماتے ہیں کہ جنہیں جھکنا نہیں آتا۔ بیداریٔ شعور کا یہ عظیم کام گزشتہ 40 سال سے تحریکی و انقلابی جدوجہد کا جزولاینفک ہے۔مختلف حالات میں اس کے لیے آپ مختلف انداز اپناتے رہے۔۔۔ کہیں یہ کام علم کو عام کر کے کیا۔۔۔ کہیں یہ کام پسے ہوئے طبقہ کے لیے آواز اٹھا کر اور اس کو اس کے حقوق کا احساس دلا کر کیا۔۔۔ کہیں یہ کام 1000سے زائد کتب لکھ کر امت کو اس کے اصل اثاثہ سے جوڑنے کی صورت میں کیا۔۔۔ کہیں یہ کام نوجوانوں کو شدت پسندی سے بچانے کی صورت میں کیا۔

اِسی سلسلے میں ملک گیر سطح پر اپنے قیام کے آغاز سے ہی بیداریِ شعور کی مہم تحریک کا امتیاز ہے۔ بیداریِ شعور کی اس تحریک کا مقصد عوام کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے آگاہ کرنا اور ان کے حل کے لیے جد و جہد پر آمادہ کرنا ہے۔

خلاصۂ کلام

تحریکِ منہاج القرآن اپنے قیام کے وقت سے ہی قوم کو مقصدیت سے رُوشناس کرانے کے لیے سرگرمِ عمل رہی ہے۔ اس کے لیے اس کے بانی قائد اور سرپرستِ اَعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ہر طبقۂ فکر کو مخاطب کرتے ہوئے اپنا پیغام ان تک پہنچایا۔ نوجوانوں تک پیغام پہنچانے اور انہیں مقصدیت سے آگاہ کرنے کے لیے منہاج القرآن یوتھ لیگ (MYL) اور طلبہ و طالبات کے لیے مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ (MSM) کا قیام عمل میں لایا گیا۔۔۔ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی کو اس کی ترقی میں عملی طور پر شریک کرنے کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ (MWL) قائم کی گئی۔۔۔ مذہبی اسکالرز کو مخاطب کرنے کے لیے منہاج القرآن علماء کونسل (MUC) قائم کی گئی ہے، جس کے تحت ہر مسلک کے علماء اور سرکردہ قائدین تک پاکستان کی ترقی اور مذہبی ہم آہنگی کا ایجنڈا زیر بحث لایا گیا اور مذہبی سطح پر طاری جمود ختم کرنے کے لیے عملی کاوشیں کی گئیں۔۔۔ سیاسی جد و جہد اور سیاسی سطح پر عوام میں بیداریِ شعور کے لیے پاکستان عوامی تحریک (PAT) قائم کی گئی۔۔۔ دیگر مذاہب کے ساتھ ہم آہنگی کے فروغ اور بین المذاہب عدمِ برداشت کا رجحان ختم کرنے کے لیے Directorate of Interfaith Relations خدمات سرانجام دے رہا ہے۔۔۔ اسی طرح تعلیمی سطح پر زوال اور جمود ختم کرنے کے لیے منہاج ایجوکیشن سوسائٹی اور شیخ الاسلام کی تصانیف و خطابات اہم کردار اداکررہے ہیں۔

مذکورہ ہمہ جہتی خدمات اور اُن کے اثرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قطعاً بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میںشیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بیداریِ شعور کے لیے فی الواقع تمام چیزوں سے بالا تر ہو کر کام کیا۔ ’’شعور و آگہی کے فروغ اور شرح خواندگی میں اضافہ‘‘ کے لیے شیخ الاسلام کی خدمات تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں لکھی جائیںگی۔