فقہ کی اہمیت اور فضیلت

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سنت و قرآں اساسِ دینِ ما
عزِّ ما، تمکینِ ما، آئینِ ما

قرآن و سنت ہمارے دین کی بنیاد ہیں، یہی ہماری عزت، یہی ہماری طاقت اور یہی ہمارا آئین و قانون ہے۔ (اقبال)

فرمان باری تعالیٰ ہے: اَطِیْعُوا اللّٰه ’’اللہ کی اطاعت کرو‘‘، یعنی قرآنی ہدایات پر عمل پیرا ہوجاؤ۔ وَاَطِیْعُوْ الرَّسُوْلَ ’’اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو‘‘، یعنی رسول اللہ ﷺ کی سنت کو اپناؤ۔ یہ ہے اسلام کا اصل الاصول، جس سے سرِ مو انحراف کی گنجائش نہیں۔ وقت میں سکون نہیں، ہر لمحہ حرکت اور ہر لمحہ تبدیلی کا پیغام ہے۔ بعض اصول دائمی و اٹل ہیں جن میں تغیر و تبدل ممکن نہیں اور بعض فروعات ہیں کہ زمان و مکان کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں۔ علمِ فقہ اسی کا نام ہے کہ اسلامی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے نت نئے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور لوگوں کی عملی زندگی میں رہنمائی کی جائے۔ یہ کام وہی اہلِ علم کرسکتے ہیں جنہیں اسلامی آئین و قانون کے اصل مآخذ تک براہِ راست رسائی ہو اور ان کی زبان و بیان سے واقفیت ہو۔ جن میں صلاحیت بھی ہو، صالحیت بھی ہو، جن کے دل میں خوفِ خدا اور آخرت کی جوابدہی کا احساس بھی ہو اور انسانیت کی سچی خیرخواہی بھی ہو، بس ایسے ہی خوف رکھنے والے مخلصین فقہاء و علماء امت کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں۔

ذیل میں فقہ کے لغوی معنیٰ اور قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ سے اس کی وضاحت کی جارہی ہے:

فقہ کا لغوی معنی

الفقه فی الاصل الفهم، فقه الرجل، یفقه فقها اذا فهم وعلم، فقه یفقه اذا صار فقیها عالما. وجعله العرف خاصا بعلم الشریعۃ وتخصیصه بعلم الفروع.

’’فقہ اصل میں سمجھ اور فہم ہے۔ کسی شخص کا سمجھنا، معلوم کرنا۔ فقیہ، عالم ہونا۔ عرف میں علمِ فقہ سے مراد علمِ شریعت خصوصاً علم فروع۔‘‘ (ابن الاثیر،النہایہ، 3، ص: 465)

علامہ سید شریف علی بن محمد بن علی الجرجانی الحنفی فرماتے ہیں:

ھوالعلم بالاحکام الشرعیة العملیه المکتسب من ادلتها التفصیلیة، وقیل ھو الاصابة والوقوف علی المعنی الخفی الذی یتعلق به الحکم، وھو علم مستنبط بالرأی والاجتهاد ویحتاج فیه الی النظر والتامل، ولهذا لا یجوز ان یسمی الله تعالیٰ فقیها لانه لا یخفی علیه شییٔ.

(میر سید شریف، التعریفات: 216، طبع بیروت لبنان)

’’احکامِ شریعہ عملیہ کا علم جو اس کے تفصیلی دلائل سے حاصل ہو اورایک قول کے مطابق اس پوشیدہ معنی پر واقف ہونا جس سے حکم (شرعی) کا تعلق ہے اور یہ علم غورو فکر اور اجتہاد سے حاصل ہوتاہے اور اس میں فکرو نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ کو فقیہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔‘‘

فقہ: قرآن کریم کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّةً ط فَلَوْلَا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ.

’’مسلمانوں سے یہ تو نہیںہوسکتا کہ سب کے سب نکلیں (علم دین حاصل کرنے کے لیے) تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ (علم) حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ان کی بے عملی اور بدعملی کے بھیانک انجام سے آگاہ کریں، اس امید پر کہ وہ تباہی سے بچیں۔‘‘

(التوبة، 9: 122)

احادیثِ مقدسہ کی روشنی میں

1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان العلماء هم الورثة الانبیاء، ورثوا العلم، من اخذه اخذ بحظ وافر، ومن سلک طریقاً یطلب علما سهل الله له طریقاً الی الجنة. (بخاری)

’’علماء ہی نبیوں کے وارث ہیں جنہوںنے علم کی وراثت پائی، جس نے یہ وراثت پالی اس نے بڑا حصہ پالیا اور جو حصولِ علم کی راہ پر چلا، اللہ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے۔‘‘

2۔ آیہ کریمہ ’’کونوا ربانیین‘‘ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ علماء و فقہا بنو۔ (ایضاً)

3۔ پھر فرمایا:

من یرد اللّٰهُ به خیرا یفقهه فی الدین. وانما انا قاسم واللّٰه یعطی. (متفق علیه)

’’اللہ جس سے بھلائی چاہے اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرماتا ہے اور میں تو بس تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا اللہ ہے۔‘‘

4۔ جب رسول پاک ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کا عامل بنایا تو فرمایا:

کیف تقضی اذا عرض لک قضا.

تمہارے پاس کوئی جھگڑا آئے تو فیصلہ کیسے کرو گے؟

انہوں نے عرض کی: بکتاب اللّٰه (اللہ کی کتاب سے)۔

فرمایا: فان لم تجد فی کتاب اللّٰه؟ (اللہ کی کتاب میں نہ پاؤ تو؟)

عرض کی: فبسنة رسول اللّٰه ﷺ. (تو رسول ﷺ کی سنت سے۔)

فرمایا: اگر رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی نہ پاؤ تو پھر کیسے فیصلہ کرو گے؟

عرض کی: اجتهد رای ولا آلُو.

بغیر کسی کمی کوتاہی پوری محنت و کوشش سے اپنی رائے سے معلوم کروں گا اور اس پر عمل کروں گا۔

رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مبارک مار کر فرمایا:

الحمدللّٰه الذی وفق رسول رسول اللّٰه لما یرضی به رسول اللّٰه. (ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ کے بھیجے جانے والے عامل کو رسول اللہ ﷺ کی پسندیدہ بات کی توفیق بخشی۔

5۔ ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ان اللّٰه فرض فرائض فلا تضیعوھا، وحرم حرمات فلا تنتھکوھا، وحد حدودا فلا تعتدوھا، وسکت عن اشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوعنها. (دار قطنی)

’’بے شک اللہ نے کچھ احکامِ شرع تم پر فرض کیے توانہیں ضائع نہ کرو اور کچھ حرمتیں حرام کیں سو انہیں پامال نہ کرو، کچھ حدیںمقررکیں سو تم ان سے آگے نہ بڑھو اور بھولے بغیر بعض چیزوں سے خاموش رہا تو تم ان سے بحث (کُرید) نہ کرو۔

6۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

بلّغُوا عنی ولو آیة، وحدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج، ومن کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعده من النار.

میری طرف سے آگے پہنچادو، اگرچہ ایک آیت ہی ہو اور بنی اسرائیل کی باتیں بیان کرو، کوئی حرج نہیں اور جو مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔ (بخاری)

7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لوگوں کی مثال سونے چاندی کی کانوں کی سی ہے جو دورجاہلیت میں اچھے (نیک سرشت، ذی استعداد) تھے، وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں۔ اذا فقهوا: جب سوجھ بوجھ رکھیں۔ (مسلم)

8۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لا حسد الا فی اثنین رجل، اتاه اللّٰه مالا فسلطه علی ھلکته فی الحق، ورجل اتاه اللّٰه الحکمة فھو یقضی بھا ویعلمها. (متفق علیه)

رشک تو بس دو بندوں پر ہونا چاہیے: ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے اس نے راہ حق پر خرچ کرنے پر لگادیا اور دوسرا وہ جسے اللہ نے علم وحکمت دیے اور وہ اس سے فیصلے کرتا اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔

9۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جب آدمی مر جاتاہے، اس کاعمل اس سے ختم ہوجاتاہے مگرتین اعمال سے تعلق باقی رہتاہے۔ایک صدقہ جاریہ، دوسرا علم جو سود مندہو اور تیسرا نیک اولاد جو اس کیلئے دعا کرتی ہے۔ (مسلم)

10۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جو کسی مسلمان کی کوئی دنیوی مشکل حل کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکل حل فرمائے گا اور جو کسی تنگدست پر آسانی کرے، اللہ تعالیٰ اس کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے، جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتارہتا ہے اورجو حصولِ علم کے لیے سفر کرتاہے، اس کے عوض اللہ اس کے لیے جنت کی راہ آسان فرمادیتاہے اور جو قوم اللہ کے گھروںمیں سے کسی گھر میں جمع ہوکر اللہ کی کتاب پڑھے اور ایک دوسرے کو پڑھائے ان پرسکون و اطمینان کی بارش ہوتی اور اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ ان کا اپنی بارگاہ کے خاص اہلِ مجلس میں فخریہ طور پر ذکر فرماتاہے اور جسے اس کا عمل موخر کرے اسے اس کا نسب مقدم نہیں کرسکتا۔ (مسلم)

خلاصۂ کلام

اللہ نے مخلوق کو بے مقصد پیدا نہیں فرمایا، بلکہ حلال و حرام، اور جائز و ناجائز کے اصولوں کا پابند کیا ہے، ہم اس کے بندے ہیں، اس کی حدود میں زندگی گزارنے کے پابند ہیں، انہی حدود و قیود کا جاننا علمِ فقہ کی غرض و غایت ہے یہی ہماری تخلیق کا مقصد ہے، اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی ہے۔