ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ

وطنِ عزیز میں دیگر متعدد دینی و مذہبی مسائل کی طرح شب برأت (شعبان المعظم کی پندرھویں رات) کے قیام (عبادت گزاری اور شب بیداری) کا مسئلہ بھی افراط و تفریط کا شکار ہے۔ بعض لوگ اسے بالکل بے اصل، بے بنیاد اور بدعت تصور کرتے ہیں جبکہ بعض طبقات نے اسے عملی طور پر لازم بلکہ فرض و واجب کا درجہ دے رکھا ہے۔ جس کے لیے بڑے اخراجات کا انتظام و انصرام اور اہتمام ضروری سمجھا جاتا ہے پھر اس اہتمام میں بعض مذہبی رسوم بھی اس موقع کا لازمی حصہ بن گئی ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں شبِ برأت کی فضیلت اور اس کی شرعی حیثیت کو بیان کیا جا رہا ہے:

بعض مقامات و اوقات کی فضیلت کا مسئلہ

قرآن و حدیث کی تصریحات اور علماء اسلام کی توضیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مقامات (زمین، مکان، جگہ) اور اوقات (زمانہ، وقت، دن، رات) اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے برابر ہیں اور اپنی ذات کی حد تک ایک جگہ کو دوسری جگہ پر اور ایک وقت کو دوسرے وقت پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ تاہم کسی مخصوص مقام یاجگہ پر کوئی اہم یادگار اور تاریخی واقعہ رونما ہونے، اس جگہ پر کوئی خاص عمل سر زَد ہونے یا اس جگہ کے کسی عظیم شخصیت کی طرف منسوب اور اس سے قریبی تعلق ہونے کی بنا پر اس مقام و جگہ کو دیگر مقامات کے مقابلے میں ایک خاص عظمت اور تقدس حاصل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ایک ہی علاقے اور آبادی میں بازار اور رہائشی مکانات کے مقابلے میں مساجد اور عبادت گاہوں کے لیے مختص جگہوں، اسی طرح مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، بیت المقدس، حرمین شریفین، بیت اللہ، مقامِ ابراہیم، صفا و مروہ، منیٰ، مزدلفہ، عرفات، غارِ حرا، غارِ ثور، مقامِ بدر، مقامِ احد، جنت البقیع، روضۃ الجنہ اور روضۃ الرسول ﷺ کو شرعی اعتبار سے جو ایک عظمت اور تقدس حاصل ہے تو وہ درج بالا اصول کی بنیاد پر ہی ہے۔ اسی اصول کے مدنظر علماء نے مزارِ نبوی ﷺ میں زمین کے اس ٹکڑے یا حلقے کو تمام زمین و آسمان ہی نہیں، عرش سے بھی افضل قرار دیا ہے جو جسد نبوی ﷺ کو مَس کررہا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ملا علی قاری، باب المساجد و مواضع الصلوۃ، 2/190)

یہی معاملہ اوقات/ زمانہ کا ہے۔ عام دنوں کے مقابلہ میں یوم جمعہ، یوم النحر، یوم العیدین، ایام الحج، عشرہ ذی الحجہ، ماہ رمضان، لیلۃ القدر وغیرہ کو اس لیے عظمت حاصل ہے کہ یہ ایام اور راتیں خاص عبادات، نزولِ قرآن اور مخصوص اعمال کے لیے مختص ہیں۔

شبِ برأت کی عظمت

ان مخصوص، عظیم، بابرکت اور رحمتِ الہٰی کے لیے خاص راتوں میں ایک رات شعبان المعظم کی پندرھویں شب بھی ہے۔ جسے عربی میں ’’لیلۃ البراء ۃ‘‘ اور فارسی میں ’’شب برأۃ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی وہ بابرکت رات جس میں اللہ کریم بطورِ خاص اپنے گناہگار بندوں کی مغفرت فرماتا اور انہیں جہنم کی آگ سے بری فرماتا ہے۔

علامہ ابن الحاج مالکی (م 737ھ) شب برأت کی عظمت، خصوصیت اور فضیلت و بزرگی کے بارے سلف صالحین کی عمومی سوچ اور طرز عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ولا شک انها لیلة مبارکة عظیمة القدر عنداللّٰه تعالٰی...وکان السلف رضی اللّٰه عنهم یعظمونھا ویشمرون لها قبل اتیا نها فما تأتیهم الاوهم متاھبون للقائها والقیام بحرمتھا. (ابن الحاج، المدخل، 1/292)

’’اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ یہ رات (شب برأت) برکت والی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی قدرو منزلت والی ہے۔۔۔ اور ہمارے اسلافl اس رات کی بڑی تعظیم کرتے تھے، اس کی آمد سے قبل ہی اس کے لیے (ذہنی و عملی) تیاری کرتے تھے، چنانچہ جب یہ مبارک رات آتی تو اس کی ملاقات اور اس کی حرمت بجا لانے کے لیے مستعد ہوتے تھے۔‘‘

عمومی مغفرت کی رات

شب برأت کی ایک خصوصیت اور برکت یہ بھی ہے کہ یہ عمومی مغفرت و رحمتِ الہٰی کی رات ہے۔ اس رات رحمتِ الہٰی کا دریا جوش میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عام مغفرت فرماتا ہے، جس کی تائید درج ذیل روایات سے ہوتی ہے:

عن عائشة قالت فقدت رسول اللّٰه ﷺ لیلة فخرجت فاذا ھو بالبقیع فقال اکنت تخافین ان یحیف اللّٰه علیک ورسوله، قلت یارسول اللّٰه ظننت انک اتیت بعض نساء ک، فقال ان اللّٰه تعالٰی ینزل لیلة النصف من شعبان الی سماء الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب. (جامع ترمذی، باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان)

یہ حدیث الفاظ کے قدرے اختلاف اور کمی بیشی کے ساتھ سنن ابن ماجہ میں بھی منقول ہے۔ (ابن ماجہ، السنن، ابواب ماجاء فی قیام شہر رمضان، باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان)

ان روایات کو سامنے رکھ کر ذیل میں ترجمہ درج کیا جارہا ہے:

’’سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو (اپنے حجرہ سے) گم پایا تو میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکل پڑی۔ تو (مَیں نے دیکھا کہ) آپ ﷺ جنۃ البقیع (قبرستان) میں اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے (دعا کررہے) ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (مجھے دیکھ کر) فرمایا: کیا تمہیں اس بات کا خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ تمہارے اوپر ظلم (ناانصافی) کریں گے۔ مَیں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے گمان کیا کہ آپ (شاید) اپنی کسی دوسری زوجہ محترمہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ بات نہیں بلکہ) بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب کو (اپنی شان کے مطابق بندوں پر کرم فرماتے ہوئے) آسمانِ دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ اپنے (مومن) بندوں کی مغفرت فرمادیتا ہے۔‘‘

صاحبِ مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ امام رزین نے اسی روایت میں ’’ممن استحق النار‘‘ کا اضافہ بھی کیا ہے، یعنی یہ بخشے جانے والے خوش قسمت، ان لوگوں میں سے ہوتے ہیں جو اپنی بداعمالیوں کے سبب دوزخ کی آگ کے مستحق بن چکے ہوتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، باب قیام شہر رمضان)

بعض دوسرے محدثین نے درج بالا روایت میں کچھ مزید تفصیل بھی بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات کا جواب دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ جبرائیلeنے آکر مجھے بتایا کہ آج شب اللہ تعالیٰ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ آدمیوں کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ البتہ:

لا ینظر اللّٰه فیها الی مشرک ولا الی مشاحن ولا الی قاطع رحم ولا الی مسبل ولا الی عاق والدیه ولا الی مد من خمر. (ابن ماجه، السنن، ابواب ماجآء فی قیام شهر رمضان، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)، (مشکوٰۃ المصابیح، باب قیام شهر رمضان) (مجمع الزوائد منبع الفوائد، باب ماجآء فی الشحن)

’’اللہ تعالیٰ اس (رحمت بھری رات) میں بھی نظر کرم نہیں فرماتا کسی مشرک کی طرف، نہ کینہ پرور کی طرف، نہ قطع رحمی کرنے والے کی طرف، نہ تکبر سے چادر ٹخنوں سے نیچے گھسیٹنے والے کی طرف، نہ والدین کے نافرمان کی طرف اور نہ عادی شرابی کی طرف‘‘۔

اس کے بعد آپ ﷺ نے مجھ (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) سے فرمایا: کیا تم مجھے آج رات قیام (عبادت گزاری، شب بیداری) کی اجازت دیتی ہو؟ میں نے عرض کیا: ہاں۔ آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ اس کے بعد آپ ﷺ (نماز کے لیے) کھڑے ہوگئے پھر اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے گمان ہوا کہ آپ ﷺ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی ہے۔ اسی شبہ کے مدنظر میں نے آپ ﷺ کے قدمین مبارک کو چھوا تو آپ ﷺ نے قدموں کو حرکت دی جس سے میں خوش ہوگئی۔ اس وقت میں نے سنا کہ آپ ﷺ سجدہ میں یہ دعاپڑھ رہے تھے:

اعوذ بعفوک من عقابک، واعوذ برضاک من سخطک، واعوذبک منک جل وجهک لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک.

(شعب الایمان، باب، ماجاء فی لیلة النصف من شعبان، 3/384)

عام عطائے الہٰی کی رات

اس رات کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ عام عطائِ الہٰی کی رات ہے۔ خود اللہ کریم کی طرف سے عطا و بخشش کا اعلان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰg کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلها وصوموا یومھا فان اللّٰه تعالیٰ ینزل فیها لغروب الشمس الی السماء الدنیا فیقول الا من مستغفرلی فاغفرله، الا مسترزق فارزقه الا مبتلی فاعافیه الا کذا الا کذا حتی یطلع الفجر. (ابن ماجه، السنن، ابواب ماجآء فی قیام شهر رمضان باب، ماجآء فی لیلة النصف من شعبان)

’’جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو اس رات کو قیام (عبادت) کرو اور ا س سے اگلے دن روزہ (نفلی) رکھو کیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے وقت سے ہی آسمان دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) نزول فرماتے ہیں، پھر یہ اعلان فرماتے ہیں: ہے کوئی مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کے گناہ معاف کردوں۔۔۔ ہے کوئی رزق کا طلبگار کہ اسے رزق عنایت کردوں۔۔۔ ہے کوئی مصیبت و بیماری میں مبتلا آدمی کہ اسے عافیت عطا کردوں۔۔۔ ہے کوئی یہ چیز مانگنے والا، ہے کوئی یہ چیز مانگنے والا کہ اسے عطا کردوں۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔‘‘

یہ اعلان عام راتوں کے برعکس ہے، اس لیے کہ ویسے تو اللہ کریم ہر رات آسمانِ دنیا پر نزولِ رحمت فرماتا ہے مگر یہ نزول رات کے پچھلے پہر ثلث اللیل الآخر (رات کے آخری تہائی حصے) میں ہوتا ہے اور پھر اعلان فرماتا ہے کہ من یدعونی فاستجیب لہ، من یسألنی فاعطیتہ، من یستغفرنی فاغفرلہ) ’’کون ہے جو اس وقت مجھ سے دعا کرے کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔۔۔ کون مجھ سے سوال کرے گا کہ میں اسے (اس کی مطلوبہ چیز) عطا کردوں۔۔۔ کون مجھ سے مغفرت کا طلب گار ہے کہ میں اس کی مغفرت فرمادوں۔‘‘ (متفق علیہ)

اسی طرح حضرت عثمان بن ابی العاصg نبی رحمت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

اذا کان لیلة النصف من شعبان نادی مناد ھل من مستغفر فاغفر له ھل من سائل فاعطیه فلا یسال احد شیئا الا اعطی الا زانیة بفرجها او مشرک.

(شعب الایمان، باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان، 3/383)

’’جب شعبان کی پندرھویں رات ہوتی ہے تو (اللہ کی طرف سے) ایک منادی یہ ندا (آواز) دیتا ہے کہ ہے کوئی گناہوں سے مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں، ہے کوئی سائل کہ میں (آج رات) اسے عطا کردوں۔ چنانچہ جو آدمی جو کچھ بھی مانگتا ہے، اسے عطا کردیا جاتا ہے، سوائے بدکار عورت اور مشرک آدمی کے۔‘‘

شب برأت میں اہم امور کے فیصلے

احادیثِ نبوی ﷺ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ اللہ کریم نے لیلۃ القدر کو جو قرآنی نص کے مطابق ’’خیر من الف شہر‘‘ (ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر) ہے، اپنی بعض حکمتوں اور تکوینی مصلحتوں کے تحت رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں چھپا دیا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، باب لیلۃ القدر) مگر شب برأت کے معاملے میں یہ خصوصی کرم فرمایا ہے کہ اسے عظمت و فضیلت اور برکت عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ اس کا تعین بھی فرمادیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی زبانی لوگوں کو بتادیا گیا کہ ہر آدمی کے متعلق آئندہ سال بھر کے اہم فیصلے اسی رات میں ہونا ہیں، لہذا اس رات میں بارگاہ الہٰی کے اندر جتنا رونا اور گڑگڑانا ہے گڑگڑالو، اللہ کو جتنا مناسکتے ہو منالو، تمام فیصلوں کو فائنل کرنے والی وہی ذات ہے۔ اپنے رزق بڑھانے، عمر میں برکت، مصائب و مشکلات سے نکلنے اور بداعمالیوں کے باعث اپنی بدبختی کو سعادت مندی میں بدلنے کی جتنی دعا کرسکتے ہو، کرلو۔ آج رات اس کی رحمت و مغفرت کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔

چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (ایک مرتبہ) مجھ سے پوچھا: کیا تم جانتی ہو کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویں رات میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ (آپ ہی بتادیجئے) اس میں کیا ہوتا ہے۔ فرمایا:

اس رات میں آئندہ سال میں بنی آدم کے ہر مولود کا نام لکھ دیا جاتا ہے (یعنی لوحِ محفوظ سے لکھ کر قضاء و قدر پر مامور ملائکہ کے سپرد کردیا جاتا ہے۔) نیز اس رات میں آئندہ سال کے اندر ہر مرنے والے کا نام بھی لکھ (ملائکہ کے سپرد کر) دیا جاتا ہے اور (اسی طرح) اس رات میں لوگوں کے (سال بھر کے) اعمال (بارگاہِ الہٰی کی طرف) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں۔‘‘

(مشکوٰة المصابیح، باب قیام شهر رمضان)

مشہور تابعی حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتی ہے تو (اللہ کی طرف سے) ایک فہرست ملک الموت کے سپرد کی جاتی ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کا نام اس صحیفہ میں درج ہے، ان کی روحوں کو قبض کرنا۔ چنانچہ ایک بندہ درخت لگا رہا ہوتا، یا کھیتی باڑی کررہا ہوتا، کوئی نکاح کررہا ہوتا اور کوئی مکان بنانے میں مصروف ہوتا ہے، حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ (عبدالرزاق، مصنف، رقم الحدیث: 7925)

اسی سے ملتی جلتی ایک روایت عثمان بن محمد بن المغیرہ بن الاخنس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کی عمر ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کردی جاتی ہے، یہاں تک کہ ایک آدمی شادی کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں داخل ہوچکا ہوتا ہے۔ (الطبری، جامع البیان۔۔۔، 13/141)

احکام میں ایک شرعی اصول و ضابطہ

شب برأت کے قیام (عبادت گزاری اور شب بیداری) کے لیے جو طریقِ کار ہمارے ہاں عام طور پر مروّج ہے اس میں بعض ایسی چیزیں داخل ہوگئی ہیں جن میں عموماً شرعی حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اصولی چیز یہ ہے کہ شریعت نے جس حکم کو جس درجے (فرض، واجب، سنت، مستحب وغیرہ) میں رکھا ہے، اسے اسی درجہ پر رکھا جائے۔ فقہائِ اسلام نے شرعی احکام کی جو درجہ بندی کی ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ اس درجہ کا اعتقادی اور عملی طور پر لحاظ رکھا جائے۔ اسی طرح شریعت نے ہر کام کی کچھ شرعی حدود مقرر کردی ہیں۔ ان حدود میں تجاوز کو کسی بھی لحاظ سے اللہ رب العزت، رسول اللہ ﷺ یا دین سے محبت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نبیِ رحمت ﷺ نے اس شرعی اصول کی وضاحت یوں فرمائی ہے:

ان اللّٰه فرض فرائض فلا تضیعوھا، وحرم حرمات فلا تنتھکوھا وحد حدوداً، فلا تعتدوھا وسکت عن اشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنها.

(مشکوة المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنة)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض متعین کردیئے ہیں پس انہیں ضائع نہ کرنا اور کچھ چیزیں اس نے حرام قرار دے دی ہیں تو ان کی حرمت پامال نہ کرنا اور کچھ (چیزوں کی) حدود طے کردی ہیں، ان سے تجاوز نہ کرنا اور کچھ چیزوں سے بغیر بھولے (عمداً اور مصلحتاً) خاموشی اختیار فرمائی ہے (ان کا حکم بیان نہیں فرمایا) تو خواہ مخواہ ان کی کرید نہ کرنا۔‘‘

شب برأت کا قیام مستحب ہے نہ کہ واجب

شب برأت کے قیام (عبادت گزاری) کے سلسلے میں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے مروی روایت میں یہ بات گزر چکی ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا:

قوموا لیلها وصوموا یومها.

’’اس رات کو قیام کرو اور اس سے اگلے دن روزہ رکھو۔‘‘

مگر یہاں امر کا صیغہ عام اصولی قاعدہ کے مطابق امر کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔ اسی لیے فقہا نے کہا ہے کہ اس رات میں قیام اور شب بیداری مندوب و مستحب کے درجہ میں ہے۔ چنانچہ امام شافعیؒ (م: 204ھ) فرماتے ہیں:

بلغنا انه کان یقال ان الدعاء یستجاب فی خمس لیال فی لیلۃ الجمعۃ ولیلۃ الاضحی ولیلۃ الفطر واول لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من شعبان.

’’ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ (دورِ صحابہ و تابعین میں) کہا جاتا تھا کہ پانچ راتوں میں دعا قبول ہوتی ہے، جمعہ کی رات، عیدالاضحی کی رات، عیدالفطر کی رات، رجب کی پہلی رات اور پندرھویں شعبان کی رات میں۔‘‘

بعد ازیں صحابہ کرامl و تابعین رحمہم اللہ کا عید کی شب دعا کا معمول ذکر کرنے کے بعد امام شافعیؒ لکھتے ہیں:

وانا استحب کل ماحکیت فی هذه اللیالی من غیر ان یکون فرضا.

(کتاب الام،کتاب صلوٰة العیدین، العبادة لیلة العیدین، 1/231)

’’مذکورہ راتوں کے متعلق جو کچھ میں نے بیان کیا ہے، میں اسے مستحب سمجھتا ہوں نہ کہ فرض۔‘‘

اسی طرح علامہ ابن نجیم حنفیؒ (م: 970ھ) فرماتے ہیں:

ومن المندوبات احیاء لیالی العشر من رمضان ولیلتی العیدین ولیالی عشر ذی الحجة ولیلة النصف من شعبان کما وردت به الاحادیث وذکرھا فی الترغیب والترهیب مفصلة. (ابن نجیم، البحرالرائق شرح کنزالدقائق، باب الوتر والنوافل، 2/56)

’’اور رمضان المبارک کی آخری دس راتوں، عیدین کی راتوں، ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں اور (اسی طرح) شعبان کی پندرھویں رات (شب برأت) کو زندہ کرنا (ان میں شب بیداری اور عبادت کرنا) مندوبات (مستحبات) میں سے ہے۔‘‘

کسی امر کا مستحب ہونا اس کی اہمیت سے انکار نہیں ہے

یہاں اس امر کی وضاحت بے جانہ ہوگی کہ شرعی اعتبار سے اگرچہ کسی مستحب کے تارک پر گناہ، عتاب اور عذاب نہیں تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسے کوئی اہمیت ہی نہ دی جائے، کیونکہ مستحب کے لفظ کا مادہ اشتقاق ’’حُب‘‘ ہے جس کے معنی ’’محبت‘‘ کے ہیں۔ لہذا مستحب عمل وہ ہے جس پر عمل کرنے سے آدمی، اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ اب جس عمل سے کسی آدمی کو اللہ کریم کی محبت حاصل ہوجائے تو اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے۔ بعض لوگ مستحبات کو ہلکا سمجھتے ہوئے محض اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ فرض و واجب تو نہیں۔ انہیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ جو عمل شرعی اعتبار سے مستحب ہے وہ اگرچہ فرض و واجب تو نہیں مگر مستحب تو بہر کیف ہے اور مستحب عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ چھوڑنے کے لیے۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ مستحبات چھوڑنے کے لیے ہوتے ہیں۔ مستحبات پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا تقاضا اور محبتِ الہٰی کا حق ہے۔

شبِ برأت میں کوئی خاص عبادت متعین نہیں

شب برأت میں عبادت کے لیے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ کی روایت ’فقوموا لیلہا وصوموا یومہا‘ کی نوعیت بتاتے ہوئے علامہ شرنبلالیؒ فرماتے ہیں:

ومعنی القیام ان یکون مشتغلا معظم اللیل وقیل بساعة منه یقرا او یسمع القرآن او الحدیث او یسبح او یصلی علی النبی ﷺ.

(شرنبلالی، مراقی الفلاح، شرح نورالایضاح مع حاشیہ طحطاوی)

’’اور شب برأت میں قیام کا مطلب یہ ہے کہ رات کے زیادہ تر حصے میں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ کم از کم کچھ وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے، قرآن مجید سننے یا حدیثِ نبوی سننے یا تسبیح پڑھنے یا نبی پاک ﷺ پر درود بھیجنے میں (اپنے ذوق کے مطابق) مصروف رہے۔‘‘

آتش بازی کی ممانعت

شب برأت کے موقع پر آتش بازی، پٹاخے وغیرہ کا بھی شرعی اعتبار سے اس رات سے کوئی تعلق نہیں۔ شبِ برأت کی فضیلت و برکت میں وارد احادیث اور متعلقہ مسائل و احکام کے بارے میں اقوالِ فقہا کے اندر بھی کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی۔ اصولی طور پر یہ سب چیزیں اسراف اور بلا ضرورت اتلافِ مال کے زمرے میں آتی ہیں جسے شریعت ناجائز قرار دیتی ہے۔ یہ رسومات شاید ہندو معاشرت کے باعث ہمارے معاشرے میں دَر آئی ہے۔ چنانچہ ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:

قیل و اوّل حدوث الوقید من البرامکة فکانوا عبدة النار فلما اسلموا ادخلوا فی الاسلام مایموھون انہ من سنن الدین ومقصودہم عبادة النیر ان حیث رکعوا وسجدوا مع المسلمین الی تلک النیران ولم یات فی الشرع استحباب زیادة الوقید علی الحاجة فی موضع. (مرقاة المصابیح)

’’کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے چراغاں اور آتش بازی کا سلسلہ برمکیوں (عباسی خلفاء کے وزراء) نے شروع کیا، وہ آگ کے پجاری تھے، مگر جب اسلام لے آئے تو اپنے خیال کے مطابق جس چیز کو دین کا طریقہ سمجھتے تھے، اسے اسلام میں داخل کردیا اور اس سے ان کا مقصود آگ کی پوجا تھی کہ اس طرح مسلمانوں کے ساتھ اس آگ کی طرف رکوع و سجود کرکے اس کی عبادت کریں گے۔‘‘