مدارسِ دینیہ اور عصرِ حاضر کے تقاضے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

حصہ اول

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.

’’فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘

(الزمر، 39: 9)

امتِ مسلمہ کے وسیع تر عالمی دائرے کے اندر رہتے ہوئے دینِ اسلام کے تشخص کے بعد ہماری اعتقادی پہچان اور عقیدہ کی جہت سے شناخت ’’اہل السنہ والجماعۃ‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام شناختیں اپنی اپنی خصوصیت کے مطابق چھوٹے دائروں میں ہیں۔ ’’اہل السنہ والجماعہ‘‘ کا عنوان دو الفاظ سے تشکیل پاتا ہے:

  1. السنہ
  2. الجماعۃ

یہ دونوں الفاظ اپنے خاص مفاہیم و مرادات کا تعین اور نشاندہی کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ سے ان الفاظ کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ج وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ.

’’اور یہ کہ یہی (شریعت) میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس کی پیروی کرو اور (دوسرے) راستوں پر نہ چلو پھر وہ (راستے) تمہیں اﷲ کی راہ سے جدا کر دیں گے۔‘‘

(الانعام، 6: 153)

آیتِ مبارکہ میں مذکور ’’صراطی مستقیما‘‘ کے الفاظ سے ’’السنہ‘‘ کی اصطلاح کا استنباط ہوتا ہے۔ مفسرین نے ’’صراطی‘‘ کی نسبت ’’صراط اللّٰہ‘‘ اور صراطِ سیدنا محمد ﷺ دونوں کی طرف کی ہے۔ پس صراطِ الہٰی اور صراطِ نبوی ﷺ یعنی قرآن و سنت ایک ہی راستہ ہے۔ ’’السنہ‘‘ کے مفہوم میں اللہ کا بھیجا ہوا قانون، دستور، طریق اور ہدایت سب شامل ہیں اور ’’صراطی مستقیما‘‘ کے الفاظ قرآن و سنت دونوں کو محیط ہیں۔

صراطی مستقیما کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: ’’فَاتَّبِعُوْهُ‘‘ اس کی اتباع کرو۔ گویا راہ متعین کردیا۔ اس راہ کا تعین ’’اہل السنہ والجماعہ‘‘ کی اصطلاح میں موجود لفظ ’’السنہ‘‘ کے ذرریعے ہوتا ہے۔

ہمارے مسلک کے عنوان کا دوسرا لفظ ’’الجماعہ‘‘ اجتماعیت کے مفہوم کو سموئے ہوئے ہے۔ اجتماعیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

وَلاَ تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ ’’اور (دوسرے) راستوں پر نہ چلو۔‘‘

اللہ نے جب اپنا راستہ بتایا تب صیغہ واحد ’’صراطی‘‘ استعمال کیا، یعنی واضح کردیا کہ سچا، سیدھا اور حق و صداقت کا راستہ ایک ہی ہے، اسی کی طرف چلو اور اسی کی پیروی کرو مگر جب اس راستے کے بارے میں بات کی جس پر چلنے سے طریق السنہ سے ہٹ جاؤ گے تو اس کے لیے السبل (راستے) صیغہ جمع استعمال کیا، یعنی وہ راستے بہت سے ہیں۔ کوئی کھینچ کر دائیں طرف لے جائے گا، کوئی بائیں طرف لے جانے کی کوشش کرے گا، یہ بہت سے راستے ہوں گے مگر ’’ولا تتبعوا السبل‘‘ ان پر مت چلو۔ کیوں؟ اس لیے کہ ’’فتفرق بکم عن سبیلہ‘‘ ان راہوں پر چلو گے تو یہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ یعنی ’’صراط مستقیم‘‘ سے جدا کردیں گے۔

یہاں دوبارہ تاکیداً ’’سبیلہ‘‘ صیغہ واحد استعمال کیا، یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا دیا ہوا راستہ ایک ہی راستہ ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنے راستے ہیں، وہ تمہیں اس حق و ہدایت کی راہ سے ہٹادیں گے اور اللہ کی راہ سے جدا کردیں گے۔

اللہ رب العزت نے ’’صراطی مستقیما‘‘ کی وضاحت سورہ الفاتحہ میں بھی ’’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم‘‘ کے الفاظ کے ذریعے فرمائی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ سیدھی راہ کون سی ہے جس کے ساتھ ہدایت کو مشروط اور مقرون کردیا گیا؟ اس سیدھی راہ کو متشخص اور متعین کرنے کے لیے فرمایا:

’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ‘‘.

’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔‘‘

سورۃ الفاتحہ میں اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی راہ صراطِ مستقیم کو قرار دے کر اللہ رب العزت نے صراطِ مستقیم کے ٹائٹل کو شخصیاتِ مقدسہ کے ساتھ متعین کردیا۔

مدارسِ دینیہ کے قیام کے مقاصد

صراطِ مستقیم اور شخصیاتِ مقدسہ کے اس تعلق کو بیان کرنے کا مقصد مدارسِ دینیہ کے قیام کے اغراض و مقاصد کو واضح کرنا ہے کہ جو لوگ مدارسِ دینیہ سے پیدا ہوں گے، یا پیدا ہوتے ہیں، یا صدیوں سے پیدا ہوتے رہے ہیں اور آئندہ صدیوں میں پیدا ہوتے رہیں گے، انہیں تعلیم و تربیت کا ایک ایسا نظام چاہیے، جو انھیں اُن برگزیدہ و مقدس شخصیات کے دائرے میں لاسکے جنھیں اللہ رب العزت نے ’’صراط المستقیم‘‘ کے مشخص عنوان کے طور پر پیش کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہِ ہدایت ایک ہی راہ ہے۔۔۔ اس راہ کی پہچان اللہ کے انعام یافتہ بندوں سے ملے گی۔۔۔ اور یہ بندے علم و عمل اور صالحیت کی حامل ایسی مقدس شخصیات ہوں گی جن پر میرا انعام اترے گا۔۔۔ اور میرے انعام یافتہ یہ بندے ایسے ہوں گے کہ جو ان کی راہ پر چلے گا، وہ بھی ایسے ہوگا جیسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مقررہ کردہ راہ پر چل رہا ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نظامِ تعلیم و تربیت میں ایسے نصاب، ماحول، تقاضے اور سرگرمیوں کا انتظام و انصرام کریں کہ جس سے ’’اہل السنہ والجماعۃ‘‘ کے ٹائٹل کے مطابق اہل افراد ان جگہوں سے تیار ہوسکیں۔

صراطِ مستقیم کے حامل افراد کی تیاری کے مراکز اور موجودہ صورت حال

اس وقت دنیا میں کوئی مرکز اور مقام ایسا نہیں ہے جہاں سے ان خصوصیات کے حامل ان افراد کو پیدا کیا جاسکے جو اللہ کے انعام یافتہ بندے کہلائیں۔۔۔ جن کے ذریعے صراط مستقیم کا تشخص اور تعین عمل میں آئے۔۔۔ جو صراطِ مستقیم کی پہچان بن سکیں۔۔۔ اور اگر کوئی بھی علم، عمل، فکر، اخلاق، سیرت و کردار، فہم، تفکر و تدبر، تفقہ اور معاملہ میں کسی بھی زمانے اور ماحول کے مطابق صراطِ مستقیم کا عنوان جاننا چاہے تو اسے وہ ان شخصیات کی شکل میں نظر آئے۔

آقا علیہ السلام  نے جب مسجدِ نبوی ﷺ سے نظامِ تعلیم و تربیت کا آغاز فرمایا تو اس مرکز کے بیک وقت تین پہلو تھے:

  1. مسجد
  2. مدرسہ
  3. خانقاہ

یعنی مسجدِ نبوی ﷺ بیک وقت عبادت گاہ، درسگاہ اور تربیت گاہ تھی۔ مسجدِ نبوی ﷺ اور صفہ چبوترہ دونوں ایک ہی احاطے میں تھے۔ یہاں سے جو لوگ تعلیم و تربیت سے بہرہ یاب ہوکر نکلے وہ صراطِ مستقیم کا عنوان اور پہچان بنے ۔

ایسے افراد کی تیاری کیونکر ممکن ہے جو صراطِ مستقیم کی پہچان بن سکیں؟ اس کے لیے ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں نظامِ تعلیم کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ نظامِ تعلیم کے عناصر میں نصاب، ماحول، اساتذہ، طلبہ اور نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں شامل ہیں۔ نظامِ تعلیم کے ان تمام عناصر کا مرکزی نقطہ ’’شخصیت سازی‘‘ ہے کہ کسی نظامِ تعلیم و تربیت سے ہر حوالے سے کامل شخصیت تشکیل پائے۔ مسجد، مدرسہ، خانقاہ، درس گاہ، تربیت گاہ، ان تمام کا مقصود ایک ایسی شخصیت تشکیل دینا ہے جو آج کے زمانے، نسل، معاشرے اور طالبانِ حق و ہدایت کو درکار ہے۔

سوال یہ ہے کہ جو شخصیات ہمیں مسجد، مدرسہ اور خانقاہ کی صورت میں قائم تعلیم و تربیت کے مراکز سے درکار ہیں، کیا ان اداروں سے وہ شخصیات وجود میں آرہی ہیں یا نہیں؟ اگرچہ سو فیصد نہیں مگر کسی ممکنہ حد تک صراط مستقیم اور الذین انعمت علیہم کا نمونہ اور پہچان کی حامل ایسی شخصیات اگر ان مراکز سے تشکیل پارہی ہیں تو گویا ہم صحیح سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہمارا فوکس ٹھیک ہے لیکن اگر ان مراکز سے ایسی شخصیات وجود میں نہیں آرہیں جو ان مراکز کے قیام کا مقصد ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں کوئی نقص (Fault) ہے جسے ہمیں تلاش کرنا ہے۔

اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت میں مسجد، مدرسہ اور خانقاہ نے قرونِ اولیٰ میں شخصیت سازی کے کردار کو بحسن و خوبی انجام دیا مگر آج شخصیت سازی میں یہ ادارے اپنے عملی کردار سے محروم ہوچکے ہیں۔

افسوس! آج کے اس زمانے میں خانقاہیں اپنا عملی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ خانقاہیں جس روحانی و اخلاقی تربیت کا ساماں کرتی تھیں، اب وہاں صرف مزارات کی زیارت اور مدفون اولیاء کرام کی ارواحِ مقدسہ سے حصولِ برکت اور حصولِ فیض کا ایک عمل رہ گیا ہے اور وہ بھی اسی صورت میں ہے کہ اگر کسی آدمی کو یہ سمجھ دی گئی ہو اور وہ وہاں سے اکتساب کرسکے۔ یعنی ان روحانی مراکز میں صرف برکات ہیں اور شخصیت سازی کے لیے ان کا کوئی کردار نہیں رہا۔ اس باب کے بند ہونے سے امتِ مسلمہ کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔

اسی طرح دوسرا بڑا اسلامی مرکز مسجد ہے۔ مسجد میں لوگ آتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، وعظ سنتے ہیں، اپنے فرائض ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ افسوس! یہ مرکز بھی شخصیت سازی کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔

خانقاہ اور مسجد کے بعد تعلیم و تربیت کے لیے اب صرف مدارس کی صورت میں ایک ہی مرکز رہ جاتا ہے، جہاں طلبہ اپنی زندگی کے قیمتی ترین آٹھ سال صَرف کرتے ہیں۔ میں نے خود درسیات میں سولہ سال لگائے ہیں اور متعدد اساتذہ سے متعدد اداروں میں پڑھا ہے، اس لیے مجھے علم ہے کہ مدارس میں طلبہ کتنا وقت صَرف کرتے ہیں۔ یکسوئی سے آٹھ سال صرف کرنے کے باوجود بھی اگر طلبہ وہاں سے ہیرا اور گوہر وجوہر بن کر نہ نکلیں تو پھر سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔۔۔؟

میری گفتگو کا مقصد کسی خاص مدارسِ دینیہ، وفاق یا بورڈ کے ساتھ موازنہ، مقابلہ، مسابقہ ہر گز نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر مدارسِ دینیہ کے احوال کا جائزہ لینا اور اس نقص کو تلاش کرنا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے مدارس معاشرے میں کماحقہٗ کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

’’نظام المدارس پاکستان‘‘ کا قیام

ان حالات میں سر زمینِ پاکستان میں اسلامی مدارس کی تاریخ کا ایک نیا باب ’’نظام المدارس پاکستان‘‘ کے ذریعے رقم ہونے جارہا ہے اور ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ’’نظام المدارس پاکستان‘‘ کے حصول کے لیے ہم نے کوئی تگ و دو اور کاوش نہیں کی اور نہ ہی کوئی خواہش تھی۔ ہم تو جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی طرز پر جاری اپنے منہج و اسلوبِ تعلیم و تربیت کو فروغ دینے کے لیے منہاج ایجوکیشن سٹی کے نام سے ’’مدینۃ العلم‘‘ یعنی ایک پورا شہرِ علم بسانے میں مصروفِ عمل تھے، جس کا اعلان چھ سال قبل کیا تھا اور اب ہم الحمدللہ اس منزل کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں۔ ہم تو ان خطوط پر اپنے کام کو آگے بڑھانے اور توسیع دینے میں کوشاں تھے کہ یہ ذمہ داری گھر میں بیٹھے بٹھائے ہمارے کندھوں پر آگئی۔

ہم کئی دن سوچتے رہے کہ اس ذمہ داری کو قبول کریں یا نہ کریں؟ اس لیے کہ اس راستے میں آنے والی کئی مشکلات بھی ہمارے پیشِ نظر تھیں۔ بالآخر اللہ کی توفیق سے یہ فیصلہ ہوا کہ اس ذمہ داری کو حضور ﷺ کے دین کی خدمت کے تناظر میں قبول کیا جائے۔ اس لیے کہ جب ’’نظام المدارس‘‘ کے تحت آنے والے طلبہ کی شخصیت و کردار سازی اور علم و عمل میں اضافہ کے لیے کاوشیں کی جائیں گی تو یہی طلبہ کل علماء اور حضور ﷺ کے خلفاء و نائبین بنیں گے اور پھر ان کے ذریعے معاشروں کو رہنمائی ملے گی۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر اس ذمہ داری کو قبول کرلیا گیا۔

یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ تمام وفاق خواہ وہ اہلسنت مکتبہ فکر کے ہیں یا دیوبند، سلفی، اہل حدیث، شیعہ اور دیگر وفاق یا بورڈز ہیں، قطعی طور پر ہمارا کسی کے ساتھ کوئی مقابلہ، موازنہ اور مسابقہ نہیں ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے تمام رفقاء و کارکنان بھی یہ بات سن لیں کہ دیگر بورڈز کے ساتھ موازنہ، مقابلہ اور مسابقہ کی کسی بات کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دینا کلیتاً ممنوع ہے۔ ہم ہمیشہ کی طرح مثبت انداز میں امت، نسلوں اور عوام کو اس ضمن میں بھی کچھ نہ کچھ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

کون کیا کررہا ہے اور کون کیا نہیں کررہا۔۔۔؟ کون کامیاب ہے اور کون ناکام ہے۔۔۔؟ کون ڈیلیور کرسکا ہے اور کون ڈیلیور نہیں کرسکا یا نہیں کررہا۔۔۔؟ ان موضوعات پر جیسے میں نے گزشتہ چالیس سال تک کلام نہیں کیا، اب بھی اس موضوع پر کوئی کلام نہیں کریں گے بلکہ ہم مثبت انداز میں اپنے کام کو جاری رکھیں گے۔

علماء و مشائخ جن سے میرا دیرینہ اور محبت کا رشتہ ہے، ان میں سے کسی کو بھی میں نے فون نہیں کیا کہ آپ اس میں شریک ہوں، اپنی رجسٹریشن کروائیں۔ اس لیے کہ میں چاہتا ہوں کہ میری معروضات کو بڑے احتیاط، انہماک اور توجہ سے سن اور سمجھ لیں، اس کے بعد دین، عقیدہ و مسلک، طلبہ کے اخلاق و سیرت، طلبہ میں تصوف، زہد، ورع، تقویٰ فہم، تفکر اور تدبر کے فروغ، کتاب و سنت کے علوم و فنون میں پختگی اور نئے زمانوں کے فہم و ادراک اور قابلیت و استعداد کے اعتبار سے جسے جہاں بہتری ملے اور جسے ان کی طبیعت زیادہ بہتر سمجھے، وہ فیصلہ کریں۔

ہم کسی دوڑ میں نہیں ہیں بلکہ ہم انسانیت کو کچھ نہ کچھ دینا چاہتے ہیں، ان سے لینا ہمارا مقصود نہیں۔ جو کچھ پہلے ہمارے پاس موجود ہے، وہ بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خیرات ہے اور اب ’’نظام المدارس پاکستان‘‘ کی صورت میں جو نعمت ملی ہے، یہ بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کی عطا و خیرات ہے۔ ’’نظام المدارس پاکستان‘‘ کے تحت اصلاح و تجدید، علمی و فکری وسعت و گہرائی، کردار سازی الغرض جو کچھ ہم سے ہوسکا، ہم کریں گے۔ یہ آقا علیہ السلام  کے دین، آپ ﷺ کی امت اور آپ ﷺ کے علم کی نوکری ہے۔ یہ ائمہ دین و اکابرین کا تسلسل ہے۔ ہم ان اکابرین امت کے چھوٹے ہیں اور ان کی گردِ راہ سے اکتسابِ فیض کرنے والے ہیں اور یہی چیز اگلی نسلوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے اس سسٹم میں جو آئے، وہ ہمارے مقاصد کو ذہن میں رکھ کر سوچ سمجھ کر فیصلہ کرکے آئے کہ ہمیں کس مقصد کو حاصل کرنا ہے اور کن مشکل راستوں کو عبور کرکے منزل کو پانا ہے۔

دینِ اسلام میں شخصیات کی اہمیت

’’نظام المدارس‘‘ پاکستان کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ان مدارس کو درس گاہ بھی بنانا ہوگا اور تربیت گاہ بھی بنانا ہوگا۔ ان میں مسجدِ نبوی ﷺ اور صفہ دونوں کی خوبیوں اور ان کے انوار و تجلیات کو جمع کرنا ہوگا۔ یہ سب تبھی ممکن ہے کہ اگر یہاں سے وہ شخصیات پیدا ہوسکیں جو درکار ہیں۔

شخصیات کی اہمیت ہی کی بناء پر قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر شخصیت پر فوکس کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ.

’’اور (اے نبیِ مکرّم ﷺ!) ہم نے آپ ﷺ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ( ﷺ) لوگوں کے لیے وہ (پیغام اور احکام)خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘۔

(النحل، 16: 44)

اس آیت کریمہ کے چار حصے ہیں:

  1. مخاطب حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔
  2. ’’الذکر‘‘ سے مراد اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔
  3. حضور ﷺ کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ لوگوں پر اللہ کا پیغام واضح کریں۔
  4. نزولِ قرآن کا مقصد تفکر و تدبر ہے۔

اس آیت مبارک میں شخصیت کا ذکر مقدم ہے اور تعلیمات کا ذکر مؤخر یعنی رسول اللہ ﷺ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ’’اِلَیْکَ‘‘ کے ساتھ پہلے کیا اور اپنی کتاب قرآن کا ذکر ’’الذکر‘‘ کے لفظ کے ساتھ بعد میں کیا۔ ان الفاظ سے معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی دور میں کبھی لوگوں کو براہِ راست ہدایات نہیں دیں۔ سنتِ الہٰیہ یہ ہے کہ اس نے تورات، انجیل، زبور، قرآن مجید اور دیگر صحائف کی صورت میں انبیاء و رسل کے ذریعے ہدایات دیں۔ اس نے پہلے شخصیات پیدا کیں اور پھر انہی شخصیات کو اپنے کلام، ذکر، ہدایت اور کتاب کا حامل بنایا۔

ایک قرآنی قاعدہ ہمیشہ ملحوظ رہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی نزولِ قرآن اور نزولِ وحی کا ذکر آئے گا وہاں ہر نبی و رسول کی صورت میں موجود شخصیت کا ذکر مقدم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس نے شخصیت بھیجی پھر اس شخصیت کو کسی معاشرے میں ایک زمانہ تک رکھا، پھر اس نے ان کے اندر علم، سیرت، تدبر، کردار، اخلاق، حلم، فہم اور دیگر خوبیان رکھیں اور پھر معاشرہ میں بحیثیتِ انسان ان کی ایک پہچان کروائی اور انہیں ایک باعزت مقام دیا۔ نبی اور رسول ﷺ کی صورت میں اس شخصیت کو اس قدر نکھارنے کے بعد انہیں اعلانِ نبوت کرنے کا حکم دیا اور ان پر اپنی کتاب،اپنا خطاب، اپنا ذکر اور اپنی وحی نازل فرمائی، یعنی شخصیت پر فوکس کیا۔

پھر اس کے بعد فرمایا: ’’لتبین للناس مانزل الیہم‘‘ کہ آپ لوگوں کو سمجھائیں جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے۔

گویا پہلے اللہ کی کتاب کو وصول کرنے میں بھی شخصیت کا کردار ہے، پھر کتاب کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایات و احکامات کو واضح کرنے اور سمجھانے میں بھی اسی شخصیت کا کردار ہے۔ نزولِ کتاب سے پہلے بھی شخصیت کا ذکر کیا اور پھر لتبین میں بھی شخصیت کا ذکر ہے۔

نصابِ تعلیم تفکر کی صلاحیت پیدا کرے

شخصیت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ’’لعلہم یتفکرون‘‘ یعنی جب اللہ کا نبی، پیغمبر انہیں سمجھائے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ ان میں تفکر پیدا ہو۔ گویا اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کے نزول کا مقصد یعنی غایتِ قرآنی لوگوں میں تفکر و تدبر پیدا کرنا ہے۔

اللہ کی کتاب ہو، اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث و سنت ہو یا علومِ دینیہ کی کوئی کتاب ہو، یہ سب نصاب ہی ہے۔ قرآن بھی نصاب ہے،سنتِ نبویہ ﷺ بھی نصاب ہے اور کتبِ دینیہ بھی نصاب ہیں اور اس نصاب کا مقصد ’’لعلہم یتفکرون‘‘ کے مصداق تفکر و تدبر، فہم، ادراک اور معرفت کا حصول ہے۔ تفکر اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک پورے ماحول کے احوال، کائنات، اپنے نفوس اور انسانی تعلقات کا ادراک پیدا نہ ہو۔ تفکر ایک جامع اصطلاح ہے۔ اللہ رب العزت نے تفکر کو اپنی کتاب قرآن مجید کے نزول کا مقصد قرار دیا ہے۔

اس اسلوب میں ہمارے لیے یہ پیغام ہے کہ دینِ اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے جو بھی نصاب مرتب کیا جائے، وہ نصاب بھی طلبہ میں تفکر و تدبر کی خصوصیت پیدا کرے۔ اس نصاب کے ذریعے ایسی شخصیات پیدا ہوں جو معاشرے تک وضاحت کے ساتھ اصل فہم اور مراد کو پہنچاسکیں۔ ابلاغ ایسا ہو کہ اس زمانے کے لوگوں اور اس پیغام کو پہنچانے والے شخص کے درمیان فہم میں فاصلہ نہ رہے۔لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارے زمانے کے لوگ نہیں کیونکہ یہ ہمارے طریقے سے نہیں سمجھا رہے۔ یعنی سمجھانے والے اور سمجھنے والے کے درمیان فاصلہ مٹ جائے اور عامۃ الناس انہیں ایک الگ طبقہ اور الگ مخلوق کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ یہ انھیں اپنے میں سے نظر آئیں۔

مثلاً: اگر وہ تاجروں، صنعتکاروں، سائنسدانوں، کالج و یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کررہے ہوں یا معاشرے میں دین کی رغبت رکھنے والے یا نہ رکھنے والے انسانوں سے بات کررہے ہوں، تو ان سے ان کے مطابق ہی بات کریں۔ اس لیے کہ ہر سطح کی سوچ والے انسان معاشرے میں بستے ہیں۔ جس طرح معاشرے کے صرف شریف لوگ ہی اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کے مخاطب نہیں ہوتے تھے بلکہ اس دور کے بدمعاش لوگ بھی مخاطب ہوتے تھے۔ ابوجہل، ابولہب وغیرہ یہ اپنے زمانے کے غنڈے، بدمعاش، جابر، قاتل اور اپنی جہالت و ضلالت کے اوپر قائم رہنے والے فرعون صفت لوگ تھے۔ یہ سب اللہ کے نبی کے مخاطب تھے۔ عالم چونکہ اللہ کے نبی کا نائب ہوتا ہے، اس لیے اس کے مخاطب بھی ہمیشہ معاشرے کے ہر طرح کے لوگ ہوں گے۔

اپنی بات کو معاشرے کے لوگوں تک پہنچانے والوں کے بارے میں قرآن مجید میں کہیں ’’منہم‘‘، فرمایا اور کہیں ’’انفسہم‘‘ فرمایا کہ یہ انبیاء ان ہی میں سے ہیں۔ یہ ذکر اس لیے آیا تاکہ افرادِ معاشرہ کو نظر آئے کہ یہ لوگ ہماری جانوں اور ہمارے قبیلے میں سے ہیں۔۔۔ ہمارے خاندانوں اور ہمارے معاشرے میں سے ہیں۔۔۔ وہ ہمیں سمجھتے ہیں اور ہم ان کو سمجھتے ہیں۔۔۔ ہماری بولی، سوچنے کے انداز، اندازِ تخاطب اور معاملات میں فرق نہیں ہے۔۔۔ ہم جدا طبقہ ہیں اور نہ یہ کوئی جدا طبقہ ہے۔۔۔ ہم اور یہ ایک ہی جنس میں سے ہیں اور ہماری طبعی موافقت، معاصرت اور معاشرہ ایک ہے۔ اس اسلوب کو اختیار فرماکر اللہ رب العزت یہ بات سمجھانا چاہتا ہے کہ اس وقت تک خطاب کا ربط نہیں ہوتا اور کوئی چیز منتقل نہیں ہوتی جب تک متکلمین اور مخاطبین میں فاصلہ رہے اور جب تک فاصلہ رہتا ہے تب تک مقصود پورا نہیں ہوتا۔

علماء کی ذمہ داریاں

اللہ رب العزت نے انبیاء کرامf کا تعارف کروایا کہ یہ اس معاشرے کے رہنے والے اور ان ہی میں سے ہیں، اس کے بعد انبیاء کرامf کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:

یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.

’’جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘

(البقره، 2: 151)

ختمِ نبوت ﷺ کے اعلان کے بعد اللہ نے قیامت تک کسی نبی اور رسول کو نہیں بھیجنا، لہذا اب حضور ﷺکی امت میں علماء نے ان نبوی فرائض کو سرانجام دینا ہے۔ علماء کی ذمہ داریوں میں تلاوتِ قرآن مجید، تزکیہ نفس، تعلیم کتاب و حکمت اور ہر طرح کے علمِ نافع کا ابلاغ ہے۔ لہذا یہ چیزیں ان شخصیات میں نظر آنی چاہئیں۔ یعنی ان میں تلاوتِ آیاتِ قرآنیہ کا ذوق بھی ہو اور اس کے انوار و تجلیات اور برکات بھی ان میں دکھائی دیں۔۔۔ تزکیہ نفوس بھی ان میں دکھائی دے۔۔۔ تہذیبِ اخلاق بھی ان میں دکھائی دے۔۔۔ زہد، ورع، تقویٰ اور برتائو بھی ان میں دکھائی دے۔۔۔ صرف علم نہیں چاہیے بلکہ علم کے ساتھ حلم بھی پیدا ہو اور حلم تزکیہ ہی کے ذریعے کسی شخصیت میں آتا ہے، یعنی یہ شخصیات نمونۂ عمل بھی بنیں۔

اسی طرح قرآن و سنت کی صورت میں اللہ کے پیغام کی مراد و منشاء اور مفہوم کی تعلیم و تربیت بھی دیں۔ یہ سارے وظائف حضور ﷺ کی نیابت کی وجہ سے علماء کو انجام دینے ہیں۔ پس مدارس اورمراکز سے ایسی شخصیات پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن میں ان ساری جہات کے ساتھ کچھ نہ کچھ صلاحیت اور استعداد موجود ہو۔

علماء کتاب و نصاب کا عملی پیکر ہوں

قرآن مجید میں جابجا مقصدِ قرآن اور اس کے ابلاغ کے لیے شخصیات کی اہمیت کو واضح فرمایا گیا ہے۔ سورہ الحدید میں ارشاد فرمایا:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ.

’’بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی ۔‘‘

(الحدید، 57: 25)

اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی صورت میں سب سے پہلے شخصیات کو ذکر کیا اور پھر ان کے ساتھ کتاب اور میزان کا ذکر فرمایا۔ گویا کوئی علم، کوئی کتاب، کوئی نصاب اس وقت تک کام نہیں کرتا جب تک اس کتاب و نصاب کو سنبھالنے والی اور اس کے پیغام کو آگے پہنچانے والی شخصیت؛ اس کتاب، علم اور نصاب کے ساتھ مطابقت نہ رکھے اور اس کتاب و نصاب کی جھلک اس شخصیت میں نظر نہ آئے۔ لہذا اگر مدارس دینیہ اس شخصیت کے علم، حکمت، کلام، الفاظ، عمل، سیرت و کردار اور تدبرمیں کتاب و نصاب کی جھلک پیدا نہ کرسکیں تو پھر کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔

آیتِ مبارکہ کے الفاظ ’’لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ‘‘ سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس علم، کتاب اور نصاب کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں توازن اور اعتدال پیدا کریں۔ لازمی بات ہے کہ جب ان صاحبانِ علم و کتاب کی اپنی گفتگو اور عمل میں توازن، اعتدال اور وسعت ہوگی تو تب ہی یہ معاشرے میں توازن اور اعتدال پیدا کرنے کے قابل ہوں گے۔

گویا مدارس اور مراکزِ تعلیم و تربیت بنانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان کے ذریعے ایسے رجال پیدا ہوں جو ’’رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ ‘‘ کے مصداق اللہ کے اس نور کے حامل اسے مردانِ خدا ہوں کہ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہ کرتی ہو، ایسے رجال رجالِ علم بھی ہوں، رجالِ عمل بھی ہوں اور رجالِ حال بھی ہوں، یعنی کامل رجال ہوں۔

(جاری ہے)