اصلاح معاشرہ: سیرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی روشنی میں

ڈاکٹر محمد زہیر احمد صدیقی

زیرِ نظر تحریر میں ہم تاریخِ اسلام کی ایک ایسی عظیم ہستی کی سیرت سے چند جواہر پارے سمیٹ کر قارئین کی نذر کررہے ہیں۔ جنھیں حیدرِ کرار سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلا شبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذاتِ بابرکات میں موجود جملہ صفات مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور جملہ انسانیت کے لیے بالعموم ایسے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں جن کو اختیار کرنے والا معاشرے کا بہترین انسان بن سکتا ہے۔

قارئینِ کرام! حضرت علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کے فضائل احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں بلکہ اہلِ علم نے لکھا ہے کہ آپؓ کے اور آپؓ کی زوجہ جگر گوشۂ رسول ﷺ سیدۂ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا اور آپؓ کے شہزادے امام حسن و امام حسین سلام اللہ علیہما کے فضائل جس کثرت سے احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں، اصحاب و اہلِ بیتِ رسول ﷺ میں سے کسی کے فضائل اس کثرت سے وارد نہیں ہوئے۔ یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم حضرت علیؓ کا نام لینے اور آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کے فضائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی سیرت سے رہنمائی بھی لیں اور آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذاتِ با برکات کے مختلف گوشوں کو بطور رہنما اصول کے اپنائیں، تاکہ ہم پر علوی صفات کا رنگ بھی چڑھے اور بارگاہِ نبوت ﷺ سے خصوصی توجہات اور بارگاہِ الٰہی سے خصوصی تجلیات وعنایات کے مستحق ٹھہریں۔

حضرت ابو طالب کی رحلت کے بعدرسول اکرم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کوچار پانچ سال کی عمر میں ہی اپنی کفالت میں لے لیا۔ یوں آپ نے آغوشِ نبوت میں پرورش و تربیت پائی۔ بعثتِ نبوی کے بعد جن چار قدسی نفوس کو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا، ان میں سے ایک سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم بھی تھے جبکہ بچوں میں سب سے پہلے بالاتفاق آپ کو ایمان کا نور نصیب ہوا۔آپ کا شمار السابقون الاولون اور عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔

آپ صرف ابن عم مصطفے ﷺ ہی نہیں تھے، بلکہ رسول اکرم ﷺ کے مواخاتی بھائی بھی تھے، آپ نے مواخات مدینہ کے موقع پر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے فرمایا تھا:

انت اخی فی الدنیا والآخرة.

’’آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں۔‘‘

ذیل میں آپ کے کچھ اوصاف کا تذکرہ درج کیا جارہا ہے:

1۔ پیکرِ زہد و ورع

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے زہدو ورع کا یہ عالم تھا کہ جب رات اپنی سیاہ چادر پھیلاتی تو آپ گریہ وزاری میں مگن ہو جاتے اور اللہ کے حضور رو رو کر مناجات کرنے لگتے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے وصال فرما جانے کے بعد ان کی حیات میں ان کی خلوت نشینی دیکھنے والے کہتے کہ ہمیں آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی آواز اب بھی سنائی دے رہی ہو اور وہ کہہ رہے ہوں:

اے دنیا کیا تو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کر رہی ہے یا مجھ سے کوئی امید رکھتی ہے؟ مجھ سے کچھ امید نہ رکھ، میرے علاوہ کسی اور کو فریب دے۔ تیری عمر کوتاہ، تیری دی ہوئی کامرانی حقیر، تیرے خطرات بھیانک اور بڑے آلودہ ہیں۔ آہ! زادِ راہ کتناکم ہے، سفر کتنا طویل ہے اور راستہ کس قدر سنسان ہے۔

(ابن الجوزی، صفة الصفوة، 1: 315-316)

2۔ جود و سخا کی انتہا

اللہ تعالیٰ نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو جودو سخا کا پیکر بنایا تھا۔ آپ اپنے در سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کے ایثار وقربانی کے تذکرے قرآن میں بھی وارد ہوئے۔ رب تعالیٰ نے فرمایا:

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً.

’’جو لوگ (الله کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں۔‘‘

(البقرة، 2: 274)

دوسری جگہ فرمایا:

یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا. وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا.

’’(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے۔ اور (اپنا) کھانا الله کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔‘‘

(الدھر، 76: 7۔8)

اگر آج ہم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی سیرت کے اس پہلو پر عمل پیرا ہوجائیں تو معاشرہ ایثار و قربانی کی عظیم مثال بن جائے گا۔

3۔ حضور ﷺ کے مزاج آشنا

سید ابوالحسن ندوی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المرتضیٰ‘‘ میں لکھتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے خاندانی اورنسبی تعلق، ایک عمر کی رفاقت اور روز مرہ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی وجہ سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو آپ ﷺ کے مزاج اور آپ ﷺ کو اللہ کی بارگاہ سے حاصل خاص صفات و کمالات سے گہری مناسبت ہوگئی تھی۔ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے میلانِ طبع اور مزاج کی چھوٹی بڑی باتوں کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم حضور ﷺ کے مزاج، طبیعت اور اوصاف کے ایک ایک گوشہ کو اجاگر کرکے بیان فرماتے۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق و رجحان اور طریقِ تامّل کو بہت ہی بلیغ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔

4۔ محبتِ رسول ﷺ

باوجود خانگی ذمہ داریوں کے آپ کرم اللہ وجہہ الکریم حبِ نبی ﷺ میں سرشار اور حضور ﷺ کی راحت رسانی کے لیے ہر وقت بے چین اور مضطرب نظر آتے ہیں۔ اپنے گھر فاقہ ہے مگر حضور ﷺ کو اس حالت میں دیکھنا ایک پل کے لیے گوارہ نہیں یہاں تک کہ محنت و مشقت اور مزدوری کرکے حضور ﷺ کی راحت رسانی کا انتظام فرماتے۔

5۔ بے مثال خانگی زندگی

ازدواجی زندگی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات ’’مثل الاعلیٰ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں ان کی ذات سے اس ضمن میں رہنمائی لینی چاہیے اور ان کے اخلاق وکردار سے سیکھنا چاہیے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم باوجود غربت و افلاس کے اپنی زوجہ محترمہ خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیہا کی راحت رسانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ خود بھوکے رہ جاتے مگر اپنی اہلیہ کے خورد و نوش کا انتظام فرماتے۔ یہاں تک کہ ان کی راحت رسانی کے لیے اپنے دونوں بیٹے حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بھی ان سے کچھ وقت کے لیے جدا کردیتے تاکہ ان کی والدہ آرام کر سکیں اور ممتا کے غلبے کے سبب بچوں کے پیچھے اپنے آپ کو زیادہ پریشان نہ کریں۔

طبرانی کی روایت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے بتایا کہ ایک روز رسولِ خدا ﷺ ان کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: میرے بچے کہاں ہیں؟ (یعنی حسن اور حسین کے بارے میں دریافت فرمایا) حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے عرض کی: آج ہم لوگ صبح اٹھے تو گھر میں ایک چیز بھی ایسی نہ تھی جس کو کوئی چکھ سکے۔ ان کے والد نے کہا: میں ان دونوں کو لے کر باہر جاتا ہوں، اگر گھر پر رہیں گے تو تمہارے سامنے روئیں گے اور تمہارے پاس ایسا کچھ نہیں کہ انھیں کھلاکر خاموش کرو۔ چنانچہ وہ فلاں یہودی کی طرف گئے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ وہاں تشریف لے گئے۔ دیکھا یہ دونوں بچے ایک صراحی سے کھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے بچا کھچا ادھ کٹا قسم کا کھجور ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: علی اب بچوں کو گھر لے چلو، دھوپ بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ آج صبح سے گھر میں ایک دانہ نہیں ہے، اگر آپ تھوڑی دیر تشریف رکھیں تو میں فاطمہ کے لیے کچھ بچے کھچے کھجور جمع کرلوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے، یہاں تک کہ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کچھ بچے کھچے کھجور جمع کرلیے اور ایک کپڑے میں باندھ لیے۔

(حافظ منذری، الترغیب والترهیب، 5: 171)

اس روایت سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کے تعلق کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ ان کی پریشانی دیکھ کر خود پریشان ہوتے۔

6۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا طرزِ حکمرانی

آج کل ہمارے ملک میں حکمران ریاستِ پاکستان کو ریاستِ مدینہ اور خلافتِ راشدہ کے بنیادی خدوخوال پر استوار کرنے کے بلند وبالا دعوے کررہے ہیں۔ ذیل میں قارئین کے سامنے خلیفۂ راشد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی زندگی سے چند ایسی مثالیں پیش کررہے ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات میں موجود شورائی، اجتماعی اور جمہوری طرزِ عمل کو واضح کرتی ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ ہماری نوجوان نسل اور حکمرانوں کو سیرتِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے طرزِ حکمرانی اور جمہوری اقدارکے فروغ کے حوالے سے رہنمائی مل سکے:

(1) جمہوری روایات کی پاسداری

حضرت عثمان غنی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بطور خلیفہ منتخب کیا گیا۔ اکابر صحابہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات پر اتفاق و اتحاد کیا۔ تاہم یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم از خود اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے دعویدار نہ تھے۔ بطورِ خلیفہ جب عامۃ الناس کو آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی بیعت کا حکم دیا گیا تو آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے انہیں فرمایا:

لا تعجلوا، فإن عمر کان رجلا صالحامبارکا، وقد أوصی بها شوریٰ، فأمهلوا یجتمع الناس ویتشاورون.

’’اس کام میں جلد بازی نہ کرو، حضرت عمر صالح اور مبارک انسان تھے، انہوں نے اس کام میں جلدی نہیں کی، بلکہ اس کام کی ذمہ داری شوریٰ کے سپرد کی۔ انتظار کرو لوگ جمع ہو لیں اور آپس میں مشاورت کر لیں۔‘‘

(تاریخ طبری، 2: 700)

قارئین محترم! موجودہ دور کے اربابِ اختیار کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ عمل قابلِ تقلید ہے۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے ذاتی خواہش پر سربراہی کی ذمہ داری قبوی نہیں کی بلکہ شورائی اور باہم مشاورتی عمل کو ہی فوقیت دی اور اسی کو رائج کیے رکھا۔ سب کے اتفاق پر آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے بیعت لینے کی رضامندی ظاہر فرما دی۔ اس سے یہ اصول مرتب ہوتا ہے کہ زمامِ اختیار اسی شخص کے سپرد کرنی چاہیے جو اختیار اور عہدے کا لالچ نہ رکھتا ہو بلکہ اس کی طبیعت میں خدا خوفی غالب ہو اور وہ سمجھے کہ یہ کوئی روزگار اور تجارت کا اڈہ نہیں ہے بلکہ یہ رعایا کی خدمت اور انھیں ضروریات وسہولیات مہیا کرنے کی ایک ایسی مسؤلیت وذمہ داری ہے جس پر کوتاہی کی صورت میں روزِ آخرت جوابدہ ہونا ہو گا۔

اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:

إن بیعتی لا تکون خفیا ولا تکون إلا من رضا من المسلمین.

’’میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوگی بلکہ عوام الناس کی رضا معلوم کر کے ہی ہو سکتی ہے۔ ‘‘

لہذا سنتِ علیؓ کی روشنی میں ہم بلا تأمّل یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی عوام سے ووٹ لینے کے لیے دھن، دھونس اور دھاندلی کی راہ اختیار کرے تو وہ کسی طور پر بھی عوامی نمائندہ بننے کے قابل نہیں۔

بیعت فرمانے کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے لوگوں سے فرمایا:

إن هذا أمرکم، لیس لأحد فیه حق إلا من أمرتم.

’’لوگو! یہ تمہارا معاملہ ہے، کسی کا اس میں از خود کوئی حق نہیں، سوائے یہ کہ جسے تم منتخب کرو۔‘‘

(تاریخ طبری، 2: 700)

اللہ اللہ! طبیعت میں موجود استغناء اور جمہوری اقدار کی پاسداری دیکھئے کہ کیسے فراخ دلی سے لوگوں کو اظہارِ رائے کا حق فراہم کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج ریاستِ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے اور خلفائے راشدین کے ادوار کو بطور نمونہ پیش کرنے والے حکمران ایسا صاف ستھرا نظامِ انتخاب دینے میں کامیاب ہو سکے ہیں؟ اور اگر نہیں، ہرگز نہیں تو آخر کب تک ہم اس فرسودہ نظامِ انتخاب پر بھروسہ کیے رکھیں گے؟

(2) قانون کی پاسداری

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات قانونی اور عدالتی معاملات میں بھی جمہوری اقدار کی پاسدار تھی۔ حاکمِ وقت اور امیر المؤمنین ہونے کے باوجود قاضی القضاۃ (جس کو موجودہ زبان میں چیف جسٹس کہا جاتا ہے) کے سامنے ایک عام فرد کی حیثیت سے جاتے۔ اس سے بڑھ کر جمہوری اقدار کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ خلافتِ راشدہ میں بالعموم اور بلخصوص حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے دورِ خلافت میں ریاست کا قاضی عدل وانصاف کے تمام تر ضابطے مکمل کرتے ہوئے اس درجہ آزادانہ فیصلہ کرتا کہ اگر فیصلہ حاکمِ وقت کے خلاف بھی ہوتا تو اسے فیصلہ سنانے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوتی۔ ذیل میں چند ایک واقعات اس ضمن میں بیان کیے جارہے ہیں:

1۔ حضرت علی ؓ کے دورِ خلافت میں دار الخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل ہو چکا تھا اور حضرت شریح اسلامی مملکت کے چیف جسٹس تھے۔ ایک دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور ایک یہودی ذمی کا تنازعہ ان کی عدالت میں پیش ہوا۔ اس تنازعہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی زرہ کہیں گر گئی اور ایک یہودی ذمی کے ہاتھ لگ گئی۔ امیر المؤمنین کو پتہ چلا کہ زرہ یہودی کے پاس ہے تو انہوں نے زرہ کا مطالبہ کیا مگر یہودی نے یہ کہہ کر زرہ دینے سے انکار کر دیا کہ زرہ میری ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے یہودی کے خلاف عدالت میں دعویٰ کر دیا۔ قاضی شریح نے فریقین کے بیانات سنے۔ یہودی نے اپنے بیان میں کہا کہ زرہ میری ہے اوراس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ میرے قبضہ میں ہے۔ جسٹس شریح نے امیر المؤمنین سے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں گواہ پیش کرنے کو کہا۔ امیر المؤمنین نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور قنبر کو گواہ پیش کیا۔

چیف جسٹس کہنے لگے: قنبر کی شہادت تو میں قبول کرتا ہوں لیکن سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت قابلِ قبول نہیں۔ امیر المؤمنین نے کہا آپ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت مسترد کرتے ہیں، کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ جنتی جوانوں کے سردار ہیں؟ اس پر قاضی القضاۃ نے جواب دیا کہ ہم نے یہ سن رکھا ہے، مگر میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت معتبر نہیں۔

پس دوسرا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے خلیفہ وقت کا یہ دعویٰ خارج کر دیا گیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے باوجود اس کے کہ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم خلیفۂ وقت تھے، اس فیصلے کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا۔

یہودی اس فیصلہ سے بہت متاثر ہوا کہ ایک شخص صاحبِ اقتدار ہونے کے باوجود زرہ اس سے نہیں چھینتا بلکہ عدالت کے دروازے پر دستک دیتا اور مدعی کی حیثیت میں قاضیِ وقت کے سامنے پیش ہوتا ہے اور پھر عدالت بھی اس کے ساتھ کوئی امتیازی برتائو نہیں کرتی، مدعی اور مدعا علیہ دونوں یکساں حالت میں اسکے سامنے پیش ہوتے ہیں، عدالتی کاروائی میں بھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا۔ روایات بتاتی ہیں کہ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ جمہوری طرزِ عمل، عدالتی فیصلے کی پاسداری اور عدالتی عمل میں کسی قسم کی عدمِ مداخلت سے متاثر ہو کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔

کیا اس وطنِ عزیز کے صاحبانِ اقتدار میں سے کسی نے بھی اسوۂ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس پہلو کو اپنایا؟ کس نے عدالت کے تقدس کی پاسداری کی اور کس کس نے اس کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اس مقدس پیشہ کو زر خرید لونڈی بنا ڈالا؟ یہ آج سب پر عیاں ہے۔ یہاں ایک طرف اربابِ اختیار کی اکثریت نے اس نظام میں چھوٹی بڑی ہر درجے کی عدالتوں کا تقدس پامال کیا اور دوسری طرف عدالتوں میں مسندِ انصاف پر براجمان ہمارے اعلیٰ ججز میں سے الا ماشاء اللہ سب کے سب اپنے مقدس عہدے کو کمائی کے اڈے بنائے ہوئے چند مفادات کے عوض انصاف بیچ رہے ہیں۔ وہ وقت کب آئے گا جب وطنِ عزیز میں ہر شخص اسوۂ حیدری کو اپنا آئیڈیل بنا کر ایسے فرسودہ نظام کو خیر باد کہنے کو تیار ہو گا؟

قارئینِ کرام! عدالتی فیصلوں کی پاسداری اور عدالتی فیصلوں کا مبنی بر انصاف ہونا یہ خلیفۂ راشد ہی کی برکات تھیں، ان کی تربیت تھی اور ان کی اپنی زندگی کھلی عیاں کتاب کی طرح تھی، جس سے لوگوں نے فیصلوں میں انصاف کرنا سیکھا۔ انصاف سے فیصلے کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور وہ ہمیشہ آزادانہ مبنی بر انصاف فیصلے کرتے رہے۔

2۔ ابنِ عساکر نے حضرت جعدہ بن ہبیرہ سے روایت نقل کی کہ انہوں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت میں آ کر کہا: امیر المؤمنین! آپ کے پاس دو آدمی آئیں گے، ان میں سے ایک تو اپنی جان سے بھی زیادہ آپ سے محبت کرتا ہے، یا یوں کہا کہ اپنے اہل و عیال اور مال و دولت سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے اور دوسرے کا بس چلے تو آپ کو ذبح کر دے۔ اس لیے آپ دوسرے کے خلاف پہلے کے حق میں فیصلہ کریں۔ اس پر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت جعدہ کے سینہ پر مکا مارا اور فرمایا:

اگر یہ فیصلے خود کو راضی کرنے کے لیے ہوتے تو میں ضرور ایسا کرتا لیکن فیصلے تو اللہ کو راضی کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔

(ابن عساکر، 3: 166)

3۔ بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے پاس دو عورتیں مانگنے کے لیے آئیں، ان میں سے ایک عربی تھی اور دوسری اس کی آزاد کردہ باندی تھی۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے حکم دیا کہ ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کر (تقریبا 63 من) غلہ اور چالیس چالیس درہم دیے جائیں۔ اس آزاد شدہ باندی کو جو ملا، وہ اسے لے کر چلی گئی لیکن عربی عورت نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! آپ نے اس کو جتنا دیا، مجھے بھی اتنا ہی دیا حالانکہ میں عربی ہوں اور یہ آزاد کردہ باندی۔

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا: میں نے اللہ کی کتاب میں بہت غور سے دیکھا مگر مجھے اولادِ اسماعیل کو اولادِ اسحق پر کوئی فضیلت نظر نہیں آئی۔

(بیهقی، 6، 349)

یہ چند مثالیں پیش کرنے کا مقصود اپنے قارئین کو یہ باور کروانا ہے کہ حضرت علیؓ کا اسوہ اور سیرت عدل وانصاف پر قائم تھی۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم لوگوں کو اسی کی تعلیم دیتے۔ اسی لیے آپ کے دور کے قاضی عدل پر آزادانہ فیصلہ جات صادر فرماتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے زمانے میں کوئی حکمران ایسا ہے جس کا اسوۂ اس کے پیروکاروں کو عدل وانصاف سکھاتا ہو؟؟

شہادت

19 رمضان المبارک چالیس ہجری کی صبح حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم مسجد میں نماز کے دوران بحالتِ سجدہ بحضورِ الہٰی راز ونیاز میں مصروف تھے کہ شقی ابن ملجم نے ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے وار کیا۔ یہ شخص اسی وقت پکڑا گیا۔ جب آپ کرم اللہ وجہہ الکریم پر قاتلانہ حملہ کرنے والے کو گرفتار کرکے آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کے سامنے لایا گیا تو آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور اس سے اضطراب ظاہر ہے تو آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں شہزادوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام کو وصیت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے، اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا اور جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو اس کو معاف کردوں گا۔ اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیمِ اسلام کے خلاف ہے۔

دو روز تک حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم زخمی حالت میں بستر پر رہے، بالآخر زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان چالیس ہجری کی صبح آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت واقع ہوگئی۔ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام نے تجہیزو تکفین کی اور نجف کی سرزمین میں آپ کرم اللہ وجہہ الکریم مدفون ہوئے۔

ہم اللہ کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ امتِ مسلمہ کو اسوۂ علیؓ پر چلنے کی توفیق دے اور آپؓ کے اخلاق وآداب اور سیرت وکردار کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔