اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

عدل کے بغیر کوئی ملک اور معاشرہ اپنا اخلاقی وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ناانصافی اور ظلم سے انتشار، ہیجان، بے یقینی، مایوسی، اشتعال، فساد فی الارض، انتہا پسندی، تشدد اور پھر دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ہو وہاں پر قانون ہاتھ میں لینے والے، قانون کو توڑنے والے، کمزور کا استحصال کرنے والے اور اپنے مفادات کے لئے کمزور کی جان تک لے لینے والے افراد، گروہ اور عناصر پائے جاتے ہیں۔ ایسے درندہ صفت عناصر اور گروہوں کی حیوانی اور خون آشام خواہشات کے سامنے قانون اور ریاست ڈھال بنتی ہے۔ آج کل ریاستِ مدینہ کے انتظامی ماڈل کا بہت تذکرہ ہے۔ اگر میثاقِ مدینہ کی جملہ شقوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میثاق کی روح لاء اینڈآرڈر کو برقرار رکھنا اور انسانی جان کا تحفظ کرنا ہے۔ میثاقِ مدینہ کی بنیاد انسانیت کے تحفظ اور بقاء کی فکر پر رکھی گئی۔ اس معاہدے میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب بھی شامل تھے، اس لئے یہ کائنات کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے جس میں انسانی جان کے تحفظ، قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی کو ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔

اسلام وہ واحد ضابطۂ حیات ہے جس نے انسانی جان کے تحفظ کے لئے اخلاقی تعلیمات بھی دیں اور تعزیری احکامات بھی دئیے۔ جدید جمہوری نظام اور جمہوری اقدار میں بھی انصاف کی فراہمی اور انسانی جان کے تحفظ کو اولین ترجیح دی گئی ہے کیونکہ یہ دو ایسے انسانی، سماجی اور اخلاقی امور ہیں جن سے انحراف کر کے ایک متوازن انسانی سوسائٹی کو پروان نہیں چڑھایاجا سکتا اور جب بھی کوئی گروہ اپنی افرادی قوت، وسائل یا طاقت کے زعم میں کسی کا حق سلب کرتا ہے تو مظلوم کی مدد کے لئے سب سے پہلے قانون پہنچتا ہے۔ جب مظلوم کو طاقتور کے مقابلے میں قانون کی مدد نہیں ملتی تو کمزور بےبسی اور اشتعال کا شکار ہوتا ہے اور سوسائٹی کا انتظامی انفراسٹرکچر اپنی اخلاقی اہمیت اور افادیت کھو دیتا ہے۔

اللہ رب العزت نے سورۃ الحجرات (آیت: 9) میں انصاف کی اہمیت اور ناگزیریت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔ ‘‘ سورۃ المائدہ (آیت: 8) میں فرمایا: ’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اللہ سے ڈرا کرو! بے شک اللہ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے‘‘۔ معلوم ہوا کہ عدل کرنا حبِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ اور تقویٰ کی علامت ہے۔ نظامِ انصاف میں منصف کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ انصاف کا عمل منصف کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچتاہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’سات طرح کے انسانوں کو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جب کہ اس دن عرشِ الہٰی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا، ان میں ایک امامِ عادل ہے (یعنی انصاف کرنے والا حکمران یا قاضی ہے)۔ ‘‘ (صحیح بخاری)

سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہے جس میں طاقت کے نشے میں دھت حکمرانوں نے اپنا تخت بچانے کے لئے نہتے اور پرامن شہریوں کو خون میں نہلایا۔ خواتین کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو بری طرح پامال کیا گیا۔ اس سارے ظلم و بربریت کا ازالہ بشکل انصاف ریاست اور قانون نے کرنا تھا مگر افسوس سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ریاست اور قانون مظلوم کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد نے چیف جسٹس پاکستان اور وزیراعظم پاکستان سے خط لکھ کر کہا ہے کہ میری والدہ اور میری پھوپھو کو شہید کر دیا گیا، اس کا مجھے انصاف کیوں نہیں مل رہا؟ ایک اسلامی معاشرے کے اندر قوم کی ایک بیٹی 7سال سے انصاف کے لئے قانون کی مدد مانگ رہی ہے مگر قانون خاموش اور مصلحتوں کا شکار ہے۔ صرف اس لئے کہ اس انصاف کی زد میں جو لوگ آرہے ہیں، وہ طاقتور اور بااثر ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب کمزورجرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور طاقتور کوئی خطا و جرم کرتا تو اسے معاف کر دیتے‘‘۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کی 7ویں برسی کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے اہم نکات پر گفتگو فرمائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے سامنے حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ازسرِنو تفتیش کے لئے جے آئی ٹی بنائی۔ جب جے آئی ٹی نے اپنا سارا کام مکمل کر لیا تو ایک ملزم کانسٹیبل کی درخواست پر اس جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش ہوگی تو ٹرائل شروع ہو گا اور انصاف کا عمل ٹریک پر آئے گا۔ کتنی بدقسمتی اور بدبختی کی بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین قتلِ عام کے شہداء کے ورثاء مسلسل 7 سال سے غیر جانبدار تفتیش کا حق مانگ رہے ہیں۔ آخر انصاف کی راہ میں کون حائل ہے؟ کون نہیں چاہتا کہ سانحہ کے ذمہ دار کیفر کردار کو پہنچیں؟

شیخ الاسلام نے ایک اور بہت اہم بات کی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لئے پاکستان کی 3 طاقتور شخصیات نے انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی مگر انصاف عنقا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے ہمیں کہا تھا کہ آپ کا غیر جانبدارتفتیش والا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے، لہٰذا اب آپ احتجاج کی بجائے قانونی عمل کا حصہ بنیں اور اپنی ساری توجہ عدالتی کارروائی پر مرکوز رکھیں، انصاف عدالتوں نے دینا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم تو آج بھی اس کمٹمنٹ کو نبھارہے ہیں مگر انصاف کی فراہمی والی کمٹمنٹ پوری نہیں ہوئی۔ شیخ الاسلام نے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے حوالے سے بھی کچھ اہم باتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کیسز عدالتوں میں ہیں ان کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔ حکومت عدالتوں کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتی۔ اس کے لئے ہم وکلاء کے ذریعے قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں مگر وہ ایف آئی آرز جو سابق حکمرانوں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے انتقامی کارروائیوں کے لئے بے گناہ کارکنان اور قائدین کے خلاف درج کروائی تھیں، وہ ختم کیوں نہیں ہورہیں؟ وہ ایف آئی آرز تو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ختم ہو سکتی ہیں۔

شیخ الاسلام کا کہنا تھا کہ سابق حکمرانوں نے جھوٹی ایف آئی آرز کی تلوار انتقامی کارروائیوں کے لئے کارکنوں کے سروں پر لٹکائی تھیں۔ موجودہ حکمرانوں نے یہ ایف آئی آرز کن مقاصد کے لئے سنبھال کررکھی ہوئی ہیں؟ اس کے علاوہ انہوں نے موجودہ حکمرانوں سے ایک اور سوال بھی کیا کہ سابق دور حکومت میں بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کو ترقیاں اور پسندیدہ پوسٹنگز اور ٹرانسفرز مل رہی تھیں، وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کہا کرتے تھے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس اتنا واضح ہے کہ اس کا انصاف ایک مہینے کے اندر ہو سکتا ہے مگر اب تو ان کی حکومت کو بھی تین سال بیت گئے ہیں اور سانحہ کے مظلوم انصاف سے محروم ہیں۔