الفقہ: ماذوالحجہ کی پہلی دس راتیں عظمت و فضیلت کا خزانہ ہیں

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

حج و قربانی کی مناسبت سے ماہ ذوالحجہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کثیر برکتیں اور سعادتیں عطا کر رکھی ہیں۔ ماہ ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کو عظمت و فضیلت کا وہ خزانہ عطا کیا گیا ہے کہ ہر ایک رات رمضان المبارک کی لیلۃ القدر کے برابر ہے۔ جس طرح رمضان المبارک کی برکتوں کو سمیٹ کر عید الفطر میں رکھ دیا گیا اور اس دن کو خوشی کے دن کے طور پر مقرر کر دیا گیا۔ ان دس راتوں کے اختتام پر اللہ رب العزت نے عیدالاضحٰی کے دن کو مسرت و شادمانی کے دن کی صورت میں یادگار حیثیت کر دی۔ اس دن کو عرف عام میں قربانی کی عید کہتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَا مِنْ أَیَّامٍ أَحَبُّ إِلَی اللهِ أَنْ یُتَعَبَّدَ لَهُ فِیهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ یَعْدِلُ صِیَامُ کُلِّ یَوْمٍ مِنْهَا بِصِیَامِ سَنَةٍ وَقِیَامُ کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْهَا بِقِیَامِ لَیْلَةِ الْقَدْرِ.

(الترمذی، السنن، 3: 131، الرقم: 758)

’’اللہ تعالیٰ کو اپنی عبادت بجائے دوسرے اوقات و ایام میں کرنے کے عشرہ ذوالحجہ میں کرنی محبوب تر ہے۔ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک ایک رات کا قیام، لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَا مِنْ أَیَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیهَا أَحَبُّ إِلَی اللهِ مِنْ هَذِهِ الْأَیَّامِ یَعْنِي أَیَّامَ الْعَشْرِ قَالُوا یَا رَسُولَ اللهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِیلِ اللهِ قَالَ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِیلِ اللهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَيْئٍ.

(ابو داود، السنن، 2: 325، الرقم: 2438)

’’ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں اللہ تعالیٰ کے حضور نیک عمل جتنا پسندیدہ و محبوب ہے کسی اور دن میں اتنا پسندیدہ و محبوب تر نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ ! اللہ کے راستہ میں جہاد بھی نہیں، فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا اور کچھ لے کر گھر نہ لوٹا۔‘‘

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں عشرۂ ذی الحجہ میں جن اعمال کے کرنے کی فضیلت آئی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ ذکر الٰہی کا اہتمام کرنا

اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ان دس دنوں میں اپنا ذکر کرنے کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِی أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ.

(الْحَجّ، 22: 28)

اور مقررہ دنوں کے اندر اللہ کے نام کا ذکر کرو۔

صحابہ کرام اور محدثین و مفسرین کے نزدیک ان ایام معلومات سے مراد عشرۂ ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔

2۔ کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تحمید کہنا

امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

کوئی دن بارگاہ الٰہی میں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں، اور نہ ہی کسی دن کا (اچھا) عمل اللہ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہو۔

سلف صالحین اس عمل کا بہت اہتمام کیاکرتے تھے۔ امام بخاری نے بیان کیا ہے کہ ان دس دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے

3۔ بال ناخن وغیرہ نہ کاٹنا

کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ قربانی کرنے تک اپنے ناخن بال وغیرہ نہ کاٹے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہj سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِیَّةٌ یُرِیدُ أَنْ یُضَحِّيَ فَلَا یَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا یَقْلِمَنَّ ظُفُرًا.

’’جب عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے(یعنی ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آئے) اور جس شخص کے پاس قربانی ہو اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘

(مسلم، الصحیح، 3: 1565، الرقم: 1977)

حج کی اہمیت و فضیلت

حج اسلام کا بنیادی رکن ہے یہ ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو۔ حج، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو اجتماعیت اور اتحاد و یگانگت کا آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَ ِللهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً.

’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘۔

(آل عمران: 97)

حج کرنے والے کے لئے جنت ہے۔ حجاج کرام خدا کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کی دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔ یہ نفوس ہر قسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ رب کائنات کی رحمتوں سے نہ صرف محروم ہوجاتا ہے بلکہ ہدایت کے راستے بھی اس کے لئے مسدود ہوجاتے ہیں۔ آیئے احادیث مبارکہ کی روشنی میں حج کی فضیلت پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْعُمْرَةُ إِلَی الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَیْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘

(البخاری فی الصحیح، ابواب العمرة، باب وجوب العمرة وفضلها، 2: 629، رقم: 1683)

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ کرم سے نکال دیتا ہے۔ حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ لَمْ یَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَآءَ یَهُوْدِیًّا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا.

’’جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے)۔‘‘

(الترمذی فی السنن کتاب الحج عن رسول الله ﷺ باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج، 3: 176، رقم: 812)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے والے کو بخشش کی نوید سناتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللهِ. إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَھُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْهُ غَفَرَلَهُمْ.

’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔ (ایک روایت میں) جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا (کے الفاظ بھی ہیں)۔‘‘

(ابن ماجه فی السنن، کتاب المناسک باب فضل دعاء الحج، 2: 9، رقم: 2892)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حجاج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ دَخَلَ الْبَیْتَ دَخَلَ فِي حَسَنَةٍ وَخَرَجَ مِنْ سَیِّئَةٍ مَغْفُوْرًا لَهُ.

’’جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور برائی سے خارج ہو کر مغفرت پا گیا۔‘‘

(ابن خزیمه فی الصحیح، 4: 332، رقم: 3013)

کیا حج کرنے سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں؟

حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَیْتَ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.

(البخاری، الصحیح، 2: 645، الرقم: 1723)

’’جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا اور وہ نہ تو عورت کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی گناہ کیا تو (تمام گناہوں سے پاک ہو کر) اس طرح واپس لوٹا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔‘‘

اسی طرح متعدد احادیث مبارکہ ہیں جن میں اس سے ملتا جلتا مضمون بیان ہے۔ شارحین حدیث نے مختلف آراء پیش کی ہیں:

1۔ حج کرنے سے صرف گناہ صغیرہ معاف ہوتے ہیں۔

2۔ صغیرہ، کبیرہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں جو حقوق اللہ میں آتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے ہیں۔

3۔ تیسری رائے یہ ملتی ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد صغیرہ وکبیرہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

بہرحال ہمیں اس بحث ومباحثہ میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کو بھی حج وعمرہ کی سعادت نصیب ہو، اسے صدقِ دل سے اور خلوصِ نیت کے ساتھ اس عمل کو اچھی طرح سرانجام دینا چاہیے۔ باقی معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کی مرضی جتنا اجر دے۔ یہ تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک شخص گنہگار وسیاہکار ہو، وہ صدقِ دل سے اللہ تعالی سے توبہ کرے تو اللہ تعالی توبہ قبول فرمانے والا ہے، اس کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالی تو نیتوں کے بھید جانتا ہے۔ صدقِ دل اور خلوصِ نیت ہو تو بعید نہیں سب کے سب گناہ معاف ہو جائیں۔ اگر کوئی ہو ہی ظلم کرنے والا، ڈاکو، قاتل اور دھوکہ باز اور وہ حج بھی اسی نیت سے کرے کہ لوگ اس کو نیک سمجھیں اور اس کے گھیرے میں آتے رہیں تو ایسے حج وعمرہ، نماز، روزہ وغیرہ اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہونگے۔

مقروض شخص کا حج ادا کرنا کیسا ہے؟

اگر قرض خواہ مقروض کو اجازت دے کہ آپ حج کرلیں میرا قرض بعد میں لوٹا دینا تو اس صورت میں بندہ حج کرسکتا ہے۔ آج کل قرض کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ کچھ لوگ تو مجبوری کی خاطر قرض لیتے ہیں اور کچھ کاروبار کو مزید وسعت دینے کی خاطر۔ لہذا کاروباری قرضے لینے والوں کے لیے تو مسئلہ نہیں ہے وہ تو سب بڑے لوگوں نے لے رکھا ہوتا ہے، اور ادا بھی کر سکتے ہیں، حج ادا کرنے سے ان کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی، لیکن جو غریب ہو بڑی مشکل سے تھوڑے تھوڑے پیسے اکٹھے کر کے قرض ادا کرنے کے لیے جمع کیے ہوں تو اس کے لیے بہتر ہے کہ پہلے قرض ادا کرے اور جب صاحبِ استطاعت ہو جائے تو حج ادا کرے۔

اس موقع پر اس حوالے سے بھی یہ ذہن نشین کرلیں کہ ضروریاتِ زندگی کے علاوہ کسی شخص کے پاس اتنے پیسے ہوں کہ وہ حج کرسکتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کرے لیکن پہلے اپنی اور اپنے گھر والوں کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت اور اولاد کی شادی کی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اس کے بعد اگر وہ پھر بھی صاحبِ نصاب ہے تو اب وہ حج کے لیے جاسکتا ہے۔