قربانی کا حقیقی مقصد اور حکمت

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَمَنْ یُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ اللهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ.

’’اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہوگیا ہو)۔‘‘

(الحج، 22: 32)

عموماً ہم جب بھی کوئی نیک عمل کرتے ہیں تو وہ عمل اپنی حیثیت میں فرض، واجب، سنت یا نفل ہوتا ہے، نیز ہر عمل اپنی اہمیت کے لحاظ سے الگ الگ اجرو ثواب کا حامل ہوتا ہے۔ یعنی ہر عمل کے نتیجے میں اللہ رب العزت ایک خاص اجر عطا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی عمل کے اجرو ثواب کے زیادہ یا کم ہونے کا انحصار کس چیز پر ہوتا ہے؟ یاد رکھیں! ہر چیز اور عمل کے دو پہلو ہیں:

1۔ ظاہر

2۔ باطن

مثلاً: انسان کا ظاہر وہ ہے جو ہمیں نظر آتا ہے، جسم، ہاتھ، ٹانگیں اور دیگر اعضاء وغیرہ، جبکہ انسان کا باطن وہ ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا۔ ذاتِ انسانی کا یہ باطنی پہلو اس کی روح ہے۔ روح اگرچہ دکھائی نہیں دیتی لیکن ظاہر کے مقابلے میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ روح ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی بنیاد پر انسان کا ظاہری جسم قائم/ استوار ہے اور اگر یہ (روح) نہ رہے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ گویا جو چیز نظر نہ آرہی ہو، ظاہر کی قدرو قیمت کا انحصار اسی نہ دکھائی دینے والی چیز پر ہوتا ہے۔

اسی طرح ہم جتنے بھی نیک یا بد اعمال سرانجام دیتے ہیں ان میں سے ہر ایک عمل کا ایک ظاہری نتیجہ ہے اور ایک باطنی نتیجہ ہے۔ جب انسان کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اسے اس عمل کا جو اجر و ثواب ملتا ہے، وہ اس عمل کا ظاہری نتیجہ ہے۔ ظاہری نتیجہ اس لیے کہ اس کے کرنے کا ثواب ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات میں پہلے ہی بتادیا گیا ہے لیکن اس کے علاوہ اس نیک عمل کے نتیجے میں نور کا ایک سفید نقطہ/ نشان اللہ رب العزت انسان کے دل پر ثبت فرما دیتا ہے۔ یہ اس عمل کا باطنی نتیجہ ہے۔

اسی طرح جب انسان کوئی برا عمل کرتا ہے تو اس کا ظاہری نتیجہ اس گناہ اور نافرمانی کی سزا کی صورت میں اسے ملتا ہے جبکہ اس برائی کا باطنی نتیجہ اس صورت میں سامنے آتا ہے کہ اللہ رب العزت اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ/ نشان ثبت فرما دیتا ہے۔ گویا انسان جب نیک اعمال کرتا چلا جاتا ہے تو اس کا دل منور ہوتا چلا جاتا ہے اور برے اعمال کے نتیجے میں اس کا دل سیاہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

معلوم ہوا کہ ہر نیک عمل اپنے باطن میں نور رکھتا ہے، لیکن اگر اس نیک عمل کے نتیجے میں باطن میں نور پیدا نہ ہو تو وہ عمل ادا تو ہوجاتا ہے لیکن اپنی تاثیر و اثرات نہیں رکھتا۔ مثلاً: نماز کے اثرات و نتائج کو واضح کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:

اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهیٰ عَنِ الْفحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.

(العنکبوت، 29: 45)

’’بے شک نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘

نماز انسان کو فحش کاموں سے روکتی ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نماز بھی ادا کرتے ہیں اور برے کاموں کو بھی انجام دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے عمل تو کیا لیکن اس عمل کو اس انداز میں نہ کیا جیسے کہ اسے ادا کرنے کا حق تھا۔ اب نماز کی ادائیگی کا عمل تو پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، نماز قضاء نہ لکھی گئی لیکن اس نماز نے باطن میں جو نور پیدا کرنا تھا اور جس نور نے ہمارے دل پر اثر کرنا تھا، وہ نور پیدا نہ ہوا۔ درحقیقت اسی نور نے ہمیں فحش کاموں سے روکنا تھا۔

رضائے الہٰی کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

معزز قارئین! ایک حقیقی مومن اور مسلمان اپنی زندگی کا ہر کام اللہ رب العزت کی خوشنودی اور رضا کے لیے کرتا ہے۔ جملہ نیک اعمال کی بجا آوری اور برے اعمال سے اجتناب کا مقصد رضائے باری تعالیٰ کا حصول ہے کہ میرا مولا، میرا مالک، میرا آقا، میرا خالق مجھ سے راضی ہوجائے۔ اگر نیک اعمال کے نتیجہ میں انسان کی زندگی کا مقصد خدا کو راضی کرنا ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کو راضی کرنا چاہے تو اس کے بتائے ہوئے طریقے سے اسے راضی کرے گا یا اپنے طریقے سے اسے راضی کرے گا۔۔۔؟ لازمی بات ہے کہ پہلے وہ اس بات کا علم حاصل کرے گا کہ میرے محبوب کو کون سی بات خوش کرتی ہے۔۔۔؟ جو عمل میں انجام دینے لگا ہوں، یہ عمل کس انداز، کس نہج اور کس ڈھنگ سے انجام دوں تو وہ راضی ہوگا۔۔۔؟ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنی مرضی اور اپنے انداز سے عمل کریں اور پھر یہ بھی چاہیں کہ مولا راضی بھی ہو۔ کام بھی ہم اپنی مرضی سے کریں، منزل کا تعین بھی خود کریں، طریقہ کار بھی ہمارا ہو لیکن خدا راضی ہوجائے تو ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ جب راضی اسے کرنا ہے اور بتایا ہوا کام بھی اسی کا ہے، تو پھر اس کے بتائے ہوئے طریقے پر ہی عمل پیرا ہونا ہوگا۔ گویا یہ امر ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ جب کام اس کا ہے تو طریقہ بھی بتایا ہوا اسی کا ہوگا، تب ہی اس کی رضا کا حصول ممکن ہوگا۔

عملِ قربانی کے محبوب و مقبول ہونے کا راز

نیک اعمال کے باطنی نتائج، اللہ رب العزت کی رضا اور اس کے طریقہ کار کے مطابق اعمال سرانجام دینے کے تصور کو سمجھ لینے کے بعد اب آیئے ہم عیدالاضحی کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانوروں کی قربانی کے حقیقی مقصد اور حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

عیدالاضحی کے دن نمازِ عید ادا کرنے کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کے حضور جانور کی قربانی پیش کرنا ہے۔

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔

قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَاهٰذِهِ الْاَضَاحِیْ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاهِیْمَ عِلیه السَّلاَمُ قَالُوْا فَمَالَنَا فِیْهَا یَارَسُوْلَ اللّٰهِ بِکُلِّ شَعْرَةٍ مِّنَالصُّوْفِ حَسَنَةٌ.

’’رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی عرض کی یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اون کے بدلے نیکی ہے‘‘۔

(احمد، ابن ماجه، مشکوة)

عیدالاضحی پر قربانی کی اس قدر فضیلت ہے مگر جانور کی قربانی کے وقت چند امور ایسے ہیں جن کی طرف عموماً ہماری نگاہ نہیں جاتی، نتیجتاً ہم وہ عمل کرتے تو ہیں لیکن اس عمل کے اصل نفع اور تاثیرکو حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہم قربانی پیش کرکے اپنے ذمہ ایک واجب کی ادائیگی تو کردیتے ہیں، جس سے ہمارے نامہ اعمال میں ترکِ واجب کا گناہ نہیں لکھا جاتا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اللہ رب العزت کو صرف کسی ایک دن میںلاکھوں جانوروں کی قربانی پسند ہے کہ ان کا خون بہایا جائے؟ اس عمل میں وہ کیا خاص بات ہے کہ اللہ رب العزت نے اس عمل کو اتنا محبوب جانا کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ عملاً اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ هَراقَۃِ الدَّمِ واِنَّهٗ لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ علی الارض فَطِیْبُوْا بِهَا نَفْسًا.

(سنن ابن ماجه، جلد: 2، باب ثواب الاضحیہ، رقم: 1045)

’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔

گویا عیدالاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کو ایک مسلمان کی طرف سے کی گئی قربانی سے زیادہ کوئی شے محبوب نہیں اور یہ عمل انتہائی مقبول ہے۔ عملِ قربانی کے پیچھے کارفرما جس پوشیدہ مقصد نے ہماری اصلاح کرنی تھی، ہم اس تک نہ پہنچے بلکہ صرف ظاہر ہی پر توجہ مرکوز رکھی۔

جانور ہی کی قربانی میں کیا خاص بات ہے کہ اسی عمل کو ہی کیا جائے گا تو قابلِ قبول ہے؟ اس کی جگہ اتنی مالیت کی خیرات بھی تو کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بات اگر خیرات کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انسان سے ایک دن میں اتنے جانور ذبح نہ کرواتا بلکہ اس کا ماڈل تبدیل فرمادیتا۔ لہذا یہ بات فقط خیرات کی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر کوئی اور راز پوشیدہ ہے جس پر ہماری نگاہ نہیں جاتی۔ درج ذیل روایت سے وہ پوشیدہ راز عیاں ہوجاتا ہے:

آقا علیہ السلام نے ایک روز سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا کہ:

عائشہ! هلمی المدیة

’’چھری لاؤ‘‘! پھر فرمایا:

اشحذیها بحجر

’’اسے پتھر پر تیز کرو‘‘،

’’ففعلت‘‘

’’میں نے تیز کردی‘‘۔

آپ نے مینڈھے کو پہلو کے بل لٹایا اور ذبح کیا۔

اس حدیث مبارک میں دو امور قابلِ توجہ ہیں:

1۔ اپنی قربانی کو ذبح ہوتے دیکھنا

2۔ اپنے ہاتھوں سے قربانی کرنا

ہمارا طرزِ عمل یہ ہے کہ ہم نہ اپنے جانور کو خود ذبح کرتے ہیں اور نہ اسے ذبح ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں یعنی اس عملِ قربانی کو اہمیت ہی نہیں دیتے، اس میں دلچسپی نہیں لیتے، ہم قربانی کو بس ایک خرچ سمجھتے ہیں کہ جس طرح سال میں ایک مرتبہ زکوٰۃ دی جاتی ہے، اسی طرح یہ بھی سال کا ایک خرچ ہے، جو ہم نے کردیا ہے اور حصہ ڈال دیا ہے۔ ہم اسے ایک جرمانہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں، حصہ ڈال دیا اور بس بات ختم ہوگئی۔ ہم اس عملِ قربانی کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔ حتی کہ بعض لوگ اس میں سے کھانا بھی پسند نہیں کرتے کہ ہم تو سارا سال گوشت کھاتے ہیں۔ دراصل ہم نے اللہ کی مرضی اور منشاء سمجھی ہی نہیں ہے کہ وہ ہم سے یہ قربانی کیوں کرواتا ہے۔۔۔؟ اس پر ہم نے کبھی توجہ ہی نہیں کی۔

آقا علیہ السلام دو جانوروں کی قربانی دیتے اور دونوں کو اپنے دست مبارک سے خود ذبح فرماتے۔ آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کو بھی فرماسکتے تھے مگر آپ ﷺ نے ایسا نہ کیا بلکہ آپ ﷺ اس بات کو پسند فرماتے کہ میں اپنے جانور خود ذبح کروں، اس لیے نہیں کہ اپنا کام ہے تو خود انجام دیا جائے، نہیں بلکہ اس میں ایک راز ہے۔ اس راز کی تلاش میں قرآن مجید سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب کے واقعہ کا مطالعہ کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے صاحبزادے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو اپنا خواب سنایا کہ:

قَالَ یٰـبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَریٰ فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَریٰ ط قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَاللهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ.

(الصافات، 37: 102)

’’(ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسما عیل علیہ السلام نے) کہا ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میںسے پائیں گے‘‘۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ کو قربانی کے لیے لے گئے اور ذبح کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت ایک مینڈھا اتارا اور اس کی گردن پر چھری چل گئی۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَفَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ.

(الصافات، 37: 107)

’’اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کردیا۔‘‘ (اور یوں سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو اللہ نے محفوظ رکھا۔)

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی جانور کی قربانی کا حکم دے دیتا۔ بیٹے کی قربانی کیوں مانگی؟ اس کے اندر پنہاں پیغام یہ ہے کہ ہم جانور کی جو قربانی پیش کررہے ہیں، یہ محض جانور کی قربانی نہیں بلکہ یہ تو جان کی قربانی ہے۔ اب یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اپنی جان کی بجائے ان کے بیٹے کی جان کیوں مانگی۔۔۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ باپ کو بیٹے کی جان اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جان مانگی تو انہوں نے آمادگی سے کہا کہ مولا! میں تو تیری راہ میں قربان ہی ہوں مگر یہ میرا بیٹا بھی قربان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں بس یہی امتحان لینا مقصود تھا، جان لینا مقصود نہیں، اس لیے مینڈھا قربان کروادیا۔

بس قربانی کی یہی حقیقت ہے اور اس میں یہی راز پوشیدہ ہے کہ ہم جب اپنے جانور کو قربان کرنے لگیں تو یہ واقعہ یاد کریں کہ اللہ کی مانگ تو ہماری جان ہے اور وہ دیکھنا یہ چاہتا ہے کہ ہم اس پر جان قربان کرتے ہیں یا نہیں۔۔۔؟ اس سے پیار کرتے ہیں یا نہیں۔۔۔؟ اس پر اپنی خواہشات، اپنی زندگی کا آرام و سکون اور مال قربان کرتے ہیں یا نہیں۔۔۔؟ لہذا اپنا جانور ذبح کرتے ہوئے یہ نیت اور خیال رہے کہ میرے مولا قربان تو تجھ پر اپنی جان کرتے ہیں مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت پر جانور ذبح کررہے ہیں۔

گویا بات دراصل دل کے حال کی ہے کہ چھری جانور کی گردن پر چل رہی ہو اور دیکھنے والا اللہ تعالیٰ کی محبت کی تلوار سے کٹ رہا ہو تو پھر اس جانور کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے وہ قربانی اللہ کے ہاں مقبول ہوجاتی ہے۔ خوش دلی اور اخلاص سے جانور قربان کرنے کی وجہ سے اللہ رب العزت ان سے راضی ہوجاتا ہے لیکن اگر دل میں رہے کہ اتنے ہزار کا جانور آیا، میں نے قربان کردیا، کیا فرق پڑا۔ دراصل بات جانور کی نہیں ہے بلکہ بات دل کے حال کی ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ دلوں کے حال پر نگاہ ڈالتا ہے کہ جانور کی قربانی دیتے ہوئے کیا وہ جانور میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے یا نہیں۔۔۔؟ کیا اپنی زندگی کی خواہشات کو اللہ کے نام پر ذبح کرتا ہے یا نہیں۔۔۔؟ کیا اپنی زندگی کی برائیوں، گناہوں، نافرمانیوں کو قربان کرنے پر آمادہ ہے۔۔۔؟ کیا اپنے مال کو اللہ کے نام پر قربان کرنے پر آمادہ ہے۔۔۔؟ یہ حال وہ ہے جو اللہ تعالیٰ عیدالاضحی کے دن دیکھنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

لَنْ یَّنَالَ اللهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.

(الحج، 22: 37)

’’ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

وہ دیکھتا یہ ہے کہ کیا میرا بندہ اسی حال میں قربانی کر رہا ہے جس حال میں میرا ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کررہا تھا۔۔۔؟ کیا یہ بھی اپنے آپ کو اس قربان گاہ پر محسوس کرتا ہے یا نہیں کرتا؟ قربانی کے اس عمل کے پیچھے یہی راز کارفرما ہے۔

محترم قارئین! دل کے حال کو یوں بنا لیں کہ اللہ کے حضور جب اپنی قربانی پیش کرنے لگیں تو یوں محسوس کریں کہ قربانی کے جانور کی گردن پر چھری چلانا دراصل ہماری اپنی خواہشات کی گردن پر اس کی محبت و رضا کی چھری کا چلنا ہے۔ اس کے حضور دل کا ہر ہر حال پکار کر کہہ رہا ہو کہ میرے مولا! جس طرح یہ جانور لیٹا ہے، ہم بھی تیرے حضور اسی طرح عاجز و بے بس ہیں۔۔۔ جو تو چاہے ہمارے ساتھ کر، ہم تیری ہر عطا پر راضی ہیں۔۔۔ جو کچھ تو ہمیں دے یا ہم سے واپس لے لے، ہم ہر حال میں تجھ سے راضی ہیں۔ پھر اس اخلاص و رضا کو دیکھ کر وہ اپنی بارگاہ سے اس بندے پر خاص عنایت فرماتا ہے۔

ائمہ و علماء اور عرفاء لکھتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک اجر ہوتا ہے جیسا کہ تمام عبادات ادا کرنے سے ثواب ملتا ہے لیکن قربانی ایسا عمل ہے کہ جس سے قربِ الہٰی نصیب ہوتا ہے۔

القربان مایتقرب به الی الله وصارفی التعارف اسماً للنسیکة التی هی الذبیحة.

’’قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے،اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے‘‘۔

(المفردات للراغب، ص: 408)

اب کیا قربِ الہٰی صرف گوشت تقسیم کرنے سے حاصل ہوگا؟ نہیں، بات وہی ہے کہ وہ دل کا حال دیکھتا ہے کہ کیا میرا بندہ میرے لیے مرتا ہے یا نہیں۔۔۔؟ اگر وہ اس عمل کے پیچھے اخلاص و للّٰہیت دیکھتا ہے تو پھر وہ اپنے بندوں کو اپنی قربتیں بھی عطا کرتا ہے۔

قربانی دیگر امم پر واجب کیوں نہیں؟

قربانی کا واقعہ تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہے جو جدالانبیاء ہیں، ان کی نسل میں ہزارہا انبیاء اور اُن کی امتیں آئیں۔ مگر ایسا کیا راز ہے کہ جدالانبیاء کا یہ عملِ قربانی صرف تاجدار کائنات ﷺ کی امت پر واجب ہے۔۔۔؟ یہ یہود و نصاریٰ اور دیگر امم پر اس طرح واجب کیوں نہیں کی گئی جس طرح امتِ مسلمہ پر واجب ہے۔۔۔؟ جب یہ جدالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے تو جتنی بھی امتیں ان کی نسل سے ہیں، اس سنت کو ادا کرتیں لیکن آقا علیہ السلام کی ہی امت پر یہ عمل واجب کیوں کیا گیا؟

اس سوال کا جواب ہمیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے تعمیر کعبہ کے واقعہ سے ملتا ہے کہ جب کعبۃ اللہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اس موقع پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ایک دعا مانگی۔ میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد اللہ رب العزت نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا ہوگا کہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے پھر وہ مانگا جو سالہا سال سے ایک حسرت بن کر ان کے دل میں مچلتا آیا تھا۔ انہوں نے عرض کیا ہوگا کہ مولا! اگر تو راضی ہوگیا ہے کہ ہم نے تیرا گھر بنایا ہے اور اب پوچھتا ہے کہ کیا مانگتے ہو؟ تو بس پھر اپنی سب سے قیمتی شے عطا فرما دے۔ پوچھا گیا ہوگا کہ وہ قیمتی اور محبوب چیز کیا ہے؟ تو پھر عرض کیا ہوگا:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.

(البقرة، 2: 129)

’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘

یعنی اپنے آخری نبی سیدنا محمد الرسول اللہ ﷺ کو میرے اسماعیل کی اولاد میں سے عطا فرمادے۔ گویا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اجرت میں خدا کا سب سے پیارا مانگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اولادِ اسماعیل علیہ السلام میں سے حضور ﷺ کے ہونے کی یہ دعا اچانک ہی نہیں مانگ لی بلکہ وہ اس دعا، حسرت اور خواہش کو سالہا سال سے اپنے دل میں بسائے ہوئے تھے اور اب صرف موقع کی تلاش میں تھے کہ مولا سے اپنی نسل میں اس کا محبوب ﷺ کب مانگوں؟ پھر جب آپ علیہ السلام نے کعبہ تعمیر فرمایا تو یہ خواہش دعا بن کر لبوں پر آگئی جسے اللہ نے قبولیت کا مژدہ سنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ ابراہیم علیہ السلام میں سے قربانی صرف امتِ محمدی ﷺ پر واجب ہے۔

ائمہ فرماتے ہیں کہ قربانی کا مقصد صرف واجب ادا کرنا نہیں ہے بلکہ درحقیقت امت محمدی ﷺ ہر سال اپنے جانور قربان کرکے اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتی ہے کہ اس نے جد مصطفی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زندگی عطا کی اور ان کی وساطت اور ذریعے سے انہیں اللہ کا محبوب ﷺ نصیب ہوا۔ یعنی امتِ محمدی ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ اپنے محبوب سے پیار کرنے والو! شکرانے کا یہ انداز اپناؤ کہ ہر سال جانور ذبح کیا کرو کہ اگر اس دن اسماعیل کی جگہ مینڈھا نہ آتا تو تمہیں میرا محبوب ﷺ کیسے ملتا؟ پس خدا نے اپنی سب سے عظیم نعمت اس عظیم امت کو عطا فرمائی جس کے شکرانے میں ہم قربانی ادا کرتے ہیں۔

حضور ﷺ، غربائے امت اور عملِ قربانی

حضرت انسؓ فرماتے ہیں:

ضحی رسول الله ﷺ بکبشین املحین اقرنین، ذبحهما بیده.

(بخاری و مسلم)

’’رسول اللہ ﷺ نے سیاہ و سفید رنگوں والے، سینگدار مینڈھے اپنے ہاتھ مبارک سے ذبح فرمائے۔‘‘

جب سے قربانی واجب قرار پائی، آپ ﷺ نے اپنی ساری زندگی ہر سال دو مینڈھے یا جانور باقاعدگی سے ذبح فرمائے۔ صحابہ کرامؓ روایت کرتے ہیں کہ عیدالاضحی کے دن حضور ﷺ نہ صرف ہر سال دو جانور باقاعدگی سے ذبح فرماتے بلکہ وہ جانور قابلِ دید بھی ہوا کرتے تھے۔ یعنی وہ جانور اپنی صحت، قدامت اور رنگت میں حسین ہوتے۔ جو جانور دیکھنے میں خوبصورت تر، فربہ، طاقتور اور قیمتی تصور ہوتا وہ جانور حضور نبی اکرم ﷺ ہر سال ذبح فرماتے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ واجب تو ایک جانور کی قربانی ہے لیکن آقا علیہ السلام دو جانور ہی باقاعدگی سے کیوں ذبح فرماتے؟ کوئی ایک سال بھی ایسا نہ ہوا کہ آقا علیہ السلام نے صرف ایک جانور ذبح فرمایا ہو۔

قربان جائیں ایسے مالک و آقا علیہ السلام پر کہ آپ ﷺ ہر سال ایک جانور اپنی طرف سے واجب کی ادائیگی کے لیے ذبح فرماتے اور ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرماتے۔ تصور کیجئے کہ کیا کوئی ایسا مالک بھی ہوگا جو اپنے غلاموں کو اتنا یاد رکھے۔ حضور ﷺ قربانی کرتے وقت دعا فرماتے:

بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ.

’’الہی محمد ﷺ، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما‘‘۔

(مشکوة، ص: 127)

دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ارشاد فرماتے:

اَللّٰھُمَّ هٰذَا عَنِّیْ وَعَمَّنْ لَّمْ یُضَحِّ مِن اُمَّتِیْ.

’’الہی یہ میری طرف سے اور میرے ان امتیوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی نہیں کرسکے‘‘۔

(مشکوة، ص: 128)

یعنی امت کا کوئی ایسا شخص بھی تو ہوگا جو قربانی نہ دے پائے گا، لہذا حضور ﷺ اسے بھی اپنی قربانی میں شامل فرماتے تاکہ میرا کوئی غلام اس نیکی سے محروم نہ رہے۔

اپنی ساری حیات مبارکہ میں آپ ﷺ نہ صرف دو جانور ذبح فرماتے رہے بلکہ اپنے وصال مبارک کے قریب مولا علی شیر خداg کو بھی آپ ﷺ نے وصیت فرمائی۔ حضرت علیg روایت کرتے ہیں:

اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَوْصَانِیْ اَنْ اُضَحِّی عَنْهُ. فَاَنَا اُضَحِّ عَنْهُ.

’’رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں‘‘۔

(ابوداؤد، ترمذی وغیره، مشکوة، ص: 128)

لہذا مولا علی شیر خدا آپ ﷺ کے حکم پر اپنے سنِ وصال تک ساری زندگی ہمیشہ دو جانور قربان فرماتے رہے، ایک اپنی طرف سے اور ایک تاجدار کائنات ﷺ کی طرف سے۔

قارئین! جب ہمارے محبوب آقا ﷺ خود قربانی دیتے تو اپنی امت کو کبھی نہیں بھولے تو آج ہم حضور ﷺ کے غلام قربانی دیں تو اپنے آقا ﷺ و مولا کو کیسے بھول جائیں؟ اسی لیے اہل اللہ اور صلحاء میں سے جو لوگ استطاعت رکھتے، وہ دو جانوروں کی قربانیاں کرتے رہے۔ شیخ الاسلام کا بھی ہمیشہ سے یہی معمول ہے کہ دو قربانیاں دیتے ہیں، ایک تاجدار کائنات ﷺ کی طرف سے اور ایک اپنا واجب ادا کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال میں صدق و اخلاص اور للہیت پیدا فرمائے اور ہم جو بھی عمل کریں، اللہ کے لیے کریں، اس عمل کی بجا آوری کو بے خیالی و بے دھیانی سے نہیں بلکہ دلجمعی و خوشدلی کے ساتھ کریں۔ اس لیے کہ اخلاص و صدقِ نیت کے ساتھ ہی کیا گیا عمل ایسا نور پیدا کرتا ہے جو ہماری زندگیوں کو تبدیل کرنے اور اللہ رب العزت کے قرب کے حصول کا ذریعہ قرار پاتا ہے۔