علامہ اقبالؒ کا تصورِ جبرو اختیار

علی وقار قادری

ناچیز جہانِ مہ و پرویں ترے آگے
وہ عالَم مجبور ہے، تُو عالَمِ آزاد

انسان کی فطرت میں کائنات کی تسخیر، تعمیر، تنسیخ کا مادہ رکھ دیا گیا ہے ۔ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس مادے کو کتنا پروان چڑھاتا ہے اور درست سمت میں کام لیتا ہے۔ انسان فطرت بالقوۃ (یعنی وہ فطرت جو ظاہر نہیں ہوتی بلکہ Potentially انسان میں موجود ہوتی ہے)سے دو طرح کی مطابقت پیدا کر سکتا ہے، یا خود کو کائنات سے ہم آہنگ کرے یا سعیِ پیہم کے ذریعے مخفی کائناتی قوتوں کو اپنے لیے مفید مطلب بنا لے۔ ان دونوں کاموں میں خدا انسان کی حرکت کے تناسب سے اس کا مدد گار ومعاون بن جاتا ہے۔ جو خود متحرک نہیں، اللہ اس کا مدد گار نہیں۔

تیری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

فکری ساخت کی تشکیل کے حوالے سے انسان سازی کے چار عناصرہیں:

  1. تحت الشعور
  2. سماجی ماحول
  3. ارادہ و اختیار
  4. عمل

ان میں سے ایک عنصر(سماجی ماحول) خارجی ہے، باقی سب داخلی ہیں جن پر انسان کا مکمل اختیار ہے۔ لہٰذا انسان با اختیار واقع ہوا ہے اور یہ اختیار ہی انسان کی وجہِ فضیلت ہے:

نہ مختارم تواں گفتن نہ مجبور
کہ خاک زندہ ام درانقلابم

مستقبل ذاتِ الٰہی کی کلیت میں تخلیقی فعالیت کی حیثیت میں سمایا ہوا ہے ۔اقبال ؒ کے نزدیک اس چیز کی بصیرت قضاء و قدر پر پختہ یقین کی صورت میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ اقبالؒ قضا و قدر پر ایمان کو خیرِ اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔

لامحدود (یعنی روح) جب محدود (یعنی جسم انسانی) میں ظہور پذیر ہو تو پھر ذاتِ متناہیہ (یعنی انسان) کے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ فعال اور خود مختار ہو۔یہ بنیادی قاعدہ ہے۔

فطرت بالقوہ کی تشکیل کے چار بنیای عناصر ہیں:

  1. اقرارِ الوہیت
  2. فجور و تقوٰی کا امتیاز
  3. بصیرتِ نفس
  4. ذمہ داری اور جوابدہی

(فطرت کا قرآنی تصور از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاهرالقادری، ص: 11۔13)

خیرو شر اور فجور و تقویٰ میں امتیاز کا عنصر ہر انسان میں رکھ دیا گیا ہے ، تاکہ وہ ارادہ و اختیار میں اس کو بروکار لائے۔ خیر و شر اور فجور و تقویٰ میں تمیز کے درجہ بہ درجہ پہلو انسان میں رکھنے سے مقصودیہ تھا کہ اس تمیز کے نمایاں احساس کی بناء پر منفی محرکات کو اختیاراً قابو میں رکھنا ممکن ہو سکے اور مثبت محرکات کو قصدو ارادہ کی بنیاد پر بروئے کار لانا اور ماورائی حقیقت یعنی ذاتِ خدا سے تقرب حاصل کرنا ممکن ہو سکے۔ یہی فطرت بالقوۃ کے حقیقی فروغ کا مثبت سمت میں وظیفہ ہے۔

فطرتِ انسانی کی اس (مذکورہ) ساخت کو دیکھا جائے تو یہ بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان شر کے اختیار پر مجبور نہیں۔ ساتھ ہی کمال یہ ہے کہ انسان کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ وہ فطرتِ انسانی کے مثبت تقاضوں کو ذاتِ باری کے اوصافِ عالیہ کی نہج پر برت سکے اور مزید پروان چڑھائے۔ شریعت کا بھی یہی مطلوب ہے کہ تخلقوا باخلاق اللّٰہ۔ اللہ کے اخلاق اپناؤ۔ حضورa کا اخلاق قرآن/کلام الٰہی، یہ اخلاق کو پروان چڑھا کر مثبت سمت میں برتنے کی اتنہا اور آخری درجہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام کمالات کے باوصف انسان کے ارادے پر کچھ حد بندی منشائِ قدرت نے کر دی ہے کیونکہ اِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر.

آزادی و اختیار کا یہ شعور اور احساس ،پوری نسلِ انسانی یا کسی بھی طبقہ کے ارتقاء اور کامیابی کے لئے 'اصولِ حرکت' کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی پہلو کے شعور کی بنیاد پر تہذیب، تمدن، مذاہب اور اقوام تاریخ رقم کرتی ہیں۔ اس شعور کا احساس اور قوی تر احساس کامیابی کی ضمانت ہے۔ جن اقوام سے یہ احساس چھن جائے، ان کو زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

یہاں سے جبروقدر کی بحث میں اقبال خودی کی کار فرمائی کو لے کر آتے ہیں۔ یعنی خودی کا ارداہ و اختیار سے گہرا تعلق سمجھتے ہیں۔ اقبالؒ خودی کو زمان ومکاں کی زنجیروں میں مقید نہیں سمجھتا جیسا کہ انسان کا ماوی وجود اس کا پابند ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ ذہنی اور طبعی افعال زمان کے اندر وقوع پذیر ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود جس طرح زمانِ الٰہی اس مادی زمان سے مختلف ہے (حالانکہ یہ مادی زمان بھی الٰہی تخلیق ہے) اسی طرح خودی کا زمان ایک علیحدہ صورتِ حال رکھتا ہے۔ پس طبعی حوادث اور ذہنی حوادث ہوئے اس مادی زمانے میں ہیں مگر اس پر من کل الوجودہ طبعی وجوب اور زمانی لزوم کا اطلاق نہیں ہوا کرتا۔

خودی کے زمان کی وسعت اس مادی زمان کی وسعت سے بدرجہا زیادہ ہے۔ انسان کے ارادہ پر انسانی وجود سے زیادہ خودی اثر انداز ہوتی ہے۔ پس وجودِ انسانی کا درجۂ اختیار خودی کے درجۂ اختیار سے بدرجہا بلندہے، پس انسان ارادے ، اختیارو ترک میں بڑی حد تک با اختیار ٹھہرا۔

انسان کی خودی فطرت سے گہری وابستگی رکھتی ہے ۔ خودی کو اگر فطرت سے الگ کر کے روح کی صورت دے دی جائے تو یہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ فطرت کے راز انسان پر منکشف کرے۔ مراد یہ کہ روح میں آزادی کا عنصر کثیر ہے،خودی اگر ترقی پا کر اس مقام کے قریب قریب آجائے توپھر انسان پر فطرت کے انکشافات ہونے لگ جاتے ہیں۔ اس جہت میں انسان زیادہ محنت کرے تووہ آزادی میں دو چند وسعت پید کر سکتاہے۔ اسی کی بدولت ذہنِ انسانی سے تصورات و ایجادات عمل میں آتی ہیں۔ اقبالؒ کے کہا تھا:

وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا

اقبالؒ نے اپنی نظم ’’نوائے وقت‘‘ میں وقت کو ایک انسانِ کامل کے حضور لا کھڑا کیا اور یہ سب کچھ خودی کا اعجاز تھا۔ خودی کے دو پہلو ہیں: ایک پہلو قدر آفرینی (باطنی پہلو) ہے جو ماورائی اور داخلی قوتوں سے انسان کو جوڑتا ہے اور دوسرا پہلو اثر اندازی ہے جو عالمِ خارج سے متعلق ہے۔ اقبال کا مرد قلندر یا مرد کامل وہ ہے جو زمانے کا پابند نہیں ہوتا بلکہ زمانے کو اپنے تابع رکھتا ہے:

مہر و ماہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر