سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث نشست: سوم، آخری حصہ: فتویٰ کے قابلِ قبول ہونے کا معیار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین


تحریکِ منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام 7 تا 9 اکتوبر 2017ء کو سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث منعقد ہوا۔ جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علوم الحدیث پر خصوصی لیکچرز ارشاد فرمائے۔ اس دورۂ علوم الحدیث میں پاکستان بھر سے علماء کرام و مشائخ عظام، شیوخ الحدیث، مدارس اور یونیورسٹیز کے پروفیسرز، ڈاکٹرز، لیکچرارز اساتذہ کرام اور منتہی کلاسز کے طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ان لیکچرز کی خاص علمی و تحقیقی اہمیت کی وجہ سے اس کے مخاطبین عامۃ الناس نہیں بلکہ علماء و فضلاء تھے۔ اس دورۂ علوم الحدیث میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان مباحث کو موضوع بنایا جنھیں عام طور پر مدارس میں نہیں پڑھایا جاتا۔ اس بناء پر یہ دورۂ علوم الحدیث اپنی ایک خاص حیثیت کا حامل تھا۔ اس دورۂ علوم الحدیث میں شیخ الاسلام نے؛ علم الحدیث کیا ہے؟، حدیث کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم، حضور ﷺ کے وصفِ خِلقی و خُلقی اور آپ ﷺ کے خواب کا بھی حدیث ہونا، احادیث کی اقسام، حدیثِ غیر صحیح کا مفہوم، مقبول و مردود کی وضاحت، خبرِ مردود کی اقسام، بدعتی راوی کی روایت کا حکم، اصح الاسانید، حدیثِ صحیح کے مراتب، حدیثِ صحیح کی تقسیمِ سبعی، کیا کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے اس کا صحیح بخاری میںہونا ضروری ہے؟، مدارِ صحت کتاب پر نہیں بلکہ اسناد پر ہوتا ہے، کیا صحیح بخاری کے علاوہ بھی صحیح احادیث ہیں؟، حدیثِ ضعیف کی حجیت، حدیثِ ضعیف کی اقسام، امام بخاری کا ضعیف احادیث کو بیان کرنا، حدیث میں سند کی اہمیت، حدیثِ ضعیف کی حجیت پر محدثین اور فقہاء کے اقوال، حدیثِ ضعیف کی اصطلاحات، قبولیتِ حدیثِ ضعیف کی متفق علیہ اور مختلف فیہ شرائط، حدیثِ ضعیف کے بارے میں مذاہب، فقہاء اور محدثین کا حدیثِ ضعیف سے استدلال، قواعدِ جرح و تعدیل، جرح کے قابلِ قبول ہونے کا معیار، اختلافِ امت اور علمی مزاج، حرمت کا اثبات صرف قرآن و حدیث سے ہوتا ہے اور متعدد علمی مباحث کو واضح فرمایا۔

اس سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث کے مذکورہ موضوعات ماہنامہ منہاج القرآن میں ماہ جنوری 2020ء سے ماہ جولائی2021ء تک مسلسل شائع کیے گئے۔ اس دورۂ علوم الحدیث کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے:


سب کچھ ایک فتویٰ پر محمول کرنا درست طرزِ عمل نہیں

یہ امر ذہن میں رہے کہ ایک فتویٰ پر علم کا کلچر اور رخ کا بدل جانا درست عمل نہیں۔ ایک قول، ایک استاد اور ایک طریق پر سارا کچھ محمول کرنے کا طرزِ عمل درست نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بھی اسی طرح کا ماحول پنپ رہا ہے۔ ہم بھی ایک فتوٰی، ایک قول یا ایک استاد پر سارا کچھ محمول کردیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال بریلویت اور دیوبندیت ہے۔ یاد رکھ لیں! بریلویت اور دیو بندیت کوئی مذہب نہیں ہیں۔ یہ اِسی طرح ہے جیسے ہم اپنے مسلک کا نام ثمرقندی، بخاری یا دہلوی رکھ دیں۔ یہ بڑے اکابر علماء کے مدارس ہیں۔ اُن سے اگر کسی کو علمی، مسلکی اختلاف ہے تو اس اختلاف کو علمی اختلاف کے دائرے میں رکھیں۔ اُس اختلاف کو سارا دین، سارا مذہب اور سارا مسلک نہ بنا دیں۔ افسوس ہم ایک مسئلہ یا واقعہ کو سارا مسلک اور مذہب بنا دیتے ہیں۔ کوئی بھی واقعہ پیش آتا ہے تو پوچھا جاتا ہے کہ اس مسئلے پر فلاں امام کے فتوٰی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ گویا قرآن، حدیث، امام اعظم کا مذہب،دلائل الغرض سب کچھ ایک طرف کردیتے ہیں۔ جب ہم کسی ایک واقعہ، ایک لفظ، ایک فتویٰ، ایک قول، ایک تحریر اور ایک تقریر پر سارا مدار قائم کر دیتے ہیں اور علم کے سارے قواعد و ضوابط اور کتب کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں تو پھر معاشرے میں جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اور سارا دین تعصبات کی نظر ہو جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل سے نقصان کسی اور کا نہیں ہوگا بلکہ ہمارے اپنے مسلک کا ہو گا۔

ہمارا مسلک اہل السنت والجماعت ہے جبکہ بریلوی اساتذہ کی ایک نسبت ہے۔ اعلیٰ حضرت، مجدد دین و ملت حضرت شاہ احمد رضا خاںؒ میرے بھی شیخ الشیخ ہیں۔ میں اپنے اساتذہ محدث اعظم مولانا سردار احمدصاحبؒ، ابو البرکات سید احمد صاحب قادریؒ اور مولاناضیاء الدین مدنیؒ کے طریق سے ایک واسطہ سے اعلیٰ حضرتؒ کا شاگرد ہوں۔

پس علمی طریق یہ ہے کہ استاد کو استاد رہنے دو۔ کوئی جامعہ رضویہ میں پڑھتا ہے، کوئی جامعہ نعیمیہ میں پڑھتا ہے، جو مولانا نعیم الدین مراد آبادی کے نام پر ہے، کوئی علامہ احمد سعید کاظمیؒ کے انوار العلوم میں پڑھتا ہے، کوئی فیصل آباد میں جامعہ رضویہ میں پڑھتا ہے، کوئی ہجویریہ میں پڑھتا ہے۔ یہ ہمارے مدارس کی پہچان ہے۔ اسناد کی پہچان ہے، اساتذہ کی سند ہے کہ کس کس استاد سے پڑھے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم ان اساتذہ اور مدارس کے نام پر مذاہب و مسالک بنالیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی امام سیوطی اور حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ سے پڑھا ہے تو اِن آئمہ سے پڑھنے سے مسلک عسقلانیہ، مسلک سیوطیہ، مسلک قاضی عیاضیہ، مسلک قسطلانیہ نہیں بن گیا۔ یہ ساری ہستیاں اساتذہ تھے اور شیوخ تھے، تمام بڑے اور چھوٹے لوگ پڑھے مگر کسی استاد کے نام پر کوئی مسلک اور شناخت نہیں بنائی، مسلک ایک ہی رہا۔ امام اعظم، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل سے لے کر آج تک مسلک أھل السنۃ والجماعۃ ہی ہے۔ اُس کے اندر اساتذہ، مدارس، شیوخ، مراکز، اسناد اور طرق بھی آئے ہیں۔ یہ ساری علمی شناخت اور حصولِ علم کے طریقے ہیں۔ اسی طرح سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ، سہروردیہ، رفاعیہ، شاذلیہ یہ تمام مشائخ کے سلاسل ہیں تو کیا اب ان طرق اور مشائخ کے نام پر مسلک بنا دیں اور پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جنگ کریں اور ایک دوسرے پر تکفیر تضلیل اور تفسیق کے فتویٰ لگائیں۔

کسی کے فتوٰی کی تکذیب نہ کریں

ہمارا طرزِ عمل یہ ہے کہ اگر کوئی ہمارے فتویٰ کو نہ مانے تو ہم اس کی تکفیر، تضلیل اور تفسیق کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ عمل سلف صالحین کا نہیں تھا۔ مثلاً: میں یزید کے کفر کا قائل ہوں۔ یہ میرا نقطہ نظر ہے۔ ہمارے بہت سے اکابر علمائِ اہل سنت اُس کی تکفیر نہیں کرتے۔ امام اعظم سے یزید کی تکفیر ثابت نہیں، مگر اُس کا مومن ہونا بھی ثابت نہیں ہے۔ امام احمدبن حنبل نے تکفیر کی ہے۔ میں مذہباً حنفی ہوں مگر یزید کے مسئلے پر حنبلی ہوں، اس لیے کہ یہ مسئلہ فقہ کا نہیں ہے۔ اس مسئلہ پر میں امام احمد بن حنبل کے مشرب پر ہوں، یزید کی تکفیر کرتا ہوں، اُس بے ایمان کو لعین اور جہنمی کہتا ہوں، میرے پاس اس کے دلائل ہیں۔ بعض دیگر علماء نے اس مسئلہ پر سکوت کیا ہے، یہ اُن کا اپنا موقف ہوگا۔ لہذا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ نہ کسی کے فتویٰ کی تکذیب کریں، نہ جھٹلائیں اور نہ اُس پر فساد انگریزی کریں۔

امام اعظم کے خلاف علمی فتاوٰی

امام اعظم کے زمانے میں بھی ان کے معاصر لوگوں نے اُن کی مخالفت کی تھی۔ ایک طرف ایک طبقہ تھا جو اہل الروایہ والاثر کہلاتا تھا۔ یعنی اصحاب الحدیث۔ اُن کا کل مبلغ علم حدیث کے الفاظ کو روایت کرنا، سند کو یاد رکھنا، ایک ایک راوی کے حالات کو یاد رکھنا، لفظاً لفظاً اور حرفاً حرفاً حدیث کو صحت کے ساتھ بیان کرنا اور اِس پر محنت کرنا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ کل علم ہی یہ ہے۔ وہ اِس سے زائد کسی اور چیز کو علم ماننے کو تیار نہیں تھے۔ ان حالات میں انھیں امام اعظم کا قرآن و حدیث سے استنباط و استدلال اور ان کی فقہ کیونکر قبول ہوسکتی تھی۔ لہذا اِن کے خلاف بھی فتاوٰی کا ایک طوفان ظاہر ہوتا ہے۔

لوگ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو مرجئہ کا طعنہ دیتے تھے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ میرا عقیدہ ہے کہ ایمان، قول اور عمل دونوں کا نام ہے۔ جبکہ امام اعظم فرماتے ہیں: ایمان، اقرار و تصدیق کا نام ہے، عمل کا نام نہیں ہے۔ امام بخاری نے فرمایا: جو شخص ایمان کو قول اور عمل دونوں چیزیں نہیں مانتا، میں اُس سے حدیث روایت نہیں کروں گا۔

حسین بن محمد بن وضاح بیان کرتے ہیں کہ ہم نے خود اور دیگر آئمہ نے امام بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا:

کتبت عن ألف نفر من العلماء والزیادة. ولم أکتب إلا عمن قال الإیمان قول و عمل ولم أکتب عمن قال الإیمان قول.

میں نے ایک ہزار اور اس سے زائد آئمہ ، علماء، محدثین سے حدیث لکھی ہے مگر جس نے یہ کہا کہ ایمان؛ قول اورعمل نہیں بلکہ صرف قول اور تصدیق ہے، اُس سے میں نے حدیث نہیں لی۔

یہی وجہ ہے پوری صحیح بخاری میں امام بخاری نے امام اعظم کے شاگردوں سے احادیث لی ہیں مگر امام اعظم سے ایک روایت بھی نہیں لی، اس لیے کہ اُن سے اُن کا اعتقادی اختلاف تھا۔

اب ہمارا مشرب یہ ہے کہ ہم مقلد امام اعظم کے ہیں اور ہمارا مذہب امام اعظم کے قول پر ہے اور حدیث میں امیرا لمومنین علی الاطلاق امام بخاری ہیں۔ علمی طریق ہمیشہ یہ تھا کہ اہلِ علم؛ علم کو جھگڑا نہیں بناتے تھے بلکہ علم کو اعتدال کے ساتھ قبول کرتے۔

لہٰذا علماء اپنا ایک کلچر پیدا کریں کہ علم کو دلائل کے ساتھ رکھیں۔ فتویٰ آپ کا اختیار ہے۔ ہر زمانے میں علماء کے ہر موضوع پر فتاوی ہوں گے، جس کے فتویٰ سے چاہیں اتفاق کریں، جس سے چاہیں اختلاف کریں۔ فتویٰ قرآن اور سنت نبوی کے درجے کی چیز نہیں ہوتی۔ حتی کہ فقہ میں اجماعِ امت کے درجے کی بھی چیز نہیں ہوتی۔ فتوی ایک عالم کا ایک قول ہوتا ہے۔ آپ دلائل کے ساتھ اس سے اتفاق کریں، آپ آزاد ہیں، دلائل کے ساتھ اختلاف کریں، آپ آزاد ہیں، مگر فتویٰ کو کبھی مذہب، مسلک اور دین نہیں بنانا۔ اگر اِس اُصول کو تمام مکاتبِ فکر اپنا لیں تو رخنہ ختم ہوجائے گا اور دین کے باب میں خیر ہوجائے گی۔

نامور آئمہ کا دوسرے آئمہ کے بارے مؤقف

ذیل میں آئمہ کرام کا دوسرے آئمہ کرام کے بارے میں مؤقف بیان کیا جارہا ہے:

  • امام مالک؛ امام محمد بن اسحاق کے بارے میں سخت کلمہ استعمال فرماتے اور منع کرتے کہ خبردار! اُس سے کوئی حدیث نہ لو۔
  • ابن ابی ذئب؛ امام مالک کے بارے میں سخت کلمہ استعمال فرماتے کہ اُن سے کوئی حدیث نہ لو۔
  • سفیان ثوری نے امام اعظم کے بارے میں جرح کی تو سخت کلمے استعمال کیے۔
  • امام ابن معین نے امام شافعی پر جرح کی تو سخت کلمہ استعمال کیا۔
  • امام احمد بن حنبل نے حارث المحاسبی پر سخت جرح کی۔
  • ابن مندہ نے ابو نعیم الاصبہانی پر سخت جرح کی۔

حتیٰ کہ جزء القرأۃ خلف الامام میں امام بخاری فرماتے ہیں:

وَلَمْ یَنْجُ کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ مِنْ کَلَامِ بَعْضِ النَّاسِ فِیهِمْ نَحْوَ ما یُذْکَرُ عَنْ إِبْرَاهِیمَ مِنْ کَلَامِهِ فِی الشَّعْبِیِّ، وَکَلَامِ الشَّعْبِیِّ فِی عِکْرِمَةَ، وَفِیمَنْ کَانَ قَبْلَهُمْ، وَتَأْوِیلُ بَعْضِهِمْ فِی الْعِرْضِ وَالنَّفْس.

’’بکثرت لوگ اپنے مخالف لوگوں کے کلام سے نہیں بچ سکے جیسے ابراہیم کے امام شعبی کے بارے میں اور امام شعبی کا حضرت عکرمۃ کے بارے میں کلام کا ذکر کیا جاتا ہے اور اُن سے جو پہلے ہوگزرے، اُن کے بارے میں مخالف کلام کا ذکر کیا جاتا ہے اور بعض لوگوں کا اپنے معاصر کی عزت و آبرو اور جان سے متعلق مختلف (غیر اخلاقی) تاویلیں گھڑنا (اس کا بھی ذکر ملتا ہے اور یہ کسی دور میں بھی ختم نہیں ہوا)۔‘‘

پھر امام بخاری کہتے ہیں:

وَلَمْ یَلْتَفِتْ أَهْلُ الْعِلْمِ فِی هَذَا النَّحْوِ إِلَّا بِبَیَانٍ وَحُجَّةٍ وَلَمْ یَسْقُطْ عَدَالَتُهُمْ إِلَّا بِبُرْهَانٍ ثَابِتٍ وَحُجَّةٍ.

’’بعض اہلِ علم نے اس (طرح کے ایک دوسرے کے مخالف کلام) کی طرف توجہ نہیں دی۔ سوائے اس کے کہ کوئی جرح واضح حجت سے ثابت ہو۔ نہ ہی اس طرح کے مخالف کلام سے اُن کی عدالت ساقط ہوتی ہے سوائے یہ کہ جرح دلیلِ ثابت اور ثبوت پر قائم ہو۔‘‘

یعنی اِن آئمہ کا ایک دوسرے سے اپنے اپنے دور میں علمی اختلاف تھا، کسی حدیث، فقہ کے مسئلے، کسی قول یا کسی مسئلے پرفتویٰ کا اختلاف تھا، بڑی بڑی سخت حد تک بھی اختلاف پر گئے اور جرح کی مگر آئمہ میں انصاف کا طریق یہ ہے کہ جب ان کا ایک دوسرے کے بارے میں کوئی قول آئے تو عامۃ الناس اسے قبول نہ کریں بلکہ اُن دونوں آئمہ کی تکریم و تعظیم کریں۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ اِس میدان میں بچنے والے صرف انبیاء تھے۔ مزید کہتے ہیں:

لا یلتفت إلٰی کلام ابن أبي ذئب في مالک، ولا یلتفت إلٰی کلام ابن معین في الشافعي، ولا یلتفت إلیٰ کلام النسانی فی أحمد بن صالح، لانهم هولاء ائمة المشهورون.

’’ابن ابی ذئب کا امام مالک کے خلاف، ابن معین کا امام شافعی کے خلاف اور امام نسائی کا احمد بن صالح کے خلاف کلام کو اہمیت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ تمام کے تمام مشہور آئمہ ہیں (اور ان کی عدالت ثابت ہے)۔‘‘

علم کو محفوظ کرنے اور اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لیے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کوشش کریں کہ طبائع کو منافرت، حسد اور بغض سے پاک رکھیں۔ معاصرت (ایک زمانے میں ہونے) کی وجہ سے جو مسائل انسانی و بشری فطرتوں اور طبائع میں پیدا ہوتے ہیں، اُن کے اثرات سے خود کو بچائیں۔ طبیعت میں اعتدال رکھیں۔ جو شخص اعتدال، وسعت، تقویٰ و طہارت، عملِ صالح اور عبادت کے ساتھ رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو شرحِ صدر عطا کرتا ہے، فہم کا نور عطا کرتا ہے اور علم اس کے لیے نور بن جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجاء ہے کہ وہ ہمارے حال پر کرم فرمائے، ہمیں علم کا نور عطا فرمائے اور ہمیں علم کے آداب اور نفع کے ساتھ نوازے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ