نظام المدارس پاکستان کے زیرِ اہتمام تین روزہ ٹیچرز ٹریننگ ورکشاپ

رپورٹ

گزشتہ ماہ نظام المدارس پاکستان کے زیرِ اہتمام 3 روزہ ٹیچرز ٹریننگ ورکشاپ منعقد ہوئی جس میں 200 سے زائد مدارسِ دینیہ کے سیکڑوں اساتذہ نے شرکت کی۔ 3 روزہ ٹیچرز ٹریننگ پروگرام کے پہلے روز جدید طرز کے تقاضوں کے مطابق تربیت یافتہ ماہرینِ تعلیم نے لیکچرز دیئے۔ ماہرینِ تعلیم نے اپنے لیکچرز میں تعلیم میں جدت اور مدارس میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا۔ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ٹریننگ ورکشاپ میں شریک اساتذہ کو منفرد انداز میں تعلیم و تدریس کے طریقے بتائے گئے۔

ناظمِ امتحانات نظام المدارس پاکستان عین الحق بغدادی نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار مدارسِ دینیہ کے اساتذہ کے لیے تربیتی اور ریفریشر کورسز کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس ورکشاپ کا مقصد یہ ہے کہ معیارِ تعلیم کو بہتر کیا جاسکے اور دینی مدارس میں زیرِ تعلیم طلبہ کی صحیح دینی خطوط پر تربیت ہو سکے۔

ٹریننگ ورکشاپ سے علامہ مفتی بدرالزمان قادری نے ’’تدریسی اخلاقیات‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کو تدریسی علم کے ساتھ اخلاقیات کا درس دینا بھی ضروری ہے۔ تعلیم جیسے مقدس پیشے کو کاروبار سے زیادہ مشن کے طور پر لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن اوصاف و امتیازات کے ساتھ نوازا ہے، ان میں دو باتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں: ایک علم اور دوسرا اخلاق۔ اگر ہمارا تعلیمی نصاب اور نظام طلبہ میں اخلاقِ حسنہ پیدا نہ کرے تو ہمیں نصاب اور نظام دونوں کو بدلنا ہو گا۔

حافظ سعید رضا بغدادی ڈائریکٹر شعبہ کورسز منہاج القرآن انٹرنیشنل نے ’’عربی گرائمر و ترجمۃ القرآن‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دینی علوم اور فنون پڑھاتے ہوئے طریقۂ تدریس کو بہتر سے بہترین بنانا ہوگا۔ تدریس کے دوران ملٹی میڈیا اور جدید ذرائع کا استعمال کر کے تدریس کا معیار بہتر کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد جامی نے ’’علمی ثقاہت کی ضرورت و اہمیت‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ استاد کا تعلیمی معیار مستقبل میں قوم کے تعلیمی معیار کا عکاس ہوتا ہے۔ علمی و فکری طور پر کمزور استاد کبھی بھی بہترین معاشرے کی تشکیل نہیں کر سکتا۔

ڈائریکٹر نصاب نظام المدارس ڈاکٹر شفاقت علی بغدادی نے ’’نظام المدارس پاکستان کے نصاب کا تعارف‘‘ کرواتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تین صدیوں بعد مدارسِ دینیہ کے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ایک نئی نسل کی تیاری کی بنیاد رکھ دی ہے۔

معروف موٹیویشنل سپیکر اور ڈائریکٹر ٹریننگ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی ہارون ثانی نے کلاس مینجمنٹ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ پڑھانے اور سکھانے میں فرق ہے۔ حقیقی استاد وہ ہے جو پڑھائے بھی اور سکھائے بھی۔ ہمارے نظامِ تعلیم کا بڑا حصہ معلومات کا ذخیرہ تو دیتا ہے مگر عملی زندگی کا تجربہ فراہم نہیں کرتا۔

ڈائریکٹر ٹریننگ علامہ غلام مرتضیٰ علوی نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیئے۔ پہلے دن کی نشست میں مرکزی قائدینِ تحریک، حاجی امداد اللہ خان صدر نظام المدارس سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی خصوصی شرکت کی۔

نظام المدارس پاکستان کے زیرِ اہتمام تین روزہ ٹریننگ ورکشاپ کے دوسرے روز فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر علامہ محمد فاروق رانا، ناظمِ اعلیٰ نظام المدارس پاکستان علامہ میر آصف اکبر، سید عبد الرحمن بخاری، ڈاکٹر شفاقت علی بغدادی، ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی، موٹیویشنل سپیکر اظہار الحق، ماسٹر ٹرینر عمران بھٹی، علامہ غلام مرتضیٰ علوی اور علامہ عین الحق بغدادی نے معلم کے اوصاف، ادارہ جاتی استحکام، انتہا پسندی اور متشدد رویوں سے نجات، اخلاقیات، فنِ اظہار و بیان، عربی زبان کے قواعد کے موضوعات پر لیکچرز دئیے۔

محمد فاروق رانا نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کے ذریعے انتہا پسندی اور عدمِ برداشت کے چیلنج سے نمٹاجا سکتا ہے۔ انسانیت سے محبت اور حسنِ سلوک کا برتاؤ اللہ کے رسول  ﷺ کی سنت ہے۔ اسلام مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں سے محبت و شفقت پر مبنی سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ایک مسلمان اور مومن کی پہچان اس کا پیکرِ اخوت و محبت ہونا ہے۔

موٹیویشنل سپیکر اظہار الحق نے کہا کہ حال ہی میں ہاورڈ یونیورسٹی میں ایک سٹڈی کی گئی ہے جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو قومیں وقت کی قدر کرتی ہیں ان کے رویے معتدل پائے گئے اور وہ محنت پر یقین رکھتی ہیں، اپنی ذمہ داریوں اور اپنے رشتوں سے انصاف کرتی ہیں۔ اس سٹڈی میں وہ قومیں جو پسماندہ ہیں، وہ ان اوصاف سے محروم پائی گئیں۔ ترقی و خوشحالی کے لیے ہمیں اپنے رویوں کو ٹھیک کرنا ہو گا۔

نظام المدارس پاکستان کی تین روزہ تدریسی ورکشاپ کے تیسرے روز سیکڑوں علماء نے مشترکہ اعلامیہ میں سانحہ سیالکوٹ کی مذمت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ مدارسِ دینیہ کے طلبا کے اخلاق اور کردار سازی پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے گی۔ علماء نے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ ایسے پرتشدد واقعات کا اسلام کی پر امن تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ذمہ داروں کو قانون کے مطابق کڑی سزا ملنی چاہئے۔

ورکشاپ کے اختتامی روز چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے تین روزہ تدریسی ورکشاپ میں شرکت کرنے والے مدرسین و مدرسات، ناظمین و ناظمات کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ استاد اور علماء نئی نسل کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں ادب اور اخلاق سکھائیں، اختلافِ رائے کا مطلب دشمنی اور دنگا فساد نہیں ہوتا۔ ائمہ و محدثین کے درمیان فقہی امور پر اختلافِ رائے ہوتا تھا مگر ان کے درمیان ادب و احترام کا رشتہ قائم و دائم رہتا تھا۔ علمی اختلاف پر کبھی قطع تعلق نہیں ہوتا تھا، افسوس! آج گردنیں کاٹی جاتی ہیں، اس متشدد رویے کا مصطفوی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسلام دینِ امن و رحمت ہے، اس میں سیالکوٹ جیسے سانحات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ایک اسلامی سوسائٹی میں معلم کا کردار بڑا اہم ہے، معلم کے کردار سے ہی سوسائٹی میں تہذیب و شائستگی کی اقدار پروان چڑھتی ہیں۔

ناظمِ اعلیٰ تحریک منہاج القرآن خرم نواز گنڈا پور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ متشدد رویوں والے معاشرے مٹ جاتے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بین المذاہب رواداری اور اور اتحادِ امت کو فروغ دے رہے ہیں۔

اس موقع پر نظام المدارس پاکستان کے صدر علامہ امداد اللہ قادری، ڈاکٹر ممتاز الحسن باروی، ڈاکٹر شبیر احمد جامی، علامہ میر آصف اکبر، علامہ محمد فاروق رانا، علامہ بدر الزمان، علامہ سعید رضا بغدادی، ڈاکٹر شفاقت بغدادی، ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی، علامہ غلام مرتضیٰ علوی، اظہار الحق، عمران بھٹی، علامہ عین الحق بغدادی، ہارون ثانی، عبدالرحمن بخاری نے بھی خطاب کیا۔ اختتامی تقریب میں بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، علامہ رانا محمد ادریس، جی ایم ملک، رانا نفیس حسین قادری، مظہر محمود علوی، سدرہ کرامت، ام حبیبہ اسماعیل، معروف صحافی و کالم نویس حافظ شفیق الرحمان، میاں حبیب، قاضی فیض الاسلام نے شرکت کی۔