نظم و ضبط اور بیداریٔ شعور کی مہم

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے موجودہ حالات کے تناظر میں کارکنان کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ہر قسم کے احتجاج،انتشار،تقسیم اور دنگا فساد سے دور رہیں۔ قیادت کا یہ اولین فریضہ ہوتاہے کہ وہ اپنے کارکنان کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں گرم، سرد حالات سے باخبر رکھتے اور ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ قیادت کیلئے اس کے کارکنان اس کی اولاد کی طرح ہوتے ہیں۔ وطن عزیز کے حالیہ سیاسی،سماجی حالات نئے نہیں ہیں، عدمِ استحکام کا یہ سلسلہ چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے ۔ زندگی کا ہر شعبہ نا اہلی، کرپشن اور اور اقربا پروری کی وجہ سے زوال پذیر ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے قومی جسم کو لاحق عوارض کی تشخیص 40 سال قبل کر لی تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ اگر اقوامِ عالم میں بطور قوم معتبر ہونا ہے تو اس کے لئے نوجوانوں کو تعلیم، تربیت اور پختہ شعور دینا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ فرسودہ نظام سے نجات حاصل کرنا ہوگی، بصورت دیگر کولہو کے بیل کی طرح ہماری کوئی منزل نہیں ہو گی۔ شیخ الاسلام نے فصاحت کے ساتھ بیان کر دیا کہ یہ نظام فساد کی جڑ ہے اگر اس نظام کے اندر جوہری تبدیلیاں(جامع اصلاحات) نہ لائی گئیں تو پھر ایک یا دو الیکشن نہیں سو الیکشن بھی کروا لئے جائیں چہرے تو بدلیں گے مگر عوام دوست کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

سسٹم میں جوہری تبدیلیوں کیلئے شیخ الاسلام نے کارکنان کی ہمہ جہتی تربیت کا آغاز کیا اور ایک ملک گیر بیداری شعور مہم چلائی گئی۔ جو الحمداللہ تا حال پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ شعور و آگہی کے بغیر انفرادی یا اجتماعی سطح پر بہتری کی کوئی کاوش ثمربار نہیں ہو سکتی۔ اس ضمن میں شیخ الاسلام نے تحریک کے فکری امتیازات، قیادت کے اوصاف، اسلامی فلسفہ حیات، ایمانی زندگی کے تقاضے، حصولِ مقصد کیلئے نتیجہ خیز جدوجہد، قرآنی فلسفہ انقلاب، معیشت، معاشرت کے موضوعات پر کارکنان کی تربیت کی۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ اگر کارکنان لاکھوں کی تعداد میں ایک شہر سے دوسرے شہر جائیں تو نہ پتا ٹوٹتا ہے اور نہ کوئی گملہ۔ شیخ الاسلام کے تربیت یافتہ کارکنان کے نظم و ضبط کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ شاید ہی کوئی اور ایسی قیادت موجود ہو جس کے ایک اشارے پر کارکن متحرک ہوتے ہوں یا ساکت ہوتے ہوں لیکن ان کارکنان کی تربیت بھی اس انداز سے کی گئی ہے کہ وہ تحریک کی پالیسیوں اور وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں برملا اور دو ٹوک سوال بھی کرتے ہیں،جواب بھی مانگتے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں اور پھر جب فیصلہ اتفاق رائے کے ساتھ ہوجاتا ہے تو پھر اسے من و عن قبول کرتے ہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی جادوئی شخصیت کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو وہ ان کا نظم و ضبط ہے۔ بانی پاکستان نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ایک نظم کے ساتھ گزارا ہے اور ان کے نظم و ضبط کے بدترین مخالف بھی معترف تھے۔ قائد اعظم ؒ انگریزی زبان میں بات کرتے تھے مگر عامۃ الناس کا یہ ایمان تھا کہ قائد اعظم ؒ جو کہتے ہیں وہی سچ ہے۔ قیادت اور کارکن کے درمیان جب نظم و ضبط اور اعتماد کا رشتہ قائم ہو جائے تو پھر اس قوم کو منزل تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی نظم و ضبط اور قیادت پر اعتماد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔ جو قوتیں پاکستان کی تشکیل کی مخالف تھیں، ان کے پاس طاقت، وسائل اور افرادی قوت اسلامیانِ بر صغیر سے کہیں زیادہ تھی مگر فتح قائد اعظم ؒ اور ان کے چاہنے والوں کی ہوئی۔ اس کی وجہ قیادت پر اعتماد اور نظم و ضبط کی پاسداری تھی۔ نظم و ضبط ہی کسی قوم اور معاشرے کی تہذیب و شائستگی کا معیار پرکھنے کا واحد پیمانہ ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 40سالہ تحریکی جدوجہد کے دوران کارکنوں کو نظم و ضبط سکھایا ہے۔ جب تک کارکن ڈسپلن کے سنہری اصول پر کاربند رہیں گے، مصطفوی انقلاب کا یہ قافلہ پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہے گا اور الحمداللہ یہ نظم و ضبط کارکنان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں تحریک کے خلاف مخالفانہ ہوائیں چلیں مگر کوئی منفی سوچ تحریک کا بال بھی بیکا نہ کر سکی۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تعلیم و تربیت کیلئے روز اول سے ہی انتظام فرما دیا تھا۔ انسان کو خسارے سے نکال کر رشکِ ملائک بنانے تک کے سفر کیلئے رب کائنات نے ایک لاکھ 24ہزار پیغمبر بھیجے یعنی ایک پر امن، اعتدال و توحید پسند امت کیلئے تربیت بنیادی نقطہ ہے۔ اسلامی طرز حیات اور معاشرت میں نو مولود کی نگہداشت اور تربیت کا فریضہ اللہ نے والدین کے سپرد کیا اور پھر جب وہی نومولود بلوغت کا سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے تو تربیت کا فریضہ استاد لے لیتے ہیں۔ اس طرح تربیت کا یہ مرحلہ پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر زمانہ بھی بذاتِ خود ایک استاد ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے انسان کی تربیت کے اسلامی فریضے کی انجام دہی پر تمام تر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل فی زمانہ کرۂ ارض کی واحد اصلاحی تحریک ہے جو تربیت پر سب سے زیادہ فوکس کر رہی ہے۔ تربیت کے مراحل کی بجا آوری میں اس کے انسٹیٹیوشنز کا مرکزی کردار ہے ۔ یہ انسٹیٹیوشنز تربیت کی وجہ سے دیگر انسٹیٹیوشنز سے منفرد اور ممتاز ہیں۔ عصری تعلیم کے میدان میں منہاج یونیورسٹی لاہور، مدارسِ دینہ میں نظام المدارس پاکستان، دینی اور دنیاوی تعلیم کے فروغ میں کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، لارل ہوم انٹرنیشنل سکولز، منہاج کالج برائے خواتین، آغوش آرفن کیئر ہوم اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں، یعنی تعلیم، تربیت اور نظم و ضبط شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے کارکنان کی شناخت ہے، اس شناخت کو قائم رکھنا کارکنان کی اولین تنظیمی، تحریکی اور فکری ذمہ داری ہے۔

آغاز میں بیان کیا گیا کہ قیادت ہر مرحلہ پر اپنے کارکنان کی رہنمائی اور حفاظت کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ آج ہم جس عہد میں جی رہے ہیں، یہ سوشل میڈیا کا عہد ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے امت کے اتحاد کا فریضہ بھی انجام دیا جا سکتا ہے اور منفی سوچ رکھنے والے افراد اس سے شر انگیزی کا کام بھی لیتے ہیں۔ کچھ گروہ ایسے بھی سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں جو معصوم عوامی جذبات کو مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے اور دوسروں کی زندگیاں جہنم زار بنا دیتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر پاکستان کی سلامتی سے کھلواڑ کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے اور اس پکڑ دھکڑ میں وہ افراد بھی آ رہے ہیں جن کا براہ راست کسی فتنہ سے کوئی تعلق نہیں مگر نفرت اور تشدد کی لہر کا انجانے میں وہ بھی حصہ بن گئے اور اب وہ سنگین نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی لئے جیسے ہی موجودہ سیاسی قضیہ رونما ہوا تو شیخ الاسلام نے فوراً کارکنان کو ہدایات جاری کیں کہ وہ جانے یا انجانے میں کسی شورش کا حصہ مت بنیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک حالات موافق رہتے ہیں، کرسیوں پربیٹھنے والوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا مگر جب ان کے مفادات پر زد پڑتی ہے تو پھر وہ عقائد، نظریات اور خودداری کے نعرے تخلیق کر لیتے ہیں اور معصوم کارکنان کی توانائیوں اور زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی فکر اول روز سے ابہام سے پاک ہے۔ یہ فکر ہر نوع کے تشدد اور انتہاپسندی سے مبرا اور اعتدال و میانہ روی کی مصطفوی تعلیمات سے مزین ہے۔ اس وقت اسمبلیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیداریٔ شعور کی مہم کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ انتشار، غربت، ناخواندگی اور بے مقصدیت نے پورے نظام زندگی کو زوال پذیر بنا رکھا ہے۔ مایوسی کے اس اندھیرے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت اور تحریک منہاج القرآن کے ادارے اور فورمز روشنی کی کرن ہیں۔ اطاعتِ امیر اور نظم و ضبط کی طاقت سے ان شاء اللہ تعالیٰ مشکلات آسانیوں میں بدلیں گی۔