معاشرتی تعمیر اور کردار سازی کے اصول

پروفیسر محمدالیاس اعظمی

امتِ مسلمہ آج جس زوال و انحطاط کا شکار ہے اس کا نمایاں ترین پہلو اخلاقی و روحانی اقدار کا زوال ہے اور اس زوال سے نکلنے کے لیے اسوۂ رسول ﷺ سے بڑھ کر اور کوئی نسخہ کارآمد نہیں ہوسکتا۔ معاشرتی تعمیر اور کردار سازی کے لیے قرآن مجید اور سنتِ نبوی ﷺ کے عطا فرمودہ اصولِ حیات کا مقابلہ ساری دنیا بھی مل کر نہیں کرسکتی۔ نبی کریم ﷺ نے قرآن مجید اور اپنے ارشادات کی صورت میں جو ضابطۂ اخلاق بیان کیا ہے اس کے اہم ترین اور روشن ونمایاں پہلوؤں میں؛ آزادی تحریر و تقریر، ظلم کے خلاف احتجاج کا حق، فتنہ پروری سے احتراز، جھوٹی افواہیں پھیلانے سے اجتناب، تحفظِ آبرو کا حق، نجی زندگی کا تحفظ، عریانی و فحاشی کا انسداد، مذہبی دل آزاری سے گریز، خود احتسابی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، صدق و سچائی کا فروغ، حریتِ فکر کی آزادی، اسلام مخالف ملحدانہ نظریات کا انسداد، افراد کی اخلاقی و روحانی کردار سازی، ظالم کو ظلم سے روکنا، کمزوروں کی داد رسی اور حکمت و مواعظ حسنہ ایسے سنہری اصول شامل ہیں۔ آئندہ سطور میں انہی اصولوں پر بقدرِ ضرورت روشنی ڈالی جاتی ہے:

1۔ بلا تحقیق بات سے اجتناب

اسلام کا یہ بنیادی اور مسلمہ اصول ہے کہ کوئی خبر بغیر تحقیق کے آگے نہ پھیلائی جائے کیونکہ جھوٹی اور غیر مصدقہ افواہوں سے معاشرے کے اندر بعض اوقات ایسے مضر اثرات پڑتے ہیں کہ جس سے معاشرتی امن و سکون ختم ہوجاتا ہے اور لوگوں کے اندر تفرقہ و انتشار پھیل جاتا ہے اور امت کی وحدت پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ واقعہ افک میں یہی تو ہوا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے:

اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا ق صلے وَّهُوَ عِنْدَ اللهِ عَظِیْمٌ.

(النور، 24: 15)

’’جب تم اس (بات) کو (ایک دوسرے سے سن کر) اپنی زبانوں پر لاتے رہے اور اپنے منہ سے وہ کچھ کہتے رہے جس کا (خود) تمہیں کوئی علم ہی نہ تھا اور اس (چرچے) کو معمولی بات خیال کر رہے تھے، حالاں کہ وہ اللہ کے حضور بہت بڑی (جسارت ہو رہی) تھی۔‘‘

چونکہ جھوٹی خبروں کے معاشرے پر برے اثرات پڑتے ہیں اس لیے قرآن مجید نے مخبر (خبر دینے والے) کے حوالے سے یہ ہدایت دی ہے کہ

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا م بِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ.

(الحجرات، 49: 6)

’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔‘‘

2۔ نجی زندگی کا تحفظ

یہ ایک بین الاقوامی اور مسلّمہ اصول ہے کہ ہر شخص کو مکمل رازداری کے ساتھ نجی اور ذاتی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، جب تک کہ اس کا کوئی فعل اسلامی ریاست اور معاشرے کے اجتماعی مفاد کے خلاف نہ ہو۔ ہم میں سے اکثریت اس مسلّمہ اخلاقی و قانونی اصول کو نظر انداز کردیتی ہے اور اظہار رائے کی آزادی کے خود ساختہ تصور کی آڑ میں کسی کے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھنے کی وجہ سے ذاتیات پر اتر آتی ہے اور پھر اس کی ذاتی اور نجی زندگی پر غیر شائستہ انداز میں حملے کیے جاتے ہیں۔ کسی کی ذاتی زندگی کو متنازع انداز میں موضوعِ بحث بنانا تو ایک طرف رہا، قرآن مجید نے کسی کے گھر کی چار دیواری میں بغیر اجازت لیے داخل ہونے سے بھی منع کیا ہے تاکہ گھروں کے اندرونی احوال بھی پردہ اخفاء میں رہیں۔

یہ ہے اسلام کے اندر نجی زندگی اور معاملات کے تحفظ کا وہ تصور جس کو بدقسمتی سے اظہارِ رائے کی آزادی کے تصور کی آڑ میں پامال کیا جاتا ہے اور معاشرے کے بعض افراد کی خاندانی اور گھریلو زندگی کو موضوعِ بحث بناکر انسانیت کے وقار کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔ اسلام اس قسم کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے برعکس اسلام ستر پوشی اور عیب پوشی کی تعلیم دیتا ہے۔ مربی اعظم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

من ستر مسلما ستره الله یوم القیامة.

(صحیح بخاری، کتاب المظالم، 2: 862، رقم الحدیث: 2310)

’’جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘

3۔ بدگمانی اور کھوج لگانے کی ممانعت

کسی کی نجی زندگی کی ٹوہ لگانا تو ایک طرف اسلام تو کسی بھی فرد کے بارے میں بدگمانی کی بھی اجازت نہیں دیتا، چہ جائیکہ نقطہ نظر کا اختلاف رکھنے والے پر کیچڑ اچھالا جائے۔ قرآن مجید واضح طور پر فرماتا ہے:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ.

(الحجرات، 49: 12)

’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے)۔‘‘

بلاوجہ کسی بھی شخص چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم کے ذاتی معاملات کی کھوج لگانے اور کریدنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید بڑی واضح ہدایت فرماتا ہے:

وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا.

(الحجرات، 49: 12)

’’اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو۔‘‘

کسی کے معاملاتِ زندگی کی کرید کرنا اور اس کی عدم موجودگی میں برائی بیان کرنا اس قدر قبیح ہے کہ قرآن مجید اس عمل کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کرتا ہے:

اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوْهُ ط وَاتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ.

(الحجرات، 49: 12)

’’کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اللہ سے ڈرو بے شک اللہ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

4۔ احترامِ انسانیت

سیرتِ طیبہ سے ہمیں احترامِ انسانیت کا درس ملتا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے ہر شخص لائقِ عزت و احترام ہے۔ اسلام نے اس سلسلہ میں امیرو غریب، گورے و کالے، چھوٹے و بڑے، عالم اور جاہل، عورت اور مرد، اپنے اور پرائے کا کوئی فرق و امتیاز برقرار نہیں رکھا۔ ہر انسان کا اپنا مقام اور حیثیت ہے، جس کا لحاظ و پاس رکھنا ہر کسی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید بڑی واضح ہدایات دیتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنهُنَّ ج وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ.

(الحجرات، 49: 11)

’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخُر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

انسان کی عزت و حرمت کتنی ہے؟ اس کا اندازہ اس ارشاد نبوی ﷺ سے لگایا جاسکتا ہے:

کل المسلم علی المسلم حرام عرضه و ماله و دمه.

(ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ماجاء فی شفقة المسلم علی المسلم، 4: 325، الرقم: 1927)

’’ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت (کی پامالی) اس کا مال اور اس کا خون حرام ہے۔‘‘

ان ارشاداتِ نبویہ کی روشنی میں اگر ہم اپنی زندگیوں پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم باہمی احترام اوراخلاق کے کس مقام پر کھڑے ہیں۔ ہم نے بہتان و الزام تراشی کا نام حق گوئی رکھ کر الفاظ ومعانی کی افادیت کو بھی مشکوک بنادیا ہے۔

5۔ کتمانِ حق کی ممانعت

اللہ تعالیٰ اور رسولِ معظم ﷺ نے ہمیں جو سنہری اصول عطا فرمائے ہیں، ان میں ایک اہم ترین اصول یہ بھی ہے کہ حق اور باطل میں آمیزش نہ کی جائے بلکہ ہر صورت میں حق کو واضح کیا جائے اور باطل کا بطلان ظاہر کیا جائے۔ ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے:

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.

(البقرة، 2: 42)

’’اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ۔‘‘

اگر کسی نے حق جانتے ہوئے اس کو چھپایا تو یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نگاہ میں گناہ ہے۔ اسلام کے اصولِ شہادت کے اس پہلو کو واضح کرتے ہوئے قرآن مجید فرماتا ہے:

وَاَقِیْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ.

(الطلاق، 65: 2)

’’اور گواہی اللہ کے لیے قائم کیا کرو۔‘‘

مطلب یہ کہ گواہی دیتے ہوئے کوئی لالچ، مفادات یا کسی کی محبت یا کسی قسم کا ڈر تمہیں گواہی دینے سے نہ روکے، نہ غلط بیانی کرنے دے بلکہ تم خالص اللہ کا حکم جان کر اور اس کی رضا کے طالب ہوتے ہوئے سچی گواہی دو۔

وَلَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَةَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّهٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ.

(البقرة، 2: 283)

’’اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے، اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

پس ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم محض رضائے الہٰی کے لیے حقائق کو منظر عام پر لائیں۔

اسلام کسی بھی شخص بالخصوص مسلمان کو ہرگز اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے کسی بھائی کی پگڑی اچھالے، اس پر ذاتی حملے کرے اور اس کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ یہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے اور ایسا عمل کسی بھی مسلمان کی شایانِ شان نہیں ہے۔

ارشاد نبوی ﷺ ملاحظہ ہو۔ فرمایا:

المسلم اخوالمسلم لا یظلمه ولا یخذله ولا یحقر.

(مسلم، الصحیح، کتاب البر و الصلة والاداب، 4: 1986، الرقم: 2564)

’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر نہ تو ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے۔‘‘

6۔ فحاشی اور بے حیائی سے گریز

اس وقت ہمارا پاکستانی معاشرہ فحاشی و بے حیائی کی ثقافتی یلغار کی زَد میں ہے۔ مختلف چینلز، ویڈیو فلمیں، انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ نے ہمارے معاشرے سے اسلامی، اخلاقی، انسانی اور باوقار سماجی اقدامات کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ حالانکہ جب ہم قرآن مجید اور سیرتِ طیبہ ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں فحاشی و بے حیائی کا ارتکاب کرنے یا اس کے پھیلاؤ میں ملوث ہونے کے حوالے سے بڑی سخت وعیدات ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو آخری ضابطۂ حیات میں مختلف پیرائے میں بیان فرمایا ہے تاکہ انسان ان سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور رسولِ مکرم ﷺ کی نافرمانی سے ڈرے۔ اس سلسلہ میں چند آیاتِ قرآنیہ ملاحظہ ہو:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.

(النور، 24: 21)

’’اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو، اور جو شخص شیطان کے راستوں پر چلتا ہے تو وہ یقینا بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے۔‘‘

ایک اور جگہ پر اس طرح ارشاد ہوتا ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِـنْـھَا وَمَا بَطَنَ.

(الانعام، 6: 151)

’’اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں۔‘‘

فحاشی و بے حیائی کو فروغ دینے والوں کو درد ناک سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ط وَاللهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ.

(النور، 24: 19)

’’بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوںمیں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ (ایسے لوگوں کے عزائم کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔

7۔ نیکی کے فروغ میں تعاون کا حکم

اللہ تعالیٰ نے جہاں گناہ اور بے حیائی کے کاموں اور اس کو فروغ دینے سے روکا ہے اور اس کو شیطان کے نقش قدم پر چلنا قرار دیا ہے، وہاں معاشرے میں خیر، بھلائی، نیکی اور حسنات کو پھیلانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا بھی حکم دیا ہے تاکہ معاشرے میں ’’نیک بنو اور نیکی پھیلاؤ‘‘ کے پاکیزہ اور قابلِ تقلید احساسات و جذبات پنپ سکیں اور ایک ایسا صالح فرد وجود میں آسکے جو سراپا خیر ہی خیر ہو۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی.

(المائدة، 5: 2)

’’نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔‘‘

8۔ برائی کے فروغ میں تعاون کی ممانعت

نیکی اور خیر کو عام کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا حکم دینے کے ساتھ ہی اس کے مقابل اور اس کی ضد یعنی برائی کو پھیلانے اور اس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے بھی منع کردیا تاکہ کسی کے پاس حجت نہ رہے کہ نیکی کا حکم تو دیا ہے مگر برائی سے منع نہیں کیا، لہذا برائی کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اس لیے تعاونوا علی البر کے ساتھ ہی گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے منع فرمادیا کہ:

وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.

(المائدة، 5: 2)

’’اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘

معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے باشعور لوگوں کی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ نسلِ نو کے سامنے ایسا عمل اور مواد پیش کریں جس سے ایک نیک طینت، باکردار، دیانت دار، تحمل و برداشت کا علمبردار، اخوت و محبت کا پیکر، بااصول، ایثار و قربانی کا عملی نمونہ اور اخلاق و مروت کا مجسمہ، شرافت و صداقت کا خوگر، ہمدردی و غم خواری ایسی خوبیاں رکھنے والا نیک سیرت انسان سامنے آسکے اور وہ انسانیت کے لیے باعثِ فخر قرار پائے۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

من سن فی الاسلام سنة حسنة فله اجرھا واجر من عمل بھا بعده من غیر ان ینقص من اجورهم شیء ومن سن فی الاسلام سنة سیئة کان علیه وزرھا ووزر من عمل بھا من بعده من غیر ان ینقص من اوزارهم شیء.

(مسلم، الصحیح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سیئة۔۔۔4، 2059، الرقم 1017)

’’جو شخص اسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کے لیے اپنے اعمال کا ثواب بھی ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے، ان کا ثواب بھی ہے۔ بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے اور جس نے اسلام میں کسی بری بات کی ابتداء کی تو اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے اس پر ان کا گناہ بھی ہے۔ بغیر اس کے کہ اس کے گناہ میں کچھ کمی ہو۔‘‘

یعنی نیک عمل کی بنیاد رکھنے والے کو اس عمل کا ثواب ملتا رہے گا جب تک لوگ اس پر عمل کرتے رہیں گے اور برے عمل کو رواج دینے والے کو اس عمل کا گناہ ملتا رہے گا یعنی اس کے نامہ اعمال میں اس گناہ کے عمل کا اجر لکھا جاتا رہے گا، جب تک لوگ اس گناہ کے عمل پر قائم رہیں گے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

ومن دعا الی ضلالة کان علیه من الاثم مثل آثام من یتبعه لا ینقص ذلک من آثامهم شیئا.

(ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب من سن سنة حسنة او سیئة، 1: 75، 74، الرقم 203، 206، 207)

’’اور جس نے گناہ کی دعوت دی، اس کے لیے اتنا گناہ ہے جتنا اس بدعملی کا ارتکاب کرنے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔‘‘

9۔ مذہبی دل آزاری سے گریز کی ہدایت

اسلام ایک جمہوریت پسند اور جمہوری اصولوں کو فروغ دینے والوں کا الوہی ضابطہ حیات ہے جو ابدالآباد تک دنیائے انسانیت کی زندگی کے ہر میدان میں راہنمائی کرنے کی دائمی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کی بنیاد توحید و الوہیت کے عقیدہ و اصول پر قائم ہے اور اس کی تعلیمات کے مطابق شرک ظلم عظیم ہے۔ اس کے باوجود دیگر مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات کے احترام کا درس بھی دیتا ہے بلکہ یہاں تک کہ مشرکوں کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اس بارے میں واضح ارشاد ہے۔ فرمایا:

وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ فَیَسُبُّوا اللهَ عَدْوًم ا بِغَیْرِ عِلْمٍ.

(الانعام، 6: 108)

’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔‘‘

کیا دنیا کا کوئی دوسرا مذہب رواداری، تحمل، برداشت، مذہبی احترام، مقدس شخصیات کی عزت و تکریم کے بارے میں اتنی وسعت نظری اور جمہوری اصول کی مثال پیش کرسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یقینا نفی میں ہے۔

اس ارشادِ الہٰی کی روشنی میں ہماری یہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس ضابطہ اخلاق کو اپنے لیے راہنما اصول کی صورت اختیار کرتے ہوئے اس پر عمل کو یقینی بنائیں۔ اس لیے کہ ہماری تاریخ میں ماضی میں بھی اور حالیہ دنوں میں بھی بعض ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ بعض افراد کے غیر ذمہ دارانہ رویہ اور طرزِ کلام سے ملک کے اندر مذہبی اشتعال پھیل چکا ہے۔ جس کا بنیادی سبب مذہبی تعلیمات سے عدمِ آگاہی کے باعث عامۃ الناس کی مذہبی دل آزاری ہی بنا ہے۔ اس لیے کہ مذہب کوئی بھی ہو، اس کے پیروکار کے لیے وہ ایک نازک معاملہ ہوتا ہے اور کسی بھی مذہب کا کوئی پیروکار اپنے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین برداشت نہیں کرتا۔

10۔ سنجیدہ اور شائستہ اسلوبِ کلام

کسی تک اپنے خیالات و احساسات اور دعوت و پیغام پہنچانے کے لیے نرم گوئی اور شائستگی دو ایسی خوبیاں ہیں جو کسی بھی مقرر اور داعی کے الفاظ و کلمات کو سامع کے کانوں سے اس کے دل میں اتار دیتی ہیں۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں بھی ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ فرعون ایسا شخص جو خدائی کا دعویدار تھا، اس تک ابلاغِ حق کے لیے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو حکم دیا تو ان جلیل القدر انبیاء کرام کو بھی اللہ تعالیٰ نے جو ضابطہ ابلاغ دیا، اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی.

(طه، 20: 44)

’’سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے۔‘‘

اسی طرح نقطہ نظر کا اختلاف رکھنے والوں تک ابلاغ اور پیغام پہنچانے کے لیے بھی ابلاغی ضابطہ اخلاق عطا کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.

(النحل، 16: 125)

’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔‘‘

مذکورہ آیت کی روشنی میں یہ امر قابلِ غور ہے کہ جب حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو ابلاغ کے سلسلہ میں نرمی و رفق کا حکم دیا جارہا ہے تو پھر عام انسان کی تو بات ہی اور ہے؟

آج ہم آپس کی گفتگو میں جو زبان استعمال کرتے ہیں، جس طرح سے فریقِ مخالف کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں، ذو معانی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، اس عمل سے احترامِ باہمی اور انسانی وقار کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ یہ طرز نہ کسی اسلامی قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ اخلاقی اور متمدن اظہارِ خیال قرار دیا جاسکتا ہے۔ لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ کسی بھی موضوع پر ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے تہذیب کلام اور اپنے شخصی وقار کو بہر صورت مدنظر رکھیں۔ اس لیے کہ کوئی بھی انسان جب کوئی کلام کرتا ہے تو اس سے اس کی شخصیت کے بہت سے پہلو خودبخود ظاہر ہوجاتے ہیں۔

11۔ احترام و تقدیسِ نسواں

اللہ رب العزت نے مرد و زن کے ساتھ اس کائنات کو زینت بخشی ہے اور اس کارگہ حیات میں دونوں کا دائرہ کار بھی جداگانہ کرکے معاشرتی توازن قائم کیا ہے۔ اگر مرد پر معاش کی ذمہ داری ڈالی ہے تو عورت کو زینت خانہ اور اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کا عملی ادارہ بھی بنایا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج منشائے الہٰی سے بغاوت کرتے ہوئے عورت کی تقدیس کو پامال کیا جارہا ہے۔ عورت کی حرمت کا اس سے بڑھ کر اور کیا تصور ہوسکتا ہے کہ مردوں کو اس امر کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہ کو نیچا رکھیں۔ ارشاد باری ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ.

(النور، 24: 30)

’’آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔‘‘

عورتوں کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ.

(النور، 24: 31)

’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔‘‘

مرد و زن دونوں کو اپنی نگاہ نیچی رکھنے کا حکمِ الہٰی خالی از حکمت نہیں۔ اس لیے کہ وہ خالق انسان ہے، وہ اس کی کمزوریوں سے آگاہ ہے، اس لیے اس نے یہ ضابطہ اخلاق عطا کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ملاحظہ ہو:

ان النظر سهم من سهام ابلیس مسموم من ترکه مخافتی ابدلته ایمانا یجد حلاوتھا فی قلبه.

’’نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے۔ جو اس کو میرے خوف سے ترک کرتا ہے، میں اسے ایمان کی نعمت بخشوں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائے گا۔‘‘

پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ، علامہ قرطبی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’نظر دل کی طرف کھلنے والا سب سے بڑا دروازہ ہے۔ نگاہ کی بے راہ روی کے باعث ہی اکثر لغزشیں ہوتی ہیں، اس لیے اس سے بچنا چاہیے اور تمام محرکات سے انہیں روکنا چاہیے۔‘‘

(الازهری، محمد کرم شاہ، پیر، ضیاء القرآن، 3: 313)

سیرتِ طیبہ ﷺ کی روشنی میں ہم سب کی یہ اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے میں تیزی کے ساتھ پھیلنے والی اخلاقی برائیوں کے خاتمہ اور مٹتی ہوئی دینی اقدار کی بحالی کے لیے ہر سطح پر اپنی شخصی حیثیت میں کردار ادا کریں اور اپنے بچوں اور زیر اثر افراد کی ذہنی و اخلاقی تربیت اس طرح کریں کہ وہ ان منکرات کے قریب بھی نہ جائیں۔

مذکورہ اسلامی تعلیمات ہمارے لیے ایک جامع ترین ضابطہ اخلاق کی حیثیت رکھتی ہیں، جس میں ہادیٔ عالم اور معلم کائنات ﷺ نے ابدی و دائمی قابل عمل راہنمائی عطا فرمادی ہے۔ اب ہم میں سے ہر شخص کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ صاحب خلق عظیم ﷺ کی عطا فرمودہ ان ہدایات کو اپنے لیے سرمۂ چشم بناکر ان سے نورِ ہدایت حاصل کرے۔