قول و فعل میں ہم آہنگی ... صفتِ مومن

ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ

اسلام اپنے ماننے والوں میں جن اخلاق و اوصاف، صفات و کمالات، عادات و اطوار اور خوبیوں کو دیکھنا چاہتا ہے ان میں سے ایک نمایاں وصف، خوبی اور عادت یہ ہے کہ ایک مومن کے قول و فعل میں ہمیشہ اور ہر حال میں ہم آہنگی پائی جائے۔ قول و فعل کا تضاد؛ دوسرے لفظوں میں کہنا کچھ اور کرنا کچھ، ایک بزدل اور منافق کا کام تو ہوسکتا ہے مگر ایک مومن کی شان نہیں۔ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ جو بات کہے سوچ سمجھ کر اور تول کر کہے اورجب ایک مرتبہ کہہ دے تو اپنے کہے کا ہمیشہ پاس رکھے۔

منافقت دو طرح کی ہے:

  1. اعتقادی
  2. عملی

اعتقادی منافقت یہ ہے کہ انسان دل سے اسلام کو سچا اور حق نہ مانتا ہو بلکہ صرف زبان سے کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں اسی اعتقادی منافقت کو بیان کیا گیا کہ ان کے قول و فعل میں تضاد تھا، یہ لوگ جب ایمان والوں سے ملتے تو کہتے ہم ایمان لائے اور جب کفار کے پاس جاتے تو کہتے کہ ہم تو ان کا مذاق اڑا رہے تھے ورنہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔

عملی منافق وہ ہیں جو دل سے اسلام کی سچائی اور اس کے حق ہونے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن انسانی کمزوریوں اور نقائص کی وجہ سے احکامِ اسلام پر عمل کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کی زبان پر کچھ اور جبکہ عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ایسے منافق کی اصلاح تربیت کے ذریعہ کی جا سکتی ہے۔

قول و فعل میں متضاد رویہ رکھنے والوں سے متعلق قرآن مجید کی تعلیمات واضح ہیں، چند آیات ملاحظہ ہوں:

1. وَاَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَایَفْعَلُوْنَ.

(الشعراء، 26: 226)

’’اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیں۔‘‘

2۔ ایک اور مقام پر قرآن مجید نے نیکی کی ترغیب کرنے والوں کو یوں مخاطب کیا:

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَ.

(البقرة، 2: 44)

’’کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالاں کہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟۔‘‘

3۔ قول و فعل میں تضاد کے حوالے سے قرآن مجید نے حضرت صالح علیہ السلام کے قول کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَکُمْ اِلٰی مَآ اَنْهٰکُمْ عَنْهُ.

(هود، 11: 88)

’’اور میں یہ (بھی) نہیں چاہتا کہ تمہارے پیچھے لگ کر (حق کے خلاف) خود وہی کچھ کرنے لگوں جس سے میں تمہیں منع کر رہا ہوں۔‘‘

4. یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَاتَفْعَلُوْنَ. کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَاتَفْعَلُوْنَ.

(الصف، 61: 2-3)

’’اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔‘‘

آخرالذکر آیات (سورۃ الصف) میں خطاب اگرچہ عام ہے لیکن ان آیات کے شانِ نزول کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل خطاب اُن مومنوں سے ہے جنہوں نے ایک موقعہ پر کہا تھا کہ اگر ہمیں پسندیدہ اعمال کا علم ہوجائے تو ہم انہیں ہر قیمت پر کریں گے لیکن جب انہیں بعض پسندیدہ اعمال بتلائے گئے تو اپنے عہد یا قول کے مطابق ان پر عمل کرنے کی بجائے انھوں نے سُستی دکھائی۔ اس لیے ان آیات کریمہ میں ایسے لوگوںکو تنبیہ کی جارہی ہے کہ خیر کی جو باتیں کہتے ہو، کرتے کیوں نہیں ہو؟ جو بات منہ سے نکالتے ہو اسے پورا کیوںنہیں کرتے؟ جو زبان سے کہتے ہو، اس کی پاسداری کیوں نہیں کرتے؟

قول و فعل میں ہم آہنگی کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشاداتِ گرامی بھی واضح ہیں۔ اس سلسلہ میں چند فرامین مصطفی ﷺ ملاحظہ ہوں:

1۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پس اس کی انتڑیاں اور معدہ باہر آجائے گا اور وہ اس کے اردگرد چکر لگارہا ہوگا۔ جیسے گدھا چکی کے اردگرد چکر لگاتاہے۔ دوزخی اس کے اردگرد چکر لگائیں گے اور پوچھیں گے: ارے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ تجھے یہ مصیبت کیسے پہنچی؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا میں تمہیں نیکی کا حکم کرتا تھا اور خود عمل نہیں کرتا تھا۔ تمہیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود وہ برائی کرتا تھا۔

(بخاری، الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب صفة النار وانها مخلوقة، 3: 1191، الرقم: 394)

2۔ خطیب بغدادی نے حضرت جابرؓ کی روایت کو نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنتی لوگ دوزخیوں پر جھانکیں گے اور پوچھیں گے تمہارے دوزخ میں جانے کا سبب کیا ہے؟ ہم تو تمہاری تعلیم کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئے تو دوزخی کہیں گے: ہم تمہیں حکم دیتے تھے اور خود عمل نہیں کرتے تھے۔

(تفسیر در منثور، 1: 176)

3۔ حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس عالم کی مثال جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا اس چراغ کی مانند ہے جو لوگوں کو تو روشنی دیتا ہے جبکہ اپنے نفس کو جلا دیتا ہے۔

(طبرانی، المعجم الکبیر، 2: 165، الرقم: 1681)

4۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی قول یا عمل کی دعوت دیتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا، وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں رہتا ہے۔ حتی کہ وہ اس برائی سے رک جائے جس سے لوگوں کو منع کرتا تھا۔ جس کی طرف بلاتاہے اس پر خود بھی عمل شروع کردے۔

(تفسیر درمنثور، 1: 177)

5۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابن عباس! میں چاہتا ہوں کہ نیکی کا حکم دوں اور برائی سے منع کروں۔ کیا میں اس طرح تبلیغ کا حق ادا کرسکتا ہوں؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: میں امید کرتا ہوں۔ پھر فرمایا اگر تجھے تین آیات قرآنیہ سے رسوائی کا خدشہ نہیں ہے تو ضرور ایسا کر۔ اس شخص نے پوچھا وہ آیات کون سی ہیں؟ فرمایا: اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ. کہا: یہ آیت تو نے سمجھ لی ہے؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: دوسری آیت یہ ہے: لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ. کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ. کیا تونے یہ آیت سمجھ لی یعنی اس پر عمل کرلیا؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: تیسری آیت یہ ہے جو حضرت صالح کا قول ہے کہ: وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَکُمْ اِلٰی مَآ اَنْهٰکُمْ عَنْهُ. کیا تو نے اس آیت پر بھی غورو فکر کیا؟ کہا: نہیں۔

6۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان کے مطابق نہ ہوجائے اور اس کی زبان اس کے دل کے حال کے مطابق نہ ہوجائے اور اس کا قول اس کے عمل کی مخالفت نہ کرے اور اس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہوجائے۔

(اخرجه المنذری فی الترغیب والترهیب، 1: 85، الرقم: 223)

مذکورہ آیاتِ قرآنیہ اور فرامینِ مصطفی ﷺ سے واضح ہوتا ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہیے کہ وہ جو کچھ کہے اسے کرکے دکھائے اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات یا برے اخلاق میں سے ہے جو اللہ کریم کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہیں، کُجا کہ ایک ایسا شخص اس اخلاقی عیب میں مبتلا ہو جو اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔ نبی اکرم ﷺ اور صاحب خلق عظیم نے کئی مواقع پر اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت یعنی قول و فعل کا تضاد پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

آیة المنافق ثلاث: اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف و اذا او تمن خان.

(صحیح بخاری، باب علامة المنافق، 1: 21، الرقم: 33)

’’منافق کی تین نشانیاں ہیں اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ پہلی یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے، دوسری جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور تیسری جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘

قول و فعل کا تضاد یا قول و عمل میں ہم آہنگی اور مطابقت نہ ہونے کی عادت جہاں دنیا میں انسان کی شہرت، نیک نامی اور عزت کو نقصان پہنچاتی اورمعاشرے میں اس پر اعتبار و اعتماد کو کھودیتی ہے، وہاں اسلامی نقطہ نظر سے آخرت میں بھی یہ بات قابلِ گرفت ہے۔ چنانچہ سورۃ الصف کی مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں مفسر قرطبی نے معروف صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت لکھی ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا:

مررت لیلة اسری بی علی قوم تقرض شفاههم بمقاریض من نار. قال: قلت: من ھولاء؟ قالوا: خطباء من اھل الدنیا کانوا یامرون الناس بالبر وینسون انفسهم وهم یتلون الکتاب افلا یعقلون.

(اخرجه احمد بن حنبل فی المسند، 3: 120، الرقم: 12232)

’’معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے مسلسل کاٹے جارہے تھے۔ ادھر ہونٹ کاٹے جاتے اور اُدھر درست ہوجاتے۔ میں نے جبریل امین سے پوچھا: یہ کون اور کیسے لوگ ہیں؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ آپ ﷺ کی امت کے وہ خطیب و واعظ ہیں جو لوگوں کو تو وعظ و نصیحت کرتے تھے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ اس طرح اللہ کی کتاب یعنی قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے مگر اس کے مطابق عمل نہیں کرتے تھے۔‘‘

جس آدمی کے قول و فعل میں ہم آہنگی نہ ہو، قدرتی اور نفسیاتی طور پر اس کی بات میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جس آدمی کے قول کے پیچھے عمل اور اخلاص کی طاقت بھی ہو، اس کی بات میں لازمی طور پر ایک تاثیر ہوتی ہے۔ اسی لیے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

انبیاء اور دیگر حکماء کے مابین فرق یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی اخلاقی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کی معصوم عن الخطاء زندگی ان کے مقدس کارنامے اور ان کے پاک اثرات ہوتے ہیں جن کا فیض اُن کے انگ انگ سے خیرو برکت کی سلسبیل بن کر نکلتا ہے اور پیاسوں کو سیراب کرتا ہے لیکن بڑے سے بڑا حکیم اور اخلاق کا دانائے راز جس کی اخلاقی سخن طرازی اور نکتہ پروری سے دنیا محوِ حیرت ہے، عمل کے لحاظ سے دیکھو تو اس کی زندگی ایک معمولی بازاری آدمی سے ایک انچ بلند نہ ہوگی۔ وہ گو دوسروںکو روشنی دکھا سکتا ہے مگر خود تاریکی سے باہر نہیں آتا۔ وہ دوسروں کی رہنمائی کا مدعی بنتا ہے مگر خود عمل کی راہ میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ وہ رحم و محبت کے طلسمات کے ایک ایک راز سے واقف ہے مگر غریبوں پر رحم کھانا اور دشمنوں سے محبت کرنا وہ نہیں جانتا۔ وہ سچائی اور راستبازی پر بہترین خطبہ دے سکتا ہے مگر وہ خود سچا اور راست باز نہیں ہوتا۔

اس فرق کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ حکیم چونکہ محض زبان یا دماغ ہوتا ہے، دل اور ہاتھ نہیں۔ اس لیے اس کے منہ کی آواز کسی دل کی لوح پر کوئی نقش نہیں بناتی بلکہ ہوا کے تموّج میں مل کر بے نشان ہوجاتی ہے اور اُدھر انبیاء علیہم السلام چونکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔۔۔ جو ان کی تعلیم ہے وہی ان کا عمل ہے۔۔۔ جو ان کے منہ پر ہے وہی دل میں ہے۔۔۔ اس لیے ان کی تعلیم اور صحبت کا فیضان خوشبو بن کر اڑتا اور ہم نشینوں کو معطر بنادیتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو انبیاء علیہم السلام اور حکماء یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد رسول اللہ ﷺ اور سقراط، افلاطون اور ارسطو میں نمایاں ہے۔ سقراط اور افلاطون کے مکالمات اور ارسطو کے اخلاقیات کو پڑھ کر ایک شخص بھی صاحبِ اخلاق نہ بن سکا مگر یہاں قوموں کی قومیں ہیں جو حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تلقین سے اخلاق کے بڑے بڑے مدارج اور مراتب پر پہنچیں اور آج کرۂ ارض پر جہاں کہیں بھی حسنِ اخلاق کی کوئی کرن ہے، وہ نبوت ہی کے کسی مطلع انداز سے چھَن کر نکل رہی ہے۔

(سیرۃ النبی از سید سلیمان ندوی، جلد ششم، ص: 40، 41)

اسی لیے کہا گیا ہے اور سچ کہا گیا ہے کہ

بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پود انہی کی لگائی ہوئی ہے

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سارے انبیاء کرام علیہم السلام اپنی تعلیمات اور فرمودات پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے تھے مگر ان کی قوموں نے اپنے انبیاء کی تعلیم اور نمونہ عمل کو محفوظ نہیں رکھا جبکہ اللہ کے آخری نبی اور ہمارے پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی احمدمجتبیٰ ﷺ کی تعلیمات اور ان تعلیمات کے مطابق آپ ﷺ کا نمونہ عمل آج بھی قرآن و سنت اور حدیث و سیرت کی کتابوں میں محفوظ اور روز روشن کی طرح واضح ہے۔

اہلِ علم جانتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جس چیز کا بھی حکم دیا ہے پہلے خود اس پر سو فیصد سے بھی زیادہ عمل کرکے دکھایا۔ چنانچہ پہلے چالیس سال تک قرآن بن کر دکھایا، اسکے بعد قرآن پڑھ کر سنایا اور عمل کا حکم دیا۔۔۔ پہلے خود ساری ساری رات کھڑے ہوکر عبادت کی، تب جاکر لوگوں کو دن رات میں صرف پانچ نمازوں کا حکم دیا۔۔۔ پہلے خود اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کیا، تب کہیں لوگوں کو صرف اڑھائی فیصد زکوٰۃ کا حکم دیا۔۔۔ اگر غریبوں اور مسکینوں کی اعانت کا حکم دیا تو پہلے خود اس فرض کو ادا کیا۔ خود بھوکے رہے اور دوسروں کو کھلایا۔۔۔ اگر آپ ﷺ نے دشمنوں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو پہلے خود اپنے دشمنوں کو معاف کیا۔ کھانے میں زہر دینے والوں سے درگزر کیا، جنہوں نے آپ ﷺ پر تیر برسائے اور تلواریں چلائیں، مسلح ہوکر بھی کبھی ان پر ہاتھ نہ اٹھایا۔

مختصر یہ کہ حضور والا شان ﷺ کی ساری زندگی قول و فعل میں ہم آہنگی کا ایک کامل اور بے مثال نمونہ ہے اور یہی سیرت و کردار آپ ﷺ اپنی امت کے ہر فرد خصوصاً حکام وامراء اور دینی و معاشرتی اعتبار سے متعدد لوگو ں میں دیکھنا چاہتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ والی بصرہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ جب راہِ جہاد میں پیادہ پا چلنے کا وعظ کیا اور خود اس پر عمل کا نمونہ پیش کرنے کی بجائے ترکی گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے تو لوگوں نے بڑھ کر باگ پکڑی اور کہا: قول و فعل میں یہ اختلاف کیسا؟ دوسروں کو جس چیز کی ترغیب دیتے ہو اس پر خود عمل کیوں نہیں کرتے؟ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اس کا کوئی تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔ مورخ طبری کے مطابق اسی وقت ایک جماعت شکایت لے کر دارالخلافہ مدینہ منورہ پہنچی اور ان کی معزولی کامطالبہ کیا۔ امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ کے قول و فعل میں اس تضاد پر انھیں معزول کردیا اور عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو ان کی جگہ مامور کیا۔

قول و فعل کے تضاد کے دینی اور دنیوی اعتبار سے بہت شدید نقصانات ہیں۔ پہلا نقصان تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے بری حالت دو چہرے والوں،یعنی منافقین کی ہوگی۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ یہ شخص لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے، اس کی وقعت ختم ہوجاتی ہے اور اسے ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنتی ہے۔ اس لئے زندگی میں انسان کو ہر حوالے سے اپنے قول و فعل میں مطابقت کی فکر کرنی چاہئے تاکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکے اور معاشرے کے افراد کا اعتماد بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔