حضرت فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ

محمد شفقت اللہ قادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے گرامی قدر والد عظیم المرتبت عزت مآب فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کا علمی و روحانی اور ادبی مقام کسی تعارف کامحتاج نہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان میں سے ہر ایک آپ کے مقام و مرتبہ سے آگاہ ہے۔ زیرِ نظر صفحات پر فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی قومی اور ملی عملی خدمات کا تذکرہ کرنا مقصود ہے تاکہ ان کا وہ سنہرا کردار اہلِ پاکستان کے روبرو آشکار ہوجائے جو انہوں نے شب روز کی محنت شاقہ سے تحریک پاکستان میں اپنی عملی جدوجہد کے ذریعے حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی منفرد قیادت اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی سرپرستی و رہنمائی میں ادا کیا۔

تحریک پاکستان میں آپ کی گراں قدر ملی و قومی خدمات کے اعتراف میں آپ کی وفات کے تقریباً 48 سال بعد فروری 2022ء میں آپ کو گولڈ میڈل اور اعزازی تعریفی سرٹیفیکیٹ سے نوازا گیا۔ یہ امر ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کے منفرد علمی و روحانی و ملی تشخص کے باعث وابستگان منہاج القرآن انٹرنیشنل کے لیے بالخصوص اور اہلیان پاکستان کے لیے بالعموم ایک امتیازی اعزاز ہے۔ یہ ریاستی سطح پر فرید ملتؒ کی قومی و ملی خدمات کا اعتراف ہے۔ تحریکِ پاکستان میں فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کے کردار کو بیان کرنے سے قبل ذیل میں آپ کے چند اوصافِ حمیدہ نذرِ قارئین ہیں:

علم و معرفت و عشق کا تلاطم خیز قلزم تھے فریدالدینؒ
حب الوطنی سے سرشار، محبت انسانی کی شاہکار ہستی تھے فریدالدینؒ

حضرت فریدِ ملتؒ بچپن سے ہی غیر معمولی اوصافِ حمیدہ اور ذہانت و فطانت سے بہرہ ور تھے۔ آپ خداوند عظیم کے ان خاص نفوس قدسیاں میں سے تھے جن کی آفرینش ہی سحر علمی اور سحر روحانی ہوا کرتی ہے۔ فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیg کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ایک خاص تعلق کی بناء پر رسالت مآب ﷺ  کی بارگاہ میں خاص مقام حاصل ہوا اور پھر رسالت مآب ﷺ  کے درِ اقدس تک رسائی و آشنائی کے باعث ذاتِ باری تعالیٰ سے خاص تعلق نصیب ہوا۔ یہ امر کس طرح ممکن ہوتا ہے؟ اس حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ:

انسانی قلب کے لطائف خمسہ جب بفضل تعالیٰ بیدار ہوجاتے ہیں تو خاص کشفی ہدایتِ الہٰی کا دروازہ بندے کے لیے کھل جاتا ہے۔ یہ دروازۂ ہدایت فقط خیراتِ مصطفوی کا ہی ہے جس سے لطف و انوار کا نزول قلبِ انسانی پر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ قلبی لطائف خمسہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ لطیفہ قلب

2۔ لطیفہ روح

3۔ لطیفہ سِر

4۔ لطیفہ خفی

5۔ لطیفہ اخفی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ ان لطائفِ قلبی کے ذریعے انسان کے دل کی آنکھ بینا ہوجاتی ہے، حقائق سے پردے اٹھنے شروع ہوجاتے ہیں، روح کے کان سننا شروع کردیتے ہیں اور یوں انسانی قلب بعض ایسے حقائق کا ادراک کرنے لگتا ہے جو عمومی طور پر حواسِ خمسہ اور عقل و خردکی زد میں نہیں آسکتے۔

اسی بحث کی دلیل میں امام غزالی اپنی کتاب المنقذ من الضلال میں فرماتے ہیں کہ عقل کے بعد ایک اور ذریعہ ہے جس میں باطنی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس کے ذریعے عینی حقائق اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو دیکھا جاتا ہے اور ان دیگر امور کو بھی جن کے ادراک سے عقل قاصر ہوتی ہے۔

حضرت فریدِ ملت بفضل تعالیٰ خیراتِ مصطفوی کے باعث اسی مذکورہ کشفی و فیوضاتی کرم نوازی سے بہرہ ور تھے۔ عقل و خرد سے ماورآ پیش آنے والے واقعات سے آگاہ ہوجاتے تھے۔ انھیں رموز اسرار اور اکثر واقعات کا قلبی ادراک ہوجاتا اور سچے خوابوں کے ذریعے بعض معاملات آگاہ کردیئے جاتے۔ ان کے ہم عصر علما اور ادبی حلقے ان کی اس کشفی کرامت سے واقف تھے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور راقم ان کی بشارتی اور کشفی کرامات سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ عینی شاہد بھی ہیں۔ ہم نے بے شمار واقعات رونما ہونے سے قبل ہی آپ کی زبان سے سنے ہوئے ہوتے تھے۔ یہ کشف اور رویائے صالحہ یقینا کرامتِ فریدیہ کا روشن باب ہے۔

ذیل میں فرید ملتؒ کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کے چیدہ چیدہ عمیق گوشے درج کیے جارہے ہیں:

1۔ فرید ملتؒ تاریخ ساز سیاسی شخصیت

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ فرید ملتؒ ڈاکٹر فریدالدین قادری اپنے عہد کی ایک عظیم علمی و روحانی اور ادبی شخصیت تھے اور تحریک منہاج القرآن کے حلقوں میں بالخصوص اور عوام الناس اور علما کے حلقوں میں بالعموم اسی حوالے سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ یہ امر بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ آپ نے لڑکپن سے ہی علم و ادب اور دیگر علوم و فنون کے حصول کے لیے شرق تا غرب علمی و روحانی سفر اختیار کیا۔ دنیوی تعلیم کے لیے آپ نے سیالکوٹ کا رُخ کیا اور پھر اعلیٰ تعلیم اور ادبی ذوق انھیں لکھنو (انڈیا) لے گیا جہاں مجموعی طور پر تقریباً 12 سال تک اپنی علمی و روحانی اور ادبی تشنگی دور کی۔ علمی و روحانی اکتساب فیض کی خاطر مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، شام، دمشق، لبنان، عراق، ایران اور کئی دیگر دورافتادہ ممالک کے سفر کیے اور عالمی شہرت یافتہ جید محدثین اور علماء و فقہاء سے علمی و روحانی اکتساب فیض کیا۔ جن نامور محدثین اور علماء دین سے اکتسابِ فیض کیا، ان میں درج ذیل ہستیاں قابلِ ذکر ہیں:

1۔ شیخ محمد مالکی مراکشی (مکہ مکرمہ)

2۔ علامہ عبدالحئی فرنگی محلی لکھنو (فرنگی محل انڈیا)

3۔ مولانا بدر عالم میرٹھی (انڈیا) (جو سید انور شاہ کشمیری کے شاگرد تھے۔ (فیض الباری شرح بخاری انہی کی مرتب شدہ ہے)

4۔ محدث اعظم مولانا عبدالشکور مدنیؒ

حضرت فرید ملتؒ کے قریبی علمی اور روحانی حلقے اس پہلو سے آشنا تھے کہ آپ تحریک پاکستان کے قائدین قائداعظم محمد علی جناحؒ اور حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے منظور نظر سیاسی کارکن اور معاون گردانے جاتے تھے۔ اس کا بیّن ثبوت فرید ملت کا 1940ء میں حیدر آباد دکن (انڈیا) سے خصوصی طور پر لاہور تشریف لانا اور 23 مارچ 1940ء میں منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں اپنے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر احسان صابری قریشی کے ساتھ متواتر تین روز تک شرکت کرنا ہے۔ اس تاریخی اجتماع میں آپ کو قائدین کے قریب نشست کا ملنا بھی آپ کے سیاسی کردار اور قائدین تحریک پاکستان کے ساتھ ایک خاص تعلق کا عکاس ہے۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تقریر کے دوران ’’مسلم لیگ زندہ باد، قائداعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے پوری قوت اور جوش و خروش سے جب حضرت فرید ملتؒ بلند کرتے تو بقول ڈاکٹر قریشی کئی بار ہماری نظریں قائداعظمؒ سے دوچار بھی ہوئیں اور وہ ہم دونوں پر بہت خوش نظر آرہے تھے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہم نے قائدین سے خوب دادِ تحسین حاصل کی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اجلاس کے فوری بعد مولوی ابوالقاسم، فضل حق مرحوم، خلیق الزماں مرحوم اور نواب زادہ لیاقت علی خان شہید نے ہمیں خصوصی شاباش دی اور دل کھول کر حوصلہ افزائی بھی کی۔ فرید ملتؒ کی نشست مرکزی قائدین کی صف کے قریب تھی، اس لیے اجلاس کے بعد قائدین کے ساتھ ملاقات کا موقع مل گیا۔ ایک تحریر میں ڈاکٹر صابری صاحب نے انکشاف کیا کہ شرکت تو ہم دونوں نے کی تاہم پذیرائی اور خاص توجہ کا مرکز فرید ملتؒ ہی رہے۔

2۔ خدمات کے اعتراف میں گولڈ میڈل

فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان فائونڈیشن کی طرف سے تحریک پاکستان کے دوران گراں قدر ملی و قومی خدمات کے اعتراف میں خصوصی گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ یہ گولڈ میڈل 3 فروری 2022ء کو گورنر ہائوس لاہور میں ایک عالی مرتبت تقریب میں صدر پاکستان جناب محمد عارف علوی نے دیا جسے ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کے پوتے اور شیخ الاسلام کے صاحبزادے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے وصول کیا۔

نظریہ پاکستان فائونڈیشن اور پاکستان ورکرز ٹرسٹ تحریک پاکستان کے گُم گشتہ تحریکی کارکنوں، رہنمائوں اور قائداعظم کے تحریکی ہم نشیں اور جانثاروں کو تلاش کرکے انھیں یا پھر ان کے لواحقین کو خصوصی امتیازی اعزازات اور میڈلز سے نوازتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تحریک پاکستان کے عظیم جانثاروں اور بے مثل سپوتوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور جو عظیم کارکن اور رہنما حیات ہیں، رب عظیم انھیں تندرستی کے ساتھ عمرِ خضری عطا کرے۔

3۔ فرید ملت: تحریک پاکستان کے قومی ہیرو

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کا نام مبارک تحریک پاکستان کے قومی ہیروز کی فہرست میں ایک نیا اضافہ ہے اور یہ اضافہ پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان فائونڈیشن کی خصوصی جدوجہد سے ممکن ہوا۔ قیام پاکستان کے 75 برس بعد ایک گُم گشتہ سپوت پاکستان کو تلاش کرنا اور اعزاز سے نوازنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

4۔ تحریک منہاج القرآن قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات اورفرمودات کا تسلسل

میری دانست میں یہ امر قابلِ فخر اور اطمینان کا موجب ہے کہ فرید ملتؒ کی وفات کے 48برس بعد فرید ملتؒ کو بطور تحریکی ہیرو گولڈ میڈل سے نوازا جانا اس امر کا اظہار ہے کہ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی علمی، عملی، سیاسی جدوجہد دراصل قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات اور فرمودات کا تسلسل ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ شعور و مقصدیت خالقِ عظیم کا ایک عظیم انعام اور نعمتِ عظمیٰ ہے اور بامقصد زندگی کا حامل شخص بلاشبہ اپنی زندگی میں ایک انجمن اور ایک تحریک ہوتا ہے۔ موت اسے فنائیت سے ہمکنار کرکے بھی حقیقی طور فنا نہیں کرپاتی بلکہ بقا عطا کردیتی ہے اور اس کی بقائے دوام زندگی لاکھوں،کروڑوں زندگیوں کو ایک نسخہ کیمیا عطا کردیتی ہے۔ فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ انہی دلربا ہستیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو عین سنتِ مطہرہ کے مطابق گزارا اور بیدار روح کے ساتھ زندہ رہے اور جب دار فانی سے رخصت ہوئے تو پائندہ ہوگئے۔ کیونکہ انھوں نے امتِ مصطفوی کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسے گوہر نایاب سے روشناس کرادیا جو امت مسلمہ کے لیے پارس انمول ثابت ہوا ہے۔ جس کے وجودِ زندگی بخش کے لمسِ روحانی اور عطائے علمی سے کئی جہاں زندہ ہوئے جاتے ہیں اور ہماری زنگ آلود لوہے کی مانند بے وقعت زندگیاں سونے میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

یاد رہے اس پارس نایاب انمول کا منبع اور جائے وجود وہ نسخہ کیمیا ہے جسے دنیا فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کے نام سے موسوم کرتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے وابستگان کے لیے بالعموم اور اہلیان پاکستان کے لیے بالخصوص گزارش کناں ہوں کہ حضرت فرید ملتؒ عصر حاضر کی تجدید و احیاء دین کی عالمی تحریک منہاج القرآن کے محسنِ اعظم اور موسس وموید اول ہیں۔ وہ تحریک جو سرپرست اعلیٰ اور مجدد رواں صدی، رومی ثانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عالمی اور دل پذیر قیادت میں گزشتہ چار دہائیوں سے شرق تا غرب سو سے زائد ممالک میں اسلام کا حقیقی تشخص قائم کیے اور حقیقی پیغام پہنچانے میں مصروف عمل ہے۔

جناب حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو تحریک پاکستان کا ہیرو تسلیم کرنا اور 75 سال بعد گولڈ میڈل سے نوازا جانا درحقیقت ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بانی و سرپرست اعلیٰ تحریک منہاج القرآن کی علمی، روحانی، ملی و قومی خدمات کا سرکاری سطح پر اعتراف اور جناب قائداعظمؒ محمد علی جناح اور علامہ اقبالؒ کی جدوجہد کا پیہم تسلسل تسلیم کرنا ہے۔

5۔ حضرت فریدِ ملت کی حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبالؒ سے خصوصی شرفِ ملاقات

قبلہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور راقم اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہم نے فرید ملت کی زبان سے جناب علامہ اقبالؒ سے بنفس نفیس ملاقات کے احوال سن رکھے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت فریدِ ملت متعدد بار حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبالؒ کو خصوصی طور پر ملنے کے لیے لاہور تشریف لائے۔ میں نے فرید ملت سے ایک نجی محفل میں فرماتے ہوئے سنا کہ ایک موقع پر حکیم الامت کافی علیل تھے اور معا لجین نے ملاقاتوں کا سلسلہ معطل کررکھا تھا مگر جب حکیم الامت کو ڈاکٹر فریدالدین کی آمد کا بتایا گیا تو آپؒ نے علالت کے باوجود فرید ملت سے خصوصی ملاقات کی جس کا دورانیہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تھا۔ یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ فرید ملتؒ کی علامہؒ سے خصوصی شناسائی تھی اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ فرید ملت کے مقام و مرتبہ اور علمی حیثیت سے آگاہ تھے۔

6۔ تحریک پاکستان کی فیصلہ کن جدوجہد میں حضرت فریدِ ملت فریدالدین قادریؒ کا ہمہ جہتی کردار

حضرت فرید ملت ڈاکٹر علامہ فریدالدین قادریؒ سیاسی و مذہبی ہر دو پلیٹ فارمز پر عملی ولولہ انگیزی سے شریک ہوئے اور قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں قیام پاکستان کی فیصلہ کن تاریخ ساز جدوجہد میں باقاعدہ عملی طور پر حصہ لیا۔ فرید ملت زمانہ طالب علمی میں بھی تحریک پاکستان کے لیے کام کرتے رہے اور طلبہ تنظیموں میں اپنی شخصیت کا جادو بکھیرا اور اپنی انتھک محنت شاقہ سے ماحول میں ایک سحر طاری کردیا۔ آپ نے حیدر آباد دکن اور لکھنو میں قیام کے دوران تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کی آزادی اور جداگانہ تشخص کی بحالی کے لیے کی جانے والی کاوشوں میں عملی طور پر موثر کردار ادا کیا۔

7۔ انتخابات منعقدہ 1945-46ء میں فرید ملتؒ کا جھنگ کی سیاست میں عملی کلیدی کردار

فرید ملتؒ نے جھنگ کی سیاست میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کرنل عابد حسین اور دیگر نامور اکابر معززین علاقہ کے ہمراہ شب و روز 1945-46ء کے انتخابات کی انتخابی سرگرمیوں میں شرکت کی اور انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی فتح کو یقینی بنایا۔ عملی انتخابات کے ہر مرحلہ پر گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور تاریخ کے روشن باب میں آپ کا نام سنہرے حروف سے لکھا گیا۔

8۔ تقسیمِ ہند کے دوران مہاجرین کی فلاح و بہبود اور آبادکاری کے لیے فرید ملتؒ کی نمایاں خدمات

ایک طرف فرید ملتؒ نے تقسیمِ ہند کے دوران بے گھر ہونے والے مہاجرین کے لیے گراں قدر ملی و قومی سطح پر خدمات سرانجام دیں تو دوسری طرف انھوں نے لکھنو طبیہ کالج اور کنگ جارج میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہونے اور ایک اعلیٰ طبی ماہر ہونے کے ناطے دوسرے رضا کاروں سے مل کر مسلمان مہاجرین کی بہت مدد کی۔ ہجرت کے دوران پھوٹنے والی وبائی امراض کا علاج ومعالجہ فرمایا۔ آپ نہ صرف طبی معالج اور تحریک پاکستان کے سیاسی ورکر اور رہنما تھے بلکہ آپ فرنگی محل لکھنو جو ایشیا کا دینی اور علمی مرکز تھا، اس کے باقاعدہ فارغ التحصیل ہونے کے ناطے نامور عالم دین اور مناظر دلپذیر بھی تھے، اسی حیثیت سے آپ نے مہاجرین کی مدد کے لیے عوام الناس میں جذبہ حب الوطنی کو اجاگر کیا اور انصار مدینہ کے ریاست مدینہ میں عملی کردار پر روشنی ڈال کر عوام کے دل مہاجرین کے لیے موم کردیئے۔

قارئین گرامی قدر! حضرت فریدِ ملت روحانیت، علمیت اور ادبیت کی ایک ضخیم کتاب کا نام ہے۔ میں نے فرید ملت کے خصوصی سیاسی کردار پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔ بصورت دیگر فرید ملتؒ کے علمی، روحانی ادبی کارناموں کے لیے کئی سال اور ہمہ تن گوش ماحول درکار ہے۔