القرآن: اقسامِ قلب اور اچھے و برے خیالات کا ارتقاء (حصہ دوم)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: حبیب احمد کوکب سامی

امسال شہرِ اعتکاف 2022ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’طہارۃ القلوب (باطنی امراض اور ان کا علاج)‘‘ کے موضوع پر 10 خطابات ارشاد فرمائے، ان خطابات کے عناوین درج ذیل ہیں:

1۔ الوصیۃ العلویۃ: حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ  کی وصیت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے نام

2۔ باطن کو ظاہر سے بہتر کریں

3۔ خطرہ : باطنی امراض کا نقطۂ آغاز

4۔ خواطرِ اربعۃ: (خاطِر نفسانی، خاطِر شیطانی، خاطِر مَلَکی، خاطِر ربانی)

5۔ برے خطرات سے ہلاکت تک کا سفر

6۔ اقسامِ قلب

7۔ قربِ الہی

8۔ اصلاحِ قلب کے مراحل

9۔ باطنی امراض اور ان کا علاج

10۔ دل اور شہوات

ماہِ جون 2022ء کے شمارے میں اِن خطابات میں سے پہلے تین خطابات کے خلاصے شائع ہوچکے ہیں، زیر نظر صفحات پر مزید تین خطابات کے خلاصہ جات نذرِ قارئین ہیں:


4۔ چوتھا خطاب: خواطِر اربعہ (خاطِر نفسانی، خاطِر شیطانی، خاطِر ملکی، خاطِر ربانی)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف 2022ء میں اپنا چوتھا خطاب (25 اپریل/ 23رمضان المبارک۔ سوموار) ’’خواطِر اربعہ‘‘ کے موضوع پر ارشاد فرمایا۔ خطرہ کی اقسام، روحانی احوال کیسے بدلتے ہیں اور انسانی اعمال و احوال پر خیالات کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟ اس حوالے سے شیخ الاسلام نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

بندہ اس وقت تک شر، معصیت اور گناہ کو ترک نہیں کرسکتا جب تک ان شرور و معاصی کی پہچان حاصل نہ کر لے کہ وہ کیا ہے جس سے اللہ نے منع کیا ہے؟ ان معاصی و گناہوں کا میرے دل، روح اور اعمال پر کیا اثر ہو گا؟ ان معاصی اور گناہوں کی علامات اور نقصانات کیا ہیں؟ یہ سب جاننے کے بعد ہی ہم اس برائی کی جڑیں کاٹ سکتے ہیں۔ ہم دین کے معاملے میں سرسری پڑھتے، سنتے اور گزر جاتے ہیں اور ان میں تدبر وتفکر نہیں کرتے۔ جب تک برائی کا قلع قمع نہ ہو، اس وقت تک دل میں نیکی کے ثبت ہونے کی جگہ نہیں بنتی۔ تختی پر کچھ نیا لکھنے سے پہلے اس پر پرانا لکھا گیا مٹانا پڑتا ہے۔ جب تک پہلی لکھائی اور سیاہی مٹ نہ جائے اور تختی صاف نہ ہو جائے، ہم نیا مضمون وعبارت لکھ ہی نہیں سکتے۔ اگر ہمارے دل و دماغ میں گناہوں، نافرمانیوں اور امراض کا مضمون لکھا ہوا ہے تو وہاں نیکی کے نئے مضمون لکھنے کی جگہ ہی باقی نہیں ہے۔ دل سے برائی و بدی کو مٹاکر جگہ بنائیں گے تو پھر ہی خیر کی عبارت لکھ پائیں گے۔

ہمارے دل کی تختی شر کے خواطر سے بھری پڑی ہے، نفسانی و شیطانی واردات کا ہجوم ہے، اس صورتِ حال میں نیک خیالات کہاں جگہ پائیں گے۔ ہمارے دل و دماغ بدی، برائی، معصیت، لالچ، حسد، شر، فواحش اور تکبر جیسی برائیوں اور منکرات سے بھرے ہوئے ہیں، یعنی خواطِر نفسانی و شیطانی کا ہجوم ہے۔ دل میں اِن تمام خیالات کی موجودگی میں ہم نمازیں، روزے، صدقہ و خیرات، حج، عمرے اور نیکیوں کی عبارت بھی لکھنا چاہتے ہیں۔ گویا بندہ ایسی تختی پر لکھے جا رہا ہے جو بدی کی عبارت سے بھری ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیکیاں کرنے کے باوجود بندے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور اس کے شر، معصیت اور بدی میں کمی نہیں آتی۔

کلمۂ توحید میں بھی پہلے لَااِلٰہَ (کوئی معبود نہیں) سکھایا۔ یعنی پہلے باطل معبودوں کی نفی کر دی کہ کوئی پرستش و عبادت کے لائق نہیں۔ پہلے دلوں میں موجود تصورات کو مٹا دیا اور سارے باطل نقش و نگار مٹانے کے بعد جو جگہ بنی، اس پر اِلَّا اللّٰہ ( سوائے اللہ) ثبت فرمایا۔

  • خاطر یا خطرہ؛ یہ پہلا وہ خیال، پیغام اور دستک ہے جو بغیر ارادے کے دل میں اترتی ہے۔ اس کی چار قسمیں ہیں۔ ان میں سے اوّل الذکر دو خواطِر منفی اور نقصان دہ ہیں جبکہ آخر الذکر دو خواطِر مثبت اور روحانی درجات کی بلندی کا باعث ہیں:

1۔ خاطِر نفسانی

2۔خاطِر شیطانی

3۔ خاطر ملکی

4۔ خاطر ربانی

1۔ خاطرِ نفسانی (ھاجز)

خاطِر نفسانی دل پر وارد ہونے والا ایسا خیال ہے جو نفسانی لذت اور حلاوت دیتا ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں اسے ’’ھاجز‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جب بندہ محسوس کرے کہ نفس کو خوشی اورلذت ملنے والی چیزوں کی طرف میرا دل راغب ہو رہا ہے تو فوراً سمجھ لے کہ یہ خاطرِ نفسانی ہے۔ یہ پہلی دستک ہے۔ اب بندے کی مرضی کہ اس خیال کی طرف متوجہ ہو یا اسے رد (block) کر دے۔

آج سوشل میڈیا کے زمانے میں اسے سمجھنا بڑا آسان ہے۔نفس یا شیطان انسان کو کس طرح القاء کرتے ہیں، اسے آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی مثال کے ذریعے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جینس صرف ہمارے رجحان اور سرچ تک نہیں رہی بلکہ ہم گھر میں جو باتیں کرتے ہیں، ہمارا سیل فون اسے بھی کیچ کرتا ہے اور پھر اسے اپنے مین سسٹم کو بھیج دیتا ہے۔ بعد ازاں سوشل میڈیا ہمیں وہی چیزیں دکھانا شروع کر دیتا ہے اور اسی طرح کے ایڈز اور کمرشلز از خود آنا شروع ہو جاتے ہیں جو امور ہم اپنی ذاتی زندگی میں زیادہ تر زیر بحث لاتے ہیں۔

اس مثال سے نفس اور شیطان کے حملوں کے طریقہ کار کو سمجھیں کہ اگر ہم نے اس خاطِر نفسانی کی دستک پر دل کا دروازہ ایک دفعہ کھول دیا تو نفس فوراً شیطان اور اس کے لشکروں کو رغبت کا پیغام پہنچادے گا اور پھر شیاطین کے لشکر اس طرح کے مزید خیالات ہماری طرف بھیجنا شروع کردیں گے لیکن اگر بندے نے اس پہلی دستک پر دروازہ نہ کھولا بلکہ اسے رد (block) کر دیا تو وہ سمجھ جائیں گے کہ اس کا ان چیزوں میں شوق نہیں ہے، پھر وہ کچھ اور چیزوں کے ذریعے اسے اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔

2۔ خاطرِ شیطانی (وسوسہ)

پہلا خاطِر جس نے دل میں جگہ بنالی یہ خاطِر نفسانی تھا اور پھر اس رغبت و شوق کو دیکھ کر بعد ازاں آنے والے خواطِر شیطانی ہیں۔ نفسانی خاطر کو قبول کرنے کے نتیجے میں عبادات و طاعات سے بے رغبتی کا آغاز ہوجاتا ہے اور اگر ایسے خیالات سے احکامِ شریعت سے بیزاری، اکتاہت اور کراہت حتیٰ کہ مخالفت محسوس ہو تو جان لیں کہ یہ خاطِر شیطانی ہے۔ دل اور طبیعت میں پیدا ہونے والی کیفیت، تبدیلی اور فرق سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ کون سا خاطر ہے۔ شیطانی خاطر کو ’’وسوسہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔

سوشل میڈیا سے جہاں منہاج القرآن اور بہت سے لوگ خیر کے کام لیتے ہیں وہاں شر کے اعتبار سے بھی یہ بڑا دجالی فتنہ ہے۔ زندگی میں اس پر بڑا محتاط ہو کر چلنا ہوگا۔ ہمارے ہاتھ میں گناہوں کا پورا منبع ہے۔ جو چیز کھولیں، پس اسے دیکھتے چلے جاتے ہیں،  اس گناہ میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں، اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ نکلنے کا راستہ نہیں رہتا اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پہلے یہ خرابیاں صرف ٹی وی کے ذریعے پیدا ہوتی تھیں مگر آج سوسائٹی میں ہر ایک کے ہاتھ میں آ گئی ہیں۔

3۔ خاطِر مَلکی (فرشتے کی طرف سے الہام)

اللہ رب العزت کا انسان پر کرم اور رحمت کا اظہار دیکھیں کہ اگر انسان کو خرابی، شر اورنقصان دینے والے نفس کی صورت میں داخلی خاطِر اور شیطان کی صورت میں خارجی خاطر کا سامنا ہے تو شر کی طرف لے جانے والے ان دو خواطر کے مقابل اللہ تعالیٰ نے خیر کی طرف لے جانے والے بھی دو ذرائع رکھے ہیں۔ ان میں سے ایک ذریعہ داخلی خاطر ہے اور دوسرا ذریعہ خارجی خاطر ہے۔ داخلی ذریعہ ’’الخاطر الملکی‘‘ ہے۔

یہ نفس کا توڑ کرنے کیلئے فرشتوں کی طرف سے الہام ہے۔ جہاں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہے وہاں ہر انسان کو بچانے کے لئے اللہ نے ایک فرشتہ بھی مقرر کررکھا ہے۔ یہ دل میں نیکی کا خیال ڈالتا ہے۔ یعنی فرشتہ بھی دل میں خاطر ڈالتا ہے۔ اس کی پہچان یوں ہو گی کہ اگر فرائض و نوافل، دین، نیکی، طاعت اور تسبیح وغیرہ کی طرف رغبت ومیلان پیدا ہو جائے تو سمجھیں فرشتے نے الہام کیا ہے۔ یہ خاطرِ ملکی ہے۔

4۔ خاطرِ ربانی (اللہ کی طرف سے الہام)

خواطِرکی چوتھی قسم خاطِر ربانی ہے جو نیکی کی دو خواطر میں سے سب سے اعلیٰ قسم ہے۔ جب دل اور طبیعت طاعت اور نیکی پر جم جائے، نماز، روزہ، عبادت، خیرات اور بھلائی پر پختگی آجائے۔پختگی کا مطلب ہے کہ شر، گناہ اور جھوٹ سے نفرت ہوجائے تو یہ اس امر کا اظہار ہے کہ خاطرِ ربانی سے مدد مل رہی ہے۔

ان خواطر کا بیان حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے مروی اس حدیث میں بھی ہے کہ آپ ﷺ  نے فرمایا:

ابنِ آدم (کے نفس میں) دخل اندازی کا موقع شیطان کو بھی حاصل ہے اور فرشتے کو بھی۔ شیطان کی در اندازی برے حالات کا ڈراوا (دے کر ) حق کے جھٹلانے پر آمادہ کرنا ہے اور فرشتے کی دخل اندازی خیر کی توقع (پیدا کر کے) حق کی تصدیق پر ابھارنا ہے۔ جو اسے پائے، وہ یہ جان لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ جو دوسری چیز پائے وہ اللہ تعالیٰ کی شیطان مردود سے پناہ مانگے۔ پھر آپ ﷺ  نے یہ آیتِ کریمہ تلاوت کی:

اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ وَاللهُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا. (البقرة، 2: 268)

’’شیطان تمہیں (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکنے کے لیے) تنگدستی کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ فرماتا ہے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ جب خاطِر ملکی فرشتوں کی طرف سے ہوتا ہے تو خاطِر ربانی کس کی طرف سے ہوتا ہے؟ لازمی بات ہے کہ یہ بھی اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتا ہے مگر اس کی طرف سے یہ الہام ہر ایک بندے پر براہِ راست نہیں ہوتا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ختمِ نبوت کے بعد انبیاء علیہم السلام  کا سلسلہ تو بند ہوگیا لیکن ختمِ شیطنت نہیں ہوا۔ شیطان نے تو قیامت کے دن تک وعدہ لیا ہے کہ میں اور میرے جنود ولشکر حملے کرتے رہیں گے۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ شر کی دعوت دینے اور لوگوں کو پھنسانے کا عمل شیطان اور اس کے لشکر (جو انسانوں اور جنوں کی شکل میں ہیں) ہر زمانے میں جاری رکھیں لیکن ان کے اثرات ختم کرنے اور لوگوں کو خیر کی طرف لانے اور گمراہی سے نکال کر ہدایت یافتہ کرنے کے لئے کوئی عمل ہی نہ ہو۔ لہذا اللہ نے خاطِر نفسانی اور شیطانی کے مقابلے میں خاطِر ملکی اور ربانی کے ذریعے بندے کی مدد کرنے کا اہتمام فرمایا۔

ان دو خواطر میں سے خاطِر ملکی تو فرشتے کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں ڈالتا ہے جبکہ ختم نبوت کے بعد خاطِر ربانی اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء، صالحین، صدیقین، مجددین اور مصلحین کے ذریعے انسانوں کے دلوں میں القاء کرتا ہے۔ اِن ہستیوں کو اس نے اپنے حبیب ِ اکرم ﷺ کی امت میں آپ ﷺ  کا نائب بنایا ہے۔ اب یہ ہستیاں لوگوں کو جہالت سے نکال کر علمِ صحیح کی طرف۔۔۔ اندھیرے سے نکال کر نور کی طرف۔۔۔ معصیت سے نکال کر طاعت کی طرف۔۔۔ گمراہی سے نکال کر ہدایت کی طرف۔۔۔ اور شر سے بچا کر خیر کی طرف راغب کرتی ہیں۔

جس طرح خواطِر شیطانی میں مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِکے مصداق دو طبقے جن اور انسان ہیں، اسی طرح نیک خیالات و خواطر کے لیے بھی دو طبقے ہیں، جن میں پہلا طبقہ فرشتے ہیں اور دوسرا طبقہ اولیاء، صلحاء، مجددین و مصلحین ہیں۔ جن شیاطین بمقابلہ ملائکہ ہیں اور انسانی شیاطین بمقابلہ اولیاء اللہ ہیں۔

شیاطین ہمارے دلوں کو مردہ یا کم سے کم مریض کرنے پر بضد ہیں، جبکہ ربانیین، اہلِ حق، اہل اللہ اور ہدایت پر متعین طبقہ لوگوں کے دلوں کو زندہ کرنے اور ان کی روحانی مرض کو کم سے کم کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔

5۔ پانچواں خطاب: برے خیالات سے ہلاکت تک کا سفر

شہر اعتکاف 2022ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا پانچواں خطاب (26 اپریل/ 24 رمضان المبارک۔ منگل) ’’برے خیالات سے ہلاکت تک کا سفر‘‘ کے موضوع پر ہوا۔ دلوں کے مریض ہونے کے مراحل کیا ہیں؟ خواطِر نفسانی و شیطانی کے نتیجے میں کس مرحلہ پر کوئی خیال؛ گناہ بنتا ہے؟ خطرہ/ برے خیال کے آنے اور دل کے مریض ہوجانے میں کتنا سفر ہے؟ ایک برا خیال دل کو ہلاکت تک پہنچانے میں کتنا وقت لیتا ہے؟ ان تمام مراحل کو بالتفصیل بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا:

خطرہ یعنی ایک برا خیال جب آئے تو اسی وقت نفرت، سختی اور کراہت کے ساتھ اس کو رد (block) کردینا بندۂ مومن کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے اس عمل سے شیطان کو یہ پیغام جاتا ہے کہ میرے اس جال کو بندے کا دل قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ محض برے خیال کے آنے سے انسان کے نامۂ اعمال میں گناہ نہیں لکھا جاتا، اس لیے کہ یہ انسان کے بس میں نہیں ہے بلکہ یہ نفس اور شیطان کی طرف سے القاء کردہ ہے، اس خیال کے آنے کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ ذمہ داری ہم پر اس وقت آتی ہے، جب ہم نے اس خیال کو رد نہیں کیا، اس کے لیے نفرت اور کراہت کا اظہار نہیں کیا بلکہ اسے Welcome کیا ہے۔ وہ برا خیال جب دوبارہ آیا تو ہم اسے سوچتے رہے، اس سے حلاوت و کیف لیتے رہے، اس کے بار بار آنے اور دستک دینے پر ہم دل کا دروازہ کھولتے رہے اور وہ ہمارے دل میں داخل ہوتا رہا۔ گویا ہم نے اس برے خیال سے اپنی مانوسیت ظاہر کردی۔ اس مانوسیت کے سبب وہ روز آنے لگا۔

جب یہ خاطِر نفسانی یا خاطِر شیطانی ہمارے ساتھ تسلسل کے ساتھ جڑا رہنے لگا تو اب یہ ’’وسوسہ‘‘بن گیا۔ یاد رکھیں! وسوسہ سے مراد ’’وہم‘‘ نہیں بلکہ یہ برائی کی سوچ کی مستقل شکل ہے، جو ذہن میں جم جاتی ہے۔ ارشاد فرمایا :

الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ. مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ. (الناس: 5-6)

’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔‘‘

خاطر اور برا خیال جب وسوسہ بنتا ہے تو یہاں پر شیطان اور نفس آپس میں مل جاتے ہیں۔ اب ان کا قلبِ انسانی پر اثر انداز ہونے کا عمل الگ الگ نہیں رہتا بلکہ ان کا اتحاد ہوجاتا ہے۔ اب نفس اور شیطان کی صورت میں دو دشمن اپنے لشکر لے کر قلب پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ جب تک محض خیال و خطرہ تھا تو اسے نفرت، کراہت، استغفار، عبادت، دعا، تعوذ کے ساتھ بھگانا آسان تھا مگر جب وہ وسوسہ بن گیا اور دل میں داخل ہوگیا تو اب اسے نکالنا اتنا آسان نہیں۔ پہلے اس نے کراہت سے نکل جانا تھا مگر اب یہ مجاہدہ کے بغیر نہیں نکلے گا۔ اس کے لیے اب زیادہ ریاضت و محنت کی ضرورت ہوگی۔ اب نفسِ امارہ کے وظائف اور خاص تسبیحات کرنا ہوں گی، طہارت، اذکار، تلاوت، تدبر و تفکر، نوافل اور بار بار وضو کرنا ہوگا یعنی اب وسوسہ کو دفع کرنے کے لیے مہینوں لگیں گے۔ جس نوعیت کا وسوسہ ہوگا، اسی طرح کے وظائف ہوں گے، جن پر محنت کرنا ہوگی۔

خطرہ کے وسوسہ بننے کے بعد بھی اگر مجاہدہ نہیں کیا، فکر نہیں کی اور وہ خیال جو ہمہ وقت ذہن کو پراگندہ کررہا ہے، اسے دور کرنے کے لیے ریاضت نہیں کی تو اب وہ شہوت بن جاتی ہے اور اس مرحلہ پر انسان اندھا ہوجاتاہے، عقل مائوف ہوجاتی ہے، آنکھوں سے سچائی دکھائی نہیں دیتی، کانوں سے سچائی سنائی نہیں دیتی اور دل و دماغ سچائی کو سمجھتے نہیں ہیں۔ سب کچھ خلط ملط ہوجاتا ہے اور بندہ ہلاکت و تباہی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔

یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت بھی تب ہی نازل ہوگی جب کوئی اللہ کے لیے سچا مجاہدہ کرے۔ ارشاد فرمایا:

وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا. (العنکبوت، 29: 69)

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔‘‘

جب خطرہ وسوسہ بن جائے تو اب اس سے نجات کے لیے مجاہدہ کی ضرورت ہے اور یہ مجاہدہ تب ہی ہوگاجب فکر ہوگی اور فکر تب ہی ہوگی جب پہچان و معرفت ہوگی کہ میں تو ہلاکت و تباہی کی طرف جارہا ہوں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پہچان ہی پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ پہچان کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے اور علم کے لیے اہلِ علم سے سیکھنا ہوگا۔ تحریک منہاج القرآن ایک علمی و فکری تحریک ہے جو تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کے ساتھ ساتھ اصلاحِ احوال، امراضِ قلب کی پہچان اور اس کے علاج کے لیے بھی مصروفِ عمل ہے۔

  • برے خیالات بندے کو کس طرح ہلاکت تک پہنچاتے ہیں؟ مرحلہ وار اس پورے عمل کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ:

1۔ برے خیالات (خواطِر) سے فکر (Way of Thinking) بنتی ہے۔ اب وہ خیال باہر کا خیال نہیں رہتا بلکہ بندے کی اپنی سوچ بن جاتا ہے اور بندہ اس کو Own کرلیتا ہے۔

2۔ اس بری فکر کو اگر نہ روکا گیا تو یہ تصورات (Concepts) بن جاتے ہیں۔ اب بندہ جس بات کا بھی تجزیہ کرے گا، اپنے ان ہی تصورات کی روشنی میں کرے گا۔ یہ تصورات ہر ایک چیز پر غلبہ پاجاتے ہیں۔ آزاد، خالص اور معصوم سوچ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ  کی تعلیم کے تحت ہونی چاہیے تھی، وہ اس مرحلہ پر ختم ہوجاتی ہے۔ ذہن اس تصور کا قیدی بن جاتا ہے اور اسی کی عینک کے ذریعے ہر ایک کو دیکھتا ہے۔ جس طرح جس رنگ کی عینک ہو، بندے کو ہر چیز اسی رنگ کی دکھائی دیتی ہے، اسی طرح جب برا خیال تصور کے مرحلہ پر پہنچ جائے تو بندہ اسی کے تابع ہوکر ہر عمل کرتا اور سوچتا ہے۔ دل و دماغ میں جو وسعت پہلے تھی، اب تصور نے اسے محدود کردیا ہے۔

3۔ جب تصورات پختہ ہوجائیں تو ان سے شہوات جنم لیتی ہیں۔

4۔ جب یہ شہوات پختہ ہوجائیں تو اس سے ارادہ (Intention) جنم لیتا ہے اور ارادہ انسان کو کسی اچھے یا برے کام کے کرنے کے قریب لے جاتا ہے۔

یاد رکھیں کہ جب برائی کا خیال ارادہ تک پہنچ جائے تو اب اسے ختم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس لیے برائی وبدی کے خیال کو پہلی ہی دستک پر رد کریں۔ اس خیال کے آتے ہی فکر مند ہوجائیں کہ میں اتنا نافرمان اور گناہ گار ہوگیا کہ اس خیال و خطرہ نے میرے دل کو اپنی آماجگاہ کے لیے منتخب کیا۔ یعنی بندے کو اس وقت تشویش ہوجائے کہ یہ خیال و خطرہ کیوں آیا اور کہاں سے آیا؟ سمجھدار بندہ اس کے مصدر و ماخذ کو تلاش کرکے اس خطرہ و خیال کو وہیں رد کردیتا ہے۔

5۔ جب ارادے رفتہ رفتہ پختہ ہوجائیں تو پھر وہ افعال میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور انسان سے گناہ سرزد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اب یہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ یہ گناہ دراصل اس نے خود اپنی بے فکری اور بے پرواہی سے کمایا ہے اور خطرات سے اپنی حفاظت نہیں کی۔

6۔ جب برے افعال بار بار سرزدہوتے ہیں تو پھر یہ عادات بن جاتی ہیں اور بندہ اس برائی کا عادی ہوجاتا ہے۔ جب بندہ کسی برائی کا عادی ہوجائے تو اس عادت سے ہلاکت واقع ہوجاتی ہے۔ عادت فطرتِ ثانی کی طرح مضبوط ہوتی ہے۔ جس طرح بندے کی فطرت نہیں بدل سکتی، اسی طرح عادت کا بدلنا ناممکن تونہیں مگر انتہائی مشکل ہے۔ جس شخص نے آسان مراحل پر محنت و مجاہدہ نہیں کیا، اب عادت بن جانے کے بعد وہ کیا محنت کرے گا۔

اگر یہ مراحل ذہن میں رہیں تو ہم اپنی زندگی میں اس امر پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں کہ کس چیز کو کس مرحلہ پر روکنا ہے۔ جب بندہ ہلاکت پر پہنچ جاتا ہے تو اس مقام پر اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے۔ مردہ دل کی پہچان یہ ہے کہ اس میں ایمان کی زندگی اور حرارت قائم نہیں رہتی، وہ اپنے رب کو پہچانتا نہیں ہے، اس کا دل اللہ کی عبادت گزاری، اللہ کی رضا اور محبت سے خالی ہوتاہے۔ اس کا دل ہر وقت نفس کی لذتوں، حلاوتوں اور شہوتوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔

دوسری طرف قلبِ سلیم اور قلبِ حیی کی علامت یہ ہے کہ وہ ایمان، خیر، تقویٰ، نیکی،محبتِ الہٰی اور رضائے الہٰی پر جم جاتاہے۔ اب برے خیال، برائی اور بدی اسے متزلزل نہیں کرسکتے، وہ بری شہوتوں سے محفوظ ہوجاتا ہے، اللہ کے اوامر و نواہی کی مخالفت نہیں کرتا، یعنی یقین کی حالت میں رہتا ہے اور شکوک و شبہات اور مخالفت سے پاک ہوتا ہے۔ یہ بہت اعلیٰ مقام ہے۔ جنھیں قلبِ سلیم نصیب ہوجائے، وہ اللہ کے اولیاء و صلحاء میں شمار ہوتے ہیں۔

مردہ اور زندہ ان دو طرح کے قلوب کے درمیان قلبِ مریض/ قلبِ سقیم ہے۔ ہم میں سے اکثریت قلبِ مریض کی حامل ہے۔ قلبِ سقیم/ مریض وہ ہے جس میں زندگی کے اثرات بھی ہوتے ہیں اور موت کے اثرات اور سایہ بھی ہوتا ہے۔ جس طرح ہم عام زندگی میں؛ صحت مند، مریض اور مردہ آدمی کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ صحت مند بندہ وہ ہے جس میں کوئی بیماری نہیں، مردہ وہ ہے جس کو دفنادیا اور جس کے سارے احوال ختم ہوگئے اور مریض وہ ہے جو نہ صحت مند ہے اور نہ ہی مردہ۔ خواہ اس کا مرض کسی بھی نوعیت اور شدت کا ہو، وہ مریض ہی کہلائے گا۔ نزلہ، زکام، بخار والا بھی مریض ہے اور کینسر اور دیگر مہلک امراض والا بھی مریض ہے۔ اس مریض کے اندر زندگی اور موت دونوں کے اثرات ہوتے ہیں۔ کبھی زندگی کے اثرات غالب آجاتے ہیں اور کبھی موت کے اثرات غالب آجاتے ہیں۔ نیک صحبتوں اور محافل میں چلا جائے تو اس قلبِ مریض میں زندگی کے اثرات آنا شروع ہوجاتے ہیں اور جونہی بندہ اس صحبت و مجلس سے دور ہوتا ہے تو پھر موت کے اثرات اس پر غالب آجاتے ہیں۔ گویا مریض دل میں کبھی اللہ کی محبت، ایمان، اخلاص، توکل کی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں اور کبھی شہوات، نفسانی لذات، حسد، کبر، بغض، حرص، لالچ اور معصیت کی محبت غالب آجاتی ہے۔ گویا مریض دل میں نیکی اور برائی دونوں طرح کے داعیے پائے جاتے ہیں۔ اس دل میں ان دونوں داعیوں کے درمیان کشمکش کا ماحول ہوتا ہے اور ہماری اکثریت اسی قلب سقیم کی مالک ہے۔

6۔ چھٹا خطاب: اقسامِ قلب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف سے اپنا چھٹا خطاب (27 اپریل/ 25 رمضان المبارک بدھ) ’’اقسامِ قلب‘‘ کے موضوع پر ارشاد فرمایا۔ اس خطاب میں آپ نے قلب کی اقسام کو بیان کرتے ہوئے قلب پر اچھی یا بری صحبت کے اثرات اور موجودہ دور میں صحبت کی مختلف صورتوں کو واضح کرتے ہوئے اس امر کو واضح کیا کہ دل مریض کیسے ہوتا ہے؟ آپ نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا:

قلب کی تین اقسام ہیں:

1۔ قلبِ سلیم/صحیح

2۔ قلبِ میت/ مردہ

3۔ قلبِ سقیم/مریض

1۔قلبِ سلیم

قلبِ سلیم زندہ و صحت مند دل ہے، اسے قلبِ صحیح بھی کہتے ہیں۔ اس دل کی درج ذیل خوبیاں ہیں:

(1) قلبِ صحیح کی پہلی خوبی ہے کہ وہ ہر قسم کی مرض و آفت سے محفوظ و سلامت ہوتاہے۔ اس میں ثبات اورمضبوطی ہوتی ہے۔ قلب میں ثبات اس لئے ضروری ہے کہ لفظِ ’’قلب‘‘ کے معنٰی میں ہی پھرنا، بدلنا، گھومنا اور تغیر کا مفہوم شامل ہے۔ اس کو قلب کہتے ہی اس لیے ہیں کہ یہ تغیر و تبدل سے ہمکنار ہوتا رہتا ہے۔ جیسا ماحول، سوسائٹی اور دوستی ملی، جہاں بیٹھے، جو کچھ پڑھا، سنا، اس کا فوری اثر لیتا ہے اور بدل جاتا ہے۔ اس لیے اسے پہلے ثبات دینا ضروری ہے کیونکہ ثبات ناپائیداری کو ختم کرتا ہے۔ اس لیے دل کو پہلے امراض، بیماریوں اور آفات و بلیات سے محفوظ کرنا، سلامت رکھنا، بچانا اور ثابت قدم رکھنا ضروری ہے۔

(2) قلبِ سلیم کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ ہر قسم کی بری شہوات، خواہشات اور خیالات سے محفوظ ہوتا ہے اور وہ ان کے لیے اپنے دل کے دروازہ کو بند کر کے رکھتا ہے۔

(3) قلبِ صحیح کی تیسری خوبی یہ ہے کہ یہ تما م شکوک و شبہات سے پاک ہوتا ہے۔

  • قلبِ سلیم کے لیے اچھی صحبت کا ہونا ضروری ہے۔ اچھی صحبت کی وجہ سے قلبِ سلیم مذکورہ خوبیوں کو اپنے اندر سموئے رہتا ہے۔ یاد رکھ لیں کہ صحبت کا معنٰی آج کل بڑا وسیع ہو چکا ہے۔ پہلے زمانوں میں اس کا معنٰی صرف جسمانی طور پر کسی کے ساتھ بیٹھنا ہوتا تھا۔ مگر اب گلوبلائزیشن کے بعد دنیا بہت ایڈوانس ہوگئی ہے، ماڈرن ٹیکنالوجیز آگئی ہیں، اس لیے صحبت بڑی وسیع، کثیر الجہات اورکثیر الاثرات چیز ہوگئی ہے۔

پہلی صحبت بندہ کو اپنے گھر سے ملتی ہے۔ بچے کے لئے گھر کا ماحول، ماں باپ، بڑے بہن بھائی، طور اطوار، بول چال کے طریقے، معاملات کے انداز، الغرض سکول کی عمر سے پہلے ابتدائی چار پانچ سال وہ جو کچھ گھر میں دیکھتا ہے، یہی صحبت اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔

دوسری صحبت سکول میں میسر صحبت ہے۔ یہ سب سے خطرناک ہے۔ مختلف گھرانوں اور بیک گراؤنڈز سے آنے والے بچے مختلف خیالات لے کر آتے ہیں اور یہ سب مل جل کر تبادلہ خیال کی ایک چھوٹی سی الگ دنیا ہوجاتی ہے۔

تیسری صحبت بندے کو سوسائٹی میں زیرِ گردش خیالات کی صورت میں ملتی ہے۔ اس میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا بھی شامل ہے۔ پہلے زمانے میں یہ شر کے دروازے موجود نہ تھے۔ ہماری عمر اور نسلوں کے لوگ اگر خرافات سے بچ گئے ہیں تو یہ ان کی اپنی کوئی بہت بڑی کامیابی نہیںہے بلکہ ہمارے خطرات، حملے اور بری صحبتیں کم تھیں۔ گلی گلی میں حیا تھا، دین کی فکر تھی، سچائی کی راہ سے ہٹ کر برائی کا سوچتا ہی کوئی نہیں تھا، گھروں، سکولوں،  گلی محلوں، مسجدوں،  دوستوں الغرض ہر طرف بہت ساری اقدار صحیح تھیں۔ اس لیے برائی کے اثرات دل پر نہیں پڑتے تھے اور ہمارے دل اور عقیدے کی حفاظت ہوتی تھی۔

گویا خیالات کو ہماری سوسائٹی، مساجد،  محلے،  گرد و نواح کے نیک اثرات کنٹرول کرتے تھے۔ آج یہ سب دیواریں گر گئی ہیں اور اخلاقی اقدار کے زوال اور گمراہی کا ایسا سیلاب آچکا ہے کہ جس سے کوئی بندہ نہیں بچا۔

(4) قلبِ سلیم کی چوتھی خوبی یہ ہے کہ یہ اللہ کے سوا کسی کی غلامی و اثر قبول کرنے سے آزاد ہوتا ہے۔ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ  کے حکم کے سوا کسی حکم کو مؤثر نہیں سمجھتا۔ اس میں فطری طور پر اپنے خالق و مالک کی تابعداری ہوتی ہے۔

(5) قلبِ سلیم کی پانچویں خوبی یہ ہے کہ اس کے اندر خالصیت ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی عبادت اور بندگی کے لیے مخلص ہوتا ہے۔ یعنی فطرتاً قلبِ سلیم میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ یہ ہر کام خالصیت سے کرتا ہے۔ ریاکاری، ملاوٹ دھوکہ، ظلم، غیبت، جھوٹ، چوری اس کی فطرت میں نہیں ہوتی۔ اس کی نیت و ارادہ، محبت وتوکل، خوف و خشیت، امید و رجاء اور عمل بھی اللہ کے لئے خالص ہوتا ہے۔

(6) قلبِ سلیم کی چھٹی خوبی یہ ہے کہ یہ ہمیں اس اصل پیدائشی حالت پر رکھتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا۔

(7) ساتویں خوبی یہ ہے کہ قلبِ سلیم جس سے محبت کرتا ہے اللہ کے لئے کرتا ہے، دنیاوی غرض و منفعت اور مفاد کے لئے نہیں کرتا، جس سے دشمنی رکھتا ہے اللہ کے لئے رکھتا ہے، جسے دیتا ہے اللہ کے لیے دیتا ہے اور جسے دینے سے رکتا ہے، اللہ کے لیے رکتا ہے۔

کوئی قلب اُسی وقت ہی قلبِ سلیم ہوگا کہ جب مذکورہ تمام خوبیاں اس میں موجود ہوں اور اسی دل کو قیامت کے دن نجات اور فلاح نصیب ہوگی۔

2۔ قلبِ میت/ مردہ

قلبِ میت؛ مردہ دل ہے، اس قلب کے حاملین کم لوگ ہیں۔ اگر قلب میں سے قلبِ سلیم کی مذکورہ تمام صفات نکال دیں تو یہ مردہ ہوجاتا ہے۔ اس میں حیات کی علامت نہیں ہوتی اور نہ ہی اپنے مولا کی پہچان رہتی ہے۔ قلبِ میت کی علامات درج ذیل ہیں:

(1) مردہ دل اس بات پر میں اللہ کے لئے محبت و رضا کی طلب اور دھیان ہی نہیں رہتا۔

(2) یہ شہوات پر جما ہوا ہوتا ہے اور برے خیالات، خواہشات اور لذات سے سکون لیتا ہے۔

(3) مردہ دل اس بات پر فکر مند نہیں ہوتا کہ میرے اس خیال، سوچ اور عمل سے اللہ ناراض ہو گا یا راضی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے بے پرواہ ہونا مردہ دلی ہے۔ پردہ حائل ہو جانے اور سخت غفلت میں چلے جانے سے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ٹوٹ جاتا ہے اس لیے اسے اللہ کی رضا و ناراضگی اور آخرت میں اچھے اور برے انجام کا فکر نہیں رہتا۔

(4) وہ دنیا میں دنیا ہی کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ پیسے، کاروبار، حکومت، طاقت اور عزت کا بندہ و غلام بن کر رہ جاتاہے۔ یعنی دنیا میں اس کے سو مولا ہوتے ہیں۔

(5) مردہ دل امیدیں اور رضا بھی دنیا اور دنیا داروں کی چاہتا ہے۔ جہاں اس کے مفادات جڑ گئے، تعظیم بھی ان ہی کی کرتا ہے اور ذلیل بھی ان ہی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔

(6) کسی سے محبت وبغض بھی نفس کی چھپی ہوئی خواہش کی وجہ سے کرتا ہے۔ اللہ کے لئے وہ کچھ نہیں کر رہا ہوتا، اگر کبھی اللہ کا نام لیتا بھی ہے تو وہ صرف دھوکہ دہی کے لئے لیتا ہے۔

(7) دنیا میں ہر شے سے مقدم اس کی اپنی خواہشِ نفس ہوتی ہے اور اسی کو وہ اپنا مقتدا سمجھتا ہے۔ خواہش و ہوائے نفس اس کا امام و قائد ہوتا ہے۔ شہوات، لذات اور خواہشات اسے پکڑ کر چلا رہی ہوتی ہیں۔ احکامِ الہی اور اس کی معرفت سے بے خبری و جہالت اس کا ڈرائیور ہوتی ہے اور یہ گاڑی اسے ہلاکت کی طرف لے جا رہی ہوتی ہے۔

(8) غفلت مردہ دل شخص کی سواری بن جاتی ہے۔

(9) گناہ، نافرمانی، سیئات اور برے کام؛ مردہ دل کی تجارت، کل پونجی اور زادِ سفر ہوتا ہے۔

(10) حرام کام مردہ دل کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ ان ہی سے وہ سوسائٹی میں اپنا مقام و عزت سمجھتا ہے۔

(11) کوئی بھی اسے خیر کی طرف بلائے، سمجھائے، اس کے دل کے کان ادھر متوجہ نہیں ہوتے۔ کسی خیر کی دعوت دینے والے اور نصیحت کرنے والے کی بات کا اس پر اثر نہیں ہوتا۔

قرآن مجید میں جتنا بھی ایسا ذکر آتا ہے کہ "اللہ نے دلوں پر مہر لگا دی"۔ اس سے مراد یہی قلبِ میت کے حاملین ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ ان سے زیادتی کرتا ہے۔ اللہ نے تو انھیں ایسا پیدا نہیں کیا تھا اور نہ انھیں مجبور کیا تھا۔ انھوں نے خود غلط راستے، غلط صحبت، غلط سنگت، غلط سوسائٹی، غلط خیالات اور غلط تصورات منتخب کئے۔ یہ دروازے انھوں نے اپنے اوپر خود کھولے۔ جب احتیاط نہ کرکے خود exposed ہوئے تو نتیجتاً مریض ہوتے چلے گئے اور بالآخر مردہ دل ہوگئے اور اب ان کے دل پر ان کے اپنے نامہ اعمال کے سبب مہر لگ گئی۔

3۔ قلبِ سقیم/ مریض

قلبِ مریض وہ دل ہے جو دو حالتوں (سلیم اور مردہ) کے درمیان میں ہو۔ اس کی دوسری آسان تعریف یہ ہے کہ جس دل میں سے قلبِ سلیم کی جتنی خوبیاں کم ہوتی جائیں گی، یہ دل اتنا مریض ہوتا چلا جائے گا۔ تمام اچھے اوصاف کا ایک جگہ ہونا قلبِ سلیم ہے اور تمام اچھے اوصاف سے خالی ہونا قلبِ میت ہے جبکہ کسی ایک اچھے وصف سے خالی ہونا یا کسی میت دل کی برائی کا حامل ہونا، مریض دل کی علامت ہے۔ قلبِ مریض میں حیات اور ممات دونوں کے مادے ہوتے ہیں۔ اگر قلبِ سقیم کو کسی قلب صحیح والے کی صحبت ملی تو وہ قلب بھی سلامتی اور صحبت کی طرف گامزن ہوگا اور اگر بندہ قلبِ میت کے حاملین کی صحبت میں بیٹھے گا تو پہلے ہی سے مریض ہونے کے سبب اس کے مرض میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

  • دل مریض کیسے ہوتا ہے؟ اس حوالے سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے حواسِ خمسہ کا دل کے ساتھ ایک تعلق ہے۔ دل پر حواسِ خمسہ کے اثرات کی ایک ظاہری شکل ہے اور ایک باطنی شکل ہے۔ دل پر اپنا باطنی اثر (impect) ڈالنے والے حواس میں کان اور آنکھ نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ لہذا ان دونوں اعضاء کی بہت زیادہ حفاظت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح حلال کھانے کی صورت میں زبان کا باطنی impect دل میں تقویٰ کی صورت سامنے آتا ہے اور حرام کھانے کی صورت میں خباثت اور بدفعلی و بدعملی کی صورت میں اس کا اثر سامنے آتا ہے۔جس نے اپنی آنکھ، کان، زبان اور دماغ پر کنٹرول کرلیا اس کا دل مریض یا مردہ ہونے سے بچ گیا۔

پس جو دیکھا اور سنا، اس کا ظاہری اثر دماغ تک جاتا ہے اور اس کا باطنی اثر دل پر جاتا ہے۔ جو اثر دل پر جاتا ہے، اس کا علاج صوفیاء کرتے ہیں جبکہ ظاہری اثر کا علاج ڈاکٹرز کرتے ہیں۔ لہذا غلط نہ سنیں، غلط نہ دیکھیں، غلط نہ بولیں، غلط نہ سوچیں۔ ان چار دروازوں سے چور داخل ہوکر دل تک پہنچتا ہے۔ ان چار دروازوں پر چوکیدار کھڑے کریں۔ پس سننے والی، دیکھنے والی، پڑھنے والی، سوچنے والی ہر بات کا impect ہمارے دل پر بھی پڑتا ہے اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ان حواس کے ذریعے کئی امراض دل کو منتقل کرتے چلے ہیں۔ (جاری ہے)