خدمتِ خلق، خدمتِ حق کا زینہ

ڈاکٹر ظہور احمد اظہر

یہ ایک حقیقتِ ثابتہ ہے کہ خلقِ خدا کی خدمت دراصل خدمتِ خدا ہے اور اس خدمت کو عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے اور ارشاد نبوی ﷺ  کے عین مطابق ہے۔ آپ ﷺ  فرماتے ہیں کہ

الخلق عیال الله واحب الخلق الیه من احسن الیٰ عیاله.

’’مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ وہ ہے جو اس کے کنبہ سے حسنِ سلوک کرتا ہے۔‘‘

انسانیت کی اصلاح و فلاح اورنیک اسلامی معاشرہ کی تعمیر انبیائے کرام علیہم السلام کے پیغام کا اولین مقصد رہا ہے جسے ہمارے صوفیاء کرام، اصحابِ طریقت، اولیاء اللہ اور علمائے امت رحمہم اللہ نے سنبھالا اور بصد حسن و خوبی اسے نبھایا ہے۔ یہ اصلاح و تعمیر کا کام جہاں حکمت و تدبیر، مواعظِ اثر خیز اور قائل کر دینے والے دلائل کامرہون منت ہے وہاں یہ خلقِ خدا کی خدمت کے طفیل بھی ممکن ہوا ہے بلکہ خلقِ خداکی خدمت اس کارِ خیر کا ایک نمایاں اور اہم پہلو ہے۔ ایسی خدمتِ خلق جو منافقت و ریاکاری سے پاک ہو اور سراپا اخلاص و محبت سے عبارت ہو، ایسی خدمت بلاشبہ خدمتِ حق تعالیٰ کا مظہر ہے۔

انسانی حقوق کی انجمنیں یا جانوروں کے تحفظ کی تنظیمیں توکل کی بات ہے جو مغرب کے تاجرانہ ذہن اور ظالمانہ ہوسِ دولت کی چیرہ دستیوں اور ستم رسانیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بعض یورپی اہلِ دل کی درد مندی کا نتیجہ ہیں مگر رحمۃ للعالمین ﷺ  نے تو آج سے سوا چودہ صدیاں پہلے نہ صرف یہ کہ حقوقِ انسانی کا واضح چارٹر دے کر ان کا تعین فرمادیا تھا اور ان پر پورا پورا عمل بھی ہوا تھا بلکہ خدمتِ خلق کے ضمن میں انسانوں کی طرح حیوانوں کے حقوق کے تحفظ اور خدمت کا حکم بھی فرمایا تھا۔ ان احکام پر عہدِ نبوی و خلافتِ راشدہ میں عمل ہوا اور اسے ایک اصولی روایت کا درجہ مل گیا۔ اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے عہدِ خلافت میں یہ فرمانِ عام جاری کیا تھا کہ جانوروں پر ظلم نہ کیا جائے اور ان کے حقوق اور خدمت کو بھی پیش نظر رکھا جائے، سواری اور بار برداری کے جانوروں کو کوڑے نہ مارے جائیں۔

سرورِ کائنات نبی رحمت ﷺ  سے مروی ہے کہ گذشتہ امتوں کے ایک بہت بڑے گنہگار کو صرف اس نیک عمل کے طفیل بخش دیا گیا کہ اس نے ایک چشمے سے پانی پیا تو دیکھا کہ درخت کی ایک ٹہنی پر خون کے نشانات اور جانوروں کے بال ہیں جو اس سے رگڑ کر گزرتے اور پانی پیتے تھے۔ اس شخص نے وہ ٹہنی کاٹ دی تاکہ پانی پیتے ہوئے جانوروںکو تکلیف نہ ہو۔

صحیح حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ  نے صحابہ کرامl کو جانوروں کی خدمت اور ان پر رحم کھانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ زمانوں میں ایک شخص نے کسی کنویں سے پانی پیا، اتنے میں ایک پیاسا کتا وہاں آنکلا جو پیاس سے نڈھال تھا، وہ آدمی کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی ڈال کر کتے کو پلاتا گیا، اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ خدمتِ خلق پسند آئی اور اس کی نجات کا سامان ہوگیا۔

خدمتِ خلق کی حقیقی بنیاد خلقِ خدا سے ہمدردی اور محبت ہے، جس دل میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی اور محبت نہ ہو وہ دل آمادۂ خدمت کیسے ہوسکتا ہے؟ خلقِ خدا کے لیے دل میں بغض و نفرت یا عداوت و کراہت رکھنا اس کی خدمت پر آمادہ نہیں کرسکتا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے محبت نہیں کرتا، وہ اس کی خدمت بھی نہیں کرسکتا، اس لیے وہ حق تعالیٰ کی خدمت و عبادت سے بھی محروم رہتا ہے۔ جس طرح خدمتِ خلق دراصل خدمتِ حق تعالیٰ کا زینہ ہے، اسی طرح خلقِ خدا کی محبت بھی اللہ جل شانہ کی محبت کا وسیلہ ہے۔ چونکہ ’’حب الخلق‘‘ ’’حب اللّٰہ‘‘ کا ذریعہ ہے اس لیے یہ جذبہ محبت اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تمام قسموں کے اندر ودیعت فرمایا ہے۔

یہی جذبۂ محبت ہے جو خدمت پر آمادہ کرتا ہے اور یہی جذبۂ محبت، خدمتِ خلق کا وسیلہ بن کر محبتِ الہٰی کا حقدار بھی ٹھہراتا ہے۔ خدمتِ خلق، خدمتِ حق تعالیٰ تب قرار پاتی ہے جب انسان خلقِ خدا کے حقوق سے آگاہ و شناسا ہوتا ہے، اسی کا نام آدابِ معاشرت ہے یعنی مل جل کر رہنا، ایک دوسرے کے حقوق جاننا اور اپنے فرائض پہچاننا، ایک دوسرے کے کام آنا، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا، دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھنا اور اپنے بھائی کی خوشی کو اپنی خوشی تصور کرنا، بھائی کا غم بٹا کر اس کا بوجھ ہلکا کردینا اور اس کی ہر خوشی میں شریک ہوکر خوشی کو دوبالا کردینا بھی خدمتِ خلق ہے اور اس سے اللہ جل شانہ کی خوشنودی اور رضا نصیب ہوتی ہے، اسی کا نام خدمت و عبادتِ حق تعالیٰ ہے۔

خدمتِ خلق کا وسیع مفہوم

ہم نے خدمتِ خلق کو بہت محدود اور چند بڑے بڑے کاموں سے مختص سمجھ رکھا ہے، کسی نے سکول بنادیا، نلکا لگوادیا، ہسپتال بنوادیا، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا، ننگے کو جسم ڈھانپنے کے لیے لباس لے دیا اور مریض کو دوا لے دی تو اسے خدمتِ خلق کہہ دیا گیا۔ اس طرح تو یہ خدمتِ خلق صرف روپے پیسے والے ہی کا کام رہ گیا، اس میں غریب کا تو کوئی حصہ نہ ہوا۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ صرف امیر آدمی ہی اللہ کا بندہ اور حبیب بن سکتا ہے؟

اسلام نے خدمتِ خلق کو ادب آداب اور صحبت و سنگت کے طور طریقے اور اصول قرار دے کر خدمتِ خلق کا دائرہ وسیع تر کردیا ہے۔ اولیاء و صلحاء بالخصوص حضور داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے آدابِ معاشرت اور آدابِ صحبت کو خدمتِ خلق کا عنوان دے کر اسے امیرو غریب سب کے لیے ممکن اور عام کردیا ہے۔ گویا کسی انسان کا واقعی انسان ہونا بھی خدمتِ خلق ہے، اگر کسی اچھے انسان کو دیکھ کر دوسرے بھی اچھے انسان بن سکیں تو اس سے بڑی خدمتِ خلق اور کیا ہوگی؟

سرورِ کائنات ﷺ  نے فرمایا:

ادبنی ربی فاحسن تادیبی.

’’مجھے میرے رب نے ادب سکھایا تو بہت اچھے طریقے سے ادب سکھلایا۔‘‘

آپ ﷺ  کے اس پیغام کو آپ ﷺ  کی لغوی فصاحت و بلاغت کے معنی تک محدود تصور کیا جاتا ہے لیکن یہاں بھی لفظ ادب اپنے وسیع مفہوم کے لیے ہے۔ اس سے مراد جہاں لغتِ عرب میں آپ ﷺ  کی فصاحت و بلاغت ہے وہاں اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک ﷺ  کو تعمیرِ معاشرہ کے اصول بھی تعلیم فرمائے ہیں۔

قرآن کریم کی سورت تحریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:

یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا.

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘

(التحریم، 66: 6)

اس آیت میں ’’نار‘‘ سے نارِ دوزخ مراد لی جاتی ہے اور ’’قُوْا‘‘ کے معنی بچاؤ یا نجات دلاؤ سمجھے جاتے ہیں مگر حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ ’’قُوْا‘‘ کے معنی ’’اَدِّبُوْا‘‘ لیتے ہیں یعنی انہیں معاشرتی اصول و ضوابط اور حسنِ اخلاق سکھاؤ تاکہ وہ معاشرتی خرابیوں کا باعث بھی نہ بنیں اور ان سے خود کو بھی بچائیں۔ یہ نصِ قرآنی اس بات کا ثبوت ہے کہ صحبت سے مراد انسانی معاشرت اور ادب سے مقصود حسنِ اخلاق اور اصولِ معاشرت سے آگاہی بھی ہے اور جو انسان ان اصولوں سے آگاہ اور حسنِ اخلاق سے متصف ہوگا وہ معاشرہ کا اچھا فرد اور عمدہ شہری ثابت ہوگا۔ ایسے فرد اور شہری سے بہترین خدمتِ خلق اور تعمیرِ معاشرت کی توقع رکھی جاسکتی ہے اور فرد یا شہری کا یہ کارِ خیر، حق تعالیٰ کی خدمت اور اس کی خوشنودی کا باعث بھی ہوگا۔

قاعدہ و قانون کی پابندی بھی خدمتِ خلق ہے

انسانی معاشرہ میں قاعدہ و قانون کی پابندی بھی خدمتِ خلق کی ایک عمدہ شکل ہے۔ لاقانونیت اور اصول و ضوابط کی مٹی پلید کرنے والے، انسانی معاشرہ کے مجرم اور اس کے لیے بدنما داغ ہیں جبکہ قانون کی پابندی کرنے والے افراد، معاشرہ کے لیے روشنی کے مینار اور مرکز نگاہ ہوتے ہیں۔ قانون توڑنے والے معاشرہ کی کوئی خدمت نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس حق تلفی کے مرتکب ہوتے ہیں اور دنیا ان سے کبھی خوش نہیں ہوتی، کوئی بھی انہیں اچھی اور احترام کی نظر سے نہیں دیکھتا لیکن قانون پر عمل کرنے والے پسند کیے جاتے ہیں اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں کیونکہ وہ قانون پر عمل کرکے نہ صرف یہ کہ افرادِ معاشرہ کے لیے ایک سبق اور عبرت ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کے حقوق کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔

بھلا اس سے بڑی خدمتِ خلق اور کیا ہوگی کہ انسانی معاشرہ کو رہنمائی اور سبق میسر آئے، ان کی حق تلفی نہ ہو بلکہ لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہو۔ یہ خدمتِ خلق اللہ جل شانہ کی خوشنودی کا وسیلہ اور سبب ہے، اس سے معاشرہ میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوتاہے، لوگ سکھ کا سانس لیتے ہیں اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے ادب آداب یا دوسرے لفظوں میں قانون کی عمل داری اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔

آپ ﷺ  نے حسنِ ادب کو ایمان کا جزو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

حسن الادب من الایمان.

حسنِ ادب ایمان کا حصہ ہے۔

گویا اصول اور ضوابط کی پابندی ایمان کی علامت بھی ہے، اس لیے کہ دین و دنیا کی ہر بات کا حسن وجمال ادب ہے۔ دنیا میں جو خرابیاں ہیں اور جو فساد مچا ہوا ہے، اس کا حقیقی سبب لاقانونیت ہے جس کا دوسرا نام ظلم و بے انصافی اور انسانی معاشرہ کی حق تلفی ہے۔ ظاہر ہے جہاں ظلم ہوگا اور لوگوں کی حق تلفی ہوگی وہاں امن اور چین کہاں؟ اسی طرح دین میں فساد اور خرابی بھی وہیں ہوگی جہاں دین کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہوگی، دین کے اصول و ضوابط کی اسی خلاف ورزی کا نام ’’الحاد‘‘ ہے، بے دینی ہے، بداخلاقی ہے لیکن جب دین کے اصول و آداب پر عمل ہوگا تو اس کے نتیجے میں نیکی اور تقویٰ کا دور دورہ ہوگا۔

دنیاوی زندگی کے بھی اصول و آداب ہیں، ان اصول و آداب پر عمل سے دنیاوی کاموں میں نکھار آتا ہے اور دنیا سنورتی ہے، یوں دین و دنیا کے اصول و آداب پر عمل سے دین و دنیا کی فلاح نصیب ہوگی جو حیاتِ عقبیٰ کے سنوارنے کا زینہ ثابت ہوگا۔ بھلا اس سے بڑی خدمتِ انسانیت اور کیا ہوگی کہ انسان کو دین و دنیا کی فلاح بھی میسر آجائے اور آخرت کی زندگی بھی سنور جائے، یہی تو حق تعالیٰ کی خدمت اور عبادت ہے، اسی میں تو اس کی رضا و خوشنودی پنہاں ہے۔

اصول و ضوابط کی پابندی، آدابِ زندگی کو ملحوظ رکھنا اور قانون پر کار بند رہنا انسانی معاشرہ کی بھلائی کا ضامن ہے، اس لیے جو بندگانِ خدا ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اہلیت اور میرٹ کو حرزِ جان بناتے ہیں وہ انسانی معاشرہ کے خادم اور حقیقی خیر خواہ ہیں۔ عدل و انصاف کے بھی یہی تقاضے ہیں۔ اس لیے جہاں قانون کی عملداری ہو اور حق و انصاف کا بول بالا ہو وہ انسانی معاشرہ ایک جنت ہے۔ خلقِ خدا کے لیے یہ جنتی ماحول پیدا کرنے والے انسانیت کی خدمت انجام دیتے ہیں اور اپنے پروردگار کی خوشنودی و رضا کے مستحق ٹھہرتے ہیں، یہی وہ خدمتِ خلق ہے جو خدمتِ حق ہے۔

آدابِ زندگی کا لحاظ رکھنا خدمتِ خلق ہے

آدابِ زندگی کو ملحوظ رکھنا اور اصول و ضوابط کی پابندی کرنا دراصل مروّت اور حرمت و احترام کی ضمانت ہے لیکن اس مروّت، سنت نبوی ﷺ  اور احترام کے آداب سے بے بہرہ ہونا مرتبہ انسانیت سے گرنے کے مترادف اور خلقِ خداکی حق تلفی ہے۔

اخلاقِ مروّت، سنتِ نبوی ﷺ  اور حرمتِ محبت کا دارو مدار آداب پر کاربند ہونے سے عبارت ہے، جو شخص آداب پر کار بند نہیں، قانون کی مٹی پلید کرتا ہے، وہ مروّت سے بھی دور ہے، اسے سنت کی متابعت سے بھی غرض نہیں اور محبت کے احترام سے بھی محروم ہوگا۔ ایسا شخص خدمتِ خلق کا روادار کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ یہ میدانِ عمل تو اہلِ مروّت و محبت کا ہے جو سنتِ نبوی ﷺ  کی متابعت کا شرف بھی رکھتے ہیں کہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن تو ہمارے نبی پاک سرور کائنات ﷺ  ہیں۔

اہل تصوف کے لیے اصول و آداب اور قواعد و ضوابط کی پابندی کے متعلق سید ہجویرؒ فرماتے ہیں:

روحانی معاملات میں محبوب جل شانہ کی تعظیم سے دل میں آداب کو ملحوظ رکھنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ حق تعالیٰ کی اور اس کے شعائر کی تعظیم دل کے تقویٰ سے عبارت ہے۔

ہر وہ شخص کہ جو احترام کے بغیر حق تعالیٰ کے شواہد و شعائر کی بے حرمتی کا مرتکب ہوتا ہے اور ان کی تعظیم کو خاطر میں نہیں لاتا، اسے راہِ تصوف میں کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ سکر اور بے ہوشی کی کیفیت بھی طالبِ حق کو آداب و اصول کو ملحوظ رکھنے سے مانع نہیں آتی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ادب کو ملحوظ رکھنا تو طالبانِ حق کی فطری عادت ہے اور یہ عادت فطرت کے مترادف ہے۔ فطری عادت کسی بھی حیوان سے جب تک وہ بقیدِ حیات ہوتاہے، ساقط و معدوم نہیں ہوتی۔ اس لیے جب تک یہ طالبانِ حق بقیدِ حیات ہیں اس وقت تک ہر حال میں اصول و آداب پر کاربند رہنا ان کا مسلسل کام ہے، اصول و آداب کی یہ پابندی کبھی تو تکلف اور مشقت سے جاری رہتی ہے اور کبھی تکلف و مشقت کے بغیر یہ کام مسلسل رہتا ہے۔ جب یہ طالبانِ حق حالتِ صحو اور ہوش میں ہوتے ہیں تو یہ پابندی تکلف و مشقت سے ہوتی ہے مگر جب وہ حالتِ سکر اور بے ہوشی میں ہوتے ہیں تو حق تعالیٰ ان کی پابندیٔ آداب کو اپنی نظرِ کرم کی نگرانی میں محفوظ رکھتے ہیں۔

قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی انسانی معاشرہ کی بے چینی کا اصل سبب ہے کیونکہ اس کا نام ظلم ہے، یہی حق تلفی کہلاتی ہے، اسے ہی بے انصافی کا نام دیا جاتا ہے۔ جو مدعی تصوف، اصول و آداب کی خاطر میں نہ لاتے ہوئے شعائر اللہ کی تعظیم نہیں کرتا، اس کے دل میں حق تعالیٰ جل شانہ کی عظمت و جلال جلوہ گر نہیں ہے۔ ایسا شخص دعویٰ میں جھوٹا اور مردود ہے اور تصوف کی روحانی دنیا کا بدنصیب ہے، اس لیے کہ سچا صوفی کبھی بھی یہ روش نہیں اپنا سکتا۔ پابندیٔ اصول و آداب تو اس کی فطری عادت بن چکی ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہ کی عظمت و جلال اس کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہوتاہے، وہ تو حالتِ سکر میں بھی شعائر اللہ اور اخلاق و دین کے آداب کی خلاف ورزی نہیں کر پاتا۔ اس لیے کہ اس خلاف ورزی سے بچانا تو خود مطلوب و محبوب حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے کیونکہ جس طرح فساق و مفسدین قوانین کی دھجیاں اڑا کر انسانی معاشرہ میں بے چینی پیدا کرنے کے مجرم ہیں، اسی طرح مکار صوفی بھی اصول و آدابِ شرع اور دین و اخلاق کی خلاف ورزی سے خلقِ خدا کو بے چین کرتا ہے۔ پس قوانین کی پابندی اور اصول و آداب کی عملداری چونکہ انسانی معاشرہ کے لیے راحت سکون اور خوشی و اطمینان کا وسیلہ ہے اس لیے یہ بہت بڑی خدمتِ خلق اور خدمتِ حق تعالیٰ ہے۔

ہمیں یہ بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ پُل، چاہ اور ہسپتال بنانا ہی خدمتِ خلق نہیں ہے،اصل خدمتِ خلق تو عملی نمونہ اور کردار ہے۔ قوانین کی پابندی سے انسان لوگوں کی نظر میں کمتر نہیں بن جاتا بلکہ بلند و برتر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ قوانین کی مٹی پلید کرتے ہیں، اصول و آداب کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اور قوانین و آداب کی پابندی کو اپنے لیے کسرِ شان اور توہین خیال کرتے ہیں، ایسے لوگ حقیقت میں عوام الناس کی نظر میں ذلت و رسوائی کا منبع اور توہین و لعنت کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرہ میں مایوسی، احساسِ محرومی اور بے چینی پیدا کرکے فساد پھیلاتے ہیں۔ اس کے برعکس خود کو قوانین و ضوابط کا پابند بنانے والے اور اصول و آداب پر عمل پیرا ہونے والے معاشرہ کے لیے ایک عملی نمونہ بھی ہوتے ہیں اور معاشرہ میں ہر طرف سکھ، چین، اطمینان اور راحت و سکون کے پیغام بر بھی بن جاتے ہیں۔ دراصل یہ انسانیت کی عظیم ترین خدمت ہے، اس سے انسانوں کے لیے انسان بننا آسان ہوجاتا ہے، اس لیے یہ خدمتِ خلق بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وسیلہ ہونے کے باعث خدمتِ حق بھی ہے۔

تارکِ آدابِ شریعت ولی نہیں ہوسکتا

جو لوگ کسی بھی ضابطۂ زندگی، قانون یا اصول و آداب کے پابند نہیں ہوتے اور خود کو تمام قیود اور پابندیوں سے آزاد گردانتے ہیں، یہ لوگ دراصل پیدائشی طور پر سست اور تساہل پسند ہوتے ہیں اور ’’ملنگی‘‘ کا لبادہ اوڑھ کر انسانی معاشرہ کو بے عمل، کاہل اور آوارہ بناتے ہیں۔ اس میں وہ آزاد خیال دنیا دار تو بدرجۂ اولیٰ شامل ہیں جو کسی اصول یا ادب کی پیروی کے قائل ہی نہیں ہوتے۔ قوانین کی خلاف ورزی کو نہ صرف یہ کہ اپنا پیدائشی حق تصور کرتے ہیں بلکہ ان کا تکبر و غرور اس میں بڑائی اور شان محسوس کرتا ہے۔ جس طرح تارکِ آدابِ شریعت ولی نہیں ہوسکتا اسی طرح یہ آزاد خیال اور ہوس پرست بھی کسی احترام و انعام کے مستحق نہیں ہوتے بلکہ ہر ذلت و توہین کے حقدار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو ایسے فاسق و فاجر لوگ معاشرہ کی کوئی خدمت کرتے ہیں اور نہ ایسے ’’صوفی نما ملنگوں‘‘ سے معاشرہ کو کوئی نفع یا فائدہ ملتا ہے، ان ہر دو گروہوں کے افعالِ فضیحہ مسترد ہیں اور وہ کسی تکریم و مدارات کے مستحق نہیں ہوتے۔ یہ خدمتِ خلق کے کام نہیں انجام دے سکتے، الٹا خلقِ خدا کو گمراہ کرتے اور نقصان پہنچاتے ہیں:

لان المودة عند الآداب وحسن الآداب صفة الاحباب.

’’اس لیے کہ پیار اور دوستی (ولی ہونا دوست ہونا) تب ہوتی ہے جب اصول و آداب کو ملحوظ رکھا جائے اور یہ بھی کہ حسنِ آداب تو محبت والوں کی خوبی ہے۔‘‘

گویا تارکِ شرع و قانون نہ تو عنداللہ محبوب اور پسندیدہ ہوسکتا ہے اور نہ عندالناس کسی پذیرائی کا مستحق ہے اور اصل اس میں یہ ہے کہ ایسا کرنے والے انسانی معاشرہ کے دشمن اور بدخواہ ہوتے ہیں اور ان کی نفس پرستی انہیں خدمتِ خلق سے دور اور اللہ تعالیٰ کی خدمت و عبادت سے محروم رکھتی ہے۔