ہجرتِ مدینہ اور جذبۂ مواخات

محمد فاروق رانا

ظہورِ اسلام سے پہلے پورا عرب قبائلی نظام حیات پر چل رہا تھا۔ قبائلی عصبیت ہر فرد کے ظاہر و باطن کو محیط تھی۔ اپنے قبیلے سے کٹ کر فرد کی کوئی حیثیت نہ رہ جاتی تھی۔ ہر شخص ذاتی تحفظ کے لئے اپنے قبیلے کی پناہ لینے پر مجبور ہوتا۔ عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت نہیں تھی۔ ہر قبیلہ اپنے افراد کی جائز و ناجائز مدد کرنا ضروری سمجھتا تھا۔

اس نظام کے تحت جو شخص بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا اس کے قبیلے میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا کیونکہ اسلام دراصل وہ دعوتِ انقلاب تھی جس سے قبیلے برادریوں کے بت توڑ کر عالمگیر برادری کو وجود میں لانا تھا اور جس کی بنیاد مساوات اور مواخات پر رکھی جانی تھی۔ لہذا قبیلہ اسلام قبول کرنے والے کی جان و مال کے تحفظ سے دستبردار ہو جاتا اور اسے قبیلے سے خارج کر دیا جاتا۔ اگر اسلام قبول کرنے والا شخص غلام یا معاشرتی اعتبار سے کمزور ہوتا تو اسے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا اور اسے اذیت ناک سزائیں اور تشدد برداشت کرنا پڑتا۔ وہ معاشی طور پر تو پہلے ہی کمزور ہوتا اب معاشرتی طور پر بھی الگ تھلگ اور تنہا ہو جاتا۔

ہجرتِ مدینہ سے قبل مواخات

اسلام نے مصائب و مسائل کی آگ میں جلتے ہوئے ان مسلمانوں کو مواخات کے رشتے میں منسلک کر کے انہیں ایک عالمگیر برادری کے رکن ہونے کا احساس بخشا جس سے ان کا احساسِ تنہائی، ذہنی انتشار اور سوشل بائیکاٹ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا کرب دور ہوا اور وہ ابتلا و آزمائش کے اس دور میں بھی مواخات کی رحمتوں اور برکتوں کی خنک رتوں سے روح کی تسکین کشید کر لیتے۔

مکہ مکرمہ میں ہجرت مدینہ سے پہلے مواخاتی رشتے وجود میں آئے ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ تاجدارِ کائنات ﷺ، حضرت علی رضی اللہ عنہ

2۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ

3۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ

4۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ

5۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ،

6۔حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہ، حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ

7۔حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ، حضرت سالم مولیٰ ابن حذیفہ رضی اللہ عنہ،

8۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

9۔حضرت سعد بن ابی زید رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ

مدینہ میں مہاجرین کی آمد

جب مدینہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی مؤثر حکمتِ عملی سے بیعتِ عقبہ اولیٰ اور بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعد سازگار ماحول بن گیا اور اوس و خزرج کے لوگ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور حضور نبی اکرم ﷺ کے مقرر کردہ نقباء کی کاوشوں سے مسلمان ہونے لگے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں مقیم مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کا حکم دے دیا۔ چنانچہ مکہ مکرمہ میں مقیم مسلمان انفرادی طور پر اور گروہوں کی صورت میں کفارِ مکہ کی آنکھوں سے بچتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچنا شروع ہوگئے۔ بعد ازاں حضور نبی اکرم ﷺ بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔

مہاجرین مکہ میں بعض اگرچہ دولت مند بھی تھے لیکن چونکہ مکہ سے چھپ چھپا کر نکلے تھے اس لئے مدینہ پہنچے تو بے سرو سامان تھے۔ انصار مدینہ کی معیشت پر بوجھ بڑھ رہا تھا اور اقتصادی مشکلات پیدا ہونے لگی تھیں۔ اس صورتحال میں سیاسی اور سماجی الجھنیں سر اٹھا رہی تھیں۔ مہاجرین میں احساس اجنیت جنم لینے کو تھا، وہ دست و بازو سے کام لینے کے خوگر تھے اور بغیر کچھ کام کئے مفت کا معاوضہ حاصل کر کے گذر بسر کرنا پسند نہ کرتے تھے۔

مدینہ منورہ میں مواخاتِ محمدی

اگرچہ انصارِ مدینہ اپنی بساط سے بڑھ کر مہاجرین کی میزبانی کا حق ادا کررہے تھے لیکن مدینے کی بیدار مغز قیادت ان پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ مہاجرین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے سے ان کی عزتِ نفس بھی بحال رہتی اور انصار پر بوجھ بھی کم پڑتا۔ انصار کی معیشت کا دارو مدار زراعت پر تھا۔ مہاجرین کی اکثریت تاجر پیشہ لوگوں پر مشتمل تھی۔ چند ایک کے سوا مہاجرین کی مدینہ کے لوگوں سے رشتہ داری بھی نہ تھی۔ بعض مہاجرین کے اہل و عیال ابھی مکہ میں تھے۔ روز گار کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔

آقائے دوجہاں ﷺ نے ان مسائل کی طرف توجہ فرمائی اور مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہوتے ہی انصار کو حضرت انس بن مالکص کے گھر طلب فرمایا۔ انصارِ مدینہ نے رحمت عالم ﷺ کے حضور درخواست کی کہ ہمارے تمام نخلستان اور باغات ہمارے اور مہاجرین مکہ کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیئے جائیں مگر حضور ﷺ نے فرمایا کہ مہاجرین اور انصار دو دو آپس میں بھائی بھائی بن جائیں۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا: یہ میرا بھائی ہے۔ اس کے بعد تاجدار مدینہ ﷺ دو دو مسلمانوں کو بلاتے رہے اور ارشاد ہوتا رہا کہ آج سے تم بھائی بھائی ہو اور یہ سلسلہ اس روز کے بعد بھی جاری رہا۔ جب کوئی مسلمان ہجرت کرکے مدینہ آتا تو اسے کسی انصار کا بھائی بنا دیا جاتا۔

انصار کا ایثار

جذبۂ ایثار مسلمانوں بالخصوص تجدید و احیائے اسلام کے عظیم مصطفوی مشن پر کاربند کارکنان و رفقاء کا وہ ہتھیار ہے جو بے سرو سامانی میں بھی انہیں مغلوب نہیں ہونے دیتا اور ان کا سر فخر سے بلند رکھتا ہے۔ آقا علیہ السلام نے انصار و مہاجرین کے درمیان رشتۂ مواخات قائم کیا تو یہ رشتہ بالکل حقیقی رشتے کی طرح بن گیا۔ انصار اپنے سگے بھائی اور قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ اپنے مہاجر بھائیوں کا خیال رکھنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک انصاری بھائی فوت ہوتا تو اس کی جائیداد کا وارث اس کا مہاجر بھائی بنتا۔ انصار نے مہاجر بھائیوں کواپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں، کاروباروں، باغات، گھروں اور املاک میں برابر برابر حصہ دار بننے کی پیش کش کی۔

مہاجرین؛ انصارِ مدینہ کے خلوصِ دل سے قدردان تھے۔ وہ ایک دن بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: ’’یارسول اﷲ ﷺ ! ہمیں جس قوم کا مہمان بننے کا اتفاق ہوا ہے، وہ معمولی معمولی باتوں پر ہماری دلجوئی کرتے ہیں اور بڑی بڑی حاجات کو پورا کرنے کے لئے جس دریا دلی سے مال خرچ کرتے ہیں، اس جیسی قوم ہم نے کہیں نہیں دیکھی۔ ہمیں کام بھی نہیں کرنے دیتے اور آمدنی کا پورا حصہ بھی دیتے ہیں۔ اس سے ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ سارا اجر و ثواب یہی نہ لے جائیں۔‘‘

حضور رحمت دوعالم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک تم ان کی فیاضی کی تعریف کرتے رہو گے اور ان کے لئے دعاگو رہو گے تو ایسا نہیں ہوگا۔‘‘

انصار کے ایثار و قربانی پر قرآن حکیم کی شہادت

انصار کی کیفیت یہ تھی کہ خود بھوک اور افلاس کی سختیاں برداشت کرتے تھے لیکن کیا مجال جو مہاجر بھائیوں کو ذرا بھی تکلیف ہونے دیں۔ مومنین کی یہی خصوصیت ہے جس کا ذکر سورہ حشر میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُالدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.

(الحشر، 59: 9)

’’(یہ مال اُن انصار کے لیے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنالیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیں۔‘‘

ان ہی لوگوں کو قرآن حکیم نے ’’مومنین حقا‘‘ قرار دیا ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْا اُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَّهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ.

(الانفال، 8: 74)

’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راهِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔‘‘

کتنی عظیم الشان ہے یہ شہادت اور کتنا بلند ہے ان حضرات کا نصیبہ۔ یہ رشتہ اخوت ایسا استوار ہوا کہ انصاربھائی کی موت پر اس کے ترکہ کا وارث مہاجر بھائی قرار دیا جاتا۔

مصطفوی معاشرے کی تشکیل میں معاشی استحکام کا کردار

قرآن حکیم میں سورہ انفال آیت نمبر 26 میں مصطفوی انقلاب کے مکی اور مدنی دور کے احوال کا تقابلی ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:

وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَ قَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.

(الانفال، 8: 26)

’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکو۔‘‘

قرآن حکیم نے بطور قوم یہ اجتماعی فلسفۂ حیات ہمارے سامنے رکھ دیا ہے وہ مسلم قوم اور ملک جو خود کو اقتصادی اعتبار سے مستحکم نہیں کرتی، وہ سیاسی سطح پر بھی آزادی کی نعمت سے کماحقہ بہرہ ور نہیں ہو سکتی اور معاشرتی طور پر افراتفری اور انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کا مذہب بھی غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔ قوم و ملک کی دینی، اخلاقی، روحانی، معاشرتی اور سیاسی خدمت اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک معاشی اور اقتصادی انقلاب کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کئے جائیں اور معاشی استحکام کے بعد جب تک قوم بین الاقوامی سطح پر سیاسی طور پر آزاد نہ ہو جائے اس وقت تک اس کی مذہبی آزادی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

آقائے دوجہاں ﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے فوراً بعد پہلا قدم معاشی استحکام کے لئے اٹھایا اور مہاجرین و انصار کو مواخات کا نظام عطا کیا۔ انصار کے وسائل میں مہاجرین کو شریک کر کے معاشی ترقی کو مہمیز لگا دی۔ دونوں کی افرادی قوت نے مل کر اقتصادی ترقی کی منزل طے کی۔ زراعت اور تجارت دونوں میدانوں میں مہاجرین اور انصار نے نفع بخش منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان پر وسائل و اسباب کے دروازے کھل گئے۔ پوری سوسائٹی معاشی طور پر مضبوط ہو گئی۔ سب سے زیادہ اہمیت غریب، بے روزگار، نادار اور وسائل سے محروم افراد کو دی گئی۔ انہیں بنیادی ضرورتیں مہیا کر دی گئیں اور امیر غریب کی تفریق مٹا دی گئی۔ اس طرح فلاحی اسلامی ریاست کی پہلی اینٹ کے طور پر معاشی انقلاب برپا کر دیا گیا۔

وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ ( نفس کو خود غرضی اور بخیلی سے بچانا)

یہ بات قابلِ غور ہے کہ معاشی استحکام کا یہ عظیم منصوبہ کیسے مکمل ہو گیا۔۔۔؟ مواخاتِ محمدی کے تحت غریب اور مالدار کو بھائی بھائی بنایا گیا۔ نادار اور بے سرو سامان کو صاحبِ ثروت کے ساتھ رشتۂ اخوت میں پرو دیا گیا۔ دونوں کو مال، گھر، املاک، کاروبار میں برابر کا شریک کر دیا گیا مگر یہ سب کیسے ہوگیا۔۔۔؟

دین کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے نفس کو بخیلی اور تنگ نظری سے آزاد کر لے۔ یہ نہ ہو کہ مفاد حاصل کرنے کے لئے دوسروں سے آگے نکلنے کے لئے دوڑ شروع ہو جائے جس میں ایک آدمی دوسرے کو صرف اس لئے گرا دے کہ وہ آگے نکل کر کچھ حاصل نہ کر لے لہذا اسے گرا دیا جائے تاکہ سب کچھ وہ خود حاصل کر لے۔ یہ بدترین خودغرضی جب تک معاشرہ کے تمام افراد کے نفوس سے باہر نکال کر پھینک نہ دی جائے، اس وقت تک ایثار و قربانی کا مظاہرہ ممکن نہیں ہوتا۔ نبی اکرم ﷺ نے دعوتِ حق قبول کرنے والے انصار و مہاجرین کو اسی تعلیم و تربیت سے آراستہ فرماتے ہوئے انہیں مواخات کا تحفہ عطا فرمایا جس کے نتیجے میں معاشی، معاشرتی اور سیاسی استحکام اور غلبہ دین حق کی نعمت عطا ہوئی اور اللہ رب العزت نے ان مومنین حقاّ کو فلاح و کامیابی اور اللہ کی رضا کے حصول کی نوید سنائی کیونکہ انہوں نے اپنے نفس کو خود غرضی اور بخیلی سے محفوظ کر لیا۔

مواخات کو اوّلیت حاصل ہے

مواخات اقتصادی وسائل کے حصول کی دوڑ میں دوسروں کو گرا کر آگے نکل جانے کا نام نہیں بلکہ گرے ہوؤں کو اٹھا کر اپنے ساتھ منزل تک لے جانے کا نام ہے اور یہ دین کا فریضہ اولین ہے جسے باقی عبادات پر فوقیت حاصل ہے۔ اگر یہ ہے تو سب کچھ ہے۔ اﷲ ہے، رسول ہے، فتح و کامیابی ہے، اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں، سب کچھ کھو دیا گیا، نہ خدا ملا، نہ رضائے حبیب ﷺ حاصل ہو سکی، دنیا بھی گئی، آخرت بھی برباد ہوئی، نماز روزے حج زکوٰۃ سب اعمال ضائع ہو گئے کیونکہ اولیت نادار اور محروم کے حقوق کی ادائیگی کو حاصل ہے، یہی مواخاتِ محمدی کی بنیاد ہے۔

بخاری شریف کی حدیث ہے کہ نماز کا وقت ہوگیا، تکبیر پڑھی گئی، آقا علیہ السلام نماز پڑھانے کے لئے مصلیٰ پر کھڑے ہو گئے اور ابھی تکبیر اولیٰ کہنے ہی والے تھے کہ ایک غریب نے باہر آکر آواز دی: ’’میں غریب اور نادار ہوں، میری حاجت روائی فرمائی جائے۔‘‘ آقا ﷺ اس کے لئے پیغام بھیج سکتے تھے کہ تھوڑی دیر رک جاؤ تاکہ نماز ادا کر لی جائے، پھر آپ کی حاجت پوری کرنے کے لئے انتظام کر دیتے ہیں لیکن تاجدار کائنات ﷺ نے نماز مؤخر کر دی، مصلیٰ چھوڑا، صحابہ کرام صفوں میں کھڑے رہ گئے اور غریبوں کے مولیٰ سائل تک تشریف لے گئے، اس کی حاجت روائی کی اور پھر آ کر نماز پڑھائی۔

اس پس منظر میں سورہ الماعون کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نادار کو نظرانداز کرنا اور بے سہارا سے منہ پھیر لینا تکذیبِ دین ہے اور ایسا کرنے والے اپنی نماز صحیح طور پر ادا نہیں کرتے۔ ان کی نمازیں اور عبادات محض ریاکاری ہیں جبکہ ایمان کی تصدیق دل سے اور عمل سے ہوتی ہے اور ایمان والے دل میں بخل نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے لئے کشادگی ہوتی ہے۔ اسلام جس مصطفوی معاشرے کی تشکیل کی بات کرتا ہے، اس کی بنیاد وسائل کی عادلانہ اور منصفانہ تقسیم پر رکھتا ہے، دوسرے سے وسائل چھیننے پر نہیں بلکہ وسائل سے محروم لوگوں تک وسائل پہنچانے پر رکھتا ہے، ایک دوسرے کے لئے ایثار پر رکھتا ہے اور قربانی و فیض رسانی پر رکھتا ہے۔

مواخات سے بڑھ کر جذبۂ مواخات کی ضرورت

قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک کسی حکومت نے پاکستانی معاشرے کو مصطفوی معاشرے میں بدلنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ معاشرے میں 5 سے 10 فیصد افراد بنیادی ضرورتوں میں خودکفیل ہیں اور باقی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، بے روزگار ہیں اور علاج، تعلیم اور رہائشی سہولتوں سے محروم ہیں، حتی کہ عزت اور جان کے تحفظ سے بھی محروم ہیں جبکہ چند خاندان وسائل اور سرمائے پر قبضہ کرنے اور لوٹ کھسوٹ کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ بدنصیبی کی بات یہ بھی ہے کہ سیاست کو بھی دھوکا، فریب اور دھونس دھاندلی کا ذریعہ بنا کر ایسے عناصر قوتِ نافذہ تک رسائل حاصل کر لیتے ہیں جو اسلام کے بنیادی مواخاتی نظام کے برعکس سرمائے پر قابض رہنے اور اس کے حصول کے لئے دوسروں کو گرانے پر یقین رکھتے ہیں۔

اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے مصطفوی معاشرے کی تشکیل کا راستہ۔ تحریک منہاج القرآن وہ واحد تحریک ہے جو پاکستان میں مصطفوی معاشرے کی تشکیل کی بات کرتی ہے اور پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ تحریک اس کے لئے ایک ٹھوس لائحہ عمل اپنا کر منزل تک پہنچنے کے لئے قومی سطح پر اخلاقی و روحانی، تعلیمی و ثقافتی، معاشی و سماجی اقدار کے احیاء اور بیداریٔ شعور کے لئے جدوجہد میں شب و روز مصروف ہے۔

تحریک منہاج القرآن کا ہر رفیق اور کارکن اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے منصب پر مواخات محمدی کے فروغ کا ذمہ دار ہے۔ اسے تحریک کے مواخاتی خاندان کی بہبود کے لئے سوچنا ہو گا، جاگنا ہو گا، کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا اور ہر قدم پر یاد رکھنا ہو گا کہ اس کی نسبت حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ کے قائم کردہ مصطفوی معاشرے کے ساتھ ہے۔

ہر رفیق ’’شح نفس‘‘ (نفس انسانی کی بدترین خودغرضی) سے نجات کا ذمہ دار ہے۔ اس لئے ہر رکن اور رفیق خواہ اس کے پاس کوئی بھی ذمہ داری ہو، ہمہ وقت باوضو رہنے کا پابند ہے تاکہ اسے ہر وقت وہ کلمہ یاد رہے جو کلمۂ حق ہے۔ اسے ہر وقت اپنی کوتاہیاں یاد رہیں تاکہ وہ خدا کے حضور استغفار کرتا رہے۔ ہر کارکن قرآنی تعلیمات کو حرزِ جاں اور منہاج العمل پر پابندی کو یقینی بنائے۔ تواضع و انکساری اپنانا اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کا اہتمام کرنا تحریک کے ہر کارکن کی شخصیت کا خاصہ ہونا چاہیے۔

آقا علیہ السلام ایک سفر پر تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے پاس ضرورت سے زیادہ کھانا وغیرہ موجود ہے اور کچھ لوگ ضرورت کی اشیاء سے بھی محروم ہیں۔ آپ ﷺ نے جب یہ فرق دیکھا تو فرمایا:

’’من کان عندهٗ فضل ظهرٍ فلیعدبهٖ علی من لاظهر لهٗ و من کان عندهٗ فضل زادٍ فلیعد به علیٰ من لا زادله‘‘ حتٰی ظننا انهٗ لاحق لاحدٍ منا فی الفضل. (ابوداؤد)

’’تم میں سے جس کے پاس ضرورت سے زائد کپڑا ہو، وہ اس شخص کو لوٹا دے جسے اس کی ضرورت ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زائد کھانا ہو، وہ اس شخص کو لوٹا دے جسے اس کی ضرورت ہے۔ (حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) حتی کہ ہم نے یہ سمجھا کہ زائد از ضرورت کسی چیز میں بھی ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘

اس طرح آقا علیہ السلام نے معاشی انقلاب کی بنیاد فراہم فرما دی اور سمجھا دیا کہ غریب اور امیر کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کچھ لوگ عیاشی کی زندگی گزار رہے ہوں اور کچھ لوگ اپنے گھر کی چیزیں بیچ کر زندگی کی ضروریات پوری کر رہے ہوں۔ ایسی صورتحال میں حکم ہے کہ جس کے پاس زائد ہے، وہ بنیادی ضروریات سے محروم لوگوں کو زائد وسائل واپس کریں، لوٹا دیں۔

ایک مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے تحریک منہاج القرآن کے تمام کارکنان و رفقاء ایک خاندان ہیں۔ اس خاندان کا ہر فرد جذبہ مواخاتِ محمدی سے سرشار ہو کر اپنے مواخاتی خاندان کے تمام افراد کے معاشی استحکام کے لئے عملی اقدامات کرے اور یوں آقائے دوجہاں ﷺ کے عطا کردہ راهِ ہدایت پر چل کر موجودہ انتہائی کٹھن اور معاشی حالات میں اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرے۔

آیئے! ہم سب مل کر اپنے اپنے حلقہ میں موجود بالخصوص تحریکی رفقاء و کارکنان اور بالعموم تمام پاکستانیوں کے لیے اخوت و بھائی چارے کی عملی تصویر بن جائیں تاکہ اس مواخاتِ محمدی پر عمل پیرا ہوکر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں۔