اسلام میں حصولِ علم مقصدِ حیات ہے

رپورٹ: نوراللہ صدیقی

اسلام اس کائنات کا وہ واحد الہامی دین ہے جس نے حصولِ علم کو مقصدِ حیات قرار دیا ہے اور مرد و زن پر حصولِ علم کو فرض قرار دیا ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس کا پہلا وحی کیا گیا کلمہ ’’اقراء‘‘ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق تمام انسان برابر ہیں مگر عالم کو جاہل پر فضیلت دی گئی ہے یعنی عالم اور جاہل برابر نہیں ہیں۔ اللہ کی کوئی نعمت ایسی نہیں ہے جس میں اضافہ کے لئے قرآن مجید میں دعا عطا کی گئی ہو، ماسوائے علم کی نعمت کے۔ علم ایک ایسی نعمت ہے جس میں اضافہ کے لئے اللہ رب العزت نے دعائیہ کلمات عطا فرمائے ہیں: ’’ربی زدنی علما‘‘۔ پس ثابت ہوا کہ کرہ ارض پر علم سب سے بڑی نعمت ہے اور اس نعمت میں اضافے کے لئے بار بار دعا کرنا اللہ کو بڑامحبوب ہے اور اللہ نے علم کی نعمت میں اضافہ کے لئے انسانیت کو باقاعدہ دعائیہ کلمات عطا فرمائے۔

حضور نبی اکرم ﷺ ایک روز اپنے کاشانہ اقدس سے باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے۔ صحنِ مسجد میں دو حلقات منعقد تھے: ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اور دوسرا تعلیم و تعلم میں مشغول تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یہ فرما کر آپ ﷺ تعلیم و تعلم والے حلقہ میں تشریف فرما ہو گئے۔ یعنی آپ ﷺ نے حلقۂ ذکر پر حلقۂ علم کو فوقیت دی۔

صحابہ کرامl نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! جنت کے باغات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’علم کی مجالس‘‘یعنی جہاں علم کی باتیں ہورہی ہوں ان مجالس العلم کو جنت کے باغات قرار دیا گیا ہے۔ مجالس العلم درحقیقت مجالس العبادۃ ہیں، دیگر عبادات میں انسان اپنی ذات کے لئے اللہ سے بخشش اور برکت مانگتا ہے جبکہ علم کی نعمت سے انسانیت راہنمائی اور بھلائی پاتی ہے۔ ایک معلم لاتعداد انسانوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کے سفر پر گامزن کرتا ہے۔ اس لئے علم کو افضیلت حاصل ہے۔ علم کے بغیر عبادت کی روح کی شناخت ناممکن ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تدبر اور غور و فکر کے بغیر تلاوت میں کوئی بھلائی نہیں ہے اور نہ ہی دین میں سمجھ بوجھ کے بغیر کوئی عبادت ہے اور فقہ کی ایک مجلس 60 سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

اولیائے کرام باطنی علوم کے ساتھ ساتھ ظاہری علوم پر بھی دسترس اور ملکہ رکھتے تھے اور وہ اپنے وقت کے متبحر عالمِ دین ہوتے تھے۔ تاریخِ اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا ولی نہیں ہے جو باطنی علوم کے ساتھ ساتھ ظاہری علوم پر ملکہ نہ رکھتا ہو۔ ہر ولی اللہ وقت اور اپنے خطے کا مستند عالم بھی ہوتا تھا۔ عبادت گزاری وجہ نیابتِ الٰہی نہیں ہے بلکہ علم کا نور ہی ایسی فضیلت کا حامل ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کا نائب بناتا ہے۔ نفلی عبادت، تسبیح اور ذکر سے علم افضل ہے۔ علم کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا تعارف بھی ’’الکتاب‘‘ کے طور پر کروایا ہے۔

دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی شرح خواندگی اور تعلیمی بجٹ کا اجمالی جائزہ

بنگلہ دیش میں شرح خواندگی 75 فیصد، بھارت میں 65 فیصد، سری لنکا میں 91 فیصد، نیپال میں 63 فیصد، مالدیپ میں 99 فیصد، پاکستان میں 62.8 فیصد ہے۔

کسی بھی ملک کی تعلیمی ترجیح کا اندازہ اس کے تعلیم پر خرچ کئے گئے بجٹ سے ہوتا ہے۔ مختلف ممالک تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خطہ کے ممالک میں انڈیا تعلیم پر جی ڈی پی کا 3.8 فیصد، بھوٹان 6 فیصد، بنگلہ دیش 3.6 فیصد، نیپال 4.7 فیصد جبکہ اقتصادی سروے 2021-22ء کے مطابق پاکستان میں سب سے کم تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔

رواں سال تعلیم کے شعبے میں جی ڈی پی کا 1.77 فیصد مختص کیا گیا جو نہ صرف خطہ میں سب سے کم بجٹ ہے بلکہ پاکستان کے اندر بھی بتدریج تعلیمی بجٹ میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اقتصادی سروے 2021-22ء کے مطابق 2015-16ء میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 2.02 خرچ کیا گیا۔ 2016-17ء میں 1.97 فیصدخرچ کیا گیا۔ 2017-18ء میں جی ڈی پی کا 2.12 فیصد خرچ کیا گیا۔ 2018-19ء میں 1.98 فیصد خرچ کیا گیا۔ 2019-20ء میں جی ڈی پی کا 1.90 فیصد خرچ کیا گیا اور 2020-21ء میں تعلیم پر سب سے کم رقوم رکھی گئیں جو جی ڈی پی کا 1.77 فیصدہے۔

مرد و خواتین میں شرح خواندگی کا تناسب

اسلام میں مرد و خواتین دونوں پر حصولِ علم لازم ہے۔ پاکستان میں خواتین کو تعلیم دینے کے حوالے سے ریاستی سطح پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اگر ہم اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو ہمیں 21 ویں صدی میں بھی اس غفلت کا ازالہ دکھائی نہیں دیتا۔ اقتصادی سروے 2021-22ء کے مطابق پنجاب کی آبادی 11کروڑ ہے جبکہ شرح خواندگی 66 فیصد ہے اور 36 فیصد عوام ناخواندہ ہیں۔سندھ کی آبادی 5کروڑ کے لگ بھگ ہے اور شر ح خواندگی 62 فیصدجبکہ 38 فیصد عوام ناخواندہ ہیں۔کے پی کے کی آبادی پونے چار کروڑ ہے۔ شرح خواندگی 55.1 فیصدجبکہ 45 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ بلوچستان کی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ ہے۔ شرح خواندگی 54.4 فیصدتقریباً 45 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔

اقتصادی سروے 2021-22ء کے مطابق خواتین میں شرح خواندگی 51.9 فیصد اور مردوں میں شرح خواندگی 73.4 فیصدہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق پنجاب میں مردوں میں شرح خواندگی 74.2 فیصد جبکہ خواتین میں شرح خواندگی 58.4 فیصد ہے یعنی پنجاب میں مردوں کے مقابلے میں 42 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ سندھ میں مردوں میں شرح خواندگی 72.9 فیصد ہے خواتین میں یہ شرح 49.7 فیصد ہے یعنی 51فیصد کے قریب خواتین ناخواندہ ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں مردوں میں شرح خواندگی 72.8 فیصد ہے جبکہ خواتین میں 37.4 فیصد ہے یعنی 63 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ بلوچستان میں مردوں میں شرح خواندگی 69.4 فیصد ہے خواتین میں شرح خواندگی 38.8 فیصد ہے یعنی 61 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ خیبرپختونخوا واحد صوبہ ہے جہاں ناخواندہ خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

صوبوں کا یہ تعلیمی گراف بتارہا ہے کہ لگ بھگ 50 فیصد سے زائد خواتین ناخواندہ ہیں۔ کے پی کے اور بلوچستان میں 62 فیصد سے زائد خواتین ناخواندہ ہیں۔ اتنی بڑی ناخواندہ آبادی کے ساتھ پاکستان ترقی کیسے کر سکتا ہے؟

زوال پذیر معیارِ تعلیم: ایک المیہ

پاکستان میں ہر سطح کے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے مگر سب سے بڑا مسئلہ معیارِ تعلیم کا ہے۔ جس طرف منصوبہ ساز شاید درست طریقے سے توجہ نہیں دے پارہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں مجموعی پرائمری سکولوں کی تعداد ایک لاکھ 83 ہزار ہے اور یہاں 5 لاکھ 7 ہزار اساتذہ تعینات ہیں۔ پاکستان میں مجموعی مڈل سکولوں کی تعداد 48 ہزار ہے۔ یہاں تعلیم دینے والے اساتذہ کی تعداد 4 لاکھ 66 ہزار ہے۔ پاکستان میں مجموعی سیکنڈری سکولوں کی تعداد 32 ہزار ہے۔ یہاں 5 لاکھ 82 ہزار اساتذہ تعینات ہیں۔ پاکستان میں مجموعی کالجز کی تعداد 6 ہزار ہے یہاں ایک لاکھ 36 ہزار اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ پاکستان میں نجی اور پبلک سیکٹر میں مجموعی یونیورسٹیز کی تعداد 218 ہے۔ یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے لیکچررز کی تعداد 58 ہزار ہے۔

پاکستان کے تعلیمی شعبہ کے مختلف درجہ کے تعلیمی اداروں میں 17 لاکھ 49 ہزار اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں مگر اس کے سوسائٹی پر مثبت اثرات نظر نہیں آرہے، اس پر سنجیدہ غور اور جدید ٹیچر ٹریننگ پروگرام کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ طلبہ کو جو نصاب پڑھایاجارہا ہے اور جو ڈگری پروگرامز کروائے جارہے ہیں وہ کس حد تک عصری ضروریات اور مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ ہیں؟

مذکورہ بالا اعداد و شمار سے ظاہر ہورہا ہے کہ تعلیم کا شعبہ مجموعی حیثیت سے نظر انداز ہورہا ہے۔ پاکستان ترقی کرنا چاہتا ہے تو تعلیم کو اہمیت دینا ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے شعبے میں درپیش مسائل کا ادراک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو آج سے 5 دہائیاں قبل ہوگیا تھا اور انہوں نے جب تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تو سب سے زیادہ فوکس تعلیم و تربیت پر تھا۔ نہ صرف مردوں کے لئے اعلیٰ اور بنیادی تعلیم کے مراکز قائم کئے گئے بلکہ خواتین کے لئے بھی الگ سے تعلیمی مرکز قائم کئے گئے۔

آج الحمدللہ تعالیٰ تحریک منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام پاکستان میں تعلیم کے شعبہ میں منہاج یونیورسٹی لاہور، جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن، کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، منہاج کالج برائے خواتین لاہور، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، نظام المدارس پاکستان، لارل ہوم انٹرنیشنل سکولز، آغوش گرائمر ہائرسیکنڈری سکولز (میل فی میل کیمپس)، تحفیظ القرآن انسٹی ٹیوٹ جیسے مثالی تعلیمی اداروں کے ذریعے تعلیم یافتہ پاکستان کی طرف قابلِ رشک پیش رفت جاری ہے۔

اس ضمن میں اگر صرف منہاج یونیورسٹی ہی کی مثال لی جائے تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں منہاج یونیورسٹی لاہور سرفہرست تعلیمی ادارہ ہے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور کے بہترین تعلیمی معیار اور محفوظ ماحول کے باعث یہاں ہزار ہا طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ منہاج یونیورسٹی لاہور میں 10 فیکلیٹیز ،36اکیڈمک سکولز اور 117ڈگری پروگرامز کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ منہاج یونیورسٹی لاہور پرائیویٹ سیکٹر کی واحد یونیورسٹی ہے جو ہر سال مستحق و ذہین طلبہ و طالبات کو مالی مدد اور سکالر شپس کی صورت میں 70 ملین روپے سے زائد کا مالی فائدہ پہنچا رہی ہے۔ علاوہ ازیں منہاج یونیورسٹی لاہورکو اپنی نوعیت کے درج ذیل 6منفرد ریسرچ سنٹرز پرائیویٹ و پبلک یونیورسٹیز میں ممتاز مقام عطا کرتے ہیں:

1۔ قدیم و جدیدہزاروں نایاب کتب کے ذخیرہ پر مشتمل فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

2۔ انٹرنیشنل سنٹر فار ریسرچ اِن اسلامک اکنامکس

3۔ حسان بن ثابت سنٹر فار ریسرچ اِن نعت

4۔ شیخ الاسلام انسٹی ٹیوٹ آف سپرچوئل سٹڈیز

5۔ جدیدعلوم میں تحقیق کے لئے سنٹر فار ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ

6۔ سنٹر فار ریسرچ ،انوویشن آف میری ٹائم افیئرز

  • علاوہ ازیں منہاج یونیورسٹی لاہور میں المواخات مائیکرو فنانس پراجیکٹ، منہاج حلال سرٹیفکیشن، ابنِ سینا لائبریری اینڈ ریسورس سنٹر (پاکستان کی پہلی جدید روبوٹک لائبریری) اور سکول آف پیس اینڈ کائونٹر ٹیررازم منہاج یونیورسٹی کے منفرد پراجیکٹ ہیں۔
  • منہاج القرآن کی فکری رہنمائی میں کام کرنے والے ان تعلیمی اداروں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات دینی و عصری علوم کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ منہاج القرآن کے یہ تعلیمی ادارے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی فراہمی کے حوالے سے وطنِ عزیز میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔