اِنسانی قدروں اور رِشتوں کا اِحترام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد ظفیر ہاشمی

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.

(آل عمران، 3: 159)

’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔‘‘

اللہ رب العزت کا عظیم احسان ہے کہ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات کی صورت میں اپنی رحمت کا عظیم عکس انسانیت کو عطا فرمایا۔ اس آیت مبارکہ میں آپ ﷺ کے اخلاق کا ایک جامع تعارف کروایا گیا ہے کہ آپ ﷺ سراپا رحمت ہیں اور آپ ﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپ ﷺ کی طبیعت نرم ہے اور برتاؤ میں سختی نہیں۔ چونکہ آپ ﷺ کے مَن میں سختی نہیں، اس لیے آپ ﷺ کے ظاہر میں بھی سختی نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آپ ﷺ کی طرف رغبت اور شوق رکھتے ہیں اور جو آپ ﷺ کے حلقہ میں آجاتا ہے، پھر وہ آپ ﷺ سے بھاگ کر دور نہیں جاتا۔

آپ ﷺ کا ہر مخلوق کے لیے نرم اور پیکرِ شفقت ہونا، آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا وہ خاص پہلو ہے، جسے قرآن مجید نے بالخصوص بیان فرمایا۔

سیرتِ مصطفی ﷺ کو اپنانے کے قرآنی اصول

آپ ﷺ کی ذات میں پائی جانے والی رفق، نرمی، محبت اور شفقت کے پہلو کی تفہیم اور توضیح کے لیے قرآن مجید کی درج ذیل تین آیات نہایت قابلِ غور ہیں۔ آقا علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو اپنانے کے لیے ان آیات کو تین تعلیمات اور اصول بھی قرار دیا جاسکتا ہے:

1۔ پہلا اصول: نیکی اور بدی یکساں نہیں

نیکی اور بدی وہ بنیادی انسانی روییّ ہیں جن پر انسانی رشتے اور قدریں استوار ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ.

(فصلت، 41: 34)

’’ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ آقا علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ نے انسانیت کو یہ تعلیم دی کہ جب ہمارا دوسروں کے ساتھ معاملہ، برتاؤ، لین دین ہو تو یاد رکھو کہ کبھی اچھائی اور بُرائی کا طرزِ عمل ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ آقا علیہ السلام نے نیکی، اچھائی، بھلائی، احسان، شفقت اور نرمی پر مشتمل طرزِ عمل کو بلند اور اعلیٰ و ا رفع قرار دیا اور وہ طرزِ عمل جس میں بدی، بُرائی اور ظلم ہے، اسے گھٹیا اور پست قرار دیا۔ یعنی برائی اور ظلم کے طرزِ عمل کو ترک کرنے کا کہا اور نیکی پر مبنی طرزِ عمل کوزندگی کے ہر زوایہ میں اپنانے کی تاکید فرمائی۔

2۔ دوسرا اصول: برائی کو احسن طریق سے دور کرنا

دوسرا اصول جو سیرتِ طیبہ سے معلوم ہوتا ہے، اس کا حکم قرآن مجید میں یوں دیا گیا۔ ارشاد فرمایا:

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ.

(فصلت، 41: 34)

’’ اور برائی کو بہتر (طریقے)سے دور کیا کرو۔‘‘

یعنی اگر ہم سے کوئی بُرائی کا معاملہ کرے، کسی کی طرف سے کوئی زیادتی صادر ہو جائے تو ہم اسے بہتر اور اچھے طریقے سے دور کریں۔ بُرائی کو بُرا ئی کے ساتھ رد نہ کریں بلکہ بُرائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دیں۔ یہ طرزِ عمل ہی کردار کی مضبوطی کا اہم ترین پیمانہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مصمم ارادے کے ساتھ سیرتِ محمدی ﷺ اور قرآنی تعلیم وتربیت کے اس پہلو پر ہم اپنی توجہ مذکور کریں۔

اگر مذکورہ دونوں اصولوں کو یکجا کریں تو یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ بدی کو کسی اعتبار سے بھی نیکی کے برابر نہیں ٹھہرایا جاسکتا، لہذا اگر کوئی ہمارے ساتھ بُرائی اور زیادتی کا طرزِ عمل اختیار کرے تو اسے اچھائی کے ساتھ دور کیا جائے۔

3۔ تیسرا اصول: صبر اختیار کرنا

حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کے عکس کی ایک جھلک اس ارشادِ خداوندی کی مظہر ہے۔ ارشاد فرمایا گیا:

وَمَا یُلَقّٰهَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا.

(فصلت، 41: 35)

’’ اور یہ (خوبی) صرف اُنہی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں۔‘‘

یعنی بُرائی کو اچھائی کے ساتھ دور کرنا، ایک عظیم خوبی ہے۔ بدی کا بدلہ نیکی کے ساتھ دینا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ اس کے لئے بڑا حوصلہ چاہیے، اس لیے واضح کردیا کہ یہ خوبی صرف اُنہی لوگوں کو عطا ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں۔ جو لوگ بے صبری کرتے ہیں اور اپنی خواہشات پر قابو نہیں پا سکتے، وہ اِس خوبی و کردار سے محروم رہتے ہیں۔

اخلاقِ حسنہ کا حامل ہونا اعلیٰ نصیب کی علامت

زندگیوں میں مذکورہ تینوں پہلوئوں کے اعتبار سے نرمی و شفقت کا ہونا کن لوگوں کا مقدر ہوتا ہے؟ اس حوالے سے ارشاد فرمایا:

وَمَا یُلَـقّٰهَآ اِلَّا ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ.

(فصلٰت، 41: 35)

’’ اور یہ (توفیق) صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والا ہوتا ہے۔‘‘

بدی کو نیکی کے ذریعے دور کرنا، بُرائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ دینا اور زیادتی و ناانصافی پر ضبطِ نفس اور صبر سے کام لینا، بڑے ظرف کا کام ہے۔ اِس کی توفیق صرف اُنہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں! اسلام کی ساری نعمتیں الگ الگ نصیب ہیں جو اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اُس کی صلاحیت و استعداد اور استحقاق کے مطابق دیتا ہے مگر زندگی میں سر تا پا اخلاقِ حسنہ کا حامل ہونا، سراپا صبر اور نرمی، شفقت اور محبت کا پیکر ہونا، یہ طرزِ عمل ذُو حَظٍّ عَظِیمٖ بڑے نصیب والا ہے۔

یہ تین اہم ترین بنیادی انسانی روّیے ہیں جن سے شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔ اہلِ حق کو اعلیٰ مقام ومرتبہ درحقیقت حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے نور سے ملا ہے اور ہمیں بھی صوم و صلوٰۃ، عبادت و ریاضت اور مجاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے اس طرزِ عمل اور مزاج کو اپنی شخصیت میں پیدا کرنا ہوگا۔

سراپا نرمی و شفقت ہونا سب سے بڑی نعمت ہے

اگر کسی شخص کی طبیعت اور مزاج پر نرمی، شفقت اور محبت کا عنصر غالب ہو تو وہ جان لے کہ اُسے اللہ کی طرف سے ایک عظیم نعمت میسر ہے۔ جس شخص کی طبیعت میں نرمی و ملاطفت اور شفقت ہو تو اللہ تعالیٰ اسے وہ اجر عطا کرتا ہے جو کسی دوسرے نیک عمل پر نہیں دیتا۔ أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

إن الرفق لایکون فی شیء إلا زانه ولا ینزع من شیء إلا شانه.

(أخرجه مسلم فی الصحیح، کتاب البر والصلة والأدب، 4: 2004، الرقم: 254)

یعنی کسی بھی طرزِ عمل، رویے یا معاملے میں اگر نرمی آجائے تویہ نرمی اُس عمل کو نہایت خوبصورت اور مزین بنا دیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی عمل اور روییّ سے نرمی نکل جائے اور اس کی جگہ سختی آجائے تو وہ اچھے سے اچھے عمل کو بھی بدصورت اور کم درجہ بنا دیتی ہے۔ گویا نرمی؛ عمل کو حسین کر دیتی ہے اور نرمی کی جگہ سختی آجائے تو وہ اس عمل کا حُسن چھین لیتی ہے۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

من أعطی حظه من الرفق فقد أعطی حظه من الخیر و من حرم حظه من الرفق فقد حرم حظه من الخیر.

(أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب البروالصلة، 4: 367، الرقم: 2013)

یعنی جس شخص کو اُس کی طبیعت اور مزاج میں نرمی کا جتنا حصہ عطا ہو جائے، اُس قدر اُسے خیر کا حصہ مل جاتا ہے اور جس شخص کی طبیعت اور مزاج سے جتنی نرمی کم ہوتی چلی جائے، اُس بندے کی زندگی اور شخصیت سے اُتنی ہی خیر کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں عمومی طور پر دو طبقات پائے جاتے ہیں:

1۔ ایک طبقہ وہ ہے جو دین، طاعت اور عبادت سے دور ہے۔

2۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو دین پر عمل کرتا ہے، مذہبی مزاج رکھتا ہے، دین کے اعمال، عبادات اور طاعات بجالاتا ہے مگر اس کا پورا فوکس دین کی ظاہری و رسمی شکل و صورت پر رہتا ہے۔طبیعت کے اندر نرمی و شفقت اس کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔

ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم عبادت و طاعت کے عمل کے ساتھ حقوق العباد کے درجے میں کس قدر شفقت اور نرمی کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔۔۔؟ عشقِ رسول ﷺ اور اطاعت و اتباعِ رسول ﷺ کا دم بھرنے والوں کی گفتگو میں کتنی نرمی، ملاطفت، دلجوئی، محبت اور شفقت ہوتی ہے۔۔۔؟ ہم عبادت کرتے ہیں، نوافل پڑھتے ہیں، میلاد مناتے ہیں اور دیگر دینی اعمال اور طاعات بجائے لاتے ہیں مگر افسوس کہ مزاج میں سختی اور زبان میں کرختگی بھی ہوتی ہے۔ ہمارے لفظ دوسروں کو دکھ دینے والے، ہمارے رویّے دل جلانے والے اور دوسروں کی طبیعت کو مایوس کرنے والے ہوتے ہیں۔

ہم نے آقا علیہ السلام کے مذکورہ فرمان پر غور ہی نہیں کیا کہ جس شخص کی طبیعت اور مزاج میں جتنی نرمی، شفقت اور محبت بڑھتی چلی جائے، اُس کی زندگی میں خیر کا اُتنا حصہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور جتنی نرمی کم ہوتی چلی جائے یعنی لب ولہجہ، اندازِ گفتگو اور رویّہ جتنا سخت ہوتا چلا جائے، اُتنی خیر کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اعمال کی قبولیت اور رد ہونے کا انحصار بھی نرمی پر ہے۔

اخلاقِ مصطفی ﷺ کے چند مظاہر

ذیل میں حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ اور شخصیتِ مقدسہ کے تناظر میں کچھ بنیادی اخلاقی اصول ذکر کیے جارہے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم دین کی اصل روح تک پہنچ سکتے ہیں:

1۔ چہرۂ اقدس پر کشادگی اور بشاشت

امام ترمذی نے سیرتِ طیبہ ﷺ کا ایک خاکہ کھینچتے ہوئے روایت کیا ہے کہ:

کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ دَائِمَ الْبِشْرِ، سَهْلَ الْخُلُقِ، لَیِّنَ الْجَانِبِ.

(أخرجه الترمذی فی الشمائل المحمدیة، 290، الرقم: 352)

یعنی رسول اللہ ﷺ کے چہرہ اَقدس پر ہمیشہ کُشادگی اور بشاشت رہتی تھی۔ آپ ﷺ کے اَخلاق اور برتاؤ میں ہمیشہ نرمی ہوتی، اور آپ ﷺ سے معاملہ کرنا بڑا آسان ہوتا تھا۔ آپ ﷺ سے لین دین اور گفتگو کرنے والے کو کبھی یہ محسوس نہ ہوتا کہ آپ ﷺ سے معاملہ کرنا بڑا مشکل ہے بلکہ وہ کہتا کہ آپ ﷺ سے معاملہ کرنا نہایت آسان ہے۔

آقا علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے ایک اور خوبصورت پہلو کو حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ جب کوئی شخص آپ ﷺ سے ملتا اور آپ ﷺ اُس کے چہرے پر تبسم اور کشادگی دیکھتے تو خوش ہو کر اُس کا ہاتھ تھام لیتے۔

کَانَ النَّبِیُّ ﷺ إِذَا لَقِیَ الرَّجُلَ فَرَأَی فِی وَجْهِهِ الْبِشْرَ صَافَحَهُ وَفِی رَوایَةٍ اَخَذَ بِیَدِهٖ.

(أخرجه ابن أبی الدنیا فی الإخوان، 1:190، الرقم137)، (أخرجه ابن سعد فی الطبقات الکبری، 1: 378)

جب حضور نبی اکرم ﷺ کسی شخص سے ملتے اور اُس کے چہرے پر خوشی و فرحت (اور کشادگی کے آثار) دیکھتے تو (اس کی تحسین و تبریک کے لیے) اس سے مصافحہ فرماتے۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس کا ہاتھ تھام لیتے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی سیرت مبارکہ سے ہمارے لئے زندگی بسر کرنے کے لیے ایک معیار مقرر کر دیا ہے۔ ہر امتی پر لازمی ہے کہ وہ دیکھے کہ کیا یہ چیزیں اس کے خلق اور برتاؤ میں پائی جاتی ہیں:

1۔ ہمیں جب کوئی شخص دیکھتا ہے تو کیا ہمیشہ ہمارے چہرے پر کشادگی اور بشاشت دیکھتا ہے یا غصہ، ناراضگی اور درشتگی دیکھتا ہے۔

2۔ ہم سے معاملہ کرنے والا آدمی ہمارے اخلاق اور برتاؤ میں نرمی اور لچک محسوس کرتاہے یا اس کے برعکس وہ ہم سے ڈیل کرتے ہوئے گھبراتا اور مشکل محسوس کرتا ہے۔

یہ سیرتِ محمدی ﷺ کا معیار ہے اور یہی اسلامی کردار ہے۔ یہ ایسی کسوٹی ہے جس پر ہر کوئی اپنے احوال و اعمال کو پرکھ سکتا ہے۔

2۔ دوسروں کی مدد کرنے پر ہمیشہ کمر بستہ

آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں نرمی و شفقت دوسروں کی مدد کے تناظر میں بھی ہمیشہ عروج پر رہتی۔ آپ ﷺ کے صحابہ اور غلاموں اور اہلِ بیت اطہار کے گھرانے میں سے اگر کوئی کسی مشکل، مصیبت یا مدد میں آپ ﷺ کو پکارتا تو آپ ﷺ پکارنے والے کی آواز سن کر جواباً اُسے لبیک کہتے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

مَا کَانَ أَحَدٌ أَحْسَنَ خُلُقًا مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، مَا دَعَاهُ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَلَا مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ إِلَّا قَال: لَبَّیْکَ، فَلِذَلِکَ أَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلّ: وَإِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیم.

(القلم، 4: 68) (أخرجه وأبو نعیم فی دلائل النبوة، 1: 181، الرقم: 119)

رسول اللہ ﷺ سے زیادہ حسنِ اخلاق والا کوئی نہیں تھا، صحابہ میں سے یا اہلِ بیت میں سے جب بھی کوئی آپ ﷺ کو پُکارتا تو آپ ﷺ فرماتے: میں موجود ہوں، اِسی لیے اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (آپ ﷺ خُلقِ عظیم کے بلند مرتبے پر فائز ہیں)۔

3۔ دوسروں کو شرمندگی سے بچانا

حضورنبی اکرم ﷺ دوسروں کے لیے نرمی، شفقت اور محبت کا اظہار نہ صرف عملی طور پر کرتے بلکہ آپ ﷺ دوسروں کے احساسات کا بھی خیال کرتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

وَکَانَ إِذَا أَنْکَرَ الشَّیْءَ یَقُوْلُ: کَذَا قُضِیَ.

(أخرجه أبو الشیخ الأصبهانی فی أخلاق النبی ﷺ وآدابه، 1: 192، الرقم: 51)

اگر کسی سے کوئی نامناسب کام ہو جاتا تو آپ ﷺ اُس کام کرنے والے کو موردِالزام نہیں ٹھہراتے تھے۔یہ نہیں کہتے تھے کہ تم نے یہ کیا کر دیا، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ فرماتے تھے قضیٰ قضی اللہ کو ایسا ہی منظور تھا۔

یہ طرزِ عمل اس لیے اختیار فرماتے کہ دوسرا شخص اپنے کیے پر شرمندہ نہ ہو، وہEmbracement feel نہ کرے۔ یہ انسانی احساسات کے احترام کی انتہا کی ایک اعلیٰ قدر ہے۔

4۔ تکلیف کے باوجود دوسروں کی دلجوئی کرنا

احادیث کی کتب میں کئی واقعات ایسے ملیں گے جو بظاہر بہت بڑے نظر نہیں آئیں گے مگر جب ہم گہرائی میں جاکر ان کا جائزہ لیں گے اور روز مرہ کی زندگی میں ان کو پرکھیں گے تو ہمیں اُن کی قدر وقیمت، اہمیت اور انسانی سیرت کے حُسن کے ساتھ اُن کی مطابقت سمجھ آئے گی۔ ان ہی واقعاتِ سیرت میں سے ایک نمایاں واقعہ یہ ہے جو آپ ﷺ کے معمولات میں شامل تھا جسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

آپ ﷺ نماز فجر پڑھ کر نکلتے تو مدینہ پاک کے غریب اور مسکین لوگ اپنے برتن اور پیالوں میں پانی لے کر دم کروانے کی خاطر مسجد کے باہر کھڑے ہوجاتے:

فَمَا یُؤْتَی بِإِنَاءٍ إِلَّا غَمَسَ یَدَهُ فِیْهَا، فَرُبَّمَا جَاؤُوْهُ فِی الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ، فَیَغْمِسُ یَدَهُ فِیْهَا.

(أخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب الفضائل، باب قرب النبی ﷺ من الناس و تبرکهم به، 4: 1812، الرقم: 2324)

وہ ٹھنڈا پانی برتنوں میں لے کے کھڑے ہوتے کہ آقا علیہ السلام اُس میں ہاتھ ڈبو دیں تاکہ وہ شفا والا پانی گھر لے جا کر اپنے مریضوں کو پلائیں۔ آقا علیہ السلام ہر ایک کے پیالے میں ہاتھ ڈبوتے۔ جب ٹھنڈے موسم کے باعث پانی سخت ٹھنڈا ہوتا تو پھر بھی آپ ﷺ اس میں اپنا دستِ مبارک ڈبو دیتے اور کبھی پانی کے ٹھنڈا ہونے کے باعث انکار نہ فرماتے بلکہ وہ جس حال میں بھی پانی لاتے، آقا علیہ السلام اُن کی دلجوئی فرماتے چلے جاتے۔

5۔ سوال کرنے والے کو کبھی انکار نہ کرنا

آپ ﷺ کی پوری حیات طیبہ میں ایسا لمحہ کبھی نہیں آیا کہ کسی سائل نے آقا علیہ السلام سے کچھ مانگا ہو اور آپ ﷺ نے جواب میں انکار فرمادیا ہو۔ سوالیوں اور حاجت مندوں پر آپ ﷺ کا شفقت کا عالم یہ تھا کہ:

لایسأل شیئا إلا أعطاه.

جس نے جو کچھ مانگا آقا علیہ السلام اُسے عطا کرتے۔

(ابن أبی شیبۃ، المصنف، 7:419، الرقم: 36999)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ

مَا سُئِلَ النَّبِیُّ ﷺ عَنْ شَیءٍ قَطُّ، فَقَالَ: لَا.

(أخرجه البخاری فی الصحیح، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء وما یکره من البخل، 5: 2244، الرقم: 5687)

آپ ﷺ سے جب بھی کسی شے کے عطا کرنے کے بارے سوال کیا گیا ہو تو آپ ﷺ نے کبھی جواب میں انکار نہیں فرمایا۔ احادیث میں یہاں تک آتا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ ﷺ سے ایسا سوال کرتاجو کرنے والا ہوتا تو آپ فرماتے: نعم اور اگر کوئی شخص ایسا سوال کر دیتا جو نامناسب ہوتا اور آپ ﷺ وہ نہ کرنا چاہتے تو تب بھی ’’نہیں‘‘ آپ ﷺ کی زبان پر نہ ہوتا تھا بلکہ آپ ﷺ خاموش رہتے۔ آپ ﷺ کے خاموش ہونے سے سائل سمجھ جاتا کہ یہ بات جو میں نے کی ہے، نا مناسب ہے اور اِس کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہ آقا علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا خاص پہلو ہے۔

ایک مرتبہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں ستر ہزار یا نوے ہزار درہم ہدیہ پیش کیے گئے۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب بھی اس طرح کے اموال آتے تو آپ ﷺ چٹائی پر رکھ دیتے اور حاجت مندوں کو بلاتے اور اُٹھنے سے پہلے سارا تقسیم فرما دیتے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اِسی طرح ایک روز جب سارا کچھ تقسیم کر چکے توبعد میں ایک سوالی آیا اور اُس نے سوال کیا تو آقا علیہ السلام نے فرمایا:

مَا عِنْدِی شَیْءٌ وَلَکِنِ ابْتَعْ عَلَیَّ فَإِذَا جَاءَنَا شَیْءٌ قَضَیْنَاهُ.

(ذکرہ القاضی عیاض فی الشفا، 156، الرقم: 194)

اب میں سارا تقسیم کر بیٹھا ہوں۔ اِس وقت کچھ نہیں بچا مگر جاؤ جس جس چیز کی تمہیں ضرورت ہے، میرے نام پر اُدھار خرید لو۔ جب میرے پاس پیسے آئیں گے تو میں سارا اُدھار چکا دوں گا۔

6۔ گناهِ کبیرہ کے مرتکبین پر بھی لطف و کرم

وہ خطا کار، معصیت کار اورگناہگار جو سزا کے مستحق ہوتے تو اُن لوگوں پر اللہ کی حد نافذ کرتے ہوئے بھی آقا علیہ السلام کا رویہ نرمی اور شفقت پر مبنی تھا۔ حضرت بُریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ گناہ کبیرہ کر بیٹھے اور آقا ﷺ کی بارگاہ میں آگئے اور عرض کیا:

یَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِرْنِی فَقَال: وَیْحَکَ، ارْجِعْ، فَاسْتَغْفِرِ اللهَ، وَتُبْ إِلَیْهِ.

یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا ناس ہو، جاؤ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور توبہ کرو۔

اُنہوں نے پھر تھوڑی دیر بعد آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے پھر اُسی طرح فرمایا۔ اُنہوں نے پھر تھوڑی دیر بعد آکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے پھر اُسی طرح فرمایا۔ چوتھی بار جب وہ پھر آئے اور پاک کرنے کا تقاضا کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

فِیْمَ أُطَهِرُکَ؟ تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟

اُنہوں نے عرض کیا: زنا سے۔

اس اقرار کے باوجود آقا علیہ السلام کی طبیعتِ مقدسہ کی نرمی، شفقت اور ملاطفت، دیکھیے کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام کی طرف دیکھ کر پوچھا:

أَبِهِ جُنُوْنٌ؟ فَأُخْبِرَ أَنَّهُ لَیْسَ بِمَجْنُوْنٍ.

اِس کا ذہنی توازن تو خراب نہیں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: نہیں۔ وہ کوئی پاگل نہیں ہے۔

آپ ﷺ نے پوچھا:

أَشَرِبَ خَمْرًا؟

کیا اِس نے شراب پی ہے؟ ایک شخص نے کھڑے ہو کر اُن کا منہ سونگھا تو شراب کی بدبو محسوس نہیں کی۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أَزَنَیْتَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ. فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ.

کیا تم نے زنا کیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: ہاں۔ پھر آپ ﷺ کے حکم کے مطابق انہیں سنگسار کر دیا گیا۔

اِس کے بعد حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کے متعلق لوگوں کے دو گروہ بن گئے۔ بعض کہتے: ماعز ہلاک ہوگئے اور اِس گناہ نے اُنہیں گھیر لیا اور بعض لوگ کہتے: ماعز کی توبہ سے کسی کی توبہ افضل نہیں ہے کیوں کہ انھوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اقرارِ جرم کیا۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو، تین دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہی اختلاف رہا۔ پھر ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا:

اسْتَغْفِرُوْا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِک قَالَ: فَقَالُوْا: غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ.

(أخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسه بالزنی، 3: 1221۔1322، الرقم: 1695)

ماعز بن مالک کے لیے استغفار کرو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا: اللہ تعالیٰ ماعز بن مالک کی مغفرت فرمائے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ماعز نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ایک اُمت پر تقسیم کر دیا جائے تو (بخشش کے لیے)سب کو کافی ہوگی۔

یہ اخلاقِ محمدی، آقا علیہ السلام کی شفقت، نرمی اور کرم نوازی ہے کہ ایسی صورت حال میں بھی آقا علیہ السلام ایسا طرز عمل اختیار فرماتے اور آپ ﷺ کی زبان مبارک سے ایسے کلمات ادا ہوتے۔

  • اسی طرح کی ایک اور روایت حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ ایک غامدیہ عورت نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے اُسے واپس بھیج دیا۔ دوسرے دن آ کر اُس نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے کیوں واپس کر دیا؟ شاید آپ مجھے ماعز کی طرح واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن خدا کی قسم! میں زنا سے حاملہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

إِمَّا لَا، فَاذْهَبِی حَتَّی تَلِدِی.

اچھا، اگر ایسا ہے تو پھر ابھی نہیں، واپس جاؤ اور بچہ پیدا ہونے کے بعد آنا۔

بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ عورت اُس بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائی اورعرض کیا: لیجئے، یہ میرا بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

اذْهَبِی، فَأَرْضِعِیْهِ حَتَّی تَفْطِمِیْهِ.

جاؤ جا کر اِسے دودھ پلاؤ، حتیٰ کہ اِس کی مدتِ رضاعت ختم ہو جائے۔

جب بچے کی مدتِ رضاعت ختم ہو گئی تو وہ اُسے اِس حال میں لے کر آئی کہ اُس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ اُس نے عرض کیا:

هَذَا، یَا نَبِیَّ اللهِ، قَدْ فَطَمْتُهُ وَقَدْ أَکَلَ الطَّعَامَ.

لیجئے! یا نبی اللہ! اِس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور اب یہ کھانا کھانے لگا ہے۔

آپ ﷺ نے وہ بچہ ایک مسلمان شخص کے حوالے کیا، اور پھر اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ دورانِ رجم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اُس عورت کو برا بھلا کہا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَهْلًا، یَا خَالِدُ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَهُ.

(أخرجه مسلم فی الصحیح، کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسه بالزنی، 3: 1332، الرقم: 2)

اے خالد! ایسا نہ کہو، اِس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر (ظلماً) خراج لینے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اُسے بخش دیا جاتا۔

پھر آپ ﷺ نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اُسے دفن کر دیا گیا۔

  • ان واقعات سے درج ذیل امور واضح ہوتے ہیں:

1۔ گناهِ کبیرہ کرنے والے جب اپنے جرم کا اقرار کررہے ہیں کہ ہم سے گناهِ کبیرہ ہوا ہے، ہمیں پاک کردیں تو انھیں علم تھا کہ وہ اپنے آپ کو حد کے لیے پیش کررہے ہیں۔ ان کے اس اقرار کے باوجود آقا علیہ السلام کا طرزِ عمل دیکھئے کہ آپ ﷺ نے حد جاری کرنے کے بجائے فرمایا: واپس چلے جاؤ اور اللہ سے معافی مانگو۔

2۔ اس واقعہ کا ایک زاویہ یہ ہے کہ ایک انسان اور بشر کی حیثیت سے ان سے گناهِ کبیرہ ہوگیا، مگر دوسرا زاویہ یہ ہے کہ گناهِ کبیرہ جس کی اِتنی بڑی سزا بنتی ہے، اُس کا ارتکاب کرنے کے بعد بھی ان کا ضمیر مردہ نہیں ہوا، وہ سزا سے بھاگ نہیں گئے بلکہ سزا لینے اور اپنے اوپر حد جاری کروانے کے لیے پلٹ پلٹ کر حضور ﷺ کی بارگاہ میں آرہے ہیں۔ یہ بھی بارگاهِ مصطفی ﷺ کی تربیت کی ایک جہت ہے کہ گناہ کبیرہ بھی ہو گیا مگر ضمیر مردہ نہیں ہوا۔ احساس ہے کہ آخرت میں دوزخ کی آگ ہوگی، اُس سے بچنا چاہتے ہیں۔یہ آقا علیہ السلام کی تعلیمات پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کا عالم تھا۔

3۔ آقا ﷺ کا شفقت بھرا رویہ اور طرزِ عمل بھی ملاحظہ کریں کہ گناهِ کبیرہ کا اقرار کرنے کے باوجود واپس بھیج رہے ہیں اور اقرار کرنے والے کے پاگل یا نشے میں ہونے کے گمان کے سبب اس کے اقرارِ جرم کو اہمیت نہیں دے رہے۔

4۔ آپ ﷺ کو اس عورت کے پیٹ میں موجود ناجائز بچے کی زندگی کا بھی خیال ہے کہ اس حالت میں اس پر حد جاری کرنا نہ صرف اسے زیادہ تکلیف دے گا بلکہ اس کے پیٹ میں موجود بچہ بھی مرجائے گا اور جب بچہ پیدا ہوگیا تو پھر اس کے حقِ رضاعت کی وجہ سے اس پر حد جاری کرنے میں تاخیر فرمائی۔

7۔ نامناسب الفاظ سے اجتناب کی نصیحت

حضور نبی اکرم ﷺ انسانی جذبات اور احساسات کا اس حد تک لحاظ اور خیال فرماتے کہ دوسروں کو نامناسب الفاظ سے پکارنے کی بھی ممانعت فرمائی۔ ایک شخص سے کوئی خطا سرزد ہو گئی تو اسے اس کی خطا کے مطابق سزا دے دی گئی۔ بعد ازاں اس کا والد اس کے بارے میں پوچھنے آیا کہ وہ شخص کہاں ہے جسے سزا دی گئی ہے۔ صحابہ کو معلوم نہ تھا کہ یہ سزا یافتہ شخص کا والد ہے۔ صحابہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ شخص اُس خبیث (سزا یافتہ) کے بارے میں پوچھتا ہے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا: اُس کو خبیث نہ کہو، اللہ کے ہاں اُس کی خوشبو کستوری سے بھی زیادہ پیاری ہے۔

دوسری روایت میں ہے کہ کسی اور شخص نے کوئی گناہ کیا تو بعض لوگوں نے اسے کہا کہ اللہ تمہیں ذلیل ورسوا کرے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا:

اپنے بھائی کے لیے ایسے لفظ مت بولو۔ ایسے کلمات کہنے سے شیطان کی مدد ہو گی۔ بلکہ یوں کہو کہ اللہ تم پر رحم کرے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی نرمی و شفقت کا عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ ہمیشہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرماتے کہ اگر کسی سے کچھ غلطی اور کوتاہی والا معاملہ ہوجائے تومجھے آکر نہ بتایا کرو۔ عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

لَا یُبَلِّغْنِی أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِی شَیْئًا؛ فَإِنِّی أُحِبُّ أَنْ أَخْرُجَ إِلَیْکُمْ وَأَنَا سَلِیمُ الصَّدْر.

(أخرجہ أحمد بن حنبل فی المسند، 1: 395، الرقم: 3759)

یعنی کسی سے اگر کم وبیشی کے کوئی معاملات ہوجائیں تو مجھے نہ بتایا کرو۔ میں جب تمہارے پاس تمہاری مجلس میں بیٹھنے کے لیے آتاہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں اِس حال میں آؤں کہ تم میں سے ہر ایک کے لیے میرا دل صاف ہو۔ یعنی کسی کی بُرائی کی بات سن کر میرے دل میں اُس کے لیے بوجھ نہ آجائے۔

8۔ قبیلہ ہوازن سے غیر معمولی احسان

آقا علیہ السلام غزوہ حنین اور طائف کے بعد جب واپس جعرانہ کے مقام پر آئے تو تیرہ دن مالِ غنیمت اور قیدیوں کو تقسیم نہ فرمایا۔ جبکہ آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ مالِ غنیمت اور قیدیوں کو اگلے دن تقسیم کر دیتے تھے۔ تیرہ دن گزر گئے، اگر کوئی پوچھتا توآقا علیہ السلام فرماتے کہ میں انتظار میں ہوں، شاید ہوازن کے لوگ اسلام قبول کرتے ہوئے آجائیں۔ اس لیے کہ جب قیدی اور اموالِ غنیمت تقسیم ہو جائیں تو جس جس کو جو مال ملتا ہے، وہ اُس کا مالک ہوجاتا ہے، پھر اس حوالے سے ریاست کے سربراہ کی اتھارٹی نہیں رہتی۔ تیرہ دن گزر گئے اور ہوازن کے لوگ نہ آئے تو آقا علیہ السلام نے قیدی اور اموالِ غنیمت تقسم فرما دیئے۔

اُ س کے بعد ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر حاضر ہوئے اور حضور نبی اکرم ﷺ سے اپنے قیدی اور اموال واپس کرنے کی درخواست کی کہ مسلمان ہو کر آئے ہیں، اب آپ ﷺ ہم پراحسان کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تیرہ دن آپ کا انتظار کرتا رہا ہوں، جب میں نے سمجھا کہ اب آپ لوگ نہیں آنے والے تو میں نے قیدی اور اموال تقسیم کر دیئے ہیں، اب لوگ اُن کے مالک بن گئے ہیں۔

اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب تمھیں اپنے قیدیوں اور اموال میں سے ایک کا اختیار ہے، چاہو تو اموال واپس لے لو اور چاہو تو قیدی واپس لے لو۔ انھوں نے کہا: یارسول اللہ! مال کی پرواہ نہیں ہے، ہمیں قیدی واپس کر دیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: جو کچھ میرے خاندان کے پاس ہے، میں وہ آپ کو واپس لوٹا دیتا ہوں، اُس کا اختیار میرے پاس ہے۔ دیگر قبائل میں سے جو جنگ میں شریک تھے، میں اُن سے آپ کو قیدی واپس لوٹانے کی صرف سفارش کرسکتا ہوں۔

اس اصل اور قاعدہ کو ہوازن کے لوگوں کو بتانے کے بعد آپ ﷺ نے شفقت اور آسانی کا اظہار فرماتے ہوئے ہوازن کے لوگوں کو اپنے قیدی واپس لینے کا طریقہ بھی سکھادیا۔ چونکہ قیدی اور اموال کے مالک غزوہ میں شریک لوگ بن چکے تھے، ان سے کسی حکم کے تحت مال واپسی نہیں لیا جاسکتا تھا مگر دوسری طرف ہوازن والوں پر رحمت کرنا بھی مقصود تھا لہذا انھیں اپنے قیدی واپس لینے کا طریقہ بھی سکھا دیا۔ آپ ﷺ نے اہلِ ہوازن سے فرمایا کہ کل نماز ظہر کے وقت اپنی اس گزارش کو اِن الفاظ میں لے کر میرے پاس آنا:

إِنَّا نَسْتَعِینُ بِرَسُولِ اللهِ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ.

(أخرجہ النسائی فی السنن، باب هِبَۃُ الْمُشَاعِ، الرقم: 3688)

ہم رسول اللہ ﷺ سے مدد اور شفاعت طلب کرتے ہیں۔

تمہاری اس بات پر میں یہ کہوں گا کہ میں اپنے اور بنو عبدالمطلب کے سارے قیدی تمہیں واپس لوٹا دیتا ہوں اور باقی سب سے بھی سفارش کرتاہوں کہ اگر دل چاہے اور راضی ہوں تو وہ بھی تمھارے قیدی لوٹا دیں۔ اگر وہ قیدی واپس نہیں کرتے تو میں پھر اُن سے قیدی بطورِ قرض لے کر تمھیں لوٹادوں گا۔

اگلے دن نماز ظہر کے وقت ہوازن کے لوگ آئے اور کھڑے ہو کر جیسے آقا علیہ السلام نے سمجھایا تھا، وہ کلمات کہے۔ آقا علیہ السلام نے جواباً سب کے سامنے کہا کہ میں اپنے اور اپنے خاندان بنو عبد المطلب کے سارے قیدی لوٹا رہا ہوں۔ لوگوں میں سے جن کا جی چاہے، خوشی سے لوٹادے۔ انصار ومہاجرین کھڑے ہوگئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ! ہم بھی قیدی واپس کرتے ہیں۔ نئے نئے مسلمان ہونے والے کچھ افراد رہ گئے، جنہوں نے کہا کہ ہم قیدی واپس نہیں کریں گے۔ اس پر آقا علیہ السلام نے اِن سے فرمایا کہ تم اپنے قیدی مجھے قرض دے دو، میں اِن کو دے دیتا ہوں اور اگلے غزوہ میں جو قیدی ملیں گے، میں یہ قرض تمہیں بہتر طریقے سے واپس کر دوں گا۔ چنانچہ اِن لوگوں نے بھی قیدی واپس کردیئے۔ اس طرح آقا علیہ السلام نے قبیلہ ہوازن کے چھ ہزار قیدی تقسیم ہونے کے بعد واپس لوٹادیئے۔

یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی شفقت اور دوسروں پر رحمت و آسانی کی ایک خوبصورت مثال ہے کہ جہاں بطور حکمران اپنا اختیار نہ تھا وہاں سائلین کو ایسا طریقہ بغرضِ شفقت سمجھادیا کہ سائلین کی مراد پوری ہوگئی حتی کہ اُن کے قیدی بطور قرض لے کر واپس لوٹادیئے، صرف اس لیے کہ اہلِ ہوازن کی دل شکنی نہ ہو کہ ہم نے حضور ﷺ سے جو مانگا، ہمیں نہیں ملا۔

اخلاقِ مصطفی ﷺ کو متعارف کروانا وقت کی اہم ضرورت

دستِ قدرت نے آپ ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کا جو لازوال خاکہ تشکیل دیا ہے، آج اسے دنیا کے سامنے اجاگر کرنا ہی دانش مندی ہے۔ جدید دنیا کے مسائل کے حل کے لئے سیرتِ مصطفوی کو عام کرنا درحقیقت منشائے ایزدی پر عمل پیرا ہونا ہے۔ یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے امتِ مصطفوی ﷺ پر عائد کر دی ہے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو دین کے اس مجسم پیغام کو دنیا کے سامنے رکھے اور انہیں دعوتِ فکر دے تاکہ یہ سلگتی، بدحال اور ستم کشیدہ انسانیت سکھ اور سکون کا سانس لے سکے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی سیرت طیبہ میں کرم، عفو ودرگزر، معاف کرنے، شفقت، نرمی، احسان، جود وسخا اور حسنِ سلوک کے پہلو میں کسی بھی موقع پر کمی نہیں آنے دی۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ عظیمہ کے اِن پہلوئوں پر دل و جاں سے عمل پیرا ہوں۔ اللہ رب العزت ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہماری سیرتوں کو سیرت محمدی ﷺ کے فیض سے منور فرمائے۔

آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔