ریاستِ مدینہ اور مصطفوی نظامِ حکومت

احسان حسن ساحر

ظہورِ اسلام سے قبل تمام اہلِ عرب اپنے اپنے قبائلی نظام کے اصول و قوانین کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے۔ اسلام نے جہاں ان میں کئی تبدیلیاں پیدا کیں وہاں ایک واضح اور اہم تبدیلی یہ پیدا کی کہ انھیں ملی تنظیم و اتحاد کی صاف ستھری شاہراہ پر گامزن کردیا۔ رسول مکرم ﷺ کی مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد وہاں جو اسلامی ریاست قائم کی گئی اس کے قیام سے یہ شہر ایک مثالی اور پُرامن شہر بن گیا۔ اسی شہر میں اپنی حیاتِ طیبہ کے دس سال گزارنے کے بعد جب سرورِ عالم ﷺ اس دنیا سے پردہ فرما گئے تو ان کی سعیٔ جمیلہ اور سیاسی حکمت و تدبر کی بدولت تمام اہلِ عرب ایک منظم و مستحکم قوم بن چکے تھے اور مدینۃ الرسول ﷺ ایک مثالی اسلامی مملکت کے ہیڈ کوارٹر کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔

رسول کریم ﷺ نے اس اسلامی مملکت میں جو نظام رائج فرمایا، وہ نظامِ حکومت اپنی خصوصیات کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا۔ ذیل میں اس ضمن میں چند اہم خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے:

1۔ قانون کا یکساں اطلاق

ہر طرح کے احکامِ ربانی کا پیغمبرِ اسلام ﷺ اور عام مسلمانوں پر یکساں اطلاق ہوتا تھا اور کسی کو قانونِ الہٰی سے بالاترنہ سمجھا جاتا۔ جس بات پر قرآن مجید خاموش ہوتا یا جو احکام واضح نہ ہوتے وہاں حضور نبی اکرم ﷺ اپنے تشریعی مقام کے مطابق فیصلہ صادر فرمادیتے۔ چنانچہ مملکتِ اسلامیہ میں بااختیار حاکم اور ناظمِ اعلیٰ خود ذاتِ رسول ﷺ ہوتی۔ اللہ کے برگزیدہ رسول ﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ حاکمِ وقت، سپہ سالارِ اعظم اور شعبہ ہائے عدلیہ وانتظامیہ کے منتظمِ اعلیٰ بھی تھے۔ اس خالص مصطفوی حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی تعصب کی بجائے دینی وحدت پر استوار کی گئی تھی۔

2۔ نظامِ مشاورت

باوجود یہ کہ تمام سرکاری شعبہ جات کا مکمل انتظام و انصرام رسول کریم ﷺ کے پاس تھا۔ تاہم ایک بااختیار حاکم ہونے کے باوجود آپ ﷺ ہر طرح کے امورِ حکومت میں معتبر، صائب الرائے اور عوامی شخصیات سے باقاعدہ مشاورت بھی فرماتے اور اس میں کسی قسم کی جھجک اور شرم محسوس نہ کی جاتی۔ مجلسِ شوریٰ کے اکثر و بیشتر اجلاس مسجدِ نبوی کے صحن میں منعقد ہوتے جن میں بلا امتیاز نسل و رنگ ہر ادنیٰ و اعلیٰ مسلمان کو بلا روک ٹوک شرکت اور اپنا حقِ رائے پیش کرنے کی اجازت ہوتی۔ اگر اس کی پیش کردہ رائے فلاحی، تعمیری اور مثبت ہوتی تو بلاتخصیص اسے (On record) لاکر تسلیم کرلیا جاتا۔ اس کو یہ حق بھی حاصل ہوتا کہ وہ اپنا مشورہ، رائے یا تجویز سر عام پیش کرے تاہم یہ تمام آراء اور تجاویز ان امور کی بابت قبول کی جاتی تھیں جن کے متعلق وحی الہٰی خاموش ہوتی، نیز یہ بات لازم نہ تھی کہ رسولِ ہاشمی ﷺ اِن مشوروں اور تجاویز پر ضرور عمل بھی فرمائیں۔ آپ ﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ اکثر اوقات رائے عامہ کو مقدم رکھتے اور اپنی ذاتی رائے کو اس پر ترجیح نہ دیتے۔

3۔ ریاستِ مدینہ کا سیکرٹریٹ

کشور اسلامیہ کا سیکرٹریٹ یا پارلیمنٹ ہاؤس کسی وسیع الرقبہ زمین اور جدید و خوبصورت عمارت پر مشتمل نہ تھا بلکہ اس مقصد کے لیے کھجوروں کی ٹہنیوں اور پتوں سے بنی ہوئی مسجد نبوی ﷺ کو ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ اکثر امورِ حکومت اسی میں انجام دیئے جاتے۔ بیرونی ممالک سے آنے والے سفیروں، سرکاری نمائندے اور دیگر وفود اسی مسجد میں حاضر ہوتے اور اسی مسجد سے ہر جاری ہونے والا ضابطہ اور قانون حتمی شکل پاکر نافذ کردیا جاتا۔

4۔ نمائندگان مصطفوی حکومت

ہر حکومت سرکاری اور ملکی نظام چلانے کے لیے مختلف شعبہ جات بناتی ہے اور ہر شعبہ کا ایک ناظم مقرر کیا جاتاہے۔ موجودہ دور کی اصطلاح میں اسے وزیر کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی حکومتِ اسلامیہ کو احسن طریقہ پر چلانے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مختلف سرکاری فرائض تفویض فرمارکھے تھے:

1۔ زکوٰۃ و صدقات کی مد میں حاصل ہونے والی اشیاء اور رقوم کا باقاعدہ حساب حضرت زبیر بن العوام اور جسیم بن صامت رضی اللہ عنہما کے ذمہ تھا۔ وہ اس ضمن میں ہر طرح کے مسائل و معاملات کی دیکھ بھال کرتے۔

2۔ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ ریاست میں پیدا ہونے والی کھجور کی فصل سے ملنے والی وہ تمام رقوم جو ایک ٹیکس (Tax) کی صورت میں حکومت کو ملتیں، ان کا حساب رکھتے۔

3۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ آپس کے لین دین کا ریکارڈ رکھتے۔ جیسے موجودہ دور میں کسی رجسٹرار کا عہدہ ہوتاہے۔

4۔ قرآن مجید کی آیاتِ کریمہ کی کتابت کا کام سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ جیسی صاحب علم و دانش شخصیات انجام دیتیں، ان کی عدم موجودگی میں یہ کام حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضوان اللہ علیہم اجمعین انجام دیتے۔ اس کے علاوہ ان حضرات کے ذمہ یہ کام بھی تھا کہ دعوتِ اسلام کے سلسلہ میں ہر طرح کے مکتوبات و مراسلات، مختلف قبائل سے تحریری معاہدات اور عمال و حکام کے نام سرکاری سطح پر جاری ہونے والے احکام اور دیگر ہدایات تحریر کرتے تھے۔

5۔ موجودہ دور کی حکومتوں میں جس طرح کسی سربراہِ مملکت کا کوئی خاص مشیر (Advisor) یا سیکرٹری جن اختیارات کا مالک ہوتا ہے یہی حیثیت اور اختیارات رسول کریم ﷺ کے سیکرٹری حضرت حنظلہ بن ربیع رضی اللہ عنہ کو حاصل تھے۔مہرِ نبوت ہمیشہ ان ہی کی تحویل میں رہتی تھی اور بوقتِ ضرورت اہم سرکاری مراسلات و مکتوبات اور دیگر دستاویزات پر ثبت کی جاتی تھی۔

6۔ مدینہ منورہ اور اس کے مضافات کے تمام معاملات و مقدمات کا فیصلہ سرورِ عالم ﷺ خود فرماتے البتہ دور دراز کے علاقہ جات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے فیصلہ جات اُن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذمہ داری تھی جو اسلامی حکومت کی طرف سے وہاں متعین ہوتے اور مرکز کی طرف سے انھیں معلّم بناکر وہاں بھیجا جاتا۔ اِن خدمات کے علاوہ اِن سرکاری معلمین کے فرائض منصبی میں وہاں کے مقامی باشندوں کو اسلامی تعلیمات سے کماحقہ روشناس کرانا بھی شامل تھا۔ ان کے پاس مقدمات اور دیگر متنازعہ معاملات پیش کیے جاتے۔ اِن سب کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق کیا جاتا، یوں کسی بھی فریق یا فرد کی حق تلفی ہوتی اور نہ کسی پر ذرہ بھر ظلم و زیادتی کی جاتی۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی فرد عدالتِ اسلامیہ کے کسی فیصلہ کو چیلنج نہ کرسکتا تھا اور نہ ہی اس کو کسی اپیل دائر کرنے کی ضرورت پیش آتی۔

5۔ احتسابی عمل

جہاں تک اصلاحِ ملت کا تعلق ہے، قوم کی تربیت و اصلاح کے لیے صرف اس کے اخلاق و اطوار کو ملحوظِ خاطر رکھ کر قوانین کا نفاذ ہی کافی و شافی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھا اور سوچا جاتا ہے کہ ان قوانین پر کہاں تک عمل درآمد ہورہا ہے؟ دورِ مصطفوی میں اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اگرچہ کوئی شعبہ یا محکمہ وجود میں نہ آیا تھا، تاہم احتسابی عمل انتہائی ذمہ داری سے جاری تھا۔ اکثر اوقات رسول کریم ﷺ بذاتِ خود عوام کے اعمال کا احتساب فرماتے۔ مثلاً:

ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک تاجر کے ہاں غلے اور اناج کا ڈھیر دیکھ کر رک گئے۔ اپنے دستِ مبارک سے گندم کے ڈھیر کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ نمدار گندم چھپانے کے لیے تاجر نے اس کے اوپر خشک گندم کی تہہ چڑھا رکھی ہے تاکہ خریدار کو ساری گندم سوکھی نظر آئے۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے تاجر کو اس بدنیتی پر تنبیہ فرمائی کہ بھیگی ہوئی گندم کو اوپر کیوںنہیں رکھا؟ تاکہ خریدار کو اس جنس کی اصلیت کا پتہ چل سکے۔ فرمایا: یاد رکھو! جو لوگ دوسروں سے فریب کاری کرتے ہیں، وہ ہم میں سے نہیں۔

اسی طرح جو لوگ دور دراز کے علاقوں سے سرکاری ٹیکس کی وصولی کرکے لاتے تو محتسبِ اعظم ﷺ خود اس کا بغور جائزہ اور حساب لیتے اور اس بات پر کڑی نظر رکھی جاتی کہ کسی سرکاری افسرنے ناجائز ٹیکس کی کوئی اضافی رقم تو وصول نہیں کی یا ٹیکس کی وصولی میں کوئی غیر قانونی ذریعہ تو اختیار نہیں کیا؟

ایک دفعہ ایک صحابی نے بطور عامل (Collector) کسی علاقہ سے سرکاری واجبات وصول کیے اور سرکاری خزانہ میں جمع کرانے پر معلوم ہوا کہ یہ رقم حکومتی حساب سے کچھ زیادہ ہے جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو صحابی عرض کرنے لگے کہ یہ رقم اصل رقم سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ وہاں کے مقامی باشندوں نے مجھے بطور ہدیہ دی تھی۔ یہ جواب سن کر رسول اکرم ﷺ نے قدرے برہمی سے ارشاد فرمایا: یہ ہدیہ تمہیں اپنی ماں کی گود میں بیٹھ کر کیوں حاصل نہ ہوا؟ چنانچہ بعد ازاں آپ ﷺ نے ایک سرکاری نوٹیفیکیشن کے ذریعے ایک مستقل قانون نافذ فرمادیا کہ دورانِ ملازمت کسی بھی سرکاری اہل کار کو قطعاً یہ حق اور اختیار نہیں کہ وہ اپنے ماتحت علاقہ جات کے لوگوں سے کوئی ہدیہ قبول کرے۔

6۔ صوبائی انتظام و انصرام

ریاستِ مدینہ میں قائم سیدِ عالم ﷺ کا صوبائی انتظام بھی بڑا مؤثر تھا۔ صوبہ جاتی حکومت کے تحت ہر صوبہ میں ایک حاکم مقرر کردیا جاتا جو اپنے علاقہ کے امن و امان اور نظم و ضبط کے علاوہ صوبائی افواج کی کمانڈ بھی کرتا۔ اس کے علاوہ ہر قبیلہ میں مرکزی حکومت کی طرف سے ایک عامل کا تقرر بھی ہوتا جو سرکاری امور کی تکمیل بھی کرتا۔ مختلف صوبوں میں مقامی باشندوں کے مقدمات کی سماعت کے لیے ایک قاضی مقرر ہوتا جس کا تقرر یا تو براہِ راست مرکز کی طرف سے ہوتا یا سربراہِ مملکت اس کا حکم جاری کرتا۔ عموماً یہ عہدے ایسے لوگوں کو دیئے جاتے جو بطور معلم لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سکھانے کے اہل ہوتے۔ اس طرح اِن لوگوں کا تقرر اسلامی تعلیمات کے فروغ کا بہترین ذریعہ بنتا اور علمِ دین کی ضیاء پاشیاں دور دور تک پھیلتی چلی جاتیں۔ یہ دونوں امور اعلیٰ تعلیم یافتہ اسلامی تعلیمات کے ماہر ہی انجام دیتے۔ ایسے قابل صحابہ میں حضرت علی اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما جیسے صاحبانِ علم و دانش کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔

7۔ حکومتی آمدنی کے ذرائع

باشعور شہری ہونے کی حیثیت سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حکومتوں کے وسیع تر اخراجات پورے کرنے کے لیے اس ملک کے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کردیئے جاتے ہیں۔ مثلاً: پراپرٹی ٹیکس، انکم ٹیکس، ٹوکن ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، سیلز ٹیکس وغیرہ۔ اِن سے وصول ہونے والی آمدنی عوام کے فلاحی کاموں پر خرچ کی جاتی ہے جن میں بجلی کی فراہمی، آب رسانی، سوئی گیس، سڑکوں، پلوں اور تفریح گاہوں کی تعمیر کے علاوہ کئی دیگر منصوبے بھی شامل ہوتے ہیں تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں میسر آسکیں۔ عہد نبوی ﷺ میں اسلامی حکومت کی آمدنی کے ذرائع اور ان کے مصرف کے بھی مختلف طریقے موجود تھے۔ مثلاً:

دشمنانِ اسلام سے جتنی بھی جنگیں ہوتی تھیں، ان میں فتح حاصل ہونے کے بعدجو مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آتا اس کا 4/5 حصہ مجاہدین میں بانٹ دیا جاتا اور باقی پانچواں حصہ سرکاری خزانہ میں ڈال دیا جاتا۔ مالِ غنیمت میں ہر طرح کی اجناس کے علاوہ جانور، مویشی، زر و جواہر، لونڈیاں اور غلام بھی شامل ہوتے۔ یہ مال باقاعدہ اورمستقل آمدنی نہ تھی بلکہ یہ مال تو اُس وقت ملتا جب کوئی معرکہ وقوع پذیر ہوتا اور مجاہدین کو فتح ملتی۔ ایک دومواقع کے علاوہ حضور ﷺ خمس (پانچواں حصہ) نکالنے کے بعد تمام مال جماعتِ صحابہ میں تقسیم فرمادیتے۔ اس مال میں سے سواروں کو دو اور بعض روایتوں کے مطابق تین حصے دیئے گئے اور پیادہ کو ایک حصہ دیا جاتا۔ کچھ مال درویشوں، محتاجوں، مسافروں اور دیگر مستحق افراد کو دے دیا جاتا۔

علاوہ ازیں زکوٰۃ اور عشر بھی حکومتی آمدنی کے ذرائع میں شامل تھے۔ مزید یہ کہ وہ رقوم جو لوگ اپنی منشاء سے رضا کارانہ طور پر دفاعی اور خیراتی کاموںپر صرف کرنے کے لیے حکومت کو دیتے، انھیں ہدیہ جات، تحائف، صدقات اور عطیات کی مد میں وصول کرکے زکوٰۃ کی طرح استعمال کیا جاتا۔

’’جزیہ‘‘ بھی حکومتی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ ریاستِ مدینہ میں رہنے والے غیر مسلم لوگوں کو جنگوں میں حصہ لینے پر مجبورنہ کیا جاتا اورنہ ہی انھیں اسلامی فوج میں بھرتی کیا جاتا، اس رعایت کی وجہ سے اُن سے صرف واجبی ٹیکس وصول کیا جاتا اور یہ رقم بھی کسی کی ذات پر خرچ نہ کی جاتی بلکہ اس کو بھی فوج اور دفاعی کاموں میں صرف کردیا جاتا۔ یہ ٹیکس اُس وقت کی اصطلاح میں ’’جزیہ‘‘ کہلاتا۔ جو غیر مسلم اس ٹیکس کی ادائیگی پر برملا اپنی رضا اور مسرت کا اظہار کرتے، اِن کے تمام مال و زر اور جائیداد کی مکمل حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہوتی۔

جو لوگ دورانِ جنگ مسلمانوں کی پناہ میں چلے جاتے اور مقررہ جزیہ اداکردیتے اِن کو عربی زبان میں ذمی کے نام سے پکارا جاتا۔ اگر مسلمان کسی غیر مسلم آبادی یا بستی کی حفاظت کرنے سے معذور ہوتے تو اس مد میں وصول شدہ جزیہ اس بستی کے باسیوں کو واپس کردیا جاتا۔ اگرکوئی غیر مسلم قوم افواجِ اسلام میں شامل ہوکر مسلمانوں کا ساتھ دیتی تو اُن کی اس اخلاقی معاونت پر ان کو جزیہ کی شرط سے مستثنیٰ قرار دے دیا جاتا۔ غیر مسلم جنگی خدمات کے عوض جزیہ کی رقم بڑی خوشی اور رضا مندی سے ادا کردیتے، اس کا یہ فائدہ ہوتا کہ وہ ہر طرح کی داخلی اور خارجی خطرات سے محفوظ و مامون ہوجاتے۔

اس جزیہ کی بابت کچھ غیر مسلم تاریخ نگاروں نے محض مذہبی حسد و بغض اور تعصب کی بنیاد پر یہ کہہ دیا کہ جزیہ ایک جبری مذہبی ٹیکس تھا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ ٹیکس کوئی نئی قسم کا نہ تھا جو صرف عہدِ مصطفوی میں ہی ایجاد ہوا بلکہ تاریخِ عالم میں اس کی کئی مثالیں پہلے سے بھی موجود ہیں۔ اہلِ فارس (ایران) کی تاریخ بتلاتی ہے کہ ان کے ہاں اس ٹیکس کا وجود پایا جاتا تھا اور ایرانی زبان میں اس کو ’’گزیت‘‘ کہا جاتا تھا۔ اسی طرح اہل روم اسے Taibut uncapitis کے نام سے پکارتے ہیں، یعنی وہ ٹیکس جو حکومت فی کس کے حساب سے وصول کرے۔ غیر عربوں کی طرح غیر ایرانی اورغیر رومی بھی اپنے ملک کی حکومتوں کو یہ ٹیکس اداکرتے تھے۔ البتہ عورتیں بچے ضعیف العمر، پاگل اور اپاہج اس ٹیکس کی ادائیگی سے آزاد سمجھے جاتے تھے۔

جزیہ کے علاوہ غیر مسلم عوام کو مزید ایک ٹیکس دینا ہوتاجسے ’’خراج‘‘ یعنی ٹیکس برائے اراضی کہا جاتا تھا۔ جب خیبر فتح ہوا تو قانون کے مطابق وہاں تمام یہودی قبائل نے اپنی تمام زرعی اراضی کو فاتح مسلمانوں کی ملکیت تسلیم کرلیا، سردست مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا معقول اور مناسب بندوبست نہ تھا جس سے اس مفتوعہ علاقہ کی زرخیز زمین کی دیکھ بھال اور نگہداشت کرسکیں۔ چنانچہ انھوں نے اس اراضی کو مقامی یہودیوں کی سپرد داری میں رہنے دیا جس کے عوض انھوں نے اپنی کُل پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو ادا کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ اس وصولی کے لیے جناب عبداللہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ چنانچہ ہر سال وہ خیبر جاکر پیداوار کا طے شدہ حصہ وصول کرتے۔ خبیر کے علاوہ انقرہ اور تیما میں بھی خراج وصول کیا جاتا تھا جس سے وصول ہونے والی رقم ملکی دفاع کو مزید بہتر بنانے اور فوجی احتیاجات کو پورا کرنے پر خرچ کی جاتی۔

خلاصۂ کلام

ریاستِ مدینہ اور اس کا مصطفوی نظام حکومت حضور نبی اکرم ﷺ کی بہترین قیادت کا مظہر تھا، یہ اس ہی کا نتیجہ تھا کہ فرزندانِ اسلام دنیا کے لامتناہی اندھیروں میں نورِ ہدایت بن کر پھیل گئے جس کی وجہ سے غیر مسلم اقوام اوّل تو مسلمانوں سے دست و گریبان ہونے کی جسارت ہی نہ کرتیں اور اگر کبھی ایسی نوبت آبھی جاتی تو ان کو منہ کی کھانا پڑتی۔ عہدِ حاضر کا مسلمان بھی اگر رسول کریم ﷺ کی تعلیماتِ نورانیہ اور مصطفوی نظام کو اپنالے تو اس کا عزت و وقار سے زندہ رہنا یقینی امر ہے۔